’’جمہوریت‘‘ یا خاندانی جمہوریت
آج اس کے باوجود کہ JIT رپورٹ کے تمام نکات سامنے آچکے ہیں، وزیراعظم کی رسوائی ہورہی ہے۔
جے آئی ٹی کی رپورٹ سپریم کورٹ میں پیش ہونے کے بعد پانامہ کیس کا فیصلہ آج نہیں تو کل آیا ہی چاہتا ہے۔کچھ دیر سویر تو متوقع ہے، ہم بھی قوم کے ساتھ مل کر فیصلے کا شدت کے ساتھ انتظار کر رہے ہیں۔ لیکن یار لوگ جب فرماتے ہیںکہ اس دفعہ بھی کوئی درمیانی راستہ ہی نکال لیا جائے گا تو اس کا مطلب ہے کہ کم از کم ہم اپنی زندگی میں تو ''نئے پاکستان'' کے درشن نہیں کر سکتے۔
باتیں زبان زد عام ہیں کہ کوئی تیسری چوتھی یا پانچویں ''قوت'' اس میں اپنا کردار ادا کر سکتی ہے۔یا یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ جے آئی ٹی رپورٹ کے بعد نواز شریف کو بری الزمہ قرار دے کر منی ٹریل کی عدم فراہمی حسین اور حسین نواز سے جوڑ دی جائے گی کیونکہ کاروبار کی تمام ذمے داریاں میاں محمد شریف ادا کرتے رہے ہیں جنہوں نے بیٹے کے بجائے پوتوں کو اثاثے منتقل کر دیے تھے، وغیرہ وغیرہ
اگر ایسا ہوا تو کئی دل ٹوٹ جائیں گے، کیونکہ یہ دل تو سمجھتے ہیں کہ سب کچھ شیشے کی طرح صاف ہے ۔ جے آئی ٹی کی 100فیصد رپورٹ حکمران خاندان کے خلاف آچکی ہے۔ عوام یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ اتنا کچھ ہوگیا ہے لیکن وہ اپنی ہٹ دھرمی پر قائم ہیں اور جمہوریت کو بالکل اسی طرح ڈی ریل ہونے کا کہہ کر عوام کو ڈرا رہے ہیں جس طرح جنرل (ر) پرویز مشرف نے دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ میں امریکا کا بھرپور ساتھ دینا تھا تو اُس وقت عوام کو یہ کہہ کر ڈرایا جا رہا تھا کہ اگر آج ہم دہشت گردی کے خلاف الائنس کا حصہ نہ بنے تو ہمیں پتھر کے زمانے میں دھکیل دیا جائے گا ۔
کیا اسی کو جمہوریت کہتے ہیں کہ جو مرضی ہو جائے مگر اقتدار نہیں چھوڑنا، آج کل پانامہ کیس کی رسوائی کے باوجود کوئی استعفیٰ دینے کے لیے تیار نہیں، جب کہ میں کئی بار پہلے بھی اس بات کا ذکر کرچکا ہوں کہ بہت سے ملکوں میں پانامہ لیکس میں نام آنے کی وجہ سے مستعفی ہو کر اپنے آپ کو احتساب کے لیے پیش کر دیا تھا ۔ اب جب کہ رپورٹ تو پیش ہوگئی اور رپورٹ بھی ایسی ہے کہ جس کی مثال دنیا بھر میں کہیں نہیں ملتی کہ ایکٹنگ گورنمنٹ کے خلاف اس کے ماتحت افسران نے ایسی رپورٹ دی ہے جس کے 99 فیصد نکات حکومتی خاندان کے خلاف ہیں۔ اب اگر عدالت یہ کہہ دے کہ کہ نئے سرے سے صفائیاں پیش کرو تو پھر بادی النظر میں جتنا کیس لمبا ہوگا اُتنا ہی حکمرانوں کو فائدہ حاصل ہونے والا ہے۔
پاکستان کی جمہوریت بھی خاندانوں کی جمہوریت ہے۔یہاں پارٹیوں پر خاندان قابض ہیں۔ پیپلز پارٹی پر بھٹو خاندان جو اب زرداری خاندان میں ڈھل گیا ہے، حکمرانی کر رہا ہے۔ نواز شریف تیسری بار حکومت کررہے ہیں، ان کے پیچھے مریم نواز تیار بیٹھی ہیں،شہباز شریف دہائیوں سے پنجاب پر حکومت کر رہے ہیں، اُن کے پیچھے حمزہ شہباز تیار بیٹھے ہیں ۔ اے این پی کو دیکھا جائے تو وہاں غفار خان، ولی خان اوراب اسفند یار ولی اقتدار میں ہیں۔ جمعیت علماء اسلام میں دیکھ لیں مفتی محمود کے بعد ان کے صاحبزادے فضل الرحمن اقتدار میں ہیں۔
کیا امریکا میں باپ کے بعد بیٹا آتا ہے اور اگر آتا بھی ہے تو جماعت میں سے ہی عوام اُسے منتخب کرکے سامنے لاتے ہیں، وہ خود نہیں آجاتا۔ پورے یورپ کی مثال لے لیںجب کہ یہاں تمام جماعتیں مخصوص خاندان کے گرد گھوم رہی ہیں، اس سے بہتر تو جماعت اسلامی ہے جس میں کم از کم سسٹم تو ہے ۔ مگر افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ یہاں جمہوریت نہیں منافقت ہے۔ ن لیگ کے وفاقی وزراء اپنے قائدین کے خلاف نجی محفلوں میں بیٹھ کر کچھ اور باتیں کر رہے ہوتے ہیں اور جب میڈیا پر آتے ہیں تو اُن کے قصیدے پڑھنے شروع کر دیتے ہیں ۔
پیپلز پارٹی کے عہدیدار بھی یہی کام کر رہے ہیں، وہی رہنما جو زرداری کے حق میں بڑی بڑی باتیں کیا کرتے تھے اب وہ تمام پی ٹی آئی میں چلے گئے ہیں اور کچھ جانے کے لیے تیار بیٹھے ہیں۔ انھیں صرف اپنی اپنی فکر ہے، عوام کی فکر نہیں ہے، اسی لیے میں اکثر کہا کرتا ہوں کہ ان سیاست دانوں کو حقیقی جمہوریت کی الف ب بھی نہیں پتا،انھیں یہ علم ہونا چاہیے کہ جمہوریت کی تعریف کے مطابق اور سولہویں امریکی صدر ابراہم لنکن کے مطابق ''عوام کی حکومت،عوام کے لیے اور عوام کے ذریعے''اب مجھے بتایا جائے کہ کیا ہم اس تعریف پر پورا اُترتے ہیں ، ہمارا نظام حکومت اس تعریف پر پورا اُترتا ہے؟ دنیا بھر میں جمہوریت ایک اچھا طرز حکمرانی سمجھا جاتا ہے۔
لیکن جب اس جمہوریت میں ہمارے جیسے ملکوںکے سیاستدان شامل ہو جاتے ہیں تو یہی بدل کر کوئی اور ہی رنگ و روپ اختیار کر لیتی ہے اور سیاست جس کی بے رحمی کے بارے میں کوئی شک و شبہ نہ تھا اور اب ان سیاستدانوں کے غیر جمہوری اقدامات کی وجہ سے رہا سہا شک بھی یقین میں تبدیل ہو گیا ہے۔اور ان سیاستدانوں پر جب کسی طرف سے تنقید ہوتی ہے تو یہ فوراََ جمہوریت کو خطرہ سمجھنا شروع کردیتے ہیں اور واویلا کرتے ہیں کہ ان کے خلاف سازش ہورہی ہے۔ حالانکہ ایسا بالکل نہیں ہو رہا ہوتا۔
جمہوری ممالک میںحکومتیںنہ صرف تنقید برداشت کرتی ہیں بلکہ اس میں سے اپنی اصلاح کے پہلو بھی نکال لیتی ہیں اور اپنی غلطیوں کو سدھار لیتی ہیں تا کہ وہ اپنی عوامی مقبولیت کو برقرار رکھ سکیں اور جہاں پر تنقید برائے تعمیر بھی برداشت کرنے کا حوصلہ نہ ہو وہ حکومتیں ہمیشہ یہی شکایت کرتی رہتی ہیں کہ ان کو کام نہیں کرنے دیا جارہا ، یہ تو وہ جواب ہے جو ان جمہوری حکومتوں کی جانب سے آتا ہے جو عوام کے لیے کام تو کچھ خاص کر نہیں رہی ہوتیں لیکن ڈھنڈورا زیادہ پیٹا جا رہا ہوتا ہے اور جب الزام لگتے ہیں تو کہاجاتا ہے کہ یہ سب سیاسی الزامات ہیں جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ بقول شاعر
آج تک اپنی بے کلی کا سبب
خود بھی جانا نہیں کہ تجھ سے کہیں
آج اس کے باوجود کہ JIT رپورٹ کے تمام نکات سامنے آچکے ہیں، وزیراعظم کی رسوائی ہورہی ہے، بہت سے ملکوں میں پانامہ لیکس میں نام آنے کی وجہ سے سربراہان حکومت مستعفی ہو کر اپنے آپ کو احتساب کے لیے پیش کرچکے ہیں ۔ میرے خیال میں جمہوریت کو خطرہ یہ نہیں ہے کہ کوئی آئے گا اور حکومت کی بساط لپیٹ کر خود حکمرانی کرے گا بلکہ آج کے جمہوری لیڈروں کے طرز عمل سے ہے ، اس لیے PMLNکو یہ سوچنا ہوگا ورنہ اُس کا حال بھی پیپلز پارٹی کی طرح ہو جائے گا جو سندھ کے سوا کہیں نظر نہیں آرہی۔
دعا کریں کہ اب کے بار احتساب ہو اور وہ 438 افراد بھی زد میں آئیں جن کے نام سپریم کورٹ میں جا چکے ہیں جنہوں نے دن رات ملک کو لوٹا اوراربوں روپے کے قرضے معاف کرائے۔ رہی بات آنے والی 17جولائی کی جب سپریم کورٹ میں پانامہ کیس پر جے آئی ٹی کی رپورٹ کے حوالے سے بحث ہوگی تو مجھے قوی امید ہے کہ سپریم کورٹ آئین وقانون کے مطابق فیصلہ کرے گی۔
باتیں زبان زد عام ہیں کہ کوئی تیسری چوتھی یا پانچویں ''قوت'' اس میں اپنا کردار ادا کر سکتی ہے۔یا یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ جے آئی ٹی رپورٹ کے بعد نواز شریف کو بری الزمہ قرار دے کر منی ٹریل کی عدم فراہمی حسین اور حسین نواز سے جوڑ دی جائے گی کیونکہ کاروبار کی تمام ذمے داریاں میاں محمد شریف ادا کرتے رہے ہیں جنہوں نے بیٹے کے بجائے پوتوں کو اثاثے منتقل کر دیے تھے، وغیرہ وغیرہ
اگر ایسا ہوا تو کئی دل ٹوٹ جائیں گے، کیونکہ یہ دل تو سمجھتے ہیں کہ سب کچھ شیشے کی طرح صاف ہے ۔ جے آئی ٹی کی 100فیصد رپورٹ حکمران خاندان کے خلاف آچکی ہے۔ عوام یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ اتنا کچھ ہوگیا ہے لیکن وہ اپنی ہٹ دھرمی پر قائم ہیں اور جمہوریت کو بالکل اسی طرح ڈی ریل ہونے کا کہہ کر عوام کو ڈرا رہے ہیں جس طرح جنرل (ر) پرویز مشرف نے دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ میں امریکا کا بھرپور ساتھ دینا تھا تو اُس وقت عوام کو یہ کہہ کر ڈرایا جا رہا تھا کہ اگر آج ہم دہشت گردی کے خلاف الائنس کا حصہ نہ بنے تو ہمیں پتھر کے زمانے میں دھکیل دیا جائے گا ۔
کیا اسی کو جمہوریت کہتے ہیں کہ جو مرضی ہو جائے مگر اقتدار نہیں چھوڑنا، آج کل پانامہ کیس کی رسوائی کے باوجود کوئی استعفیٰ دینے کے لیے تیار نہیں، جب کہ میں کئی بار پہلے بھی اس بات کا ذکر کرچکا ہوں کہ بہت سے ملکوں میں پانامہ لیکس میں نام آنے کی وجہ سے مستعفی ہو کر اپنے آپ کو احتساب کے لیے پیش کر دیا تھا ۔ اب جب کہ رپورٹ تو پیش ہوگئی اور رپورٹ بھی ایسی ہے کہ جس کی مثال دنیا بھر میں کہیں نہیں ملتی کہ ایکٹنگ گورنمنٹ کے خلاف اس کے ماتحت افسران نے ایسی رپورٹ دی ہے جس کے 99 فیصد نکات حکومتی خاندان کے خلاف ہیں۔ اب اگر عدالت یہ کہہ دے کہ کہ نئے سرے سے صفائیاں پیش کرو تو پھر بادی النظر میں جتنا کیس لمبا ہوگا اُتنا ہی حکمرانوں کو فائدہ حاصل ہونے والا ہے۔
پاکستان کی جمہوریت بھی خاندانوں کی جمہوریت ہے۔یہاں پارٹیوں پر خاندان قابض ہیں۔ پیپلز پارٹی پر بھٹو خاندان جو اب زرداری خاندان میں ڈھل گیا ہے، حکمرانی کر رہا ہے۔ نواز شریف تیسری بار حکومت کررہے ہیں، ان کے پیچھے مریم نواز تیار بیٹھی ہیں،شہباز شریف دہائیوں سے پنجاب پر حکومت کر رہے ہیں، اُن کے پیچھے حمزہ شہباز تیار بیٹھے ہیں ۔ اے این پی کو دیکھا جائے تو وہاں غفار خان، ولی خان اوراب اسفند یار ولی اقتدار میں ہیں۔ جمعیت علماء اسلام میں دیکھ لیں مفتی محمود کے بعد ان کے صاحبزادے فضل الرحمن اقتدار میں ہیں۔
کیا امریکا میں باپ کے بعد بیٹا آتا ہے اور اگر آتا بھی ہے تو جماعت میں سے ہی عوام اُسے منتخب کرکے سامنے لاتے ہیں، وہ خود نہیں آجاتا۔ پورے یورپ کی مثال لے لیںجب کہ یہاں تمام جماعتیں مخصوص خاندان کے گرد گھوم رہی ہیں، اس سے بہتر تو جماعت اسلامی ہے جس میں کم از کم سسٹم تو ہے ۔ مگر افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ یہاں جمہوریت نہیں منافقت ہے۔ ن لیگ کے وفاقی وزراء اپنے قائدین کے خلاف نجی محفلوں میں بیٹھ کر کچھ اور باتیں کر رہے ہوتے ہیں اور جب میڈیا پر آتے ہیں تو اُن کے قصیدے پڑھنے شروع کر دیتے ہیں ۔
پیپلز پارٹی کے عہدیدار بھی یہی کام کر رہے ہیں، وہی رہنما جو زرداری کے حق میں بڑی بڑی باتیں کیا کرتے تھے اب وہ تمام پی ٹی آئی میں چلے گئے ہیں اور کچھ جانے کے لیے تیار بیٹھے ہیں۔ انھیں صرف اپنی اپنی فکر ہے، عوام کی فکر نہیں ہے، اسی لیے میں اکثر کہا کرتا ہوں کہ ان سیاست دانوں کو حقیقی جمہوریت کی الف ب بھی نہیں پتا،انھیں یہ علم ہونا چاہیے کہ جمہوریت کی تعریف کے مطابق اور سولہویں امریکی صدر ابراہم لنکن کے مطابق ''عوام کی حکومت،عوام کے لیے اور عوام کے ذریعے''اب مجھے بتایا جائے کہ کیا ہم اس تعریف پر پورا اُترتے ہیں ، ہمارا نظام حکومت اس تعریف پر پورا اُترتا ہے؟ دنیا بھر میں جمہوریت ایک اچھا طرز حکمرانی سمجھا جاتا ہے۔
لیکن جب اس جمہوریت میں ہمارے جیسے ملکوںکے سیاستدان شامل ہو جاتے ہیں تو یہی بدل کر کوئی اور ہی رنگ و روپ اختیار کر لیتی ہے اور سیاست جس کی بے رحمی کے بارے میں کوئی شک و شبہ نہ تھا اور اب ان سیاستدانوں کے غیر جمہوری اقدامات کی وجہ سے رہا سہا شک بھی یقین میں تبدیل ہو گیا ہے۔اور ان سیاستدانوں پر جب کسی طرف سے تنقید ہوتی ہے تو یہ فوراََ جمہوریت کو خطرہ سمجھنا شروع کردیتے ہیں اور واویلا کرتے ہیں کہ ان کے خلاف سازش ہورہی ہے۔ حالانکہ ایسا بالکل نہیں ہو رہا ہوتا۔
جمہوری ممالک میںحکومتیںنہ صرف تنقید برداشت کرتی ہیں بلکہ اس میں سے اپنی اصلاح کے پہلو بھی نکال لیتی ہیں اور اپنی غلطیوں کو سدھار لیتی ہیں تا کہ وہ اپنی عوامی مقبولیت کو برقرار رکھ سکیں اور جہاں پر تنقید برائے تعمیر بھی برداشت کرنے کا حوصلہ نہ ہو وہ حکومتیں ہمیشہ یہی شکایت کرتی رہتی ہیں کہ ان کو کام نہیں کرنے دیا جارہا ، یہ تو وہ جواب ہے جو ان جمہوری حکومتوں کی جانب سے آتا ہے جو عوام کے لیے کام تو کچھ خاص کر نہیں رہی ہوتیں لیکن ڈھنڈورا زیادہ پیٹا جا رہا ہوتا ہے اور جب الزام لگتے ہیں تو کہاجاتا ہے کہ یہ سب سیاسی الزامات ہیں جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ بقول شاعر
آج تک اپنی بے کلی کا سبب
خود بھی جانا نہیں کہ تجھ سے کہیں
آج اس کے باوجود کہ JIT رپورٹ کے تمام نکات سامنے آچکے ہیں، وزیراعظم کی رسوائی ہورہی ہے، بہت سے ملکوں میں پانامہ لیکس میں نام آنے کی وجہ سے سربراہان حکومت مستعفی ہو کر اپنے آپ کو احتساب کے لیے پیش کرچکے ہیں ۔ میرے خیال میں جمہوریت کو خطرہ یہ نہیں ہے کہ کوئی آئے گا اور حکومت کی بساط لپیٹ کر خود حکمرانی کرے گا بلکہ آج کے جمہوری لیڈروں کے طرز عمل سے ہے ، اس لیے PMLNکو یہ سوچنا ہوگا ورنہ اُس کا حال بھی پیپلز پارٹی کی طرح ہو جائے گا جو سندھ کے سوا کہیں نظر نہیں آرہی۔
دعا کریں کہ اب کے بار احتساب ہو اور وہ 438 افراد بھی زد میں آئیں جن کے نام سپریم کورٹ میں جا چکے ہیں جنہوں نے دن رات ملک کو لوٹا اوراربوں روپے کے قرضے معاف کرائے۔ رہی بات آنے والی 17جولائی کی جب سپریم کورٹ میں پانامہ کیس پر جے آئی ٹی کی رپورٹ کے حوالے سے بحث ہوگی تو مجھے قوی امید ہے کہ سپریم کورٹ آئین وقانون کے مطابق فیصلہ کرے گی۔