نواز شریف نے حدیبیہ کیس نمٹانے کیلیے نیب کو 11 کروڑ روپے دیے

آف شور کمپنی کیپٹل ایف زیڈ ای کی تنخواہ گوشواروں میں چھپائی، اثاثے خود بنائے ظاہر بچوں کے نام پرکیے


ایس ای سی پی حکومت کاآلہ کار، شوگر ملز کی تحقیقات پچھلی تاریخوں میں بندکرکے فائدہ پہنچایا، رپورٹ۔ فوٹو؛فائل

KARACHI: پاناما کیس پر بننے والی جے آئی ٹی کی رپورٹ میں انکشاف ہوا ہے کہ نواز شریف اپنے موقف کے برعکس خاندانی کاروبار سے مستفید ہوتے رہے۔

سپریم کورٹ کو رپورٹ کی جلد نمبر نو میں جے آئی ٹی نے کہا ہے کہ نواز شریف نے 2013میں ن لیگ کو 10کروڑکا چندہ دیااور اسی سال پارٹی اکاؤنٹ سے ساڑھے چارکروڑ روپے وصول کیے لیکن متعلقہ مالی سال کے گوشواروں میں ظاہر نہیں کیا اورغلط بیانی کی، نواز شریف نے حدیبیہ پیپر ملزکیس نمٹانے کے لیے نیب کو11کروڑ روپے دیے۔

جے آئی ٹی نے کہا ہے کہ نوازشریف نے اثاثے بنائے اور انھیں بچوں کے نام پر ظاہرکیا،2007-08میں شریف فیملی نے تحفوں کے نام پر برطانیہ اور متحدہ عرب امارات سے88 کروڑ روپے پاکستان منتقل کیے، برطانیہ ،عرب امارات سے تمام فنڈز نواز شریف کے اکاؤنٹ میں منتقل کیے گئے اور نواز شریف نے تحائف کی صورت میں رقم لے کر ٹیکس چھوٹ لی۔

جے آئی ٹی کی رپورٹ کی جلد نمبر 2 میں بتایا گیا کہ گلف اسٹیل ملز،عزیزیہ اسٹیل ملز،ہل میٹلز اور ایون فیلڈ اپارٹمنٹس تمام شریف فیملی کے کاروبار ہیں۔ کسی ایک کی ملکیت نہیں،حسین نواز نے جے آئی ٹی میں تسلیم کیا کہ ان کے دادا عرب ممالک میںکاروبار کے دوران دسیاویزات بنانے پر یقین نہیں رکھتے تھے جبکہ حسین نواز ہل میٹلزکے قیام کے حوالے سے دستاویزات پیش نہیں کر سکے۔

رپورٹ کے مطابق حسین نواز نے جے آئی ٹی کونا مکمل ،غیر متعلقہ ،غیر مصدقہ اور فوٹوکاپی کی صورت میں مواد فراہم کیاجسے ثبوت نہیں کہا جا سکتا، رپورٹ میں کہا گیا کہ چوہدری شوگر ملزکی تحقیات کا کیس سیاسی بنیادوں پر پچھلی تاریخوں میں بندکیا گیا جس کا فائدہ وزیر اعظم نواز شریف کو ہوا، چوہدری شوگر ملزکی جعلی دستاویزات پیش کرکے تفتیش کو ڈی ٹریک اور جے آئی ٹی کوگمراہ کیا گیا۔

ایس ای سی پی بطور ادارہ حکومت کے ہاتھوں آلہ کارکے طور پر استعمال ہوا،جے آئی ٹی نے ایس ای سی پی کی ڈائریکٹرماہین فاطمہ کو بہروپیاکردارکی حامل قراردیا اورکہا کہ چوہدری شوگر ملز کی تحقیات چیئرمین ایس ای سی پی، ای ڈی علی عظیم اکرام ، ماہین فاطمہ اور عابد حسین نے بدنیتی کی بنیاد پر بندکی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں