بندہ مومن کی اذاں
ہمارے دین اسلام میں نماز کی صورت میں بندگی کا طریقہ سب سے انوکھا اور منفرد ہے.
دنیا کے مختلف ادیان میں عبادت کے مختلف طریقے رائج ہیں مگر ہمارے دین اسلام میں نماز کی صورت میں بندگی کا طریقہ سب سے انوکھا اور منفرد ہے، اس میں چھوٹے بڑے، امیر و غریب حتیٰ کہ بادشاہ و غلام کا بھی کوئی امتیاز نہیں ہے، بقول اقبال:
ایک ہی صف میں کھڑے ہوگئے محمود و ایاز
نہ کوئی بندہ رہا اور نہ کوئی بندہ نواز
یہ وہ کڑی ہے جو عابد اور معبود کے تعلق کو براہ راست جوڑتی ہے اور مخلوق کو اپنے خالق حقیقی کی اطاعت کے لیے تیار کرتی ہے، نماز نجات کا بہترین ذریعہ اور جنت کی کنجی ہے۔ یہ انسان کے دل میں خوف خدا پیدا کرتی ہے جس کے نتیجے میں وہ دنیا میں ہر قسم کے خوف سے آزاد ہو جاتا ہے۔
خشوع و خضوع سے ادا کی جانے والی نماز کا تو کوئی جواب ہی نہیں، اگر کوئی شخص نماز کو محض فرض اور حکم الٰہی جان کر بھی پابندی اور باقاعدگی سے ادا کرتا ہے اور اس کے مطلب و معنی سے بھی نا آشنا ہے تب بھی خدا کا خوف اور اس کے حاضر و ناظر ہونے کا یقین اور روز محشر اس کی عدالت میں حاضری کا اعتقاد اسے مختلف گناہوں سے باز رکھنے کے لیے بہت کافی ہے، نماز انسان کو یہ احساس دلاتی ہے کہ عبادت کے لائق صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے اور وہی اس کا اصل بادشاہ اور مالک حقیقی ہے، اس وقت ہمیں اپنے ایک بزرگ حبیب الرحمٰن صاحب یاد آ رہے ہیں جن کی زبان پر اٹھتے بیٹھتے لفظ ''بادشاہ'' جاری و ساری رہا کرتا تھا۔ یہ ہمارے بچپن کا زمانہ تھا، جب اللہ بخشے ہمارے ماموں جان رات کے وقت ہمیں کہانی سناتے تو آغاز کلام ان الفاظ سے کرتے ''ایک تھا بادشاہ، ہمارا تمہارا خدا بادشاہ''۔
مشاہدے سے ثابت ہے کہ نماز نہ صرف ہزار برائیوں سے بچاتی ہے بلکہ ہر طرح کے تفکرات سے بھی ہمیں چھٹکارہ دلاتی ہے۔ بڑی سے بڑی پریشانی کے عالم میں بھی جب آدمی صدق دل سے اپنے آقا کے حضور ہاتھ باندھ کر کھڑا ہوتا ہے اور سجدہ شکر بجا لاتا ہے تو اس کا دل ہلکا ہو جاتا ہے اور اس کے دماغ پر چھائی ہوئی مایوسی کے گھنے بادل ذرا دیر میں چھٹ جاتے ہیں۔ اب اگر انسان اسی نماز کو سمجھ کر ادا کرے اور اسے یہ معلوم ہو کہ وہ کیا پڑھ رہا ہے تو نماز کی تاثیر دو آتشہ ہو جائے گی اور بندگی کا اصل لطف حاصل ہو جائے گا۔
نماز سے پہلے اس کی ادائیگی کی دعوت دی جاتی ہے جو اذان کہلاتی ہے۔ ہر روز پانچ مرتبہ بلا ناغہ بلند ہونے والی یہ آواز ایک انوکھی پکار ہے جو آپ کو یاد دلاتی ہے کہ ''زمین میں جتنے بڑے بڑے خدائی کے دعویدار نظر آتے ہیں وہ سب کے سب ہیچ ہیں، زمین و آسمان میں صرف اور صرف ایک ہی ہستی ہے اور وہی عبادت کے لائق ہے۔ بس اسی کی عبادت میں دنیا اور آخرت کی بھلا مضمر ہے''۔ ممکن نہیں کہ کسی مسلمان کے دل میں ایمان کی ذرا سی بھی رمق موجود ہو اور وہ اذان کی صورت میں زبردست پکار کو سن کر اپنی جگہ بیٹھا رہے اور اپنے مالک کی بارگاہ میں حاضری کے لیے دوڑ نہ پڑے۔
آپ سے کیا پردہ، اپنی ہی زندگی کا ایک واقعہ بیان کیے دیتے ہیں، مغرب کے وقت ایم۔ اے جناح روڈ پر واقع ریڈیو پاکستان سے ڈیوٹی سے فارغ ہو کر گھر کا رخ کیا تو برابر کی گلی میں واقع مسجد سے اذان کی صدا بلند ہوئی ''اللہ اکبر، اللہ اکبر'' لمحہ بھر کے لیے ہمارے قدم رک گئے اور اس کے بعد ہم لمبے لمبے ڈگ بھرتے ہوئے آگے کی جانب بڑھ گئے، جوں ہی ہم اردو بازار کے قریب پہنچے تو تھوڑی دور پر واقع ایک اور مسجد سے بلند ہوتی ہوئی اذان کے یہ الفاظ ہمارے دل کو چھونے لگے ''حی علی الصلوٰۃ، حی الفلاح''۔ یعنی ''آؤ نماز کے لیے'، آؤ اس کام کے لیے جس میں فلاح اور بھلائی ہے''۔ اس کے بعد دل پر قابو نہ رہا اور خود بخود اٹھتے ہوئے قدم ہمیں خانہ خدا میں مالک حقیقی کے حضور لے گئے۔ اس وقت کی کیفیت بیان سے باہر ہے۔ واقعی نماز بڑی زبردست پکار ہے جو دل کے دروازے پر بھرپور قوت کے ساتھ دستک دیتی ہے اور انسان کے پورے وجود کو جھنجھوڑ کر رکھ دیتی ہے۔ حضرت بلالؓ کی اذان کے تذکرے آج بھی ہماری روح کو تڑپا دینے اور قلب کو گرمانے کے لیے کافی ہیں۔ یہی حال بیت اللہ اور مسجد نبویؐ سے بلند ہونے والی اذانوں کا ہے جسے صرف محسوس کیا جا سکتا ہے مگر بیان کرنا انسان کے بس کی بات نہیں ہے۔
قارئین کرام! ایک نہایت اثرانگیز اذان کا قصہ ہم نے گذشتہ 14 دسمبر 2012ء کو اپنے کالم بعنوان ''راجا صاحب'' میں آپ سے بیان کیا تھا جس کی یاد ہمارے قلب و ذہن میں ہمیشہ تازہ رہے گی۔ اس وقت ہمیں ایسا ہی ایک اور واقعہ یاد آ رہا ہے جو ہمارے کالج کے زمانے کا ہے۔ حسب معمول صبح کے وقت جب ہم کالج پہنچے تو اپنے ایک کلاس فیلو ویریندر کمار کو اضطرابی کیفیت میں ادھر سے ادھر اور اُدھر سے ادھر ٹہلتے ہوئے پایا، موصوف نہ صرف ہندو تھے بلکہ کٹر قسم کے برہمن بھی تھے۔
''یار! کہاں ہو تم؟ کب سے تمہارا انتظار کر رہا ہوں''۔ ویریندر نے بے تابانہ لپکتے ہوئے کہا۔
''ارے بھئی! خیر تو ہے؟'' ہم نے بے ساختہ دریافت کیا۔
''بس یار! صبح سویرے سے حیران اور پریشان ہوں، دل بری طرح دھڑک رہا ہے، ایسی بے قراری مجھے اپنی زندگی میں اس سے پہلے کبھی نہیں ہوئی تھی''۔ ویریندر کی کیفیت اس کے چہرے سے عیاں تھی۔
''او بھائی! کچھ بتاؤ بھی تو!'' ہم نے استفسار کیا تو وہ یوں گویا ہوا۔
''تمہیں خود بھی اندازہ ہے کہ یہ دسمبر کا مہینہ ہے اور یہاں دلّی میں آج کل کس کڑاکے کی سردی پڑ رہی ہے، لحاف سے باہر جسم کا کوئی حصہ نکالو تو ڈر یہ ہوتا ہے کہ کہیں برف کی طرح جم ہی نہ جائے، گذشتہ رات ٹھنڈ ذرا زیادہ ہی تھی اور باہر ہوا بھی بڑی سرد تھی۔ بس یوں سمجھ لو کہ جسم ٹھنڈ کی وجہ سے قلفی کی طرح جمتا ہوا محسوس ہو رہا تھا۔ میں اپنے فلیٹ میں دوسری منزل پر اپنے کمرے میں بستر پر بھاری بھرکم لحاف کے اندر دبکا ہوا پڑا تھا۔ سردی کی شدت کی وجہ سے مجھے نیند نہیں آ رہی تھی، بس رہ رہ کر کروٹیں بدل رہا تھا کہ یکایک آنکھ لگ گئی۔ کب سویا کچھ پتہ نہیں۔ صرف اتنا یاد ہے کہ سوتے سوتے میرے کانوں میں ایک عجب آواز سنائی دی۔ نجانے اس آواز میں کیسا جادو تھا کہ مجھ سے رہا نہ گیا۔ اس آواز میں مقناطیس سے زیادہ کشش تھی جو مجھے بستر سے اٹھا کر پنج منزلہ عمارت کی چھت کے اوپر لے گئی۔ اس آواز کے آخری الفاظ مجھے اچھی طرح یاد ہیں ''اللہ اکبر، اللہ اکبر!'' جب یہ آواز تھمی تھی تو مجھے سردی کا بھی احساس ہوا اور یہ اندازہ بھی ہوا کہ میں اپنے گرم بستر میں نہیں بلکہ کھلی چھت پر کھڑا ہوا ہوں''۔
قارئین کرام! اصل قصہ یہ تھا کہ یہ مسجد دہلی کے علاقے پہاڑ گنج میں واقع تھی جس پر 1947ء کے فسادات میں ہندوؤں نے قبضہ کر لیا تھا۔ محکمہ اوقاف کی قانونی چارہ جوئی کے نتیجے میں کئی سال کی مقدمے بازی کے بعد عدالتی فیصلے کے مطابق بڑی مشکل سے یہ مسجد واگزار ہوئی اور کسی بندہ مومن کے منہ سے وہ اذان فجر بلند ہوئی جس کے بارے میں علامہ اقبال نے یہ فرمایا تھا کہ:
وہ سحر جس سے لرزتا ہے شبستاں کا وجود
ہوتی ہے بندہ مومن کی اذاں سے پیدا
غور فرمائیں کہ جو شخص دن میں پانچ مرتبہ اذان کی یہ آواز سنتا ہے اور سمجھتا ہے کہ اسے کس بڑی چیز کی گواہی دی جا رہی ہے اور کیسے زبردست بادشاہ کے دربار میں حاضری کے لیے طلب کیا جا رہا ہے، بھلا کیونکر ممکن ہے کہ اس کے دل میں خوف خدا نہ پیدا ہو اور حکم خدا کو ٹالتے ہوئے اسے شرم نہ آئے اور اس پر لرزہ طاری نہ ہو؟
ایک ہی صف میں کھڑے ہوگئے محمود و ایاز
نہ کوئی بندہ رہا اور نہ کوئی بندہ نواز
یہ وہ کڑی ہے جو عابد اور معبود کے تعلق کو براہ راست جوڑتی ہے اور مخلوق کو اپنے خالق حقیقی کی اطاعت کے لیے تیار کرتی ہے، نماز نجات کا بہترین ذریعہ اور جنت کی کنجی ہے۔ یہ انسان کے دل میں خوف خدا پیدا کرتی ہے جس کے نتیجے میں وہ دنیا میں ہر قسم کے خوف سے آزاد ہو جاتا ہے۔
خشوع و خضوع سے ادا کی جانے والی نماز کا تو کوئی جواب ہی نہیں، اگر کوئی شخص نماز کو محض فرض اور حکم الٰہی جان کر بھی پابندی اور باقاعدگی سے ادا کرتا ہے اور اس کے مطلب و معنی سے بھی نا آشنا ہے تب بھی خدا کا خوف اور اس کے حاضر و ناظر ہونے کا یقین اور روز محشر اس کی عدالت میں حاضری کا اعتقاد اسے مختلف گناہوں سے باز رکھنے کے لیے بہت کافی ہے، نماز انسان کو یہ احساس دلاتی ہے کہ عبادت کے لائق صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے اور وہی اس کا اصل بادشاہ اور مالک حقیقی ہے، اس وقت ہمیں اپنے ایک بزرگ حبیب الرحمٰن صاحب یاد آ رہے ہیں جن کی زبان پر اٹھتے بیٹھتے لفظ ''بادشاہ'' جاری و ساری رہا کرتا تھا۔ یہ ہمارے بچپن کا زمانہ تھا، جب اللہ بخشے ہمارے ماموں جان رات کے وقت ہمیں کہانی سناتے تو آغاز کلام ان الفاظ سے کرتے ''ایک تھا بادشاہ، ہمارا تمہارا خدا بادشاہ''۔
