زنگ آلو د زنجیریں

آئیں ہم سب مل کر آزادی، محبت، امید اور اچھی خو شحال مسرت بخش زندگی کے خواب کو سچا کر دیں.


Aftab Ahmed Khanzada February 06, 2013

''سپارٹیکس'' حال اور ماضی میں لکھا ہوا ناول ہے۔ ناول کا مرکز ی خیال دنیا میں زندہ انسان کی ان اقدار کو پیش کرتا ہے جن کا وہ ازل سے خواب دیکھ رہا ہے اور یہ اقدار آزادی، محبت، امید اور اچھی مسرت بخش زندگی ہے۔ سپارٹیکس دراصل ہر اس آدمی کا استعارہ ہے جو ظلم کے خلاف بغاوت کرتا ہے اور ظالم سے ظلم کا بدلہ لیتا ہے اور اپنے حق کے لیے لڑتا ہے۔ دنیا کی تقریباً ہر زبان میں اس کا ترجمہ ہو چکا ہے۔ ہاورڈ فاسٹ نے اپنا یہ شاہکار ناول قید خانے میں مکمل کیا۔ کہانی کے مطابق سپارٹیکس ایک مصری غلام تھا جو کرو خاندان سے تعلق رکھتا تھا جس کا مطلب مصری زبان میں جانور ہے۔ اسے یونان کے شہر ایتھنز سے خریدا گیا تھا۔ آہنی زنجیروں میں جکڑا ہوا یہ غلام سور ج کی دھو پ میں جل کر بھو رے رنگ کا ہو گیا تھا۔ اس کا سارا بدن کوڑے کھا کھا کر پتھریلا ہو چکا تھا۔

زنجیروں کا بوجھ اس قدر تھا کہ سیدھا ہو کر چلنا مشکل تھا، اس کی گردن موٹی تھی مگر گردن پر زنجیر کی رگڑ کی وجہ سے زخم اور پھوڑے بن گئے تھے وہ دیگر غلاموں کے ساتھ چٹانوں پر پیٹ رگڑ رگڑ کر چلتا تھا۔ وہ دن بھر کام کرتے تھے پھر انھیں بیرک میں دھکیل دیا جاتا تھا اور زنجیریں کھول دی جاتی تھیں۔ سارے دن کی محنت کا صلہ انھیں صرف ایک پیالہ خورا ک اور آدھی چھاگل پانی دیا جاتا۔ پانی اس قدر کم ہوتا تھا کہ آہستہ آہستہ ان کے گردے فیل ہو جاتے تھے اور جب وہ مر جاتے تو انھیں صحرا میں پھینک دیا جاتا تھا۔ بیرک میں بدبو اور سڑاند بہت زیادہ ہوتی تھی۔ لیکن غلام جی متلا نے پر قے بھی نہیں کرتے تھے۔ انھیں خوف ہوتا تھا کہ قے کر نے سے کہیں ان کے معد ے میں ایک اونس خوراک کم نہ ہو جائے۔ سپارٹیکس دوسرے غلاموں جیسا نہیں تھا۔ وہ پتھر تھا۔

مگر کہیں نہ کہیں اس میں رحم کا جذبہ موجود تھا۔ جس کی وجہ سے وہ دوسرے غلاموں کے دکھ در د میں شریک ہوتا تھا۔ دوسرے سارے غلام اسے با پ کے نام سے بلاتے تھے۔ جب کوئی غلام اسے کہتا باپ یہ کیسی دوزخ ہے تو سپارٹیکس جواب دیتا سب ٹھیک ہو جائے گا۔ سپارٹیکس اب کان سے باہر کی دنیا میں آتا ہے اور باتیاتس اسے خرید کر اپنے گلیڈیئٹرز میں شامل کر لیتا ہے۔ اسے زندگی کی ساری آسائشیں ملتی ہیں اور اب اس کا کام قتل کر نا ہے۔ اسے اکھاڑے میں بھیجا جاتا ہے اور اسے اپنے مد مقابل کو قتل کرنا ہے اور لوگوں کو خو ش کر نا ہے۔ یہاں سپارٹیکس نے اپنی اور اپنے غلام ساتھیوں کی آزادی کی خاطر جنگ لڑنے کا منصوبہ بنایا اور اس نے فیصلہ کیا کہ اب وہ کسی کو قتل نہیں کرے گا۔ اس نے یہ بات اپنے غلام سا تھیوں کو اکٹھا کر کے کہہ دی۔

اس کے ایک ساتھی نے پو چھا باپ تو پھر ہم کیا کریں۔ تم ابھی الگ الگ ہو جائو، کیا کرنا ہے میں تمہیں پھر بتلائوں گا۔ اس نے جواب دیا ان غلاموں میں وہ جرمن عورت ورینیا بھی شامل تھی جو سپارٹیکس کے آقا باتیاتس نے اسے بیوی کے طور پر بخشی تھی اور جو سپارٹیکس سے شدید محبت کرتی تھی۔ سپارٹیکس نے ایک منصوبہ بندی کے تحت تمام غلاموں کو اور گلیڈیئٹرز کو پیغام پہنچایا اور پھر ایک وقت مقرر ہ پر سب نے بغاوت کا اعلان کر دیا۔ انھوں نے سپارٹیکس کو اپنا کمانڈر بنا لیا اور اپنے اپنے تربیتی اداروں سے باہر آ گئے۔ رومن سپاہیوں سے مقابلہ کیا۔ لڑائی کے فن میں وہ سپاہیوں سے زیادہ ما ہر تھے۔ گلی گلی لڑائیاں ہوئیں اور سارے روم میں لاشیں سٹرتی رہیں۔ غلاموں نے سر کاری اسلحہ خانوں کے تالے تو ڑے اور اسلحہ قبضے میں کر لیا اور پھر وہ شہر چھو ڑ کر پہاڑی پر چڑھنے لگے۔

ورینیا سپارٹیکس کے ساتھ تھی۔ وہ سب سورج کی روشنی میں ایک گائوں کے میدان میں بیٹھے تھے۔ سپارٹیکس کے ساتھی نے کہا اب ہم کہاں جائیں گے ہر جگہ یہ ہی غلامانہ نظام ہے۔ سپارٹیکس نے کہا ہم ہر جگہ جائیں گے غلاموں کو آزادی دلائیں گے اپنی فوج میں شامل کر یں گے۔ رومن فوج کا مقابلہ کریں گے۔ یہ خدا کو معلوم ہے کہ فتح ہماری ہو گی یا رومن فوج کی۔ سپارٹیکس نے پھر کہا ہم ایک ایسی دنیا بنائیں گے جہاں نہ کوئی غلام ہو گا نہ آقا جس چیز پر ہم قبضہ کریں گے وہ سب کی مشترک ہو گی۔ بیوی کے علاوہ کوئی عورت پاس نہیں رکھیں گے عورت کو مرد کے برابر حیثیت حاصل ہوگی۔ روم سے سینٹ نے فوجیوں کے دستے کاپورا بھیجے جہاں سپارٹیکس غلامو ںکی فوج لے کر مو جود تھا۔ مگر سپارٹیکس نے ان کا خاتمہ کر دیا۔ دوبارہ بھاری فوج بھیجی گئی مگر ہزار غلاموں نے دس دس کا گروپ بنا کر ان کا خاتمہ کر دیا۔

فوجیوں کے ہتھیار چھینے، ان کے جسم سے کپڑے اتارے اور چھکڑوں پر لاد کر لے گئے۔ صرف ایک سپاہی زندہ رکھا اور اسے کہا جائو سینٹ کے پاس جا کر میرا پیغام دو کہ تم نے ہمارے خلاف فوج بھیجی ہم نے اسے تباہ کر دیا۔ ہم غلام نہیں جنھیں تم بولنے والے اوزار کہتے ہو دنیا تم سے بیزار ہو چکی ہے۔ دنیا کوڑوں کی آواز سے بیزار ہو چکی ہے۔ جو تم ہم غلاموں پر برساتے ہو۔ پہلے سب انسان برابر تھے مگر تم نے انھیں آقا اور غلاموں میں تقسیم کر دیا۔ ہم تم سے بہتر انسان ہیں۔ ہم میں وہ سب کچھ ہے جو ایک اچھے انسان میں ہونا چاہیے۔ سپارٹیکس اور اس کے ساتھیوں نے چار سال تک رومن حکومت کا مقابلہ کیا اور پھر ستر ہزار رومن فوجیوں نے سپارٹیکس کی محدود فوج کو گھیرے میں لے لیا اور اس کی فو ج کا خا تمہ کر دیا۔ سپارٹیکس نے جب موت قریب دیکھی تو اس نے آخری احکامات اپنی نوکرانی کو کچھ اس طرح جاری کیے۔

میز پر تھیلو ں کی قطار ہے، ہر تھیلے میں میرے ہر غلام ساتھی کے لیے آزاد ہونے کا سر ٹیفیکیٹ ہے۔ ہر تھیلے میں 20 ہزار سیٹرز (رومن سکہ) ہیں۔ میں یہ چاہتا ہوں یہ تھیلے انھیں دے دو۔ انھیں کہو فورا ً چلے جائیں اور پھر الماری سے اپنی ہسپانو ی تلوار نکالی اور اپنے آپ کو قتل کر نے کے خیال پر ایک مسکراہٹ اس کے لبوں پر دوڑ گئی۔ سپارٹیکس مرا نہیں اب تک زندہ ہے۔ جب تک انسان محنت کر تا رہے گا اور دوسرا انسان اس کی محنت کا پھل اور منافع چھینتا رہے گا سپارٹیکس زندہ رہے گا۔ کبھی سر گو شیوں میں اور کبھی بلند احتجاج میں۔

آج پاکستان میں ہر پانچواں آدمی سپارٹیکس ہے۔ اپنے گلے میں غلامی کی زنجیروں کا طوق پہنے تڑپ تڑپ کر سسک سسک کر بلک بلک کر زندگی گزار رہا ہے۔ ان جیتے جاگتے سپارٹیکس انسانوں کی زندگیوں میں غلاظت، محرومی، گندگی، جہالت، آفتیں اور مصیبتیں بھرنے والے کوئی غیر نہیں بلکہ اپنے ہی ملک کی طاقت و ر، با اختیار اشرافیہ، انتہا پسند عناصر اور ماضی کے چاروں آمریت کے ادوار ہیں، ہمارے سما ج میں موجود طبقاتی تضاد، عدم مساوات سماج کی بے رحمی اور بے حسی ان ہی عناصر کی فخریہ پیشکش ہیں۔ جن کی وجہ سے کار آمد، آزاد انسان سپارٹیکس بن گئے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ہم آزادی کے بعد عالمی تاریخ سے سبق حاصل کرتے۔ دیگر ممالک کی خو شحالی، آزادی اور ترقی کے اسباب اور نظام کا بغور مطالعہ کر تے کہ کس طرح سے انھوں نے اپنے سپارٹیکس کو آزاد، خو شحال، با اختیار انسانوں میں تبدیل کیا۔ لیکن ہم نے زمانے کے ساتھ چلنے کے بجائے بالکل مخالف سمت میں چلنا شروع کر دیا۔ جس کے نتیجے کو آج ہم سب بھگت رہے ہیں۔

پچھلے پانچ سالوں کے دوران ملک کی تمام سیاسی قوتوں نے جمہوریت کے ہتھیار کے ذریعے ان زنجیروں کو توڑنے کی اپنی سی کوشش ضرور کی۔ انھیں ابتدائی کامیابی بھی ضرور حاصل ہوئی لیکن چونکہ یہ زنجیریں64 سالہ پرانی ہیں اور انتہائی زنگ آلو د بھی ہو چکی ہیں اس لیے انھیں توڑنے کے لیے مکمل کامیابی حاصل نہ ہو سکی۔ اس کی سب سے اہم وجہ یہ ہے کہ ملک کی تمام سیاسی قوتوں میں اتفا ق کی اشد کمی ہے۔ یہ زنجیریں صرف اور صرف اتفا ق، اتحاد، یقین کامل، مسلسل جدوجہد اور جمہوریت کے ذریعے ہی توڑی جا سکتی ہیں۔ آئیں ہم سب مل کر ان زنجیروں کو توڑ ڈالیں اور آزادی، محبت، امید اور اچھی خو شحال مسرت بخش زندگی کے خواب کو سچا کر دیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں