سعودی قطری تنازعات اور امریکا

درحقیقت موجودہ قطر سعودی نااتفاقی امریکی اتحاد میں انتشار کی علامت ہے۔


Anis Baqar July 14, 2017
[email protected]

امریکی اسٹیبلشمنٹ ہر بار کسی سیاسی شخصیت کو ملک کا صدر نامزد کرواتی ہے۔ عام طور پر ایک صدر کا دو بار صدر بننا ایک روایت ہے مگر اس بار جس شخص کو صدر بنایا گیا وہ ایک غیر سیاسی شوبز کا غیر سنجیدہ شخص تھا، جس کو سیاست کی دنیا میں گھسیٹ کر لایا گیا تاکہ اس سے من مانی کروائی جاسکے۔

اس کی مثال یہ ہے کہ امریکی اسٹیبلشمنٹ کی مخالفت کے باوجود اوباما نے نیوکلیئر معاہدہ ایران سے کیا، جس کی مخالفت آج بھی ڈونلڈ ٹرمپ کر رہے ہیں۔ ابھی جی 20 کانفرنس میں ٹرمپ نے پوتن سے مصافحہ کرتے ہوئے ایک جملہ کہا، ذرا غور فرمائیے۔ کہتے ہیں کہ پوتن آپ اچھے آدمی ہیں، ایسے نہیں جیسا کہ امریکی میڈیا آپ کے بارے میں کہتا ہے۔ ایسی غیر ذمے دارانہ باتیں مشکل سے ہی کوئی صدر کہہ سکتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ دنیا کے اکثر ممالک کے صدور مسٹر ٹرمپ کے بارے میں مثبت ریمارکس نہیں دیتے۔ روسی وزیر خارجہ مسٹر لارون بھی ٹرمپ کو سادہ شوبز کا آدمی سمجھتے ہیں، مگر سعودی عرب میں جس قسم کی پذیرائی کی گئی، دنیا میں ٹرمپ کو یہ اعزاز نہ ملا۔ ایک تو ٹرمپ ایک بڑے ملک کے صدر ہیں اور غیر ممالک میں اثر رکھنے والی قوت، کیونکہ اس ملک کی سیاسی تاریخ ہے۔

ایک ایسا وقت بھی تھا جب امریکا سپرپاور کے طور پر دنیا کو ڈکٹیشن دیتا رہا ہے اور تقریباً 21 برس تک دنیا خاموش تماشائی رہی۔ جب کہ روس ان دنوں کو سوویت یونین کے لگے زخموں کی مرہم پٹی اور جدید ہتھیاروں کی تیاری میں گزار رہا تھا۔ یہ وہ دن تھے کہ جب جماعت اسلامی کے بعض لیڈروں کو بھی اس کمی کا احساس تھا، مگر ٹرمپ کا موجودہ سعودی دورہ اس وقت ہوا جب روس امریکا کے روبرو کھڑا تھا اور اس نے مشرق وسطیٰ میں امریکی پالیسی کو پایہ تکمیل تک نہ پہنچنے دیا۔

لہٰذا امریکا نے اپنے ہمنواؤں کے ساتھ مل کر اسلامی فوج کا شوشا چھوڑا ۔ یہ اسلامی فوج تو نہ روس اور چین سے لڑ سکتی ہے جب کہ چین نے اسلامی اقدار کے خلاف سخت گیر اقدام کیے ہیں، خصوصاً صوبہ سنکیانگ میں۔ بس یہ فوج آپس کی جنگ میں الجھاؤ کے لیے معرض وجود میں آئی اور اس کو امریکی اسلحہ سے لیس کیا گیا اور نہ روس سے دو دو ہاتھ کے لیے بنائی گئی تھی اور آج ایک ایسا موقع آگیا ہے کہ قطر جو سعودی حکومت سے بھی زیادہ ریڈیکل(Radical)، جس نے قطر میں طالبان کا دفتر قائم کرنے کا عندیہ دیا تھا۔

آج سعودی حکومت کے خلاف ترکی اور ایران سے ہاتھ ملائے بیٹھا ہے اور سعودی اتحادی ممالک نے قطر کو جو وارننگ دی تھی اس کو قطر کے وزیر خارجہ شیخ عبدالرحمن نے فوراً رد کردیا اور الجزیرہ پر پابندی کو یکسر رد کردیا۔ کیونکہ یہ چینل سعودی عرب کے ان علاقوں میں، جہاں سعودی حکومت کے خلاف بغاوت کی سی کیفیت ہے چینل الجزیرہ ان خبروں کو بڑھا چڑھا کر پیش کر رہا ہے۔

آج کل سعودی عرب کے کئی علاقوں میں افراتفری کی سی کیفیت ہے، لہٰذا ایسی صورت میں جب کہ سعودی عرب خود فرقہ وارانہ لپیٹ میں ہے کسی دوسرے ملک سے جنگ کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ ایک اور مسئلہ جو قطر کو درپیش ہے وہ یہ کہ وہ الجزیرہ چینل سے پوری عرب دنیا کو علاقے میں رونما ہونے والی سیاسی قوتوں کی عکاسی کرتا ہے۔ جس سے سعودی اتحادی فورسز کو سخت اختلاف ہے۔

