اعترافِ گناہ اور اظہارِ شرمندگی

توبہ ندامت کا نام ہے جتنی زیادہ ندامت ہوگی اتنی جلدی توبہ قبول ہوگی۔


اللہ رب العزت کو توبہ بہت پسند ہے جو لوگ اس کی ارگاہ میں جھکتے ہیں وہ ان سے محبت کرتا ہے۔ فوٹو : فائل

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا، جس کا مفہوم یہ ہے کہ : '' اللہ تعالیٰ کی سو رحمتیں ہیں، جن میں سے ایک رحمت جنوں، انسانوں، جانوروں اور کیڑے مکوڑوں کے درمیان اُتاری جس سے یہ آپس میں ایک دوسرے پر مہربانی اور رحم کرتے ہیں۔ اس رحمت سے وحشی جانور اپنے بچے پر مہربان ہوتے ہیں اور ننانوے رحمتیں محفوظ رکھ چھوڑی ہیں، جن سے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اپنے بندوں پر رحم فرمائے گا۔'' (مسلم شریف)''

حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، مفہوم : '' اللہ تعالیٰ رات کو اپنا دستِ رحمت پھیلاتے ہیں تاکہ دن کو برائی کرنے والے کی توبہ قبول فرمائے اور دن کو اپنا دستِ رحمت پھیلاتے ہیں تاکہ رات کے وقت برائی کرنے والوں کی توبہ قبول فرمائے، اللہ تعالیٰ ایسا ہی کریں گے یہاں تک کہ سورج مغرب سے طلوع ہوگا۔'' (مسلم شریف)

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ وہ بیان کرتی ہیں کہ سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، مفہوم : '' جب کوئی شخص گناہ کا اعتراف کرتا ہے اور اللہ رب العزت کی رحمت کی جانب رجوع کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول فرماتا ہے اور اپنی رحمت سے اس کی جانب رجوع فرماتا ہے۔''

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا، مفہوم : ''اللہ تعالیٰ نے جب مخلوق کو پیدا کیا تو اپنی کتاب میں لکھا اور وہ نوشتہ اس کے پاس عرش پر رکھا ہوا ہے کہ میری رحمت میرے غصے پر غالب ہوگی۔''

(بخاری شریف)

جیسا کہ اللہ کی کتاب قرآن مجید کا آغاز بھی '' بسم اللہ الرحمن الرحیم '' سے ہوتا ہے اس میں اللہ تعالیٰ کی دو صفات کا ذکر ہے، ایک رحمٰن، دوسری رحیم۔ گویا اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک کے آغاز میں جو تعارف کرایا ہے، وہ بہت رحمت والا، نہایت رحم کرنے والا ہے تاکہ کوئی گناہ گار اس سے مایوس ہو کر شیطان کی راہ پر گام زن رہنے پر مجبور نہ ہو۔ وہ گناہ گار بندہ اللہ کے عذاب کے ذکر کے باوجود نجات و بخشش کے لیے اُسی رحمٰن و رحیم کی چوکھٹ پر سر جھکائے، کیوں کہ وہ رحمن اور رحیم ہے۔

ان احادیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ توبہ اللہ تعالیٰ کا اپنے بندوں پر خصوصی انعام ہے۔ اگر وہ ہماری نافرمانیوں پر سزا دے تو تب بھی اس سے کوئی پوچھنے والا نہیں، لیکن اللہ تعالیٰ کے اس انعام و احسان سے بھی کوئی شخص فائدہ نہ اُٹھائے تو یقینا بدنصیبی کی بات ہے۔ توبہ وہ نورِِمعرفت اور نورِِایمان ہے جو انسان کے دل میں پیدا ہو اور اس کے ذریعے انسان یہ معلوم کرلے کہ گناہ زہرِِ قاتل ہے۔ اور جب انسان یہ دیکھے گا کہ اس نے بہت سا زہر کھا لیا ہے اور ہلاکت کے قریب ہے تو یقینا اس کے دل میں شرمندگی اور خوف پیدا ہوگا اس شخص کی طرح جو زہر کھانے سے پریشان ہو اور موت سے ڈر گیا ہو، اب وہ پریشانی اور خوف کی وجہ سے اپنے حلق میں انگلی ڈال کر قے کرنے لگتا ہے اور پھر دوا کی تلاش کرتا ہے تاکہ بقیہ اثر بھی ختم ہوجائے۔

بالکل اسی طرح جب گناہ گار انسان یہ دیکھتا ہے کہ اس نے جو گناہ کیا وہ زہریلے شہد کی طرح ہے جو خود تو میٹھا تھا لیکن نتیجتاً تکلیف دہ تھا تو اس طرح وہ گزشتہ اعمال پر شرمندہ ہوتا اور خوف کی آگ اس کے دل میں سلگنے لگتی ہے کہ اب وہ تباہ و برباد ہوگیا۔ اس خوف و دہشت کی آگ سے گناہ اور نافرمانی کا شوق بالکل نہ رہا اور یہ پختہ ارادہ کہ میں گزشتہ ایام کے گناہوں کی معافی مانگوں گا اور آئندہ کبھی گناہ اور نافرمانی کا نام بھی نہ لوں گا، ظلم و گناہ سے باز رہ کر اطاعت و فرماںبرداری کا راستہ اختیار کروں گا۔ جس طرح پہلے وہ سرکشی اور غفلت میں ڈوبا ہوا تھا، اب وہ مکمل طور پر گڑگڑائے اور اس سے خوف اور بے قراری کا ظہور ہونے لگے جس طرح وہ پہلے غافل لوگوں کی مجلس میں بیٹھتا تھا اب نیک لوگوں کی صحبت میں بیٹھے۔

توبہ کرنا ہر وقت ہر ایک کے لیے ضروری ہے جب کوئی بالغ ہو اور وہ حالت گناہ میں ہو تو اس پر توبہ کرنا لازم ہے تاکہ وہ گناہ چھوڑ دے۔ اگر اپنے دل سے غافل ہے تو اس کے لیے اس غفلت سے توبہ کرنا واجب ہے۔ ایسا طریقہ اختیار کرے کہ جس سے اس کا دل حقیقتِ ایمان سے باخبر ہو جائے مقصد اس سے صرف اتنا ہے کہ ایمان کا مسلمان کے دل پر ایسا غلبہ ہوجائے کہ دل اس کا بالکل تابع بن جائے۔ اور اس غلبے کی علامت یہ ہے کہ جن اعمال کا تعلق مسلمان کے جسم سے ہے وہ تمام اعمال کامل ایمان کے حکم کے مطابق ہوں ا ن میں شیطان کی فرماں برداری کا شائبہ تک نہ ہو۔ کیوں کہ نا فرمان اور گناہ گار مسلمان کا ایمان کامل نہیں ہوتا۔

ہر گناہ سے توبہ کرنا ضروری ہے کہ اگر گناہ بندے اور اللہ رب العزت کے درمیان حائل ہے یعنی بندے نے صرف اللہ تعالیٰ کی حق تلفی اور نافرمانی کی ہے تو ایسی حالت میں توبہ اس طرح کی جائے۔ گناہ سے بالکل باز آجائے۔ اپنے کیے پر شرمسار ہو اور آئندہ کے لیے اس گناہ سے باز رہنے کا دل میں پختہ ارادہ ہو۔ ان تین شرائط میں سے اگر کوئی ایک شرط نہ پائی گئی تو توبہ صحیح نہ ہوگی۔ اور اگر حق تلفی کا تعلق کسی بندے اور انسان سے ہو تو پھر توبہ کی قبولیت کے لیے چار شرائط ہیں تین پہلے والی اور چوتھی صاحبِ حق کو اس کا حق دے کر اور اگر مال وغیرہ تلف کیا ہے تو واپس کرے، اگر تہمت لگائی ہے تو ا سے شرعی سزا دینے کا موقع دے یا اس سے معاف کرائے، اگر غیبت کی تھی تو اس سے معافی مانگے۔ توبہ ندامت کا نام ہے جتنی زیادہ ندامت ہوگی اتنی جلدی توبہ قبول ہوگی۔

اگر کوئی گناہ گار شخص جو برے اعمال کی وجہ سے برباد ہوچکا ہو خالص توبہ کرے، اپنے کیے پر نادم ہو تو اللہ تعالیٰ اس کے گناہوں کو معاف فرما دے گا۔ ایک مسلمان کی زندگی میں توبہ کی بڑی اہمیت ہے، وہ گناہ کرتا ہے، غلطیاں کرتا ہے، ظلم کرتا ہے اگر وہ اللہ رب العزت کی بارگاہ میں جھک جاتا ہے، توبہ کرتا ہے، عاجزی کرتا ہے، شرمندہ ہے اور خوب روتا ہے تو یقینا توبہ قبول ہوجاتی ہے۔ لیکن اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ وہ پھر گنا ہ کرتا پھرے۔

اللہ رب العزت کو توبہ بہت پسند ہے جو لوگ اس کی بارگاہ میں جھکتے ہیں وہ ان سے محبت کرتا ہے جیسا کہ قرآن مجید میں آتا ہے، مفہوم : بے شک اللہ رب العزت توبہ کرنے والوں سے محبت فرماتا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ اپنی اس قلیل زندگی کے ہر ایک لمحے کو نیکیوں سے قیمتی بنائیں اور جلد از جلد اپنے گناہوں سے سچی توبہ کریں اس سے پہلے کہ توبہ کا وقت نہ رہے اور وقت قضا آجائے۔ اللہ پاک ہمیں توبہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے جو اتنی کامل ہو کہ ہمیشہ کے لیے ہماری بخشش کا ذریعہ بن جائے۔ آمین

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں

رائے

امن لازم ہے

Dec 22, 2024 03:40 AM |

انقلابی تبدیلی

Dec 22, 2024 03:15 AM |