مشاہدے سے ثابت ہے کہ نماز نہ صرف ہزار برائیوں سے بچاتی ہے بلکہ ہر طرح کے تفکرات سے بھی ہمیں چھٹکارہ دلاتی ہے۔ بڑی سے بڑی پریشانی کے عالم میں بھی جب آدمی صدق دل سے اپنے آقا کے حضور ہاتھ باندھ کر کھڑا ہوتا ہے اور سجدہ شکر بجا لاتا ہے تو اس کا دل ہلکا ہو جاتا ہے اور اس کے دماغ پر چھائی ہوئی مایوسی کے گھنے بادل ذرا دیر میں چھٹ جاتے ہیں۔ اب اگر انسان اسی نماز کو سمجھ کر ادا کرے اور اسے یہ معلوم ہو کہ وہ کیا پڑھ رہا ہے تو نماز کی تاثیر دو آتشہ ہو جائے گی اور بندگی کا اصل لطف حاصل ہو جائے گا۔
نماز سے پہلے اس کی ادائیگی کی دعوت دی جاتی ہے جو اذان کہلاتی ہے۔ ہر روز پانچ مرتبہ بلا ناغہ بلند ہونے والی یہ آواز ایک انوکھی پکار ہے جو آپ کو یاد دلاتی ہے کہ ''زمین میں جتنے بڑے بڑے خدائی کے دعویدار نظر آتے ہیں وہ سب کے سب ہیچ ہیں، زمین و آسمان میں صرف اور صرف ایک ہی ہستی ہے اور وہی عبادت کے لائق ہے۔ بس اسی کی عبادت میں دنیا اور آخرت کی بھلا مضمر ہے''۔ ممکن نہیں کہ کسی مسلمان کے دل میں ایمان کی ذرا سی بھی رمق موجود ہو اور وہ اذان کی صورت میں زبردست پکار کو سن کر اپنی جگہ بیٹھا رہے اور اپنے مالک کی بارگاہ میں حاضری کے لیے دوڑ نہ پڑے۔
آپ سے کیا پردہ، اپنی ہی زندگی کا ایک واقعہ بیان کیے دیتے ہیں، مغرب کے وقت ایم۔ اے جناح روڈ پر واقع ریڈیو پاکستان سے ڈیوٹی سے فارغ ہو کر گھر کا رخ کیا تو برابر کی گلی میں واقع مسجد سے اذان کی صدا بلند ہوئی ''اللہ اکبر، اللہ اکبر'' لمحہ بھر کے لیے ہمارے قدم رک گئے اور اس کے بعد ہم لمبے لمبے ڈگ بھرتے ہوئے آگے کی جانب بڑھ گئے، جوں ہی ہم اردو بازار کے قریب پہنچے تو تھوڑی دور پر واقع ایک اور مسجد سے بلند ہوتی ہوئی اذان کے یہ الفاظ ہمارے دل کو چھونے لگے ''حی علی الصلوٰۃ، حی الفلاح''۔ یعنی ''آؤ نماز کے لیے'، آؤ اس کام کے لیے جس میں فلاح اور بھلائی ہے''۔ اس کے بعد دل پر قابو نہ رہا اور خود بخود اٹھتے ہوئے قدم ہمیں خانہ خدا میں مالک حقیقی کے حضور لے گئے۔ اس وقت کی کیفیت بیان سے باہر ہے۔ واقعی نماز بڑی زبردست پکار ہے جو دل کے دروازے پر بھرپور قوت کے ساتھ دستک دیتی ہے اور انسان کے پورے وجود کو جھنجھوڑ کر رکھ دیتی ہے۔ حضرت بلالؓ کی اذان کے تذکرے آج بھی ہماری روح کو تڑپا دینے اور قلب کو گرمانے کے لیے کافی ہیں۔ یہی حال بیت اللہ اور مسجد نبویؐ سے بلند ہونے والی اذانوں کا ہے جسے صرف محسوس کیا جا سکتا ہے مگر بیان کرنا انسان کے بس کی بات نہیں ہے۔
قارئین کرام! ایک نہایت اثرانگیز اذان کا قصہ ہم نے گذشتہ 14 دسمبر 2012ء کو اپنے کالم بعنوان ''راجا صاحب'' میں آپ سے بیان کیا تھا جس کی یاد ہمارے قلب و ذہن میں ہمیشہ تازہ رہے گی۔ اس وقت ہمیں ایسا ہی ایک اور واقعہ یاد آ رہا ہے جو ہمارے کالج کے زمانے کا ہے۔ حسب معمول صبح کے وقت جب ہم کالج پہنچے تو اپنے ایک کلاس فیلو ویریندر کمار کو اضطرابی کیفیت میں ادھر سے ادھر اور اُدھر سے ادھر ٹہلتے ہوئے پایا، موصوف نہ صرف ہندو تھے بلکہ کٹر قسم کے برہمن بھی تھے۔
''یار! کہاں ہو تم؟ کب سے تمہارا انتظار کر رہا ہوں''۔ ویریندر نے بے تابانہ لپکتے ہوئے کہا۔
''ارے بھئی! خیر تو ہے؟'' ہم نے بے ساختہ دریافت کیا۔
''بس یار! صبح سویرے سے حیران اور پریشان ہوں، دل بری طرح دھڑک رہا ہے، ایسی بے قراری مجھے اپنی زندگی میں اس سے پہلے کبھی نہیں ہوئی تھی''۔ ویریندر کی کیفیت اس کے چہرے سے عیاں تھی۔
''او بھائی! کچھ بتاؤ بھی تو!'' ہم نے استفسار کیا تو وہ یوں گویا ہوا۔
''تمہیں خود بھی اندازہ ہے کہ یہ دسمبر کا مہینہ ہے اور یہاں دلّی میں آج کل کس کڑاکے کی سردی پڑ رہی ہے، لحاف سے باہر جسم کا کوئی حصہ نکالو تو ڈر یہ ہوتا ہے کہ کہیں برف کی طرح جم ہی نہ جائے، گذشتہ رات ٹھنڈ ذرا زیادہ ہی تھی اور باہر ہوا بھی بڑی سرد تھی۔ بس یوں سمجھ لو کہ جسم ٹھنڈ کی وجہ سے قلفی کی طرح جمتا ہوا محسوس ہو رہا تھا۔ میں اپنے فلیٹ میں دوسری منزل پر اپنے کمرے میں بستر پر بھاری بھرکم لحاف کے اندر دبکا ہوا پڑا تھا۔ سردی کی شدت کی وجہ سے مجھے نیند نہیں آ رہی تھی، بس رہ رہ کر کروٹیں بدل رہا تھا کہ یکایک آنکھ لگ گئی۔ کب سویا کچھ پتہ نہیں۔ صرف اتنا یاد ہے کہ سوتے سوتے میرے کانوں میں ایک عجب آواز سنائی دی۔ نجانے اس آواز میں کیسا جادو تھا کہ مجھ سے رہا نہ گیا۔ اس آواز میں مقناطیس سے زیادہ کشش تھی جو مجھے بستر سے اٹھا کر پنج منزلہ عمارت کی چھت کے اوپر لے گئی۔ اس آواز کے آخری الفاظ مجھے اچھی طرح یاد ہیں ''اللہ اکبر، اللہ اکبر!'' جب یہ آواز تھمی تھی تو مجھے سردی کا بھی احساس ہوا اور یہ اندازہ بھی ہوا کہ میں اپنے گرم بستر میں نہیں بلکہ کھلی چھت پر کھڑا ہوا ہوں''۔
قارئین کرام! اصل قصہ یہ تھا کہ یہ مسجد دہلی کے علاقے پہاڑ گنج میں واقع تھی جس پر 1947ء کے فسادات میں ہندوؤں نے قبضہ کر لیا تھا۔ محکمہ اوقاف کی قانونی چارہ جوئی کے نتیجے میں کئی سال کی مقدمے بازی کے بعد عدالتی فیصلے کے مطابق بڑی مشکل سے یہ مسجد واگزار ہوئی اور کسی بندہ مومن کے منہ سے وہ اذان فجر بلند ہوئی جس کے بارے میں علامہ اقبال نے یہ فرمایا تھا کہ:
وہ سحر جس سے لرزتا ہے شبستاں کا وجود
ہوتی ہے بندہ مومن کی اذاں سے پیدا
غور فرمائیں کہ جو شخص دن میں پانچ مرتبہ اذان کی یہ آواز سنتا ہے اور سمجھتا ہے کہ اسے کس بڑی چیز کی گواہی دی جا رہی ہے اور کیسے زبردست بادشاہ کے دربار میں حاضری کے لیے طلب کیا جا رہا ہے، بھلا کیونکر ممکن ہے کہ اس کے دل میں خوف خدا نہ پیدا ہو اور حکم خدا کو ٹالتے ہوئے اسے شرم نہ آئے اور اس پر لرزہ طاری نہ ہو؟