ڈاکٹر محمد علی شاہ ایک عظیم نقصان

اصغر علی شاہ اسٹیڈیم میں اکثر میں نے سابق بنگلہ دیشی کرکٹرز اور افغانی پلیئرز کو نہاری، پائے اڑاتے ہوئے دیکھا.


Saleem Khaliq February 06, 2013
[email protected]

لاہور: ''ڈاکٹر صاحب کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے ان کیلیے دعا کریں'' پیر کے روز جب اے او کلینک کے ایڈمنسٹریٹر نصرت فہیم نے مجھ سے فون پر یہ بات کہی تو ان کی روندھی ہوئی آواز سے ہی یہ اندازہ ہو گیا کہ شائد اب کوئی بُری خبر سامنے آنے والی ہے، چند گھنٹوں بعد موبائل پر ایس ایم ایس سے تصدیق بھی ہو گئی کہ ڈاکٹر محمد علی شاہ اپنے چاہتے والوں کو چھوڑ کر چل بسے ہیں،موت کا ذائقہ ہر انسان کو چکھنا ہے مگر ایسے لوگ بہت کم ہوں گے جو آخری وقت تک ہار نہیں مانتے، کسی کو اگر پتا چلے کہ اسے کینسر ہے تو وہ یہ سن کر ہی ڈھیر ہو جائے اورپھر آہستہ آہستہ موت کی آغوش میں جانے کا انتظار کرے، مگر ڈاکٹر شاہ کے ساتھ ایسا نہیں تھا وہ اس حقیقت سے بخوبی واقف تھے کہ اب ان کے پاس کم وقت ہے لہذا مزید جتنے اچھے کام کر سکتے ہیں کر گذریں، اسی لیے انھوں نے یہی کیا،ڈاکٹر شاہ نے اپنی زندگی کے آخری دنوں میں ایک قاری صاحب کی خدمات بھی حاصل کی ہوئی تھیں جن کے ساتھ وہ روزانہ تلاوت کرتے ، میں بھی ان ہزاروں لوگوں میں شامل ہوں جو شاہ صاحب سے قربت کا دعویٰ کرتے ہیں ، ہماری عمروں میں خاصا فرق ہے مگر وہ مجھے ہمیشہ سلیم بھائی کہہ کر مخاطب کرتے،ہماری پہلی ملاقات 15،16سال قبل ہوئی جب میں کرکٹ میگزین''اخبار وطن'' کا ایڈیٹر تھا، میری ایک رپورٹ سے متاثر ہو کر انھوں نے مجھے ملاقات کیلیے بلایا اور پھر گہرا تعلق قائم ہوگیا، جن دنوں وہ کراچی میں انٹرنیشنل ورلڈالیون کے میچز کرانا چاہتے تھے کسی نے پی سی بی حکام کے کان بھر دیے کہ ان کا مقصد چیئرمین بننا ہے حالانکہ ان کے ذہن میں ایسی کوئی بات نہیں تھی، اسی لیے ایک دن لاہور میں بورڈ کے دفتر جا کر فیصلہ کن گفتگو کی، بہت کم لوگوں کو علم ہو گا کہ ڈاکٹر شاہ نے اس وقت اپنی صحت کے معاملات سے بورڈ آفیشلز کو آگاہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ ''میرے پاس صرف سال، ڈیڑھ سال ہیں اس دوران کھیلوں کیلیے جو کچھ کر سکوں کرنا چاہتا ہوں، میرا کوئی اور مقصد نہیں ہے'' ان کا یہ جذبہ دیکھ کر مخالفین بھی تعاون پر مجبور ہو گئے اور پھر میچز کے انعقاد سے ملکی سونے میدان آباد ہو گئے تھے،طعبیت کی خرابی کے باوجود انھیں دن رات کام کرتے دیکھ کر کئی بار میں نے ان سے کہا کہ آپ آرام کیا کریں، وہ ہمیشہ کہتے کہ آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں ، مجھے اپنی صحت کا خیال رکھنا چاہیے اور پھر اگلے روز پھر مصروف ترین دن گذارتے۔

ڈاکٹر شاہ جیسے آل رائونڈرز بیحد کم ہوں گے، ڈاکٹر، کرکٹر، کمنٹیٹر، سیاستدان سمیت ان کے کئی روپ تھے، وہ جس کام میں ہاتھ ڈالتے کامیابی قدم چومتی، ان میں مزاح کی حس بھی کمال کی تھی، کئی بار ایسا ہوا کہ نجی محفلوں میں انھوں نے کہا کہ سلیم بھائی کا اصغر علی شاہ اسٹیڈیم میں ایک ایسا ریکارڈ ہے جو شائد ہی کوئی توڑ سکے، اس پر لوگ مرعوب ہو کر میری جانب دیکھتے تو وہ اچانک کہہ اٹھتے دراصل انھوں نے سب سے زیادہ وائیڈ بالز کی تھیں، اس پر مجھ سمیت سب قہقہہ لگاتے، اخبار وطن اور ایکسپریس کی جانب سے کھیلے گئے وہ نائٹ میچز مجھے ہمیشہ یاد رہیں گے، جب بیٹسمین سمجھتا کہ ڈاکٹر شاہ کی فلائیٹیڈ گیند کو باآسانی گرائونڈ کے باہر پہنچا دے گا مگر اکثر وکٹ گنوا بیٹھتا،لندن اور کراچی میں ان کے گھر، اے او کلینک کے آپریشن تھیٹر کے اندر بنے کمرے اور اصغر علی شاہ اسٹیڈیم جہاں کہیں ہم لوگ بیٹھتے ڈاکٹر صاحب سے ایسی باتیں سننے کو ملتیں جو دلچسپ ہونے کے ساتھ ہمارے لیے سبق آموز بھی ہوتیں، ان کی یادداشت بہت زبردست تھی، ایک بار کسی سے مل لیتے تو بھولتے نہیں تھے، دنیا بھر میں ان کے دوست موجود تھے، ہر سیاسی تنظیم ان کی عزت کرتی تھی، سخت کشیدگی کے دنوں میں بھی اصغر علی شاہ اسٹیڈیم میں رمضان ٹورنامنٹس کا انعقاد ہوا اور پہاڑوں پر رہنے والے لڑکوں نے بھی سیکیورٹی ڈیوٹی انجام دی، وہ کھانے سے زیادہ کھلانے کے شوقین تھے، اصغر علی شاہ اسٹیڈیم میں اکثر میں نے سابق بنگلہ دیشی کرکٹرز اور افغانی پلیئرز کو نہاری، پائے اڑاتے ہوئے دیکھا جو وہ فرمائش کر کے منگواتے تھے، ڈاکٹر صاحب سے آخری ملاقات اب ہمیشہ یاد رہے گی، مجھے بتایا گیا کہ آغاخان اسپتال میں کوئی ان کے کمرے میں نہیں جا سکتا البتہ برابر والے روم میں اہل خانہ سے بات کر کے خیریت دریافت کی جا سکتی ہے، میں جب وہاں گیا تو اتفاق سے اسی وقت وارڈ بوائے ناشتہ لے کر اندر داخل ہوا کمرے کا دروازہ کھلا تو شاہ صاحب کی نظر مجھ پر پڑ گئی، انھوں نے ہاتھ ہلا کر کہا کہ دعا کریں کہ جلد صحتیاب ہو جائوں، میں نے بھی یہی کہا کہ آپ ٹھیک ہوں تو تفصیل سے بات کریں گے، اس وقت وہ خاصے کمزور لگ رہے تھے مگر یہ اندازہ نہیں تھا کہ اس کے بعد ان سے ملاقات کا موقع نہیں ملے گا، انھوں نے مجھ سے وعدہ کیا تھا کہ میرے گھر پر چائے پینے آئیں گے مگر زندگی نے وفا نہ کی،اس کا مجھے رنج رہے گا۔

ایکٹر، کھلاڑی، صحافی یا زندگی کے کسی بھی شعبے سے تعلق رکھنے والا شخص ہو اگر اسے ہڈیوں سے متعلق کوئی مسئلہ ہوا تو ڈاکٹر شاہ نے اس کی ہمیشہ مدد کی، کئی بار ایسا بھی ہوا کہ جب انھیں بتایا کہ فلاں شخص بل بھرنے کی استطاعت نہیں رکھتا تو انھوں نے تمام فیس معاف کر دی، ہر سیاسی پارٹی میں ان کی بیحد عزت تھی،کئی بار ایسے میچز کا انعقاد بھی کیا جس میں بڑے بڑے مخالف سیاستدان کرکٹ کھیلتے دکھائی دیے،ان کے گھٹنوں میں شدید تکلیف تھی،آپریشن بھی کرایا مگر کرکٹ کھیلنا نہ چھوڑا، ان کے متعلق ایک واقعہ مجھے ہمیشہ یاد رہے گا، ایک بار میں انگلینڈ سے واپس آیا تو ایئرپورٹ پر اپنی تین سالہ بیٹی کو بہت گم سم پایا، گھروالوں سے پوچھا تو انھوں نے کہا کہ روڈ پر کھیلتے ہوئے چوٹ لگ گئی تھی، میں نے جب اس کا پائوں دیکھا تو وہ بُری طرح سوجا ہوا تھا، اسی وقت اسے لے کر آغا خان اسپتال گیا تو وہاں ڈاکٹر نے معائنے کے بعد کہا کہ ٹیٹنس کا انجیکشن نہیں لگوانے کے سبب انفیکشن ہو گیا، اسپتال میں داخل کرا دیں پھر دیکھتے ہیں کیا کرنا ہے، ایسے میں گھبرا کر ڈاکٹر شاہ سے رابطہ کیا تو انھوں نے کہا کہ پریشان نہ ہوں میرے گھر آ جائیں، اس وقت رات کے ڈھائی بجے ہوں گے جب ہم ان کے گھر گئے، گھٹنوں میں تکلیف کی وجہ سے وہ واکرز کے سہارے چل کر آئے اور بچی کا معائنہ کر کے چند دوائیں لکھیں، انھوں نے کہا کہ فکر کی بات نہیں ہے چار، پانچ روز میں ٹھیک ہو جائے گی اور پھر ایسا ہی ہوا۔

ڈاکٹر شاہ کئی نیک کاموں میں بھی شریک ہوتے مگر اس کی تشہیر نہیں کرتے تھے، میرے استاد صوفی صاحب نے ایک بار مجھے بتایا کہ حیدری میں وہ جگہ دیکھی جہاں لکھا ہے کہ ''یہاں غریبوں کو ہر روز دوپہر کا کھانا مفت ملتا ہے'' میں نے ہاں میں جواب دیا تو بتایاکہ وہ ڈاکٹر شاہ کی جانب سے ہی ہوتا ہے ، ہر روز نجانے کتنی بریانی کی دیگیں بٹتی ہیں، میں نے جب اس بارے میں ڈاکٹر شاہ سے پوچھا تو جواب دیا چھوڑیں کوئی اور بات کریں، ایسے لوگ اب کم ہی رہ گئے ہیں۔

دنیا میں وہ چاہے کہیں بھی ہوں فون پر ضرور رابطہ کرتے تھے، اب ان کی آواز سننے کو نہیں ملے گی مگر یادیں دل و دماغ میں ہمیشہ تازہ رہیں گی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں