ڈرون حملوں کا قانونی جواز کوئی نہیں
ڈرون حملوں سے انتہاپسندی اور جہادکاجذبہ پیداہو رہا ہے جبکہ امریکی انتظامیہ اس کے استعمال کو ترک کرنے پر تیار نہیں.
جب سے امریکا مارے غصے کے اپنے دشمنوں کو صفحہ ہستی سے مٹانے کے درپے ہے تب سے پاکستان اور پاکستانی شہریوں کا مطالبہ رہا ہے کہ ڈرون حملوں کے ذریعے پاکستان کے قبائلی علاقوں میں قتل عام فوری بند کیا جائے۔ جس کے جواب میں امریکا ہمیشہ یہی کہتا رہا ہے کہ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہیں ہیں جنھیں ختم کرنے کے لیے ڈرون حملے کیے جاتے ہیں چونکہ یہ موثر ہتھیار ہے اس لیے ان حملوں کو بند نہیں کیا جا سکتا۔ وقت گزرنے کے ساتھ امریکی ڈرون حملوں میں اضافہ ہوتا رہا اور پاکستانی احتجاج میں کمی کو محسوس کیا جاتا رہا ہے مگر اب ڈرون حملوں پر پاکستان نے اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کمیشن میں مقدمہ دائر کرنے کا فیصلہ کیا ہے، نجی ٹی وی نے بتایا ہے کہ مقدمہ مارچ میں دائر کیا جائے گا تاہم اس سے قبل عالمی حمایت کے حصول کی کوشش بھی کی جائے گی جب کہ یہ مسئلہ ستمبر میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں بھی اٹھایا جائے گا۔ پاکستان کا موقف ہے کہ ڈرون حملے انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہیں۔
پاکستان نے یہ ہمت اس وقت کی ہے جب اقوام متحدہ پاکستان اور افغانستان سمیت متعدد ممالک میں امریکا، برطانیہ اور اسرائیل کے ڈرون حملوں کی تحقیقات پر آمادہ ہو گیا، واضح رہے کہ اقوام متحدہ نے تحقیقات کے لیے برطانوی ماہر قانون بن امریسن کی سربراہی میں 4 رکنی کمیٹی تشکیل دی ہے جو اپنی تحقیقات کے تعین کے لیے 20 سے 30 ڈرون حملوں کا جائزہ لے گی۔ ڈرون حملوں میں نشانہ بننے والے عام شہریوں کی تفصیل جمع کی جائے گی جو چند ماہ میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں پیش کی جائے گی جس کے بعد ڈرون حملوں کے خلاف مزید کارروائی رپورٹ کی روشنی میں کی جائے گی۔ رپورٹ کے مطابق تحقیقاتی کمیٹی ان ممالک میں بھی ڈرون حملوں کا جائزہ لے گی جو اقوام متحدہ میں باضابطہ طور پر رجسٹرڈ نہیں۔ تحقیقاتی کمیٹی ڈرون حملوں کے بعد امدادی ٹیموں پر کیے جانے والے ڈرون حملوں کو سنگین جنگی جرائم میں شامل کرے گی۔ یاد رہے کہ اقوام متحدہ میں ڈرون حملوں کی تحقیقات کے لیے پاکستان اور اقوام متحدہ کے 2 مستقل سلامتی کونسلرز نے درخواست دائر کی تھی۔
ادھر امریکا نے پاکستان کے قبائلی علاقوں میں منتخب ٹارگٹس پر کھلم کھلا ڈرون حملے کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ کے مطابق ڈرون حملوں کے حوالے سے نئی پالیسی تشکیل دی جا رہی ہے جس کی رو سے سی آئی اے کو پاکستان سمیت دنیا بھر میں ڈرون حملوں کے لیے کھلی چھوٹ مل جائے گی، یوں امریکا کو اپنی لاقانونیت کے لیے قانونی لبادہ میسر آ جائے گا۔ نئی پالیسی کا اہم ترین مقصد افغانستان سے امریکی انخلاء کے وقت القاعدہ اور طالبان کو مزید کمزور کرنا ہے تا کہ وہ امریکا کے لیے مزید مشکلات پیدا نہ کر سکیں۔ اس حوالے سے دہشت گردوں کی نئی لسٹ بھی بنائی گئی ہے جس میں شامل لوگوں کو چن چن کر ہلاک کیا جائے گا۔ امریکی اخبار کے مطابق اوباما انتظامیہ نے دہشت گردی کے خلاف جنگ کے قواعد و ضوابط مرتب کیے ہیں جو تکمیل کے مراحل میں ہیں، دستاویز مکمل ہونے کے بعد منظوری کے لیے صدر اوباما کو بھیجی جائے گی۔ ''پلے بک'' نامی اس دستاویز میں قوانین اور دنیا بھر میں جاری انسداد دہشت گردی سے متعلق امریکی آپریشنز کی پالیسی کو واضح کیا گیا ہے۔ اب امریکی حکام کسی شخص کو دہشت گرد قرار دے کر اس کا نام لسٹ میں پلے بک کے اصولوں کے تحت ڈال سکیں گے، دستاویز کے تحت سی آئی اے کو پاکستان میں ایک سال یا اس سے زائد عرصے تک ڈرون حملے کرنے کی کھلی چھٹی دی گئی ہے اور ڈرون حملے جاری رکھنے یا بند کرنے کا فیصلہ زمینی حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے کیا جائے گا، اس کا پلے بک سے تعلق نہیں ہو گا۔
جولائی 2010ء کے وسط میں جنیوا میں اقوام متحدہ کے اجلاس میں پروفیسر فلپ السٹن نے ہدف بنا کر یا نشانہ بنا کر بالخصوص ڈرون حملے اور ان سے ہونے والی ہلاکتوں میں بیشتر کو ماورائے عدالت اور غیر قانونی ہلاکتیں قرار دیا تھا۔ فلپ السٹن اقوام متحدہ کے اجلاس میں اپنی وہ رپورٹ پیش کر رہے تھے جو انھوں نے ایک برس کی تحقیق کے بعد تیار کی تھی۔ اس رپورٹ میں امریکی ڈرون حملوں میں شدت اور پاکستان اور افغانستان میں ان حملوں سے بڑھتی ہوئی ہلاکتوں کے تناظر میں فلپ السٹن کا کہنا تھا کہ ایسے نئے قوانین کی ضرورت ہے جو ان ڈرون حملوں کی منطق اور حد طے کر سکیں۔
اس رپورٹ کے تناظر میں فلپ السٹن کی بی بی سی اردو سروس کے ساتھ گفتگو میں جب ان سے یہ پوچھا گیا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان امریکا کا اتحادی ہے اور اگر امریکا دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر حملے کر رہا ہے تو یہ حملے غیر قانونی کس طرح ہو سکتے ہیں؟ فلپ السٹن کا کہنا تھا کہ یہ ایک اہم نکتہ ہے، جہاں تک تھیوری کا تعلق ہے تو اگر میرا ملک شدید جارحیت کا شکار ہے تو میں اپنی مدد کے لیے کسی دوسرے ملک کو بلا سکتا ہوں، لیکن اس کے باوجود اس دوست ملک کو یہ اختیار حاصل نہیں ہو جاتا کہ وہ انسانی حقوق سے متعلق بین الاقوامی قوانین کو نظرانداز کرے۔ لہٰذا اگر ایسی صورت حال بھی موجود ہے جس میں کسی دوسرے ملک کی مداخلت کو بالکل جائز قرار دیا جائے تب بھی لڑائی سے متعلق بین الاقوامی قوانین کی ہر اعتبار سے پاسداری کی جانی چاہیے۔ امریکا یہاں جو تھیوری استعمال کر رہا ہے وہ یہ ہے کہ اسے مسلح حملے کی صورت میں اپنے دفاع کا حق حاصل ہے۔
یہ حملہ نو گیارہ کو ہوا اور ممکنہ طور پر اس میں دہشت گردی کی دوسری کارروائیاں بھی شامل ہیں اور ان مسلح حملوں کی وجہ سے امریکا کو جوابی کارروائی کا حق حاصل ہو جاتا ہے، لیکن بین الاقوامی قوانین کے مطابق جوابی کارروائی کا وقت کے لحاظ سے اور تناسب کے حساب سے بھی اصل حملے سے بہت قریبی تعلق ہونا چاہیے۔ لہٰذا زیادہ تر قانونی ماہرین یہی کہیں گے کہ گیارہ ستمبر کے حملوں کے نو برس بعد یہ تعلق اتنا مضبوط نہیں کہ دنیا میں کہیں بھی اس قانون کے تحت کارروائی کا جواز فراہم کیا جا سکے۔ میں نے اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے سامنے یہی بات رکھی تھی کہ اگر ہم یہ دلیل مان لیتے ہیں تو اقوام متحدہ کے چارٹر میں طاقت کے استعمال پر جو پابندی ہے اس کا کوئی مطلب نہیں رہ جائے گا۔
فلپ السٹن بعض موقعوں پر ان حملوں کو قانونی اور جائز اور بعض موقعوں پر غیر قانونی طور پر جائز قرار دیا جائے۔ اس پر ان کا کہنا تھا کہ مسئلہ یہ ہے کہ قانونی اعتبار سے کسی ڈرون سے داغا جانے والا میزائل کسی ہیلی کاپٹر یا طیارے یا کسی ایک فوجی کی جانب سے داغے جانے والے میزائل سے مختلف نہیں ہے، کوئی بنیادی فرق نہیں ہے تو ڈرون سے میزائل اسی صورت میں داغے جا سکتے ہیں جب ہتھیاروں سے لڑائی ہو رہی ہو اور یہ میزائل صرف مسلح گروپوں کے جنگجوؤں کے خلاف یا ان عام شہریوں کے خلاف استعمال کیے جا سکتے ہیں جو لڑائی میں براہ راست حصہ لے رہے ہوں۔ یہ لوگوں کا ایک محدود گروپ ہی ہو سکتا ہے، صرف یہی وہ حالات ہیں جن میں کسی کو مارنے کے لیے ڈرون استعمال کیے جا سکتے ہیں۔
پاکستان میں اب تک 347 ڈرون حملے کیے گئے جن میں سب سے زیادہ حملے گزشتہ 30 دنوں کے دوران کیے گئے جن کی تعداد 9 ہے۔ لندن میں قائم تحقیقاتی صحافت کے ادارے کے مطابق 2004ء کے بعد سے پاکستان میں امریکی ڈرون حملوں میں 2627 اور 3457 کے درمیان افراد مارے گئے ہیں جن میں 475 سے 900 تک عام شہری تھے۔ واضح رہے کہ یہ ریکارڈ مغربی ہے اور اصل اعداد و شمار ان سے کہیں مختلف ہو سکتے ہیں۔ ان حملوں پر پاکستانی حکومت عوامی سطح پر تنقید کرتی ہے اور سالمیت کی خلاف ورزی قرار دیا جاتا ہے لیکن تمام تر شور شرابے اور احتجاج کے باوجود امریکی انتظامیہ اس مہلک ہتھیار کے استعمال کو ترک کرنے پر تیار نہیں جب کہ ان ڈرون حملوں سے مزید انتہا پسندی اور جہاد کا جذبہ پیدا ہو رہا ہے۔