انصاف ہی ہونا چاہیئے
پاکستانی عوام اور نظام کی واحد اُمید عدالت عظمی کا فیصلہ ہے جو وقت، خواہشات، تعصب اور ہیجان کی قید سے آزاد ہو۔
چور چور کے نعرے بلند اور فیصلے صادر کرنے سے پہلے ذرا ایک ساعت ٹھہر کر گہری سانس کھینچیے! یقیناً دماغ کا روشن دان کھول کر چند حقائق پر نظر دوڑانے کی ضرورت ہے۔ موجودہ منتخب وزیرِاعظم کو عوامی تحاریک کے بل پر اُٹھا کر ایوانِ اقتدار سے باہر پھینک دینے کی دو منظم کوششیں اب تک ناکامی سے دوچار ہوئیں، بنیادی وجہ جن کی محض اکثریتی عوام کی اِن تحاریک میں عملی طور پر عدم دلچسپی ثابت ہوئی تھی۔ یہ تحاریک حکمران جماعت کے حامی عوام کو سڑکوں پر لاکر اپنی منتخب کردہ حکومت کے خلاف ہی احتجاج کرنے اور حالات کو بدترین حد تک خراب کرنے پر کسی صورت قائل نہیں کرسکی۔
پہلی کوشش بالآخر کئی ماہ کی تگ و دو کے بعد کنٹینر پر شادی خانہ آبادی کی بات چیت پر اختتام پذیر ہوئی اور دوسری کوشش سڑک پر کھڑے چند کنٹینروں اور آنسو گیس کے چند شیلوں کے آگے دم توڑ گئی۔ دونوں تحاریک میں دو باتیں مشترک تھیں! ایک کنٹینر اور دو میاں صاب کا استعفٰی جس میں کٹھ پتلی تحریکی جماعت کو یکسر ناکامی ہوئی۔ نتیجہ جس سے یہ اخذ ہوا ہے کہ عوامی سطح پر تحریکی جماعت اتنی سکت نہیں رکھتی کہ منتخب وزیرِاعظم کے خلاف عوام کو کامیابی سے ہیجان انگیز حد تک متحرک کرسکے، چاہے وہ انتخابات میں دھاندلی کا الزام تھا یا آف شور کمپنیوں کا۔
نواز شریف کی معیشت، بجلی کے پیداواری اور دیگر ٹھوس عوامی منصوبوں پر مبنی کامیاب سیاست عملی طور پر انہیں اگلے انتخابات میں اپنے تمام فریقین کے مقابلے میں واضح فتح کا پیغام دے رہی ہے۔ مخصوص فریق جماعت زمینی سطح پر تمام تر کوشش اور خواہشات کے باوجود عوام کا اعتماد ووٹ کی صورت میں جیتنے میں ناکام ہوتی آئی ہے اور کم و بیش ہر منعقدہ ضمنی انتخاب میں واضح فرق سے شکست سے دوچار ہو رہی ہے۔ نواز شریف ایسا کردار ہے جو خطے میں امن، ہمسائیہ ممالک کے ساتھ بہتر مراسم اور تجارت کے فروغ کا خواہاں ہے۔
نواز شریف کے اچھے یا بُرے معاشی منشور کی بدولت پاکستانی معیشت کے سوکھے سڑے جسم پرکچھ بوٹی بھی چڑھتی دکھائی دینے لگی ہے۔ لبِ لباب یہ کہ یہ شخص پاکستان کے سیاسی منظر نامے میں تمام فریقین کے لئے ناقابلِ برداشت حد تک قوت پکڑتا جارہا ہے۔ اِسے اب بھی ٹانگ سے پکڑ کر کاٹھی سے نیچے کھینچ کر زمیں پر نہ پٹخ مارا گیا تو یہ گھوڑا سر پٹ دوڑاتا بہت سوں کی پہنچ سے آگے نکل جائے گا۔
سر پر لٹکی تلوار کی طرح اگلے سال منعقد ہونے والے انتخابات سے پہلے منتخب وزیرِاعظم کو کرسی سے گرانے کی یہ تیسری لیکن آخری کوشش ہے جو کہ اس بار بھرپور قانونی طریقے سے کی جا رہی ہے۔ کوئی دو رائے نہیں کہ پاناما لیکس غیر جانبدار ذرائع سے منظر عام پر ظہور پذیر ہوئیں لیکن اِس میں بھی کچھ غلط نہیں کہ ایسے مواقعوں کے بھرپور استعمال میں ملکہ رکھتی قوتیں بھی مملکتِ خداداد پاکستان کی اولین حقیقت ہیں۔
بلاشبہ جمہوریت کا حسن احتساب ہے لیکن اِس میں بھی کوئی ابہام نہیں کہ احتساب برابری سے کیا جانا چاہیے۔ ایک ایسا ملک جس میں سیاسی نظام اور منتخب وزراءِ اعظم کو ایوانِ اقتدار تو کیا دنیا سے اُٹھا کر باہر پھینک دینے کی روایت عام رہی ہے اور جہاں ایسے تمام اقدامات کرنے والے مطلق العنان حکمرانوں کے لئے قانونی اجزاء اور نظریہ ضرورت جیسے قانونی ستون کھڑے کرنے والی عدالتیں غیر آئینی اقدامات اور ایوانِ اقتدار کو دوام بخشنے میں پیش پیش رہی ہوں، جہاں اشاروں پر ناچنے والی کٹھ پتلی سیاسی جماعتوں کا وجود بھی کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں، وہاں ایسے کسی حساس معاملے پر اُٹھایا جانے والا ہر قدم کُلّی طور پر غیر جانبدار ہونا چاہیے تھا۔
بہرحال ایسا نہیں ہوسکا، اور دس جولائی کو نامکمل تحقیقاتی رپورٹ منظرِعام پر آنے کے بعد سے رپورٹ کے مختلف حصوں اور مندرجات پرحکومتی حلقوں کی جانب سے شدید اعتراضات اٹھائے جانے کے بعد رپورٹ نہ صرف یکسر مسترد کی جاچکی ہے بلکہ اِس تمام کارروائی اور جے آئی ٹی کی رپورٹ پر متنازعہ مگر معقول سوالات نے جنم بھی لیا ہے۔
اصول تو یہ ہے کہ انصاف ہونا چاہیئے اور بلا امتیاز ہونا چاہیئے، اگلا اصول یہ بھی ہے کہ قانون اور شواہد کی بنیاد پر مکمل غیر جانبداری سے ہونا چاہیئے۔ اِسی لئے جے آئی ٹی کی تشکیل، اِس کی کارروائی اور کارروائی سے جڑے تنازعات کے بعد پانامہ کیس کو شفافیت سے پایہ تکمیل تک پہنچانے اور ہر قسم کے تنازعات کو درگور کرنے کی واحد کنجی عدالتِ عظمی کے معزز جج صاحبان کے ہاتھ ہے۔
جے آئی ٹی کی تحقیقاتی رپورٹ نہ صرف یہ کہ عدالت میں پیش ہوچکی ہے بلکہ اِسے بظاہر بعض ناگزیر وجوہات کے باعث نامکمل صورت میں ہر طور اور ہر سطح پر میسر بھی کردیا گیا ہے۔ عدالتِ عظمیٰ کے اگلے اقدامات کیا ہوتے ہیں اور یہ کیس کس سمت جاتا ہے اِس کے لئے مزید عدالتی کارروائی کا انتظار کرنا ہوگا لیکن جو بات کسی قدر وثوق سے کی جاسکتی ہے وہ صرف اتنی ہے کہ وزیرِِاعظم نے مستعٰفی ہونے سے انکار کرتے ہوئے عدالتِ عظمی میں اِس تحقیقاتی رپورٹ کا دفاع کرنے کا لائحہ عمل مرتب کیا ہے۔
جے آئی ٹی کی مکمل تحقیقاتی رپورٹ اور اُس کے تناظر میں اُٹھائے گئے عدالتی اقدامات اور کارروائی بھی اگلے چند روز میں سب کے سامنے ہوگی۔ شریف خاندان بھی اِس پر کڑی نظر رکھے گا اورمخالفین بھی، قانونی ماہرین بھی اِنہیں پرکھیں گے اور مبصرین بھی، حال بھی اِن اقدامات کا تجزیہ کرے گا اور تاریخ بھی، پتلی گردن والے بھی دیکھ رہے اور موٹی گردن والے بھی، شودر بھی اور برہمن بھی، انقلابی بھی اورنونیے بھی، جانبدار بھی اور غیر جانبدار بھی! لہذا فی الوقت تاریخ کے کٹہرے میں حقیقتاً کوئی کھڑا ہے تو وہ پاکستان کا عدالتی نظام ہے جسے خود مختار سمجھا جاتا ہے۔
عدلیہ کے لئے تاریخ ساز اور نادر موقع ہے کہ تاریخ میں موجودہ عدلیہ کے لئے نہ صرف اپنے اجداد سے بہتر مقام کا تعین کرسکتی ہے بلکہ مستقبل کے لئے ریاست کے اِس اہم ستون کے حوالے سے نئے معیار بھی قائم کرسکتی ہے۔ پاکستانی عوام اور نظام جو واحد اُمید کرسکتے ہیں وہ عدالت عظمیٰ کا فیصلہ ہے جو وقت، خواہشات، تعصب اور ہیجان کی قید سے آزاد ہو۔ ایسا تاریخی فیصلہ جو آج بھی درست ہو اور کل بھی درست ہی رہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا لکھاری کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
پہلی کوشش بالآخر کئی ماہ کی تگ و دو کے بعد کنٹینر پر شادی خانہ آبادی کی بات چیت پر اختتام پذیر ہوئی اور دوسری کوشش سڑک پر کھڑے چند کنٹینروں اور آنسو گیس کے چند شیلوں کے آگے دم توڑ گئی۔ دونوں تحاریک میں دو باتیں مشترک تھیں! ایک کنٹینر اور دو میاں صاب کا استعفٰی جس میں کٹھ پتلی تحریکی جماعت کو یکسر ناکامی ہوئی۔ نتیجہ جس سے یہ اخذ ہوا ہے کہ عوامی سطح پر تحریکی جماعت اتنی سکت نہیں رکھتی کہ منتخب وزیرِاعظم کے خلاف عوام کو کامیابی سے ہیجان انگیز حد تک متحرک کرسکے، چاہے وہ انتخابات میں دھاندلی کا الزام تھا یا آف شور کمپنیوں کا۔
نواز شریف کی معیشت، بجلی کے پیداواری اور دیگر ٹھوس عوامی منصوبوں پر مبنی کامیاب سیاست عملی طور پر انہیں اگلے انتخابات میں اپنے تمام فریقین کے مقابلے میں واضح فتح کا پیغام دے رہی ہے۔ مخصوص فریق جماعت زمینی سطح پر تمام تر کوشش اور خواہشات کے باوجود عوام کا اعتماد ووٹ کی صورت میں جیتنے میں ناکام ہوتی آئی ہے اور کم و بیش ہر منعقدہ ضمنی انتخاب میں واضح فرق سے شکست سے دوچار ہو رہی ہے۔ نواز شریف ایسا کردار ہے جو خطے میں امن، ہمسائیہ ممالک کے ساتھ بہتر مراسم اور تجارت کے فروغ کا خواہاں ہے۔
نواز شریف کے اچھے یا بُرے معاشی منشور کی بدولت پاکستانی معیشت کے سوکھے سڑے جسم پرکچھ بوٹی بھی چڑھتی دکھائی دینے لگی ہے۔ لبِ لباب یہ کہ یہ شخص پاکستان کے سیاسی منظر نامے میں تمام فریقین کے لئے ناقابلِ برداشت حد تک قوت پکڑتا جارہا ہے۔ اِسے اب بھی ٹانگ سے پکڑ کر کاٹھی سے نیچے کھینچ کر زمیں پر نہ پٹخ مارا گیا تو یہ گھوڑا سر پٹ دوڑاتا بہت سوں کی پہنچ سے آگے نکل جائے گا۔
سر پر لٹکی تلوار کی طرح اگلے سال منعقد ہونے والے انتخابات سے پہلے منتخب وزیرِاعظم کو کرسی سے گرانے کی یہ تیسری لیکن آخری کوشش ہے جو کہ اس بار بھرپور قانونی طریقے سے کی جا رہی ہے۔ کوئی دو رائے نہیں کہ پاناما لیکس غیر جانبدار ذرائع سے منظر عام پر ظہور پذیر ہوئیں لیکن اِس میں بھی کچھ غلط نہیں کہ ایسے مواقعوں کے بھرپور استعمال میں ملکہ رکھتی قوتیں بھی مملکتِ خداداد پاکستان کی اولین حقیقت ہیں۔
بلاشبہ جمہوریت کا حسن احتساب ہے لیکن اِس میں بھی کوئی ابہام نہیں کہ احتساب برابری سے کیا جانا چاہیے۔ ایک ایسا ملک جس میں سیاسی نظام اور منتخب وزراءِ اعظم کو ایوانِ اقتدار تو کیا دنیا سے اُٹھا کر باہر پھینک دینے کی روایت عام رہی ہے اور جہاں ایسے تمام اقدامات کرنے والے مطلق العنان حکمرانوں کے لئے قانونی اجزاء اور نظریہ ضرورت جیسے قانونی ستون کھڑے کرنے والی عدالتیں غیر آئینی اقدامات اور ایوانِ اقتدار کو دوام بخشنے میں پیش پیش رہی ہوں، جہاں اشاروں پر ناچنے والی کٹھ پتلی سیاسی جماعتوں کا وجود بھی کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں، وہاں ایسے کسی حساس معاملے پر اُٹھایا جانے والا ہر قدم کُلّی طور پر غیر جانبدار ہونا چاہیے تھا۔
بہرحال ایسا نہیں ہوسکا، اور دس جولائی کو نامکمل تحقیقاتی رپورٹ منظرِعام پر آنے کے بعد سے رپورٹ کے مختلف حصوں اور مندرجات پرحکومتی حلقوں کی جانب سے شدید اعتراضات اٹھائے جانے کے بعد رپورٹ نہ صرف یکسر مسترد کی جاچکی ہے بلکہ اِس تمام کارروائی اور جے آئی ٹی کی رپورٹ پر متنازعہ مگر معقول سوالات نے جنم بھی لیا ہے۔
اصول تو یہ ہے کہ انصاف ہونا چاہیئے اور بلا امتیاز ہونا چاہیئے، اگلا اصول یہ بھی ہے کہ قانون اور شواہد کی بنیاد پر مکمل غیر جانبداری سے ہونا چاہیئے۔ اِسی لئے جے آئی ٹی کی تشکیل، اِس کی کارروائی اور کارروائی سے جڑے تنازعات کے بعد پانامہ کیس کو شفافیت سے پایہ تکمیل تک پہنچانے اور ہر قسم کے تنازعات کو درگور کرنے کی واحد کنجی عدالتِ عظمی کے معزز جج صاحبان کے ہاتھ ہے۔
جے آئی ٹی کی تحقیقاتی رپورٹ نہ صرف یہ کہ عدالت میں پیش ہوچکی ہے بلکہ اِسے بظاہر بعض ناگزیر وجوہات کے باعث نامکمل صورت میں ہر طور اور ہر سطح پر میسر بھی کردیا گیا ہے۔ عدالتِ عظمیٰ کے اگلے اقدامات کیا ہوتے ہیں اور یہ کیس کس سمت جاتا ہے اِس کے لئے مزید عدالتی کارروائی کا انتظار کرنا ہوگا لیکن جو بات کسی قدر وثوق سے کی جاسکتی ہے وہ صرف اتنی ہے کہ وزیرِِاعظم نے مستعٰفی ہونے سے انکار کرتے ہوئے عدالتِ عظمی میں اِس تحقیقاتی رپورٹ کا دفاع کرنے کا لائحہ عمل مرتب کیا ہے۔
جے آئی ٹی کی مکمل تحقیقاتی رپورٹ اور اُس کے تناظر میں اُٹھائے گئے عدالتی اقدامات اور کارروائی بھی اگلے چند روز میں سب کے سامنے ہوگی۔ شریف خاندان بھی اِس پر کڑی نظر رکھے گا اورمخالفین بھی، قانونی ماہرین بھی اِنہیں پرکھیں گے اور مبصرین بھی، حال بھی اِن اقدامات کا تجزیہ کرے گا اور تاریخ بھی، پتلی گردن والے بھی دیکھ رہے اور موٹی گردن والے بھی، شودر بھی اور برہمن بھی، انقلابی بھی اورنونیے بھی، جانبدار بھی اور غیر جانبدار بھی! لہذا فی الوقت تاریخ کے کٹہرے میں حقیقتاً کوئی کھڑا ہے تو وہ پاکستان کا عدالتی نظام ہے جسے خود مختار سمجھا جاتا ہے۔
عدلیہ کے لئے تاریخ ساز اور نادر موقع ہے کہ تاریخ میں موجودہ عدلیہ کے لئے نہ صرف اپنے اجداد سے بہتر مقام کا تعین کرسکتی ہے بلکہ مستقبل کے لئے ریاست کے اِس اہم ستون کے حوالے سے نئے معیار بھی قائم کرسکتی ہے۔ پاکستانی عوام اور نظام جو واحد اُمید کرسکتے ہیں وہ عدالت عظمیٰ کا فیصلہ ہے جو وقت، خواہشات، تعصب اور ہیجان کی قید سے آزاد ہو۔ ایسا تاریخی فیصلہ جو آج بھی درست ہو اور کل بھی درست ہی رہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا لکھاری کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریراپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک و ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگرجامع تعارف کیساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اور ویڈیو لنکس بھی۔