میرا ہم عمر‘ ہم عصر اور ہم زبان

میں پاکستانی بن کر بھارت گیا اور اپنی پاکستانیت بچا کر اس کے ساتھ ہی لوٹ آیا۔


Abdul Qadir Hassan February 06, 2013
[email protected]

اگر میرے بچے گزشتہ دنوں میری سالگرہ نہ مناتے تو مجھے ہرگز پتہ نہ چلتا کہ میں زندگی کی کتنی بہاریں اور خزائیں دیکھ چکا ہوں کیونکہ میں ایک ایسے دیہاتی علاقے کا پیدائشی ہوں جہاں (ہیپی برتھ ڈے' نہیں ہوا کرتی۔ اس دیہاتی دنیا میں کسی کا وجود کوئی خبر نہیں ہوتی اور کوئی کسی ماں سے پوچھے کہ بچے کی عمر کیا ہے تو وہ سوچ میں پڑ جاتی ہے کہ جب یہ پیدا ہوا تھا تو اس وقت کون سا ایسا واقعہ ہوا تھا جس سے اس کی عمر کا پتہ چل سکے۔ اس سال بارشیں بہت ہوئی تھیں یا نہیں ہوئی تھیں اور قحط پڑا ہوا تھا یا کوئی اور یاد گار واقعہ ہوا تھا۔ بہر کیف کسی دوسرے واقعہ سے ہی بچے کی عمر کا اندازہ ہوتا تھا اور خود اس کی پیدائش کوئی واقعہ نہیں ہوتا تھا چنانچہ مجھے اپنی اس سالگرہ سے کچھ اندازہ ہوا جو بچوں نے میرے عزیز و اقارب سے میری عمر کا پوچھ کر منائی اور اندازہ لگا لیا کہ میں کتنے برس کا ہو گیا ہوں۔

اب جب منو بھائی نے اپنے ایک کالم میں اپنی عمر بتائی تو میری عمر کی تصدیق بھی ہوئی کہ ہم دونوں ایک ہی مدت سے قلم کشی میں مبتلا ہیں۔ منو بھائی چونکہ شہری باشندہ ہے اس لیے اس کو اپنی عمر کا پتہ تھا، لگتا ہے کہ وہ دو تین برس مجھ سے شاید چھوٹا ہے لیکن بہر حال ہم عمر ہی ہے میرا برخوردار نہیں ہے اور یہ میری پہلی خوش قسمتی ہے کہ خدا نے مجھے ایسے برخوردار سے بچایا ہے ایک ایسے برخوردار سے جو نصیحت اور مشورہ نہیں سنتا بلکہ دیتا ہے مثلاً میں نے اس سے کئی بار کہا کہ وہ ریاست بہاول پور کے امتیاز عالم سے بچ کر رہے یہ ریاستی لوگ صرف زبان کے ہی میٹھے ہوتے ہیں لیکن اس نے میری ایک نہ مانی اور اب اس عمر میں ہڈی تڑوا بیٹھا ہے جب کہ اس کے کولہے میں ڈالی گئی مصنوعی ہڈی کبھی صحیح نہیں بیٹھا کرتی۔ میں بھی دو ایک بار امتیاز عالم کی باتوں میں آ کر اس کی سربراہی میں بھارت گیا لیکن پھر باز آ گیا اور دیکھئے کہ میری ہڈی پسلی صحیح سلامت ہے۔ پورے جسم میں کہیں بھی کوئی 'امتیازی' ہڈی نہیں ہے اور کوئی بھارتی یاد بھی میرے ساتھ نہیں ہے۔

میں پاکستانی بن کر بھارت گیا اور اپنی پاکستانیت بچا کر اس کے ساتھ ہی لوٹ آیا۔ امن کی کسی تمنا نے میرے قریب ہونا چاہا بھی تو میں سبزی خوروں کی باس پا کر اس سے پرے ہٹ گیا اور اپنی ہڈی پسلی بچا لی۔ ہمارے دوست شاید پہلی بار منو بھائی کی سالگرہ دھوم دھام سے ایک بڑے ہوٹل میں منا رہے ہیں لیکن یہ دھوم دھام نہ تو اس کی ہڈی کی متبادل ہو سکتی ہے نہ کچھ لوگوں کی ضمیر کی خلش مٹا سکتی ہے۔ وہ تو جو ہونا تھا وہ ہو گیا۔ اب یہی گزارش ہے کہ منو بھائی اس ایک ہی اشارے کو کافی سمجھیں جو اشارے سے زیادہ ایک ضرب شدید ہے۔

منو بھائی کے ساتھ میری ہم عمری تو ظاہر ہو گئی اور ہم عصری بھی یوں ہے کہ ہم قریباً ایک ہی مدت سے کالم کشی کر رہے ہیں یا صحافت کر رہے ہیں۔ اس بے فیض پیشے نے مجھے جو کچھ دیا وہ میرے پاس ایک راز بن کر محفوظ ہے لیکن منو بھائی کو تو اس نے بے نقاب کر دیا ہے اور نہ چھپنے والی نشانی دے دی ہے۔ اب یہی خواہش ہے کہ وہ اپنی یہ نئی زندگی آرام کے ساتھ بسر کریں لنگڑانے کی مشق کریں اور اب پاکستان ہی میں باقی ماندہ عمر گزار دیں یہاں ہم ان کی دیکھ بھال کرتے رہیں گے بشرطیکہ وہ پھر کسی ہڈی توڑ سفر پر روانہ نہ ہو گئے۔ وہ اس سوراخ سے دوبارہ نہ ڈسے جائیں اور اب مسماۃ امن کی تمنا سے جدائی لے لیں۔ یہ ساتھ انھیں راس نہیں آیا۔ بہت ہو گئی اب وہ کیا باقی ماندہ ہڈیاں بھی تڑوا کر دم لیں گے۔ عمر کے جس حصے سے ہم لوگ گزر رہے ہیں وہ بچپن کی طرح احتیاط کا ہے۔ اسے عمر کا ناپسندیدہ حصہ کہا گیا ہے جب انسان بچوں کی طرح ایک بار پھر سے محتاج ہو جاتا ہے۔ قرآن میں اسے 'ارذل العمر' کہا گیا ہے جس کے کئی اردو ترجمے ہیں لیکن مفہوم یہی ہے کہ یہ عمر کا ایک مشکل حصہ ہے جس میں انسان پھر سے صحت مندوں کا محتاج ہو جاتا ہے۔

منو بھائی سے میری تیسری مشابہت زبان کی ہے۔ ان کی زبان میں بھی لکنت ہے اور میری زبان میں بھی۔ ہم روانی سے نہیں بول سکتے بلکہ بعض الفاظ پر تو اڑ جاتے ہیں اور وہ ہم سے روا ہی نہیں ہو پاتے لیکن پھر بھی بات سمجھا لیتے ہیں۔ منو بھائی مجھ سے زیادہ رکتے ہیں ہم دونوں اپنی اپنی زبان کی وجہ سے ٹی وی والی صحافت سے دور ہیں جہاں عقل سے نہیں صرف زبان سے بولنا پڑتا ہے اور وہ بھی بے تکان نہ سر نہ پیر بس بولتے جائو بلکہ بہت بہتر ہو گا اگر آپ کا کوئی ساتھی بھی آپ کے ساتھ ہی جواباً بولنا شروع کر دے تاکہ نہ کوئی آپ کی بات سمجھے نہ اس کی، یہ اچھا سمجھا جاتا ہے اور پروگرام کرنے والے کے حق میں جاتا ہے یعنی الیکٹرانک میڈیا پر صرف بولنا پڑتا ہے یعنی جو منہ میں آئے وہ کہہ سکتے ہیں لیکن پرنٹ میڈیا میں آپ اپنا اعمالنامہ خود لکھتے ہیں اور ایک ایک لفظ کے جوابدہ ہوتے ہیں یہ اعمالنامہ فرشتے نہیں آپ خود لکھتے ہیں اس لیے پکڑے جاتے ہیں تو کوئی عذر قبول نہیں ہوتا۔ بہر کیف منو بھائی اور مجھ میں عمر وغیرہ مشترک ہیں لیکن ان کا معیار جو منو بھائی کے ہاں ہے وہ میرے پاس نہیں ہے خدا منو بھائی کو اس کے اصلی اور مصنوعی دونوں کولہوں کے ساتھ سلامت اور چلتا پھرتا رکھے کسی مزید ہڈی توڑ سفر سے محفوظ رکھے۔آمین

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں