آزمائے کو آزمانا عقلمندی ہے

اگر قوم ان کے جھانسے میں پھر آگئی تو یہ ایک سوراخ سے بار بار ڈسا جانا ہی تو ہوگا۔

najmalam.jafri@gmail.com

KARACHI:
گزشتہ اظہاریے میں ہم نے قوم سے ایک سوال کیا تھا۔ خیال تھا کہ لوگ پڑھ کر اخبار ایک طرف ڈال دیں گے اور اس پر غور کرنے کی زحمت بھی گوارا نہ کریں گے کیونکہ کسی بھی معاملے، مسئلے پر غور کرنا ہی تو ہماری عادت نہیں ہے۔ مگر حیرت انگیز طور پر اس بار ہمیں کئی ای میلز موصول ہوئیں، کئی زاویوں سے اس سوال کے جوابات آئے۔

یہ جواب پڑھ کر کم ازکم ہماری یہ غلط فہمی تو دور ہوئی کہ لوگ لکھتے رہیں ملکی مسائل حکومتی، سیاسی مذہبی اخلاقی و معاشرتی رویوں پر، انتہا پسندی پر مگر لوگ پڑھتے ہی نہیں تو اپنے طرز فکر کو کیا بدلیں گے، مگر اب اندازا ہوا کہ لوگ نہ صرف پڑھتے ہیں بلکہ اپنی اپنی حد تک اس پر غور و فکر بھی کرتے ہیں۔

جو جوابات ہمیں موصول ہوئے، ان سب کو الگ الگ لکھنا تو بات کو طول دینا ہی ہوگا مگر ان میں سے بیشتر کے جوابات کا لب لباب یہ ہے کہ آپ کے سوال کے پہلے حصے کے جوابات سے تو ہفتہ بھر کے اخبارات بھرے ہوئے ہیں۔ یہ جو جے آئی ٹی اور اس کے سامنے پیشیاں اورصاحبان اقتدار نے جو مردے گاڑ دیے تھے وہ جو اکھاڑے جا رہے ہیں کیا یہ سب ملک میں پہلی بار نہیں ہو رہا؟ اب سے پہلے کسی صاحب اقتدار نے کسی کوکسی بھی بات کا جواب دینا تو دورکسی بات کو عوام کے سامنے یا عدلیہ کے سامنے پیش کرنا کبھی ضروری سمجھا تھا؟ میڈیا اور عوام لاکھ چیختے رہے کہتے رہے کہ فلاں بات کے بارے میں حکومت نے اب تک کیا کیا؟

عوام کے سامنے لایا جائے مگر مجال ہے کہ کبھی کچھ بھی منظر عام پر آیا ہو، لہٰذا پہلی بار اونٹ پہاڑ کے نیچے آیا تو اس کو اپنے قد کا اندازہ ہوا۔ یہی ثابت کرتا ہے کہ آیندہ عوام اپنے نمایندوں کا انتخاب سوچ سمجھ کر کریں گے، گویا جمہوریت کا تسلسل عوام میں بھی جمہوری شعور بیدار کر رہا ہے۔ سوال کے دوسرے حصے کا جواب ہے کہ اگر عوام واقعی بیدار ہوجائیں، کسی لالچ، دھونس یا دھمکی اور خوف کے بجائے خود اپنی عقل و فہم کی بنیاد پر حکمراں منتخب کریں تو بار بار مشق حکمرانی کرنے والوں کے بجائے نئے لوگ سامنے آئیں گے تو حالات بھی ضرور درست ہوں گے۔

کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اگر ہم یعنی قوم بالکل اندھی نہیں ہوئی ہے تو وہ ایک سوراخ سے بار بار ڈسی نہیں جاسکتی، تین تین باریاں لینے والے اور ہر بار غربت، بے روزگاری، ملاوٹ و بدعنوانی کا گراف بڑھا کر خود ممالک غیر میں سرے محل، قیمتی فلیٹ، جائیداد اور کاروبار کرنے والے محنت کش کے منہ کا نوالہ بھی چھین لینے والوں کو شرم نہیں آتی کس منہ سے آیندہ پھر اقتدار میں آنے کی بات کرتے ہیں؟

ہر بار عوام (ووٹرز) منہ تکتے رہ جاتے ہیں، ہارنے والی تمام سیاسی جماعتیں جیتنے والوں پر ہمیشہ دھاندلی کا الزام عائد کرتی ہیں مگر ہوتا کچھ نہیں نہ کوئی آگے بڑھ کر دھاندلی ثابت کر پاتا ہے نہ الزام لگنے پر کسی کو شرم آتی ہے نہ کوئی ان الزامات کا نوٹس لیتا ہے، کچھ عرصہ شور ہوتا ہے۔


زرداری صاحب کو یہ فخر حاصل ہے کہ انھوں نے پہلی بار مدت پوری کی مگر وزیر اعظم کو ان کے بھی گھر جانا پڑا۔ جانے کیسے یہ 17 سالہ مدت پوری ہوئی؟ مگر ملک اور عوام کی جو درگت بنی وہ سب جانتے ہیں مدت اقتدار مکمل کرلینا کوئی بڑا اعزاز نہیں، بات تو تب بنتی جب ملک ترقی کی راہ پر کم ازکم دو قدم تو آگے بڑھتا۔ مسٹر ٹین پرسنٹ کا لقب پانے والے سندھ خصوصاً کراچی کو کچرا کنڈی بنانے والے پھر منہ ہاتھ دھوکر مسند اقتدار پر براجمان ہونے کو تیار ہیں۔

اگر قوم ان کے جھانسے میں پھر آگئی تو یہ ایک سوراخ سے بار بار ڈسا جانا ہی تو ہوگا، مگر موجودہ حکمرانوں کے احتساب کے بعد امید ہے کہ عوام کو عقل آچکی ہوگی اور وہ اب بار بار دھوکے میں نہیں آئیں گے۔ اگر آزمائے ہوئے کو آزمانے کا رسک لینے کے بجائے نئے مخلص باوقار مثبت سوچ کے حامل افراد کو آزمانے کا رسک لیا جائے تو کیا حرج ہے؟

ایک تفصیلی اور واضح جواب یہ ہوسکتا ہے کہ موجودہ حکومت نے چار سال مکمل کرلیے انتخابات سے قبل کیے گئے ان کے وعدے عوام کو یاد ہیں بظاہر انھوں نے کئی بڑے بڑے منصوبے شروع بھی کیے کچھ بقول ان کے تکمیل کے قریب ہیں۔ مگر اسمبلی سے جو انتخابی اصلاحات ہونا تھیں، آخر ان پرکتنا کام ہوا؟

اسمبلی کے اجلاسوں میں آیندہ وزیر اعظم بننے کے سب سے زیادہ پرجوش خود اور ان کے ممبران اسمبلی ایوان سے اکثر و بیشتر بلکہ کئی کئی ماہ غائب رہے۔ چھوٹی جماعتوں کے ممبران باقاعدگی سے ایوان میں آتے رہے جب کہ منتخب وزیر اعظم نے چار سال میں بمشکل چار چھ بار ایوان میں قدم رنجہ فرمانے کی زحمت فرمائی۔ ایسے میں انتخابی اصلاحات کون کرتا اور کیسے ہوتیں؟ چلیے صاحب نہ ہوسکیں اصلاحات تو ہمیشہ کی طرح اس بار (2018 میں) بھی متنازعہ انتخابات کرانے کا فائدہ؟ پاکستانی جو اپنے اردگرد کی سیاسی تبدیلیوں، انتہا پسندانہ رویوں سے بے خبر پڑوس میں دشمن بیٹھے ہوئے پھر بھی کبوتر کی طرح آنکھیں بند کرکے بلی کے حملے سے خود کو محفوظ سمجھے بیٹھے ہیں۔

معاشرے کے تمام عناصر جو وطن کی خاطر اپنے اختلافات، مفادات اور طرز فکر کو تبدیل کرکے متحد ہونے کو تیار نہیں کیا ایسے میں انتخابات کے بعد آج سے بہتر پاکستان سامنے آنے کا کوئی امکان ہے؟ اب آتے ہیں سوال کے دوسرے حصے کی طرف تو بحیثیت ہمارا ایمان ہے کہ ''ناامیدی کفر ہے '' ہمارا پروردگار انشا اللہ ہماری ستر سالہ آزمائش کے بعد ضرور کوئی صورتحال پیدا کرنے پر قادر ہے (موجودہ حکمرانوں کے کیس سے ہی اندازہ کرلیجیے) کہ کوئی نجات دہندہ ہمارے درمیان سے ہی حالات درست کرنے کو آجائے۔

یہ اس کا وعدہ بھی ہے کہ آخری فتح حق کی ہے باطل تو ہے ہی مٹ جانے کے لیے۔ یہ جو بدعنوانی، خود غرضی، رشوت و سفارش کا کلچر ہم نے پروان چڑھایا ہوا ہے اس کی اتنی سزا تو ''خود ہمارا حق بناتا ہے'' بس ان برائیوں سے دامن بچانا ہی ہمارے حالات درست کرنے کا ذریعہ ہیں، آگے اس کی رحمت بے پایاں ہے۔
Load Next Story