اخوّتِ اسلامی

رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا: ’’ مسلمان، مسلمان کا بھائی ہے۔


July 14, 2017
رسول اللہ ﷺ نے اپنے متعدد ارشادات میں اخوتِ اسلامی کی اہمیت، افادیت اور عظمت کو اجاگر اور واضح کیا ہے۔ فوٹو : فائل

LONDON: اسلام میں تمام مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں، چاہے وہ جہاں کہیں بھی رہتے ہیں اور ان کا کسی بھی رنگ و نسل اور وطن سے تعلق ہو، جو کلمہ طیبہ پڑھ کر اسلام میں داخل ہو جاتا ہے وہ بہ حیثیت مسلمان ہمارا دینی بھائی ہے۔

اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے حبیب حضرت محمد ﷺ کے ذریعے مسلمانوں کے درمیان ایک پائیدار اور مستحکم رشتہ قائم کیا، جسے قرآن کریم نے ''رشتہ اخوت اسلامی '' کا نام دیا ہے۔ اس رشتے کی عظمت و فضیلت، افادیت اور اہمیت کے حوالے سے قرآن مجید کی کئی آیات مقدسہ اور رسول اللہ ﷺ کی بے شمار احادیث مبارکہ موجود ہیں۔

حضرت ابوالحسن علی ندویؒ نے اخوت کی دو قسمیں لکھیں ہیں۔ اول یہ کہ پوری نسل انسانی ایک آدم کی اولاد ہے اور حضور اکرم ﷺ نے حجۃالوداع کے خطبے میں اس پر مہر لگادی کہ اس سے زیادہ اسلامی مساوات کا کوئی منشور نہیں ہوسکتا۔ آپؐ نے فرمایا کہ تمہارا اب ایک ہے اور تمہارا باپ ایک ہے، ثانی قسم یہ کہ چھٹی صدی عیسوی میں ایک نئی اخوت کی بنیاد ڈالی گئی، اس اخوت کی بنیاد اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کا عقیدہ، نوع انسانی کے ہم دردی کا جذبہ، عدل و مساوات کے اصول اور انسانوں کی خدمت کے عزم و ارادے پر تھی۔

قرآن پاک میں اخوت اسلامی کا ذکر:
بعثت رسول اکرمؐ اور نزول قرآن کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ بنی نوع انسان کو منظم کر دیا جائے اور ایک دوسرے کے ساتھ دشمنی اور عداوت کرنے والوں کو پیار و محبت اور اخوت و بھائی چارے کے رنگ میں رنگ دیا جائے۔ اللہ تعالیٰ کے حکم سے حضور رحمت دو عالم ﷺ نے اہل ایمان کے درمیان ''رشتۂ اخوت'' قائم کیا۔ یہ اتنا مضبوط اور پائیدار رشتہ ہے کہ اس کو دنیا کی کوئی طاقت ختم نہیں کرسکی اور نہ کرسکے گی۔ اس عظیم رشتے کی بنیاد اسلام اور اللہ و رسولؐ کی محبت ہے۔ چناں چہ قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے، سورۃ الحجرات، ترجمہ : '' بے شک ایمان والے (آپس میں) بھائی بھائی ہیں ( اگر ان کے درمیان کچھ تنازع ہو جائے ) تو اپنے دو بھائیوں کے درمیان صلح و صفائی کرا دیا کرو اور (ہر معاملے میں) اللہ سے ڈرتے رہو، تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔''

اللہ تعالیٰ نے اس آیتِ مبارکہ میں تمام مسلمانوں کو ایک دوسرے کا بھائی قرار دیا ہے۔ اخوت اسلامی کے رشتے کی موجودی میں رنگ و نسل، زبان، قومیت اور علاقوں کی بنیاد پر بننے والے باقی تمام رشتوں کی حیثیت ثانوی بل کہ ختم ہوجاتی ہے۔ اول ہم مسلمان ہیں، پھر کسی دوسری پہچان وغیرہ کو اہمیت دی جاسکتی ہے۔ جو مسلمان رشتۂ اخوت پر دوسرے عارضی اور ناپائیدار رشتوں کو فوقیت یا اولیت دیتے ہیں وہ قرآن کے اس واضح اور صریح حکم کی خلاف ورزی کرتے ہیں۔

آیت مذکورہ میں دوسرا حکم یہ دیا گیا ہے : '' اپنے دو بھائیوں میں صلح کرا دو۔'' آیت کے اس حصے سے معلوم ہوا کہ دو مسلمانوں، افراد یا دو گروہوں میں اختلاف واقع ہو سکتا ہے، لیکن ان کے قریب جو تیسرا فرد یا گروہ ہے، اس کی ذمے داری ہے کہ ان لڑنے یا اختلاف کرنے والوں میں فوراً صلح کرا دے اور ان کے ساتھ ایسا سلوک کرے جو دو بھائیوں سے کیا جاتا ہے۔ بہ حیثیت مسلمان یہ ذمے داری ہم سب پر عاید ہوتی ہے کہ ہم مسلمانوں کے درمیان مزید جھگڑا کرنے کی فضا پیدا نہ کریں بل کہ واقع ہونے والے جھگڑے کو نہ صرف ختم کرائیں بل کہ جھگڑے کی بنیاد اور سبب کا خاتمہ بھی کریں۔

آیت مبارکہ میں تیسرا حکم ہے: '' اور اللہ سے ڈرو تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔'' آیت کے اس حصے میں تنبیہ کی گئی کہ اہل ایمان کے درمیان اگر اختلاف ہوجائے تو تمہاری ذمے داری ہے کہ ان کے درمیان اختلاف کی خلیج کو بڑھاؤ نہیں بل کہ کم کرنے کی کوشش کرو اور صلح کرانے میں کسی بھی فریق کے ساتھ زیادتی اور ناانصافی نہیں ہونی چاہیے۔ بل کہ ان سب کے ساتھ برابری اور خیرخواہی کا سلوک کیا جائے۔

اخوت اسلامی، اللہ کی مہربانی ہے :
امت مسلمہ سے تعلق رکھنے والے تمام لوگ آپس میں بھائی بھائی ہیں اور تمام مسلمان ایک دوسرے کے ساتھ بھائیوں کی طرح رہتے ہیں اور جس طرح ایک بھائی دوسرے بھائی کے کام آتا ہے، اس کے دکھ درد اور سکھ میں کام آتا ہے، اسی طرح تمام مسلمان ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرتے ہیں۔ غریب و محتاج مسلمان کی مالی امداد و اعانت بھی کرتے ہیں۔ اس کے دکھ سکھ اور غم خوشی کے مواقع پر تعاون کرتے ہیں، اس طرح امت مسلمہ میں باہمی اتحاد و یک جہتی اور امداد و اعانت کی فضا قائم ہوتی ہے۔ چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے، سورۂ آل عمران، ترجمہ : '' اور سب مل کر اللہ کی رسی (پیغام ِہدایت) کو مضبوطی سے تھام لو اور آپس میں تفرقہ نہ ڈالو اور اللہ کی اس مہربانی (انعام) کو یاد کرو جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے تو اس نے تمہارے دلوں میں اُلفت پیدا کردی اور تم اس کی نعمت کی بہ دولت بھائی بھائی بن گئے۔''

٭ اخوت اسلامی اور ارشاداتِ رسول کریمؐ :
رسول اللہ ﷺ نے اپنے متعدد ارشادات میں اخوتِ اسلامی کی اہمیت، افادیت اور عظمت کو اجاگر اور واضح کیا ہے۔ فرمان رسول اکرمؐ ہے : (سنن ابن ماجہ، مسند امام احمد) مفہوم : حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : '' مسلمان، مسلمان کا بھائی ہے۔ وہ اس کے معاملے میں خیانت نہیں کرتا، دانستہ اس کو کوئی جھوٹی اطلاع نہیں دیتا اور نہ ہی وہ اس کو رسوا کرتا ہے۔ ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان پر سب کچھ حرام ہے، اس کا خون، اس کا مال اور اس کی عزت و آبرو۔''

اسی طرح ایک اور حدیث پاک میں حضرت انس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے، (صحیح بخاری، جامع ترمذی، سنن ابن ماجہ، سنن دارمی، مشکوٰۃ المصابیح، ترجمہ : '' تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک (کامل) مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ وہ اپنے (مسلمان) بھائی کے لیے وہی چیز پسند نہ کرے جو وہ اپنے لیے پسند کرتا ہے۔''

اس حدیث پاک میں ایمان کی ایک اعلیٰ اخلاقی صفت کو بیان کیا گیا ہے جوکہ حقیقت میں ایمان کا معیار اور کسوٹی ہے اور وہ یہ ہے کہ ایک مسلمان اپنے دوسرے مسلمان بھائی کے لیے وہی کچھ پسند کرتا ہے جو وہ اپنی ذات کے لیے پسند کرتا ہے۔ اس حدیث کے اندر یہ اشارہ ہے کہ جس طرح کو ئی اپنے لیے نقصان اور برائی پسند نہیں کرتا تو اسے چاہیے کہ اپنے مسلمان بھائی کے لیے بھی کسی نقصان اور برائی کے عمل میں شریک نہ ہو۔ بل کہ جتنا ہوسکے، اپنے مسلمان بھائی کی عزت و آبرو کی حفاظت اور کام یابی و فائدے کے لیے سوچے اور اس کی مدد کرے۔

ایک حدیث پاک میں رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے، سنن ابو داؤد، ترجمہ: بے شک نبی کریم ﷺ نے فرمایا، مفہوم : '' مسلمان، مسلمان کا بھائی ہے، وہ اس پر ظلم نہیں کرتا نہ ہی اسے بے یار و مددگار چھوڑتا ہے اور جو کوئی اپنے مسلمان بھائی کی کسی ضرورت کو پورا کرتا ہے، اللہ اس کی ضرورت کو پورا کرتا ہے اور جو کوئی مسلمان اپنے مسلمان بھائی کی مشکل کو آسان کرتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کی قیامت کی مشکلات میں آسانی پیدا کر ے گا اور جو مسلمان اپنے مسلمان بھائی کی پردہ داری کرتا ہے، اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کے عیوب پر پردہ پوشی کرے گا۔''

دوسری حدیث میں فرمانِ نبوی ﷺ ہے، متفق علیہ، ترجمہ: (حقیقی) مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ (کی اذیت و تکلیف) سے دوسرے مسلمان محفوظ ہوں۔ رسول اللہ ﷺ نے اپنے بے شمار ارشادات اور فرامین میں مسلمان کو مسلمان کا بھائی قرار دیا اور حقیقی مسلمان کی نشانی یہ فرمائی ہے کہ اس کی ذات سے کسی مسلمان کو اذیت و تکلیف نہیں پہنچتی بل کہ ہر حالت میں سے راحت و سکون اور سلامتی ملتی ہے۔

٭ رشتۂ مواخات کی بنیاد و اساس:
حضور سید عالم ﷺ کا یہ بہت بڑا عظیم الشان کارنامہ ہے کہ آپؐ نے امت مسلمہ کو '' رشتۂ مواخات '' کی ایک لڑی میں پُرو دیا ۔ جب آپؐ اور مسلمانوں نے مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ ہجرت فرمائی تو مسلمان بالکل بے سروسامانی کی حالت میں تھے، نہ ان کے گھر بار تھے اور نہ ہی دوسری ضروریاتِ زندگی کا کوئی انتظام تھا۔ اس موقع پر اللہ کے پیارے رسول حضور خاتم الانبیاء ﷺ نے انصار اور مہاجرین صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے درمیان بھائی چارہ قائم فرمایا اور ایک صحابیؓ کو دوسرے صحابیؓ کا دینی و اسلامی بھائی بنا دیا۔

٭ رشتۂ مواخات میں صحابہ کرامؓ کا ایثار:
انصار صحابہ کرامؓ نے مکہ مکرمہ سے ہجرت کرکے مدینہ طیبہ آنے والے اپنے مہاجرین صحابہؓ کونہ صرف خوش آمدید کہا بل کہ ان کو اپنی ہر چیز میں برابر کا حصہ دار بنادیا۔ جس صحابیؓ کے پاس دو مکان تھے، اس نے ایک مکان اپنے دوسرے مہاجر بھائی کو دے دیا۔ جس کے پاس دس بکریاں تھیں، اس نے پانچ بکریاں اپنے اسلامی مہاجر بھائی کو دے دیں۔ اسی طرح دوسری املاک (باغات، زمینیں وغیرہ) کو بھی تقسیم کردیا۔ انصار زراعت کے پیشے سے منسلک تھے اور مہاجرین تجارت کیا کرتے تھے۔ چناں چہ انصار نے مہاجرین کو اپنی زراعت میں شامل کرلیا اور مہاجرین انصار سے مل کر اپنی تجارت کر نے لگے۔ اس طرح انصار اور مہاجرین نے باہم مل کر زراعت و تجارت میں معاشی استحکام اور ترقی حاصل کی۔

ایک روایت میں ہے کہ ایک انصاری صحابیؓ کی دو بیویاں تھیں تو اس نے اپنے مہاجر بھائی سے کہا کہ میری دو بیویاں ہیں، ان میں سے جس کو تم پسند کرو، میں اسے طلاق دے دوں گا اور ( عدت کے بعد) تم اس سے نکاح کرلینا۔ چناں چہ اس انصاری صحابیؓ نے اپنے مہاجر بھائی کی پسند کے مطابق اپنی بیوی کو طلاق دے دی اور عدت کے بعد اس مہاجر صحابی نے اس سے نکاح کرلیا۔ اس طرح کے انوکھے، بے مثال اور حیرت انگیز ایثار و قربانی کی مثال شاید ہی دنیا کی تاریخ میں مل سکے، یہ تو صرف آقائے دو جہاں حضرت محمد مصطفی ﷺ کے پیارے اصحابؓ کا عمل و کردار ہے۔

جامع ترمذی میں حضرت عبداللہ بن عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ جب اللہ کے پیارے رسول حضور خاتم الانبیاء ﷺ نے صحابۂ کرامؓ کے درمیان بھائی چارہ قائم فرمایا اور ایک صحابیؓ کو دوسرے صحابیؓ کا دینی و اسلامی بھائی بنادیا تو حضرت علیؓ نہایت آب دیدہ ہوکر بارگاہِ رسالت ﷺ میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ آپ نے عقدِ مواخات میں تمام صحابۂ کرامؓ کو تو ایک دوسرے کا بھائی بنادیا ہے لیکن مجھے کسی کا بھائی نہیں بنایا، میں تو یوں ہی رہ گیا ہوں۔ رسول اللہ ﷺ نے نہایت پیار اور محبت کے انداز میں فرمایا: اے علیؓ! تم دنیا و آخرت دونوں میں میرے بھائی ہو۔ (جامع ترمذی)

اخوت اسلامی میں صحابۂ کرامؓ کی ایک اور مثال:
اسلامی اخوت و بھائی چارہ کا یہ عظیم الشان مظاہرہ تاریخ نے نہ پہلے کبھی دیکھا تھا اور نہ آئندہ دیکھ سکے گی۔ یہ اسی جذبۂ اخوت کا ہی کمال تھا کہ ایک جنگ میں زخمیوں میں سے ایک زخمی کی آواز آئی، پانی دو۔ جب اس کو پانی دے دیا گیا اور وہ پانی پینے لگا تو دوسرے زخمی کی آواز آئی ''پانی چاہیے'' تو پہلے زخمی نے پانی پیے بغیر چھوڑ دیا اور کہا پہلے اسے پانی دے دو۔ جب پانی دوسرے زخمی کو دیا گیا اور وہ پانی ہونٹوں سے لگانے لگا ہی تھا کہ تیسرے زخمی کی آواز آئی، پانی دیجیے۔ گویا پانی کا پیالا اسی طرح کئی زخمی صحابیوںؓ کے درمیان گھوم پھر کر جب پہلے زخمی کے پاس لایا گیا تو وہ شدت پیاس اور زخموں کی تاب نہ لا کر شہید ہوچکا تھا۔ پانی کا پیالا دوسرے زخمی کے پاس لایا گیا تو وہ بھی شہید ہوچکا تھا۔ سب زخمی صحابہ کرامؓ نے اس طرح جامِ شہادت نوش فرما لیا۔ موت سب کے سامنے تھی، مگر ہر ایک نے اپنے دوسرے بھائی کے لیے پانی خود نہ پیا اور جامِ شہادت نوش کرلیا۔

رسول اکرم ﷺ نے مسلمانوں کے اس باہمی تعلق کو کہیں ''بھائی'' کہہ کر بیان فرمایا تو کہیں اسے ''جسم واحد'' قرار دیا اور کہیں اسے '' مضبوط دیوار'' کی مانند قراردیا جس کی ایک اینٹ دوسری کی تقویت کا باعث بنتی ہے۔ فرمان نبوی ﷺ ہے، صحیح مسلم، ترجمہ : '' مومن ، مومن کا بھائی ہے (اور وہ) ایک جسم کی مانند ہے کہ اگر جسم کے کسی ایک حصے (عضو) کو کوئی تکلیف پہنچے تو اس کا درد اس کے تمام بدن میں محسوس ہوتا ہے۔ یعنی ایک دوسرے پر رحم و شفقت کے معاملے میں مسلمانوں کی مثال ایک جسم کی سی ہے، اگر کسی ایک عضو کو شکایت و تکلیف ہوتی ہے تو باقی تمام جسم بھی بیداری اور بخار و تکلیف کی صورت میں اسی طرح کرب (اذیت) کو محسوس کرتا ہے۔''

اخوت کو قائم رکھنے کا حکم :
اخوت اسلامی ایسا انمول، پائیدار اور عظیم رشتہ ہے کہ اس کو قائم رکھنے کے لیے بار بار حکم دیا گیا ہے۔ ایک حدیث پاک میں ارشاد ہے، صحیح بخاری، ترجمہ : رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: '' برے گمان سے بچو! بے شک برا گمان بڑی جھوٹی بات ہے۔ ایک دوسرے کی ٹوہ میں نہ لگو اور ایک دوسرے کی جاسوسی نہ کرو اور نہ ایک دوسرے سے دشمنی کرو اور نہ ایک دوسرے کو چھوڑو اور اللہ کے بندو آپس میں بھائی بھائی بن جاؤ۔''

اللہ کے پیارے رسولؐ نے اخوت اسلامی کے آداب اور احترام کے حوالے سے اپنے فرمان میں اخوت اسلامی کے رشتے کو مضبوط اور مستحکم کرنے کے اصول بیان فرمائے ہیں۔ اگر صاحبان ایمان ان اصولوں پر چلنے لگیں تو ان کے درمیان کبھی جھگڑے اور فتنے و فساد برپا نہیں ہوں گے۔ پہلا اصول یہ ہے کہ کسی بھی مسلمان کے حوالے سے برا گمان قائم کرنا خلافِ شرع ہے۔ ہمیشہ دوسروں کے متعلق اچھا گمان رکھنا چاہیے، ہوسکتا ہے جسے ہم برا سمجھ رہے ہو ں، وہی اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں محبوب ہو۔

حدیث پاک کے پہلے حکم میں ذہن کی صفائی پر زور دیا گیا ہے کہ مسلمان کے بارے میں اپنا ذہن صاف رکھو۔ برے گمان کی مذمت بھی بڑے سخت الفاظ میں ہوئی ہے کہ برا خیال جھوٹی باتوں میں بڑا جھوٹ ہے کسی دوسرے مسلمان کا بلاوجہ تعاقب کرنا یا دوسروں کی بلاوجہ جاسوسی کرنے کو سختی سے منع کردیا گیا۔ اسی طرح کسی سے خواہ مخواہ بغض، کینہ اور عداوت و دشمنی نہیں رکھنی چاہیے بل کہ مسلمانوں کو سب کے ساتھ محبت و شفقت کا برتاؤ کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور اگر کسی سے محبت و شفقت کرنی ہے یا کسی سے عداوت و دشمنی کرنی ہے تو اس کے لیے یہ اصول فرمایا گیا ہے کہ : کسی سے محبت بھی اللہ کے لیے کرو اور دوسرے پر غصہ بھی اللہ کے لیے کرو۔ یعنی ہر کام اللہ کی رضا کے لیے ہونا چاہیے۔

ایک اور حدیث پاک میں رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا، مشکوٰۃ المصابیح، ترجمہ : '' جس شخص نے اللہ (کی رضا اور خوش نودی) کے لیے (اس کے نیک بندوں سے) محبت کی اور اللہ کے لیے کسی (کافر یا اللہ تعالیٰ کے نافرمان) سے بغض رکھا اور اللہ ہی کے لیے (کسی کو کچھ) عطا کیا اور اللہ ہی کے لیے (کسی کو برائی اور گنا ہ وغیرہ سے ) روکا تو پس اس نے اپنا ایمان مکمل کرلیا۔''

اس حدیث میں تکمیل ایمان اور اخوت اسلامی کے چار سنہری اصول بیان کئے گئے ہیں جو درج ذیل ہیں۔ اللہ کے لیے محبت کرنا۔ اللہ کے لیے بغض رکھنا۔ اللہ کے لیے عطا کرنا۔ اللہ کے لیے روکنا۔ حضور نبی کریم ﷺ نے اس حدیث میں ان چاروں اعمال کو ایمان کی تکمیل کا ذریعہ قرار دیا ہے۔ ایک حقیقی مسلمان صرف اپنے خالق و مالک اللہ وحدہ' لاشریک سے ہی محبت کرتا ہے اور اگر کسی سے محبت کرتا ہے تو بھی محض اللہ کی رضا اور خوش نودی کے لیے کرتا ہے۔ اسی طرح اگر کسی (کافر یا اللہ تعالیٰ کے نافرمان اور ظالم و جابر) سے بغض و عناد رکھتا ہے تو وہ بھی اللہ ہی کے لیے، کیوں کہ اللہ کے رسولؐ ﷺ نے ہمیں یہی تعلیم دی ہے۔

حدیث کے آخری الفاظ میں حکم دیا گیا ہے: '' اللہ کے بندو آپس میں بھائی بھائی بن جاؤ۔'' اس سے معلوم ہوا کہ اللہ کے رسولؐ کو تمام مسلمانوں کا آپس میں حقیقی بھائیوں جیسا سلوک رکھنا کتنا عزیز اور محبوب ہے۔ اللہ کے نبی ﷺ نے اپنے غلاموں کو واقعی ایسے رشتۂ اخوت میں جوڑ دیا تھا کہ جس کی کوئی مثال پیش نہیں کی جاسکتی۔ اسی حوالے سے ایک حدیث مبارکہ میں فرمان رسولؐ ہے کہ جو لوگ صرف اللہ تعالیٰ کی ذات کے لیے ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں، قیامت کے دن وہ نورانی چہروں کے ساتھ نور کے منبروں پر بیٹھے ہوں گے اور انہیں کوئی غم نہیں ہوگا۔

چناں چہ حضرت عمر فاروق ؓبیان کرتے ہیں کہ حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا : '' اللہ تعالیٰ کے بندوں میں سے بعض بندے ایسے بھی ہیں جو نہ تو نبی ہیں اور نہ شہید لیکن اللہ تعالیٰ کے نزدیک قیامت کے دن ان کا جو درجہ ہوگا اسے دیکھ کر نبی اور شہید اُن کی تحسین کریں گے۔

صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے پوچھا کہ یا رسول اللہ ﷺ! ہمیں بتائیں کہ وہ کون لوگ ہوں گے ؟ آپؐ نے فرمایا کہ یہ وہ لوگ ہیں جو آپس میں محض اللہ تعالیٰ کے واسطے محبت رکھتے ہیں نہ ان کا آپس میں کوئی لین دین ہے اور نہ کوئی رشتہ ہے۔ اللہ کی قسم! ان کے چہرے نورانی ہوں گے اور وہ نور کے منبروں پر بیٹھے ہوں گے، جب دوسرے لوگ ڈر رہے ہوں گے تو انہیں کوئی ڈر نہیں ہوگا اور جب دوسرے لوگ غمگین ہوں گے تو انہیں کوئی غم نہیں ہوگا۔''

(سنن ابی داؤد)

٭ اخوت اسلامی کے ثمرات اور فوائد:

اخوت و بھائی چارہ مسلمانوں کے درمیان وہ عظیم رشتہ ہے جس کی بہ دولت مسلمان جہاں کہیں بھی بستے ہوں وہ اپنے آپ کو ایک معاشرہ کا حصہ سمجھتے ہیں۔ اخوت سے باہمی اختلافات اور تنازعات کو ختم کیا جاتا ہے ۔ اخوت و بھائی چارے سے مسلمان ایک دوسرے کی مدد اور خدمت کرنے کے لیے کوشاں رہتے ہیں، جس سے معاشرتی زندگی کو استحکام ملتا ہے اور معاشرے میں ایک اچھی اور عمدہ فضا قائم ہوتی ہے اور نیکیوں کا ماحول پیدا ہو جاتا ہے۔ اخوت و بھائی چارے سے مسلمانوں میں اتحاد و یک جہتی پیدا ہوتی ہے، جس سے مسلمانوں کی قوت میں بے پناہ اضافہ ہوتا ہے اور مسلمانوں کی یہ قوت دیکھ کر کفار کے دلوں پر رعب و دہشت طاری ہوجاتی ہے۔

اخوت و بھائی چارہ کی بنیاد پر جب ایک مسلمان دوسرے مسلمان کی مالی مدد کرتا ہے تو اسلامی معاشرہ میں مالی استحکام پیدا ہوتا ہے اور معاشرے میں امن و سکون اور جذبۂ ہم دردی پیدا ہوتا ہے۔ اخوت و بھائی چارے کی فضا میں معاشرے کے سب افراد ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں۔ دوسروں کا دکھ درد محسوس کرتے ہیں۔ مصیبت و آزمائش کے موقع پر ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں۔ غم و خوشی میں ایک دوسرے کا ساتھ دیتے ہیں۔

(مولانا رضوان اللہ پشاوری)

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں