فیصلہ تیرا ترے ہاتھوں میں ہے

اگر کشمیری اپنی مرضی سے بھارت کے ساتھ جانا چاہتے ہیں تو پاکستان کو کوئی اعتراض نہیں،وزیر اعظم


Editorial February 06, 2013
کشمیری اپنی مرضی سے پاکستان کے ساتھ شامل ہونا چاہتے ہیں تو کسی کو کیا مسئلہ ہے؟، وزیر اعظم۔ فوٹو : فائل

وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف نے کہا ہے کہ اگر کشمیری اپنی مرضی سے بھارت کے ساتھ جانا چاہتے ہیں تو پاکستان کو کوئی اعتراض نہیں۔ یوم یکجہتی کشمیر کے موقع پر وزیر اعظم سیکریٹریٹ میں خصوصی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ اگر کشمیری اپنی مرضی سے پاکستان کے ساتھ شامل ہونا چاہتے ہیں تو کسی کو کیا مسئلہ ہے؟ کشمیری کوئی تیسرا فیصلہ کریں تو بھی اعتراض نہیں۔آج دنیا امن کی متلاشی ہے جنگ کسی مسئلے کا حل نہیں۔ جب آزادی کے لیے کوئی قوم کمر بستہ ہو تو دنیا کی کوئی طاقت انھیں شکست نہیں دے سکتی۔

وزیراعظم کے اس بیان میں اپنے مافی الضمیر کے حوالے سے اور مسئلہ کشمیر پر پاکستان کے اصولی موقف کے تناظر میں اس اعتبار سے ایک جمود شکن ، خیال افروز ، غیر روایتی اور قطعی غیر مبہم پیغام مضمر ہے جو اقوام متحدہ کی قراردادوں ، پاک بھارت تعلقات ، کشمیر ایشو پر ہونے والی جنگوں اور اس کے بعد جامع مذاکرات ،عصری حقائق اور خطے کی تبدیل ہوتی جیو پولیٹیکل صورتحال میں پاکستانی عوام ، عالمی برادری، کشمیری عوام اور بھارتی حکمرانوں کے لیے غور و فکر کا ایک فکری افق مہیا کرتا ہے۔وزیراعظم نے واضح کیا کہ 18کروڑ پاکستانی یوم یکجہتی کشمیر منا کر دنیا کو یہ پیغام دیتے ہیں کہ کشمیر زمین کے ٹکڑے کا مسئلہ نہیں اور نہ ہی دو ملکوں کے درمیان زمین کا تنازع ہے بلکہ یہ مسئلہ ایک کروڑ60 لاکھ انسانوں کا مسئلہ ہے جو حل طلب ہے۔

پاکستان کی طرف سے انھوں نے بھارت سے اچھے تعلقات اور تجارت کی خواہش ظاہر کی تاہم یہ یاد دہانی کرائی کہ کشمیر کا مسئلہ سب سے اہم ہے۔چنانچہ توقع ہے کہ کشمیر پر وزیراعظم کے اس اظہار خیال کے ساتھ جو فکری اور سیاسی ارتعاش سفارتی اور سیاسی حلقوں میں پیدا ہوگا وہ اس اعتبار سے حوصلہ افزا ہوگا کہ عالمی قوتوں اور خاص طور پر اقوام متحدہ کو کشمیر کے مستقبل پر توجہ دینے کی ضرورت کا احساس ہوگا۔اندازہ ہوتا ہے کہ ملکی قیادت کشمیر پالیسی کی مد میں حکومت پر مختلف قسم کے اعتراضات کا مسکت جواب دینا چاہتی ہے، جب کہ ناقدین کو اب اس پر رائے دینے کا بھی پورا حق ہے جن کا کہنا ہے کہ مسئلہ کشمیر کے حل میں حکومت اورا سٹیبلشمنٹ تساہل ،سرد مہری، مصلحتوںاوردیگر ترجیحات و تحفظات میں الجھے رہے ۔

اگر اس بیان کے مضمرات کی مناسبت سے کوئی ضمنی تصریحات یا توضیحات داخلی سیاسی اور تزویراتی حلقوں سے نہیں آتیں تو پھر عالمی سفارتی حلقوں کے لیے پاکستانی حکومت کا یہ انداز نظر ایک بڑی پیش رفت کا باعث بن سکتا ہے۔ ثالثی کے کئی در کھل سکتے ہیں اور امریکا اس میں اپنا رول ادا کرسکتا ہے۔اس کا سب سے مثبت اور تعمیری پہلو کشمیریوں کو زبردست اخلاقی اور سفارتی حمایت مہیا کرنا ہے، ان تک یہ بات پہنچ جائے گی کہ وہ اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے میں آزاد ہیں اور ان پر کسی قسم کا کوئی ایجنڈا مسلط نہیں کیا جا سکتا۔اس میںشک نہیں کہ کشمیریوں نے اپنے جائز حقوق اورمادر وطن کے لیے بے مثال قربانیاں دی ہیں ۔ بھارتی ریاستی جبر وستم کو جس صبر واستقلال اور ثابت قدمی سے برداشت کیا ہے وہ ان کی سرفروشانہ جدوجہد کا سرمایہ افتخار ہے ۔

کشمیر گزشتہ کئی برسوں سے فلیش پوائنٹ بنا ہوا ہے، لاکھوں کشمیری خاندان اپنے جذبہ حریت کی استقامت کے طفیل عالمی برادری کے ضمیر میں ایک کانٹے کی طرح کھٹکتے رہے اور انھوں نے اقوام متحدہ کی قراردادوں کی پامالی دیکھی مگر اپنے ناقابل تقسیم حق خود ارادیت کی خاطر ہر ظلم سہا اور ایک قدم پیچھے نہیں ہٹے۔پاکستان نے کشمیر ایشو کو ہمیشہ خطے میں امن سے مشروط کیا اور بھارت پر زور دیا کہ وہ بات چیت کا راستہ اختیار کرے ، جبرواستبداد سے مسئلہ حل نہیں ہوگا اور نہ کشمیری کبھی سرینڈر ہوں گے۔ دنیا کے بیشتر ممالک نے کشمیری مجاہدین کی جدوجہد کو بیسویں صدی کی حریت پسندانہ تحریکوں میں ایک منفرد واقعہ قراردیا۔

بی بی سی نے مسئلہ کشمیر کے لیے 7 آپشنز کا سیناریو جاری کیا اور عالمی رائے عامہ کو اس سنگین مسئلہ کے حل کی جانب مائل کرنے کی کوشش کی۔ساتھ ہی پاکستان کی ہر منتخب جمہوری حکومت حتیٰ کہ فوجی آمر جنرل پرویز مشرف آگرہ مذاکرات میں کشمیر کے حوالہ سے نئی تاریخ رقم کرنے کا اعلان کرکے پاکستان سے بھارت روانہ ہوئے تھے، مگر انھیں بھارتی سٹیبلشمنٹ نے پاکستان کی طرف سے تنازعہ کے تصفیہ کے لیے غیر معمولی لچک دکھانے کے باوجود ناکام بنادیا۔ موجودہ حکومت کا ریکارڈ بھی واضح ہے کہ صدر آصف زرداری اور وزیراعظم راجہ پرویز اشرف نے کشمیرکا مسئلہ حل کرنے کے لیے مکالمہ کو اہمیت دی ۔

دوسری طرف پاکستان سمیت دنیا بھر میں گزشتہ روز یوم یکجہتی کشمیر بھر پور طریقے سے منایا گیا، اس موقع پر مختلف سیاسی جماعتوں، تنظیموں کی طرف سے مظاہروں، ریلیوں، سیمینارز اور دیگر تقریبات کا انعقاد کیا گیا جب کہ کئی مقامات پر کشمیری بھائیوں سے اظہار یکجہتی کے لیے ہاتھوں کی زنجیر بھی بنائی گئی، سب سے بڑی انسانی ہاتھوں کی زنجیر کوہالہ پل پر بنائی گئی،کشمیریوں پر بھارتی ظلم اور جارحیت کے خلاف نعرہ بازی کی اور کشمیرکی آزادی تک بھارت کے خلاف جہاد جاری رکھنے پر زور دیا ہے۔وزیراعظم آزاد کشمیر چوہدری عبدالمجید نے کہا کہ لاکھوں کشمیریوں نے پاکستان کے لیے اپنی جانوں کی قربانیاں دی ہیں اور پوری پاکستانی قوم بھی کبھی کشمیریوں کی حمایت سے پیچھے نہیں ہٹی ۔ ریلیوں کے شرکاء نے کہا کہ پاکستان کی حکومت کی ناقص خارجہ پالیسی کے باعث حکمرانوں نے کشمیر پر اپنے مضبوط مؤقف کو کمزور بناکر رکھ دیا ہے جب کہ کشمیر پر بھارت کے سفاکانہ اور ظلم سے بھرپور موقف کو ان کی حکومت کی وجہ سے پذیرائی حاصل ہوئی ہے۔

ادھر وزیراعظم نے پانی کے مسئلہ پر قوم کو اعتماد میں لیتے ہوئے کہا کہ بھارت کے پاس پانی ذخیرہ کرنے کی اتنی صلاحیت نہیں کہ وہ پاکستان کا پانی روک سکے۔سندھ طاس معاہدے کے حوالے سے پاکستان اپنی ذمے داریوں سے آگاہ ہے ، بھارت پاکستان کے پانی کے حق کو سلب نہیں کر سکتا،کیونکہ دنیا دیکھ رہی ہے اور عالمی قوانین موجود ہیں۔ دنیا میں حالات تبدیل ہو چکے ہیں کسی کو طاقت کے بل بوتے پر اس کی مرضی منشاء کے برخلاف پابند نہیں رکھا جا سکتا۔ ان معروضات میں معنی کا ایک جہاں آباد ہے، یہ چشم کشا باتیں ہیں۔

بھارتی حکام ہوش سے کام لیں۔ کشمیر کی تحریک آزادی میں ہر روز شدت آ رہی ہے اس مسئلے کی وجہ سے خطے میں امن کے لیے خطرات بڑھ رھے ہیں، پوری دنیا کو اس انسانی مسئلے کی جانب متوجہ کرنا چاہتے ہیں عالمی برادری اس مسئلے کا نوٹس لے۔ پاکستانی عوام کی امنگوں کی ترجمانی کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ کشمیر کے حوالے سے ہم سب کی منزل ایک ہی ہے بھارت کے ساتھ بات چیت کرنا چاہتے ہیں اور اس معاملے پر جامع مذاکرات کو آگے بڑھایا ہے تاکہ کشیدگی کم ہو۔ مسئلہ کشمیر کا حل اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق چاہتے ہیں اور یہ کوئی ناجائز موقف نہیں ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں