پاکستان کی سفارتی ناکامی
امریکی حکمرانوں اور لیڈروں نے بھی کشمیر کے مسئلے پر پاکستان کا ساتھ نہیں دیا۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور بھارتی وزیراعظم نریندر مودی میں ایک بات کی انتہائی یکسانیت پائی جاتی ہے کہ دونوں لیڈر مذہبی تعصب اور انتہا پسندی بالخصوص مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلاکر انتخابات میں کامیاب ہوئے۔
2002 میں بھارتی ریاست گجرات میں ہزاروں بے گناہ مسلمانوں کے قتل عام جس میں تمام انسانی تقاضوں اور حرمتوں کو پامال کیا گیا کے بعد عالمی اداروں نے مودی کو Butcher of Gujrat کے خطاب سے بھی نوازا۔ نریندر مودی کو بے گناہ مسلمانوں کے قتل عام کا ذمے دار ٹھہراتے ہوئے اس وقت کے امریکی صدر جارج بش نے 2005 میں ان کے امریکی داخلے پر پابندی لگادی تھی تاہم 2014 میں بھارتی انتخابات میں مودی کی کامیابی کے بعد اوباما انتظامیہ نے ان پر سے یہ پابندی خاموشی کے ساتھ ہٹا دی تھی۔
ادھر امریکی تاریخ کے انتہائی تعصب پسند صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی کامیابی کے بعد بھارتی حکمرانوں اور عوام نے خوشی کا اظہارکیا اور تیزی کے ساتھ پاکستان کے خلاف شرانگیز پروپیگنڈا شروع کردیا۔ نئی دہلی کی ہدایت پر واشنگٹن میں متعین بھارتی سفارتکاروں اور لابی نے پاکستان دشمنی میں ریپبلکن اور ڈیموکریٹک کے ارکان سے ملاقاتیں شروع کردیں اور ان پر زور دینا شروع کردیا کہ پاکستان کو ایک دہشت گرد ملک قرار دیا جائے تاہم اس میں ان کو ناکامی رہی لیکن بعض ریپبلکن اور ڈیموکریٹک کے ارکان کو اس بات پر قائل کرنے میں کامیابی حاصل کرلی کہ پاکستان پر امریکی امداد انتہائی کم کردی جائے ۔
ٹرمپ انتظامیہ نے امریکا میں موجود ہندوکولیشن کے صدر شلبھ کمار کو اپنا مشیر مقرر کرلیا۔ مضبوط بھارتی لابی نے ٹرمپ کو اس بات پر راضی کرلیا کہ مودی کو امریکا آنے کی دعوت دی جائے اور ٹرمپ کی دعوت پر بھارتی وزیر اعظم چند ہفتے قبل امریکا کے دو روزہ دورے پر آئے ابھی ان کا طیارہ واشنگٹن پر لینڈ کرنے ہی والا تھا کہ ٹرمپ انتظامیہ کی ہدایت پر اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ نے کشمیری حریت پسند حزب المجاہدین کے سربراہ سید صلاح الدین کو عالمی دہشت گرد قرار دے دیا اور ان کو Executive Order کے سیکشن ون بی کے تحت جس کا اطلاق امریکی شہریوں کی سلامتی کے لیے خطرہ بننے والے غیر ملکیوں پر ہوتا ہے کی فہرست میں ڈال دیا جب کہ ساری دنیا اس بات سے آگاہ ہے کہ کشمیری مجاہدین گزشتہ 60 سال کے زائد عرصے سے اپنی آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں اور وہ کبھی بھی کسی دوسرے ملک کے لیے خطرہ بنے ہی نہیں لیکن مودی کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے ٹرمپ انتظامیہ نے یہ قدم اٹھایا۔
مودی سرکار اپنے ساتھ ٹرمپ انتظامیہ سے چند شکایتوں کی فہرست لے کر آئے تھے جن میں بالخصوص ان ہزاروں انفارمیشن ٹیکنالوجی کے اہل افراد جو HB-1 ویزے کے تحت امریکا آتے ہیں پر پابندی کو ہٹانا شامل تھا جو ٹرمپ انتظامیہ نے اپنے اقتدار میں آنے کے بعد لگا دی تھی، وائٹ ہاؤس میں انتہائی پرتپاک استقبال کے بعد وہ نہ صرف ان شکایتوں کو فراموش کر بیٹھے بلکہ صرف وہ کشمیر میں پاکستان کی دراندازی کی شکایتیں کرتے رہے۔
اسی دوران ٹرمپ انتظامیہ نے بھارتی وزیر اعظم کو اس بات پر راضی کرلیا کہ وہ امریکا سے 2 بلین ڈالر سے زائد کا دفاعی سازوسامان خریدیں جس کے تحت امریکا 22 Guardian Surveillance Drones اور دیگر Sophisticated Defence Equipments خریدے مشرق وسطیٰ میں بڑی جنگ کے خاتمے کے بعد امریکی اسلحہ ساز فیکٹری گزشتہ کئی سالوں سے نقصان میں جا رہی تھی اور اس کی خریداری میں کمی واقع ہو رہی تھی۔ واضح رہے اس سے قبل سعودی عرب کے دورے کے دوران بھی ٹرمپ انتظامیہ سعودی حکام کو امریکی اسلحے کی خریداری کے لیے راضی کرنے میں کامیاب ہوچکی تھی۔
امریکی حکام ہمیشہ اپنے مفاد کے لیے کام کرتے ہیں پاکستان کو اپنی ضرورت کے مطابق استعمال کیا اور بعد میں نکال پھینکا حال ہی میں امریکی سینیٹر جان کیری اپنے ایک بیان میں کہتے ہیں کہ کشمیر پر امریکی پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی اور امریکا مقبوضہ کشمیر میں تشدد کا خاتمہ چاہتا ہے لیکن مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم کا سلسلہ جاری ہے۔ پاکستانی حکمران بھارتی مظالم کے خلاف آواز اٹھاتے رہے ہیں لیکن اتنے موثر انداز میں نہیں جوکہ ہونا چاہیے تھا ۔امریکی حکمرانوں اور لیڈروں نے بھی کشمیر کے مسئلے پر پاکستان کا ساتھ نہیں دیا۔
اس کے برعکس پاکستان کے دہشت گردوں کے خلاف جنگ میں 70 ہزار انسانی جانوں اور 130 ارب ڈالروں کا نقصان اٹھانے کے باوجود نہ کوئی پذیرائی حاصل کرسکے اور نہ اس کا ریکارڈ حاصل کیا ہماری کمزور ڈپلومیسی کی وجہ سے ہم ان 36 ملکوں کے اسلامی اتحاد کو بھی کشمیر کے مسئلے پر اپنی طرف مائل کرنے میں ناکام رہے ہیں چاہے یورپ ہو یا امریکا یا اسلامی ممالک ہماری حکومت کی کارکردگی سفارتکاری کے لحاظ سے انتہائی کمزور رہی ہے۔
اس کے برعکس بھارتی لابی اور سفارتی مشن انتہائی عیاری اور چالاکی کے ساتھ پاکستان کو زیر کرنے کے ہر حربے استعمال کر رہے ہیں ہمارے سفارتکاروں کو اپنی کارکردگی کا ازسر نو جائزہ لینے کی ضرورت ہے ورنہ بھارت جیسا دشمن پاکستان کو تنہا کرنے میں کامیاب ہوجائے گا۔
2002 میں بھارتی ریاست گجرات میں ہزاروں بے گناہ مسلمانوں کے قتل عام جس میں تمام انسانی تقاضوں اور حرمتوں کو پامال کیا گیا کے بعد عالمی اداروں نے مودی کو Butcher of Gujrat کے خطاب سے بھی نوازا۔ نریندر مودی کو بے گناہ مسلمانوں کے قتل عام کا ذمے دار ٹھہراتے ہوئے اس وقت کے امریکی صدر جارج بش نے 2005 میں ان کے امریکی داخلے پر پابندی لگادی تھی تاہم 2014 میں بھارتی انتخابات میں مودی کی کامیابی کے بعد اوباما انتظامیہ نے ان پر سے یہ پابندی خاموشی کے ساتھ ہٹا دی تھی۔
ادھر امریکی تاریخ کے انتہائی تعصب پسند صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی کامیابی کے بعد بھارتی حکمرانوں اور عوام نے خوشی کا اظہارکیا اور تیزی کے ساتھ پاکستان کے خلاف شرانگیز پروپیگنڈا شروع کردیا۔ نئی دہلی کی ہدایت پر واشنگٹن میں متعین بھارتی سفارتکاروں اور لابی نے پاکستان دشمنی میں ریپبلکن اور ڈیموکریٹک کے ارکان سے ملاقاتیں شروع کردیں اور ان پر زور دینا شروع کردیا کہ پاکستان کو ایک دہشت گرد ملک قرار دیا جائے تاہم اس میں ان کو ناکامی رہی لیکن بعض ریپبلکن اور ڈیموکریٹک کے ارکان کو اس بات پر قائل کرنے میں کامیابی حاصل کرلی کہ پاکستان پر امریکی امداد انتہائی کم کردی جائے ۔