ایسی صورت میں جب کہ عالمی پیمانے پر قطر اور ترکی دونوں روایتی امریکا دوست ہیں جب کہ ان کا ایران کے ساتھ صرف اسلامی رشتہ ہے کیونکہ ایران اور امریکی اختلاف بام عروج پر ہیں، یہی حال ایرانی پریس ٹی وی کا ہے جو سعودی خبروں کو پیش کر رہا ہے اور کھلم کھلا قطر کی حمایت کر رہا ہے۔

ایک اور بات جو قابل ذکر ہے کہ عرب دنیا میں قطر کی فی کس آمدنی تقریباً ڈیڑھ لاکھ ڈالر فی کس ہے جو دنیا کی بلند ترین سطح ہے، لہٰذا قطر کے خلاف معاشی پابندیاں کارگر نہ ہوں گی اور نہ جنگی حکمت عملی کام کرے گی، کیونکہ یہ امریکی اتحاد کے درمیان ایک دراڑ ہے جو خود امریکا پر نہ کرسکے گا۔ کیونکہ یہ مسلکی اختلاف ہے اور دونوں فریق کو بلند ہو کر سوچنا پڑے گا۔

اب صورتحال اس نہج پر پہنچ چکی ہے کہ قطری سفیر نے امریکا میں 9 جولائی کو ایک خطرناک ترین پریس کانفرنس کی، جس میں انھوں نے یہ الزام لگایا کہ نائن الیون کا سانحہ جس نے دنیا بھر میں ایک تہلکہ مچا دیا تھا، درحقیقت اس سانحے میں سعودی حکومت ملوث تھی اور اس میں اس وقت کے امریکا میں متعین امریکی سفیر کا بھی ہاتھ تھا۔

یہ ایک ایسا الزام ہے کہ جس سے اسلامی فوج کی بنیادیں ہل گئی ہیں اور وہ کسی بڑے کارنامے کے قابل نہیں۔ کیونکہ سعودی عرب دہشت گردی کے الزامات قطر پر اور قطر جوابی الزامات لگا رہا ہے۔ اس سلسلے نے اسلامی دنیا کو تقسیم در تقسیم کردیا ہے۔ اسی اثنا میں سعودی عرب کے ان علاقوں میں جہاں بے چینی پائی جاتی ہے۔

الجزیرہ کا قطری چینل اور ایران کا سحر ٹی وی اپنی اردو نشریات میں یہ تذکرہ کر رہا ہے، لہٰذا اب صورتحال یہ ہوچکی ہے کہ الزام در الزام کی کیفیت سے عرب دنیا گزر رہی ہے۔ سب آپس کے مسلکی اور علاقائی اختلافات میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ دہشت گردی کے جو سعودی الزامات قطر پر ہیں وہ یہ کہ سعودی علاقوں میں اسلحہ کی سپلائی کا الزام ہے اور دونوں بلاک امریکا سے فریادی، جب کہ امریکی حکمراں حکمرانی کے آداب سے بھی ناواقف ہیں۔ کیونکہ جی 20 کی کانفرنس میں ٹرمپ کی صاحبزادی ایوانکا کانفرنس میں اپنے والد کی سیٹ پر براجمان ہوگئیں، ظاہر ہے شوبز کرنے والے شخص کو آداب صدارت سے کیونکر واقفیت ہوگی۔

ایسے حاکم سے عرب حکمران فریاد کناں ہیں، جس قسم کی سیاسی چپقلش نمایاں ہے اس سے یہ محسوس ہو رہا ہے کہ اسلامی یونائیٹڈ فرنٹ اپنی ہی سیاست میں گرفتار ہوجائے گا اور رفتہ رفتہ یمن، سعودی بارڈر بڑھتی ہوئی جنگ کا پیش خیمہ ہوگا اور تھوڑے عرصے بعد جیسے جیسے عراق مضبوط ہوتا جائے گا وہ بھی اپنا سیاسی اثر بڑھانے کی کوشش کرے گا۔

بقول عراقی وزیراعظم وہ ایران کے اتحادی ہیں، جیساکہ مسٹر عابدی کئی بار ماضی میں بیان دے چکے ہیں، مگر اب عراق کو ٹوٹے پھوٹے اجڑے ملک کی آبیاری کا سامنا ہے، مگر جونہی یہ اپنے پاؤں پر کھڑا ہوگا یہ سعودی مخالف کیمپ میں شامل ہوگا، یعنی قطر، عراق، ایران، ترکی کا راستہ، مگر یہ قطر کی قربت میں ترکی جیسا نہ ہوگا، کیونکہ ترکی نیٹو کا ایک حصہ ہے اور قطر میں بھی امریکی اڈا ہے، مگر عراق ایران سے قریب تر رہے گا۔

درحقیقت موجودہ قطر سعودی نااتفاقی امریکی اتحاد میں انتشار کی علامت ہے اور ڈونلڈ ٹرمپ کوئی مدبر نہیں جو اس انتشار پر قابو پاسکیں۔ ان کو امریکی اسٹیبلشمنٹ جیسا چلائے گی وہ ایسا ہی چلیں گے۔ فی الحال بھارت اسرائیل نواز ممالک کے اشتراک پر ان کی توجہ مرکوز ہے، لہٰذا ان کی نظر قطر اور عرب دنیا پر نہیں ہے، اور نہ کشمیر پر کوئی توجہ، بلکہ داعش کے کنٹرول اور کمانڈ سسٹم کے ختم ہوجانے سے بڑی بوجھل ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں