سیاسی پارٹیوں کے انتخابات
ملک کی سیاسی پارٹیوں کے الیکشن 5 سال کی مدت مقرر کرنے کی بھی تجویز زیر غور ہے۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان میں ملک میں کام کرنے والی تین سو کے قریب سیاسی پارٹیاں رجسٹرڈ ہیں جن میں اکثریت ان پارٹیوں کی ہے جن کے کسی ایک فرد نے بھی کبھی عام انتخابات میں حصہ نہیں لیا اور وہ زیادہ تر ون مین شو ہیں۔
بلدیاتی انتخابات میں ایک کونسلر بھی منتخب ہوا ہو یا ان میں ایک کونسلر بھی منتخب کرانے کی اہلیت ہو مگر وہ سیاسی پارٹی کہلاتی ہیں اور انھوں نے الیکشن کمیشن کے رجسٹریشن کے کاغذات کا پیٹ بھر رکھا ہے اور الیکشن کمیشن نے انھیں رجسٹریشن دے رکھی ہے اور وہ عام انتخابات کے لیے اپنا انتخابی نشان لینے کی اہل ہیں جس کی وجہ سے الیکشن کمیشن کے پاس انتخابی نشانات کم پڑ گئے ہیں جبکہ نئی پارٹیوں کی رجسٹریشن بند نہیں ہوئی بلکہ جاری ہے جس کی وجہ سے نئے انتخابی نشانات کی تلاشی جاری ہے اور یہ سلسلہ بڑھ رہا ہے کیونکہ پارٹیاں بنانا کاروبار بنا ہوا ہے جس کے ذریعے بڑی پارٹیوں کا مقصد اقتدار کا حصول بنا ہوا ہے اور چھوٹی پارٹیاں کاغذی اور چھوٹے اخبارات میں خبریں چھپوانے اور اپنے لیٹر ہیڈ بنواکر سرکاری اداروں کو بلیک میل کرنے اور ان کے عہدیدار ذاتی تشہیر تک محدود ہیں۔
حال ہی میں تحریک انصاف نے اپنے انٹرا پارٹی انتخابات کے نتائج کا اعلان کیا ہے جس میں پہلے سے موجود مرکزی عہدیداران چیئرمین عمران خان، سینئر وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی اور جنرل سیکریٹری جہانگیر ترین دوبارہ بھاری اکثریت سے منتخب ہوگئے ہیں۔
پی ٹی آئی کے چیف الیکشن کمشنر اعظم سواتی کے مطابق انصاف پینل کو الیکشن میں ایک لاکھ 89 ہزار ووٹ ملے جبکہ مخالف احتساب پینل کو صرف 41 ہزار ووٹ ملے اور طریقہ کار کی خلاف ورزی پر 26255 ووٹ مسترد بھی کیے گئے ہیں اور مجموعی طور پر ملک کے چاروں صوبوں سے 256957 افراد نے پی ٹی آئی کے انتخابی عمل میں حصہ لیا ہے۔
چیف الیکشن کمشنر نے یہ نہیں بتایا کہ یہ انتخابات اتنی جلدی کیسے اور کہاں پر ہوئے کون سے ارکان نے ووٹ دیے۔ انتخابی نتائج میں دو پینلوں کا ذکر کیا گیا ہے مگر یہ نہیں بتایا گیا کہ مقابلے میں امیدوار کون کون تھے اور چیئرمین کے مقابلے کے لیے عمران خان کے مقابل کون تھا جس نے پارٹی سربراہ کا مقابلہ کرنے کی جرأت کی کیونکہ انٹرا پارٹی الیکشن میں ہر پارٹی میں سربراہ تو ہمیشہ بلامقابلہ ہی منتخب ہوا کرتا ہے کیونکہ وہ پارٹی کا بانی اور بنانے والا جو ہوتا ہے۔
پی ٹی آئی کو انٹرا پارٹی الیکشن فوری طور پراس لیے کرانا پڑا کہ یہ انتخابات نہ ہونے سے الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کے امیدواروں کو پی ٹی آئی کا انتخابی نشان الاٹ کرنے سے انکار کردیا تھا اور اسی مجبوری کے باعث پی ٹی آئی کو الیکشن کرانا پڑا اور اگر یہ مجبوری نہ ہو تو سیاسی پارٹیاں اپنے الیکشن ہی نہ کرائیں۔ اعظم سواتی کے مطابق انتخابات شفاف ہوئے اور پارٹی ووٹروں نے ای بیلٹ کے ذریعے ووٹ کاسٹ کیے اور خوش اسلوبی سے انتخابات کا انعقاد ہوا۔
واضح رہے کہ الیکشن کمیشن میں پی ٹی آئی کے ایک بانی رکن اکبر ایس بابر نے درخواست دائر کی تھی جس پر انھیں پی ٹی آئی سے نکال دیا گیا تھا کیونکہ انھوں نے بعض معاملات پر اصولی موقف اختیار کیا تھا جس کو سراہنے کی بجائے انھیں فارغ کردیا گیا تھا اور عمران خان اپنے موقف کی تائید نہ کرنے پر ممتاز سیاستدان اور پی ٹی آئی کے صدر مخدوم جاوید ہاشمی کو بھی پارٹی سے فارغ کرچکے ہیں۔
ملک کی سیاسی پارٹیوں کے الیکشن 5 سال کی مدت مقرر کرنے کی بھی تجویز زیر غور ہے جس کے نفاذ کے بعد بار بار انٹرا پارٹی الیکشن سے بھی سیاسی جماعتوں کی جان چھٹ جائے گی۔
ملک میں جماعت اسلامی واحد جماعت ہے جس کے بانی کے انتقال کے بعد متعدد سربراہ تبدیل ہوچکے ہیں جو جماعت کے اپنے منشورکے مطابق تبدیل ہوئے اور یہ نہیں ہوا کہ بانی کے انتقال کے بعد اس کا صاحبزادہ یا صاحبزادی جماعت اسلامی کی سربراہ بن گئی ہو۔ جماعت کے الیکشن میں تو کسی کو بھی پارٹی سربراہی کا الیکشن لڑنے کا اختیار نہیں ہے اور جماعت کے ارکان اپنی مرضی سے کسی کو بھی سربراہ منتخب کرتے ہیں اور امیر جماعت کی موجودگی ہی میں قیادت تبدیل ہوتی آرہی ہے جبکہ کسی اور سیاسی پارٹی میں ایسا نہیں ہے کیونکہ باقی پارٹیاں ان کے سربراہوں کی جاگیریں ہیں۔
پیپلز پارٹی میں بے نظیر بھٹو اپنی پارٹی چیئرمین اور اپنی والدہ ہی کی زندگی میں پارٹی سربراہ بن گئی ہیں اور محترمہ نصرت بھٹو کو ان کے شوہر کی پھانسی کے بعد پارٹی کی سربراہی ملی تھی۔ جے یو آئی میں مولانا مفتی محمود کی جگہ ان کے صاحبزادے مولانا فضل الرحمن آئے۔ این این پی میں ولی خان کے صاحبزادے اسفند یار ولی نے اپنی سوتیلی والدہ بیگم نسیم ولی کو ہٹا کر پارٹی صدارت حاصل کی تھی۔
مسلم لیگ کا المیہ یہ ہے کہ جہاں مختلف رہنماؤں نے اپنے ناموں یا دیگر ناموں سے مسلم لیگ بنالی جو اقتدار میں آکر کبھی مسلم لیگ قائد اعظم بنی کبھی مسلم لیگ نواز کہلائی۔ اقتدار سے ہٹنے کے بعد مسلم لیگ جونیجو کا نام استعمال ہوا۔ مسلم لیگ میں قیوم اور قاسم گروپ رہے اور اب بھی مسلم لیگ (ن)، (ق)، (ف) کام کر رہی ہیں۔
(ف) کے موجودہ صدر اپنے والد پیر پگاڑا کے جانشین بنے ہوئے ہیں اور اب میاں نواز شریف اپنی جگہ اپنی صاحبزادی مریم نواز کو لانے کی منصوبہ بندی کرچکے ہیں۔ پیپلز پارٹی کی چیئرمین بے نظیر بھٹو کی مبینہ وصیت جو چھپا کر رکھی گئی ہے کے مطابق ان کے صاحبزادے بلاول زرداری کو پارٹی کا چیئرمین بنایا گیا ہے اور آصف علی زرداری خود شریک چیئرمین بنے ہوئے ہیں جو پارٹی کے انتخابات کے ذریعے منتخب نہیں ہوئے ہیں۔
علاقائی پارٹیوں کا بھی یہی حال ہے جو عہدوں پر رہا وہ اپنے صاحبزادوں کو ورثے میں اپنا عہدہ دے گیا۔ اکبر بگٹی کے بعد ان کا بیٹا اور اس کے بعد پوتا، عبدالصمد اچکزئی اور غوث بخش بزنجو کے بعد ان کے صاحبزادے اپنے والدین کی بنائی پارٹیوں کے سربراہ بنے ہوئے ہیں۔ سندھ میں رسول بخش پلیجو نے پہلے اپنے بیٹے کو اپنا جانشین بنایا پھر ناراض ہوکر بڑھاپے میں سیاست سے دور نہ رہ سکے اور اپنا گروپ بحال کرلیا۔ نوابزادہ نصراللہ خان کے بیٹوں نے اپنے والد کی پارٹی کو نہیں اپنایا تو کراچی میں سابق صوبائی صدر کے صاحبزادے پی ڈی پی کے ٹھیکیدار بن گئے۔
جو بھی سیاسی رہنما اپنی پارٹی کا بانی اور سربراہ ہے جماعت اسلامی کے علاوہ ہر کوئی پارٹی کو اپنی جاگیر سمجھتا ہے اور اپنی یہ جاگیر ورثے میں اپنی اولاد کو دے کر جاتا ہے یا اس کے مرنے کے بعد اس کی اولاد کسی بھی طریقے سے پارٹی کا سربراہ بن جاتی ہے اور پارٹی میں کسی دوسرے کو ابھرنے نہیں دیتی جس سے اختلافات بڑھتے ہیں جس کا ثبوت جے یو آئی کے تین اور اے این پی کے دو گروپ ہیں اور مسلم لیگیں کئی بنی ہوئی ہیں۔
سیاسی پارٹیوں میں انٹرا پارٹی الیکشن دکھاوا ہوتے ہیں۔ سیاسی پارٹیاں جمہوریت کی دعویدار بنتی ہیں مگر ان کی پارٹیوں میں جمہوری طریقے سے انتخابات نہیں ہوتے۔ ہر بار پارٹی سربراہ خود کو منتخب کرا لیتا ہے اور پسندیدہ لوگوں کو باقی عہدے دلا دیتا ہے اور الیکشن کمیشن ان کے یہ ڈرامے تسلیم کرلیتا ہے۔ پی ٹی آئی کے حالیہ انتخابات کو عدلیہ میں چیلنج کیا جاچکا ہے مگر کچھ نہیں ہونا سیاسی پارٹیاں جن کی جاگیریں ہیں وہی سربراہ رہیں گے تبدیلی کے کوئی آثار نہیں ہیں۔