قوموں کا عروج و زوال

قوموں کے عروج و زوال کے پیچھے سماج اور اس میں بسنے والے افراد کا کردار، سوچ، رویہ اور عمل کلیدی کردار ادا کرتے ہیں.


ماجد صدیقی February 06, 2013

انسانی تاریخ میں ایسا کئی بار دیکھا گیا ہے کہ بظاہر زوال اور پستی کی جانب گامزن قومیں اچانک اٹھیں، انھوں نے اپنی قوت کو یکجا کیا اور تاریخ کے اوراق میں اپنے بلند کردار کا لوہا منوایا، عروج و زوال کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ یا دائرہ دراصل فطرت کے خزائن کا حصہ ہے۔ تاہم اس ضمن میں ایک سوال ضرور ابھرتا ہے اور وہ یہ کہ کیا قومیں خود بخود عروج و زوال کے دائرے میں گھومتی رہتی ہیں یا یہ کہ ان کا کردار، رویہ اور عمل ان کے عروج یا زوال کی منزلیں متعین کرتا ہے۔ یہ بات طے ہے کہ انسان اور اس کا سماج ہر وقت تبدیلی کے عمل سے گزرتے رہتے ہیں مگر یہ تبدیلی کبھی مثبت ہوتی ہے تو کبھی منفی اثرات لے کر آتی ہے۔ منفی اور مثبت تبدیلی کے اثرات کے اصول کو اگر حتمی تصور کیا جائے تو ہمیں اوپر اٹھائے ہوئے سوال کہ کیا عروج و زوال کا دائرہ ایک خودکار نظام (Automation) کے ذریعے انسان اور اس کے سماج کو گھماتا رہتا ہے کا جواب باآسانی مل جاتا ہے۔

تاریخ کے طالب علم یہ بات بخوبی جانتے ہیں کہ قوموں کے عروج و زوال کے پیچھے سماج اور اس میں بسنے والے افراد کا کردار، سوچ، رویہ اور عمل کلیدی کردار ادا کرتے ہیں، کوئی اور مثال دینے کی ضرورت نہیں۔ اس بات کو ثابت کرنے کے لیے یہ بتانا کافی ہے کہ آج سے چودہ سو سال قبل عرب معاشرہ منفی سوچ کے سانپ کے چنگل میں پھنسا ہوا تھا، لیکن تب تاریخ کے ایک عظیم ترین انسان نے جا بجا پھیلے اس منفی رویے کا اختتام کیا اور مثبت سوچ کا ایک ایسا انقلاب بپا کیا جس کے نتیجے میں Within no time وہی ٹوٹا پھوٹا ہر سو بکھرا معاشرہ ایک دھارے کی شکل اختیار کر گیا۔

دنیا کے نقشے پر نظر ڈالنے سے برطانیہ نامی ایک چھوٹا سا ملک دکھائی دیتا ہے جو دنیا کے سرسبز اور شاداب براعظم یورپ کے آخری حصے پر ہے۔ نقشے کو غور سے دیکھنے پر پتہ چلتا ہے کہ وہ یورپ سے تھوڑا سا کٹا ہوا بھی ہے اور خود کو چھوٹی سی سمندری راہداری کے ذریعے یورپ سے جوڑتا ہے۔ یہ ہمارے ملک سے آبادی اور اراضی دونوں سے چھوٹا ہے، مگر اپنی سیاسی، اقتصادی اور بین الاقوامی ہئیت میں یہ ہم سے کئی گنا بڑا ہے۔ آج سے ڈھائی تین سو سال قبل جب اس چھوٹے سے برطانیہ نے پوری دنیا پر قبضہ کرنے اور اپنی طاقت کا سکہ جمانے کی ٹھانی اور اپنے خوابوں کی تعبیر ڈھونڈنے کے لیے مشرق اور مغرب کے سمندروں اور میدانوں کی جانب اپنی فوجیں دوڑائیں تب وہ اپنے بے انتہا بڑے خواب کے مقابلے میں بہت ہی چھوٹے سے تھے۔

مگر ان کے پاس علم اور عقل کے بیش بہا خزانے تھے، جن کے بل بوتے پر انھوں نے جدید عسکری حربے اپنا لیے تھے، جو اس وقت کی دنیا کو زیر کرنے کے لیے کافی تھے، میں اکثر اوقات یہ سوچ کر حیران ہوتا ہوں کہ آج سے ڈھائی تین سو سال قبل کا برطانیہ یقینا آبادی کے لحاظ سے اب سے بھی چھوٹا ہو گا، تب انھوں نے کیونکر اپنی حیثیت سے بڑا خواب دیکھ لیا؟ اور وہ بظاہر غیر حقیقی خواب حقیقت میں کیسے تبدیل ہو گیا، اس کا جواب غالباً اقبال کی اس سطر میں مل جائے، ''یقین محکم' عمل پیہم، محبت فاتح عالم'' اپنے اس دیوہیکل خواب کے سرے پکڑ کر چھوٹی سی برطانوی قوم جب نکل پڑی تو کوئی بھی قوم ان کے سامنے ٹھہر نہ سکی اور انگریز نے آسٹریلیا سے جنوبی امریکا تک کے علاقوں کو اپنے پاؤں کی دھول بنا دیا، کہا جاتا ہے کہ ایک وقت ایسا تھا جب برطانوی راج کا سورج غروب نہ ہوتا تھا۔

دیو قامت جغرافیائی حدود میں براعظم آسٹریلیا، انڈیا، مشرق وسطیٰ اور ایشیا کے دوسرے علاقے اور افریقہ کے کئی ملکوں کے شاندار میدان، پہاڑیاں، دریا، سمندر سب ان کے قبضے میں آ گئے، حد تو یہ ہے کہ بحرالکاہل میں موجود چھوٹے چھوٹے جزیروں تک میں برطانیہ کا راج قائم ہو گیا۔ صرف چند لاکھ لوگوں نے دنیا کے کروڑوں افراد کو اپنے احکام کا تابع بنا لیا، مگر یہ آخر کیسے ممکن ہو سکا تھا؟ کیا یہ محض بندوق کی طاقت کے بل بوتے پر ہوا تھا؟ جی نہیں، یہ اعلیٰ درجے کے اتحاد اور علم کی طاقت کا Ultimate نتیجہ تھا۔ جس نے اپنے سے کئی گنا بڑے خواب کی تعبیر تلاش کر لی تھی، اور اسے حقیقت کا روپ دے دیا تھا، مگر اس وقت کا برطانیہ محض عسکری پیش قدمی نہیں کر رہا تھا بلکہ وہ اسی عرصے کے دوران صنعت و حرفت و تجارت کے شعبوں میں بھی عظمت کے جھنڈے گاڑ رہا تھا۔

اور دنیا کا پہلا انڈسٹریل زون مانچسٹر میں قائم کر رہا تھا۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کی بدولت وہ زندگی کے بیشتر شعبوں میں بھی ترقی کی منزلیں بہت تیزی سے طے کر رہا تھا۔ جس کے ساتھ ساتھ علم و دانش کے اعلیٰ درجات کے حصول کے لیے بڑی بڑی درسگاہیں بھی قائم کی جا رہی تھیں، جہاں برطانیہ کی نوجوان نسلیں، سائنس، آرٹس اور دوسرے ڈسپلن کے ایک ایک شعبے میں عقلیت پر مبنی تحقیق کر رہی تھیں۔ جس کے نتیجے میں ایک نئی، جدید اور ترقی پسند سوچ پروان چڑھ رہی تھی جو دنیا بھر میں برطانیہ کی حیثیت کو ممتاز کر رہی تھی۔ بالکل اس عرصے کے دوران ان کے پاس علم و ادب و دانش کے میدان میں بھی بڑے بڑے لوگ پیدا ہو رہے تھے جو شاعری، ڈرامہ، تھیٹر، موسیقی، غرض یہ کہ فنون لطیفہ کا ہر شعبہ مثبت انداز میں تیزی سے ترقی کی راہ پر گامزن ہو چکا تھا۔ شیکسپیئر اور برٹرینڈ رسل جیسے مایہ ناز ادیب و دانشور پوری دنیا میں برطانیہ کے لیے بے انتہا عزت و تکریم کا باعث بن رہے تھے۔

اس سارے منظر نامے پر اگر غور کیا جائے تو نتیجے کے طور پر یہ بات ظاہر ہو جائے گی کہ اس وقت کے برطانیہ کا ہر شخص غفلت کی نیند سے بیدار ہوا معلوم ہوتا ہے، اور ہر لمحہ قوم اور ملک کی سر بلندی کے لیے کام کرتا نظر آتا ہے، کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ ہٹلر کی جانب سے پوری دنیا کو دوسری جنگ عظیم میں جھونکنے کی وجہ سے برطانیہ لڑتے لڑتے کمزور پڑگیا، جس کے نتیجے میں انھوں نے بالآخر اپنی عسکری قوت کو سمیٹ لیا اور خود کو برطانیہ تک محدود کر لیا، مگر تاریخ کے ایک مخصوص دور میں ان کی ہم جہتی (Multidimensional) پیش قدمی تاریخ کا ایک اہم باب ہے ۔

آج پاکستانی معاشرہ کئی طرح کے سنگین مسائل کا سامنا کر رہا ہے، بحیثیت مجموعی ہمارا معاشرہ مکمل طور پر دیوالیہ پن کا شکار ہے اور بہت تیزی سے بے انتہا پستی کی طرف گامزن ہے، وہ جس راستے پر رواں دواں ہے اس کی منزل تاریخ کی بدترین تباہی ہے، کیا کوئی معاشرہ محض جھوٹے نعروں اور خوامخواہ کے تصورات کے بل بوتے پر یکجا رہ سکتا ہے؟ کیا یہ ممکن ہو سکتا ہے کہ کوئی قوم علم سے نظر چراتی رہے اور جہالت کی انگلی پکڑ لے اور نتیجے کے طور پر عظمت کی بلندیوں کو چھولے؟ کیا یہ ممکن ہے کہ ہجوم اعتماد اور یقین کی بے حرمتی کرتا رہے اور پھر دنیا کو زیر کرنے کے خواب بھی دیکھتا رہے؟ کیا یہ ممکن ہو سکتا ہے حکمران قومی خزانے کو لوٹ کا مال سمجھ لیں اور ملک کی معاشی اور اقتصادی ریڑھ کی ہڈی ٹوٹنے سے بچ جائے؟ کرپشن اور کرائم کا ریٹ بڑھتا رہے اور معاشرہ مستحکم ہو جائے، یہ اور اس طرح کے کئی سوالات کے جواب ندارد ہیں۔

آج پاکستانی معاشرے میں رہنے والے افراد ٹریفک سگنلز پر گرین لائٹ کے جلنے کا انتظار نہیں کرتے اور ون وے ٹریفک کے اصول کو توڑتے ذرہ برابر نہیں جھجھکتے، علم کا حصول یہاں صرف نوکری کے حصول کا ذریعہ ہے اور تعلیمی درسگاہیں طوفان کی زد میں معلوم ہوتی ہیں۔ جہاں سے راستے علم و دانش کی طرف نہیں، مزید جہالت اور اندھیروں کی جانب جاتے نظر آتے ہیں، طب اور طبیب دونوں بک چکے ہیں، اور اسپتالوں کی چوکھٹوں پر مریض کراہتے کراہتے، سسکتے سسکتے دم توڑ رہے ہیں، حکمرانوں نے ملک کو ریاست کے بجائے ذاتی جائیداد تصور کر رکھا ہے، جہاں چوری، ڈاکہ زنی، بھتہ خوری، عصمت دری، اغواء برائے تاوان، کاروکاری اور نجانے کن کن خرافات کو پانی دے کر مزید بڑا کیا جا رہا ہے۔

ایسی صورت حال میں کوئی ہجوم بھلا قوم کہلانے کی جرأت اور ہمت کیسے کر سکتا ہے؟ پیسے کی ریل پیل نے پورے معاشرے کو شب خوری کے عالم میں مبتلا کر رکھا ہے اور انسان کے وجود کی قیمت کوڑیوں سے بھی کم دام والی رہ گئی ہے، حکمراں سے لے کر بھکاری تک ایک ایک ہی سوچ کا سیلاب ہے، جو پورے معاشرے کو بہا کر نجانے کہاں لیے جا رہا ہے، جس کے سامنے پورے معاشرے کی حیثیت محض ایک تنکے جیسی رہ گئی ہے، کیا ہم کبھی ایک جگہ رک کر کچھ سوچنے اور طے کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں، یا یہ کہ جہالت کے اندھے گھوڑے کو سرپٹ دوڑاتے دوڑاتے ہم ایک دن اندھی کھائی میں گر جائیں گے، تاریخ کا یہ بھیانک منظر اب ہم سے زیادہ دور نظر نہیں آتا اور اس خطرناک تباہی سے ہمیں صرف علم و استدلال، عقل و ادراک، عمل اور استقلال اور انصاف ہی بچا سکتا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