ٹرمپ انتظامیہ نے امریکا میں موجود ہندوکولیشن کے صدر شلبھ کمار کو اپنا مشیر مقرر کرلیا۔ مضبوط بھارتی لابی نے ٹرمپ کو اس بات پر راضی کرلیا کہ مودی کو امریکا آنے کی دعوت دی جائے اور ٹرمپ کی دعوت پر بھارتی وزیر اعظم چند ہفتے قبل امریکا کے دو روزہ دورے پر آئے ابھی ان کا طیارہ واشنگٹن پر لینڈ کرنے ہی والا تھا کہ ٹرمپ انتظامیہ کی ہدایت پر اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ نے کشمیری حریت پسند حزب المجاہدین کے سربراہ سید صلاح الدین کو عالمی دہشت گرد قرار دے دیا اور ان کو Executive Order کے سیکشن ون بی کے تحت جس کا اطلاق امریکی شہریوں کی سلامتی کے لیے خطرہ بننے والے غیر ملکیوں پر ہوتا ہے کی فہرست میں ڈال دیا جب کہ ساری دنیا اس بات سے آگاہ ہے کہ کشمیری مجاہدین گزشتہ 60 سال کے زائد عرصے سے اپنی آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں اور وہ کبھی بھی کسی دوسرے ملک کے لیے خطرہ بنے ہی نہیں لیکن مودی کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے ٹرمپ انتظامیہ نے یہ قدم اٹھایا۔
مودی سرکار اپنے ساتھ ٹرمپ انتظامیہ سے چند شکایتوں کی فہرست لے کر آئے تھے جن میں بالخصوص ان ہزاروں انفارمیشن ٹیکنالوجی کے اہل افراد جو HB-1 ویزے کے تحت امریکا آتے ہیں پر پابندی کو ہٹانا شامل تھا جو ٹرمپ انتظامیہ نے اپنے اقتدار میں آنے کے بعد لگا دی تھی، وائٹ ہاؤس میں انتہائی پرتپاک استقبال کے بعد وہ نہ صرف ان شکایتوں کو فراموش کر بیٹھے بلکہ صرف وہ کشمیر میں پاکستان کی دراندازی کی شکایتیں کرتے رہے۔
اسی دوران ٹرمپ انتظامیہ نے بھارتی وزیر اعظم کو اس بات پر راضی کرلیا کہ وہ امریکا سے 2 بلین ڈالر سے زائد کا دفاعی سازوسامان خریدیں جس کے تحت امریکا 22 Guardian Surveillance Drones اور دیگر Sophisticated Defence Equipments خریدے مشرق وسطیٰ میں بڑی جنگ کے خاتمے کے بعد امریکی اسلحہ ساز فیکٹری گزشتہ کئی سالوں سے نقصان میں جا رہی تھی اور اس کی خریداری میں کمی واقع ہو رہی تھی۔ واضح رہے اس سے قبل سعودی عرب کے دورے کے دوران بھی ٹرمپ انتظامیہ سعودی حکام کو امریکی اسلحے کی خریداری کے لیے راضی کرنے میں کامیاب ہوچکی تھی۔
امریکی حکام ہمیشہ اپنے مفاد کے لیے کام کرتے ہیں پاکستان کو اپنی ضرورت کے مطابق استعمال کیا اور بعد میں نکال پھینکا حال ہی میں امریکی سینیٹر جان کیری اپنے ایک بیان میں کہتے ہیں کہ کشمیر پر امریکی پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی اور امریکا مقبوضہ کشمیر میں تشدد کا خاتمہ چاہتا ہے لیکن مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم کا سلسلہ جاری ہے۔ پاکستانی حکمران بھارتی مظالم کے خلاف آواز اٹھاتے رہے ہیں لیکن اتنے موثر انداز میں نہیں جوکہ ہونا چاہیے تھا ۔امریکی حکمرانوں اور لیڈروں نے بھی کشمیر کے مسئلے پر پاکستان کا ساتھ نہیں دیا۔
اس کے برعکس پاکستان کے دہشت گردوں کے خلاف جنگ میں 70 ہزار انسانی جانوں اور 130 ارب ڈالروں کا نقصان اٹھانے کے باوجود نہ کوئی پذیرائی حاصل کرسکے اور نہ اس کا ریکارڈ حاصل کیا ہماری کمزور ڈپلومیسی کی وجہ سے ہم ان 36 ملکوں کے اسلامی اتحاد کو بھی کشمیر کے مسئلے پر اپنی طرف مائل کرنے میں ناکام رہے ہیں چاہے یورپ ہو یا امریکا یا اسلامی ممالک ہماری حکومت کی کارکردگی سفارتکاری کے لحاظ سے انتہائی کمزور رہی ہے۔
اس کے برعکس بھارتی لابی اور سفارتی مشن انتہائی عیاری اور چالاکی کے ساتھ پاکستان کو زیر کرنے کے ہر حربے استعمال کر رہے ہیں ہمارے سفارتکاروں کو اپنی کارکردگی کا ازسر نو جائزہ لینے کی ضرورت ہے ورنہ بھارت جیسا دشمن پاکستان کو تنہا کرنے میں کامیاب ہوجائے گا۔