ہمارے عہد کا عذاب
عقل و شعور کی بالادستی آسمانوں کی سرحدوں تک جاپہنچی ہے۔
ہم کب تک اپنے آپ کو بیچتے رہیں گے؟ یہ سوال 22کروڑ پاکستانیوں میں سے 2 ہزار کے ذہنوں میں تو ضرور پیدا ہوتا ہوگا، مگر یہ دو ہزار پاکستانی بھی کِسی نہ کِسی شکل میں خود کو بیچ رہے ہوں گے یا بیچنا چاہتے ہوں گے یا تو قیمت اچھی نہیں لگ رہی ہوگی یا پھر کاٹھ کباڑ کا کیا مول ہو تا ہو گا۔
سچ تو یہ ہے کہ ہر شخص کی ایک قیمت ہوتی ہے۔ عقل مند بہت جلد خود کو مارکیٹ کے بھاؤ مول تول کرکے اچھی قیمت ادا کرنے والے کے سپرد خود کو کردیتے ہیں۔ بے وقوف اپنے تئیں اپنی قیمت کا Tag چپکا کر دھوپ میں کھڑے پسینہ بہاتے رہتے ہیں۔
خواص کی بولی بھی خاص الخاص ہوتی ہے اور خاص خاص لوگ ہی منہ مانگے دام دے پاتے ہیں۔ عوام کی قیمت عام ہوتی ہے۔ زیادہ تر باتوں، نعروں اور وعدوں پر ہی سودا ہوجاتا ہے۔ مسئلہ تو یہ ہے کہ عام سے عام آدمی بھی خود کو طرّم خان سمجھتا ہے اور چاہتا ہے کہ اُسے بھی عالی جاہ مانا جائے اور یہی مفروضہ اِس خوش فہمی کو جنم دیتا ہے، جِس کے تحت 22 کروڑ لوگ اپنے وجود، اپنی ملکیتوں سمیت اپنی نسلوں تک کو بیچ چکنے کے با وجود یہ خواب دیکھ رہے ہیں کہ سب کچھ اچھا ہے۔ سب کچھ اچھا ہوجائے گا۔ ہمیں کچھ کرنا تو نہیں پڑے گا۔ ہم نے کچھ کرنے کی قیمت تو نہیں لی ہے۔ ہم نے تو جو ہے، جہاں ہے کی بنیاد پر خود کو بیچا ہے۔ ہماری اِس خام خیالی سے یہ حقیقت نہیں بدلتی کہ خریدار ہم سے زیادہ زیرک اور ہوشیار ہے۔ خریدنے سے پہلے ہی اُس کے عِلم میں ہوتا ہے کہ وہ کِس کو کیوں اور کِس مقصد کے لیے خرید رہا ہے اور اُس کی اصل قیمت کیا ہے۔
اِس صورت حال میں جب کہ سب کچھ بِک چُکا ہے اور پلّے کچھ نہیں بچا تو پھر بس انتظار ہی انتظار ہے کہ خریدے ہوئے سودے کو سوداگر RE-SALE کے لیے کِس مارکیٹ میں کِس بھاؤ بیچتا ہے یا اپنے کِس مصرف میں لاتا ہے، لیکن اِس کا ادراک بھی گنتی کے 2 ہزار افراد کو ہوگا۔ باقی کے سب تو اپنے اپنے روزوشب میں ایسے گُم ہیں کہ جیسے کچھ جانتے نہیں۔ ہمارے چاروں اطراف قیامت کا سماں ہے مگر ہم سمجھ رہے ہیں کہ ہم اِس کا حصّہ بننے والے نہیں۔ ہر نیا دِن ہمیں ہماری مٹّی کی طرف کھینچ رہا ہے مگر ہم اندھے اور بہرے ہو کر اُچھل کود اور زبانی جمع خرچ میں لگے ہوئے ہیں۔
اپنی اپنی راگنی الاپنے والوں کا فہم کمتری کے اُس درجے تک جا پہنچا ہے، جہاں اُن کو یہ بات بھی سمجھ میں نہیں آرہی کہ کوئی بھی اُن کی کِسی بات کو نہ سمجھ رہا ہے۔ نہ سمجھنا چاہتا ہے اور نہ ہی سمجھنے کی اہلیت رکھتا ہے۔ قدرت نے ہر عہد میں ہر قوم پر، اپنے احکامات کی نافرمانی اور مستقل نافرمانی پر ہمیشہ الگ طرح کا عذاب نازل کیا ہے۔یہ ہمارے عہد کا عذاب ہے۔
عقل و شعور کی بالادستی آسمانوں کی سرحدوں تک جاپہنچی ہے۔ عذاب نے عقل و شعور کو ہی سلب کرڈالا ہے۔ خودغرضی، سنگدلی، بے حِسی نے خِرد کے ساتھ جذبے کو بھی منجمد کردیا ہے۔ فرد کا فرد کے ساتھ بِلاغرض رابطہ ممکن نہیں رہا۔ ضرورت طلب اور طمع کے تابع تمام رشتے استوار ہیں۔ کِسی کے پاس کِسی کے لیے وقت نہیں اور چونکہ کِسی کے پاس کِسی اور کیلئے وقت نہیں تو قدرت نے ہمارے وقت میں سے برکت اُٹھادی ہے۔ یہ ہمارے عہد کا عذاب ہے۔
سہولیات، آسائشات اور مصروفیات کی بہتات نے نہ صرف اِنسان کو اِنسان سے دور کردیا ہے بل کہ ہم سے تنہائی بھی چھین لی ہے۔ تنہائی سے بڑی نعمت اور دولت اور کیا ہوگی۔ تنہائی سے دور ہوکر ہم تنہا ہوگئے ہے۔ تن تنہا زندگی گزارنے سے بڑا کیا کوئی اور عذاب ہوگا۔ یہ ہمارے عہد کا عذاب ہے۔
ہر عہد کے عذاب کی شکل جُداگانہ ہوتی ہے اور عذاب اُس وقت تک نہیں آتا ۔ جب تک حُجّت تمام نہیں ہوجاتی اور حجُّت اُس وقت تک تمام نہیں ہوتی جب تک فرد کا رب سے اور دوسرے فرد سے رشتہ جُڑا نہ رہے۔ جونہی فرد، فرد سے جُدا ہوکر تنہا ہوتا ہے اُس پر حد لاگو ہوجاتی ہے اور پھر اُسے قدرت کی طرف سے مختلف اوقات میں طرح طرح کے حیلوں بہانوں اور طریقوں سے مواقع فراہم ہوتے ہیں۔ پھر جن پر رب مہربان ہوتا ہے جن کی توبہ قبول ہوتی ہے وہ دوبارہ فرد سے تعلق جوڑ کر رب تک پہنچنے والی سیڑھی پر قدم رکھ دیتے ہیں اور جو اِن حیلوں بہانوں طریقوں کو نہیں پہنچان پاتے اور اپنے تکبّر اور اپنی انا کے اسیر رہتے ہیں اور خود غرضی، سنگدلی اور بے حسی کی دلدل میں دھنستے چلے جاتے ہیں، تو پھر عذاب، شکلیں بدل بدل کر افراد اور افراد کے ہجوم اور اقوام پر نازل ہونا شروع ہوجاتا ہے۔
خود غرضی، سنگدلی اور بے حِسی کی چادر نے 22 کروڑ پاکستانیوں کو بھی باندھنا شروع کردیا ہے۔ بے حِسی کی انتہا ہے کہ ہماری بولی کوئی اور لگا رہا ہے، کوئی اور ہمیں خرید رہا ہے۔ ہمیں یہ سب دِکھ بھی رہا ہے، مگر ہمیں کوئی فرق نہیں پڑرہا۔ ہم اپنے اپنے کھوکھے میں اپنی پسند کی کھوکھلی بے جان بے رونق مشینوں کی سنگت میں بیٹھے اپنی باری کا انتظار کررہے ہیں اور کھیلوں تماشوں کے شور پر تالیاں بجارہے ہیں۔ ٹھٹھے لگا رہے ہیں۔ شکلیں بدل بدل کر بندروں کی طرح ناچتے گاتے، اُچھلتے کودتے، چیختے چلّاتے، چنگھاڑتے، دھاڑتے ہوئے لوگوں کی آوازوں اور ڈراموں کے سَحر میں گرفتار ہو کر ہم نے بُھلا ڈالا ہے کہ جانوروں کا بھی کوئی اپنا مخصوص طور طریقہ، اپنی خاص الخاص فطرت ہوتی ہے۔ جنگل کا بھی اپنا قانون ہوتا ہے۔
قانون، ضابطوں، طورطریقوں ، نظریوں سے عاری، روح سے خالی، معاشرے میں ہم جانوروں سے بھی بدتر انتہائی جسمانی زندگی گزار رہے ہیں اور فطری موت سے پہلے مر رہے ہیں۔ ایسی ابتری، ایسی انارکی، ایسا انتشار، ایسا فشار ہم پر ہمارے عہد کا عذاب ہے۔ ہمارے اعمال کی فصل ہے۔ جو ہم کاٹ رہے ہیں۔ ہماری بدنیّتی کا Reward ہے جو ہمارے خون کو بہارہا ہے۔
قدرت کے ہر عذاب کی طرح ہمارے عہد کے عذاب کو بھی اپنی عُمر پوری کرنی ہے۔ عذاب ہوں یا خواب، دونوں کی اپنی طبعی عُمر ہوتی ہے۔ عذاب ہوں یا خواب، کِسی بھی طرح کے ہوں، اپنے وقت پر شروع ہوتے ہیں، آہستہ آہستہ، اور اپنے وقت پر ختم ہوتے ہیں۔ فرد کے عذاب اور خواب فرد کی آنکھیں بند ہونے پر بھی ختم نہیں ہوتے۔
قوموں اور قبیلوں کے عذاب اور خواب صدیوں پر محیط ہوتے ہیں۔ نسل در نسل چلتے رہتے ہیں۔ نسلیں مِٹ جاتی ہیں۔ زمینیں بانجھ ہوجاتی ہیں۔ دریا سوکھ جاتے ہیں۔ ہرے بھرے جنگل، صحراؤں میں بدل جاتے ہیں۔ ہواؤں کا رُخ، موسم کا تغیّر بدل جاتا ہے۔ لہو، خاک بنتا رہتا ہے۔ لیکن ایک بار جب عذاب کا قہر شروع ہوجائے تو روکے نہیں رُکتا۔ بگٹٹ بھاگتا چلا جاتا ہے۔ کیا مرد، کیا عورت، کیا بچّہ کیا جوان، سب کو روندتا ہوا، کہیں رُکے بِنا، پڑاؤ ڈالے بِنا اُڑے چلا جاتا ہے۔
کِسی فرد، کِسی قوم، کِسی نسل کو استثناء حاصل نہیں۔ تاریخ کے لہو رنگ صفحات ہر قوم، ہر نسل کی ابتدا اور انتہا، عروج اور زوال کی داستانوں سے بھرے ہوئے ہیں۔ ہم اپنے عذاب کی ابتدا میں ہیں۔ انتہا کیا ہوگی؟ کب ہوگی؟ اُس وقت تک ہم نہیں ہوں گے۔ حِرص، ہوس، لالچ، خودغرضی، جھوٹ، بے ایمانی، نفسانفسی، اَقرباپروری، جاہ پرستی، ناانصافی۔ اجتماعی عذاب کی ابتدائی علامات ہوتی ہیں۔
گریبان میں جھانکیے اور دیکھیے۔ آج ہم کہاں کھڑے ہیں۔ کہا ں سے چلے تھے کہاں آگئے ہیں۔ اپنے آپ کو بیچتے بیچتے اپنے ماضی اور مستقبل کو بھی بیچ چکے ہیں۔ نہ دِلوں میں احساس بچا ہے، نہ دعاؤں میں اثر۔ سب کچھ گرِوی رکھ دیا ہے۔ کتاب کُھل چُکی ہے۔ حساب کتاب ہورہا ہے۔ روز کِسی نہ کِسی بات کی فِکر نہیں۔ فِکر کی ضرورت بھی کیا ہے۔ اپنے پاس اپنا کچھ خالص ہو بھی، جِس کی فِکر کی جائے۔ جو چل رہا ہے۔ جیسا چل رہا ہے۔ جب تک چل رہا ہے۔ چلنے دہ۔ رُکو مت، چلتے رہو۔
سچ تو یہ ہے کہ ہر شخص کی ایک قیمت ہوتی ہے۔ عقل مند بہت جلد خود کو مارکیٹ کے بھاؤ مول تول کرکے اچھی قیمت ادا کرنے والے کے سپرد خود کو کردیتے ہیں۔ بے وقوف اپنے تئیں اپنی قیمت کا Tag چپکا کر دھوپ میں کھڑے پسینہ بہاتے رہتے ہیں۔
خواص کی بولی بھی خاص الخاص ہوتی ہے اور خاص خاص لوگ ہی منہ مانگے دام دے پاتے ہیں۔ عوام کی قیمت عام ہوتی ہے۔ زیادہ تر باتوں، نعروں اور وعدوں پر ہی سودا ہوجاتا ہے۔ مسئلہ تو یہ ہے کہ عام سے عام آدمی بھی خود کو طرّم خان سمجھتا ہے اور چاہتا ہے کہ اُسے بھی عالی جاہ مانا جائے اور یہی مفروضہ اِس خوش فہمی کو جنم دیتا ہے، جِس کے تحت 22 کروڑ لوگ اپنے وجود، اپنی ملکیتوں سمیت اپنی نسلوں تک کو بیچ چکنے کے با وجود یہ خواب دیکھ رہے ہیں کہ سب کچھ اچھا ہے۔ سب کچھ اچھا ہوجائے گا۔ ہمیں کچھ کرنا تو نہیں پڑے گا۔ ہم نے کچھ کرنے کی قیمت تو نہیں لی ہے۔ ہم نے تو جو ہے، جہاں ہے کی بنیاد پر خود کو بیچا ہے۔ ہماری اِس خام خیالی سے یہ حقیقت نہیں بدلتی کہ خریدار ہم سے زیادہ زیرک اور ہوشیار ہے۔ خریدنے سے پہلے ہی اُس کے عِلم میں ہوتا ہے کہ وہ کِس کو کیوں اور کِس مقصد کے لیے خرید رہا ہے اور اُس کی اصل قیمت کیا ہے۔
اِس صورت حال میں جب کہ سب کچھ بِک چُکا ہے اور پلّے کچھ نہیں بچا تو پھر بس انتظار ہی انتظار ہے کہ خریدے ہوئے سودے کو سوداگر RE-SALE کے لیے کِس مارکیٹ میں کِس بھاؤ بیچتا ہے یا اپنے کِس مصرف میں لاتا ہے، لیکن اِس کا ادراک بھی گنتی کے 2 ہزار افراد کو ہوگا۔ باقی کے سب تو اپنے اپنے روزوشب میں ایسے گُم ہیں کہ جیسے کچھ جانتے نہیں۔ ہمارے چاروں اطراف قیامت کا سماں ہے مگر ہم سمجھ رہے ہیں کہ ہم اِس کا حصّہ بننے والے نہیں۔ ہر نیا دِن ہمیں ہماری مٹّی کی طرف کھینچ رہا ہے مگر ہم اندھے اور بہرے ہو کر اُچھل کود اور زبانی جمع خرچ میں لگے ہوئے ہیں۔
اپنی اپنی راگنی الاپنے والوں کا فہم کمتری کے اُس درجے تک جا پہنچا ہے، جہاں اُن کو یہ بات بھی سمجھ میں نہیں آرہی کہ کوئی بھی اُن کی کِسی بات کو نہ سمجھ رہا ہے۔ نہ سمجھنا چاہتا ہے اور نہ ہی سمجھنے کی اہلیت رکھتا ہے۔ قدرت نے ہر عہد میں ہر قوم پر، اپنے احکامات کی نافرمانی اور مستقل نافرمانی پر ہمیشہ الگ طرح کا عذاب نازل کیا ہے۔یہ ہمارے عہد کا عذاب ہے۔
عقل و شعور کی بالادستی آسمانوں کی سرحدوں تک جاپہنچی ہے۔ عذاب نے عقل و شعور کو ہی سلب کرڈالا ہے۔ خودغرضی، سنگدلی، بے حِسی نے خِرد کے ساتھ جذبے کو بھی منجمد کردیا ہے۔ فرد کا فرد کے ساتھ بِلاغرض رابطہ ممکن نہیں رہا۔ ضرورت طلب اور طمع کے تابع تمام رشتے استوار ہیں۔ کِسی کے پاس کِسی کے لیے وقت نہیں اور چونکہ کِسی کے پاس کِسی اور کیلئے وقت نہیں تو قدرت نے ہمارے وقت میں سے برکت اُٹھادی ہے۔ یہ ہمارے عہد کا عذاب ہے۔
سہولیات، آسائشات اور مصروفیات کی بہتات نے نہ صرف اِنسان کو اِنسان سے دور کردیا ہے بل کہ ہم سے تنہائی بھی چھین لی ہے۔ تنہائی سے بڑی نعمت اور دولت اور کیا ہوگی۔ تنہائی سے دور ہوکر ہم تنہا ہوگئے ہے۔ تن تنہا زندگی گزارنے سے بڑا کیا کوئی اور عذاب ہوگا۔ یہ ہمارے عہد کا عذاب ہے۔
ہر عہد کے عذاب کی شکل جُداگانہ ہوتی ہے اور عذاب اُس وقت تک نہیں آتا ۔ جب تک حُجّت تمام نہیں ہوجاتی اور حجُّت اُس وقت تک تمام نہیں ہوتی جب تک فرد کا رب سے اور دوسرے فرد سے رشتہ جُڑا نہ رہے۔ جونہی فرد، فرد سے جُدا ہوکر تنہا ہوتا ہے اُس پر حد لاگو ہوجاتی ہے اور پھر اُسے قدرت کی طرف سے مختلف اوقات میں طرح طرح کے حیلوں بہانوں اور طریقوں سے مواقع فراہم ہوتے ہیں۔ پھر جن پر رب مہربان ہوتا ہے جن کی توبہ قبول ہوتی ہے وہ دوبارہ فرد سے تعلق جوڑ کر رب تک پہنچنے والی سیڑھی پر قدم رکھ دیتے ہیں اور جو اِن حیلوں بہانوں طریقوں کو نہیں پہنچان پاتے اور اپنے تکبّر اور اپنی انا کے اسیر رہتے ہیں اور خود غرضی، سنگدلی اور بے حسی کی دلدل میں دھنستے چلے جاتے ہیں، تو پھر عذاب، شکلیں بدل بدل کر افراد اور افراد کے ہجوم اور اقوام پر نازل ہونا شروع ہوجاتا ہے۔
خود غرضی، سنگدلی اور بے حِسی کی چادر نے 22 کروڑ پاکستانیوں کو بھی باندھنا شروع کردیا ہے۔ بے حِسی کی انتہا ہے کہ ہماری بولی کوئی اور لگا رہا ہے، کوئی اور ہمیں خرید رہا ہے۔ ہمیں یہ سب دِکھ بھی رہا ہے، مگر ہمیں کوئی فرق نہیں پڑرہا۔ ہم اپنے اپنے کھوکھے میں اپنی پسند کی کھوکھلی بے جان بے رونق مشینوں کی سنگت میں بیٹھے اپنی باری کا انتظار کررہے ہیں اور کھیلوں تماشوں کے شور پر تالیاں بجارہے ہیں۔ ٹھٹھے لگا رہے ہیں۔ شکلیں بدل بدل کر بندروں کی طرح ناچتے گاتے، اُچھلتے کودتے، چیختے چلّاتے، چنگھاڑتے، دھاڑتے ہوئے لوگوں کی آوازوں اور ڈراموں کے سَحر میں گرفتار ہو کر ہم نے بُھلا ڈالا ہے کہ جانوروں کا بھی کوئی اپنا مخصوص طور طریقہ، اپنی خاص الخاص فطرت ہوتی ہے۔ جنگل کا بھی اپنا قانون ہوتا ہے۔
قانون، ضابطوں، طورطریقوں ، نظریوں سے عاری، روح سے خالی، معاشرے میں ہم جانوروں سے بھی بدتر انتہائی جسمانی زندگی گزار رہے ہیں اور فطری موت سے پہلے مر رہے ہیں۔ ایسی ابتری، ایسی انارکی، ایسا انتشار، ایسا فشار ہم پر ہمارے عہد کا عذاب ہے۔ ہمارے اعمال کی فصل ہے۔ جو ہم کاٹ رہے ہیں۔ ہماری بدنیّتی کا Reward ہے جو ہمارے خون کو بہارہا ہے۔
قدرت کے ہر عذاب کی طرح ہمارے عہد کے عذاب کو بھی اپنی عُمر پوری کرنی ہے۔ عذاب ہوں یا خواب، دونوں کی اپنی طبعی عُمر ہوتی ہے۔ عذاب ہوں یا خواب، کِسی بھی طرح کے ہوں، اپنے وقت پر شروع ہوتے ہیں، آہستہ آہستہ، اور اپنے وقت پر ختم ہوتے ہیں۔ فرد کے عذاب اور خواب فرد کی آنکھیں بند ہونے پر بھی ختم نہیں ہوتے۔
قوموں اور قبیلوں کے عذاب اور خواب صدیوں پر محیط ہوتے ہیں۔ نسل در نسل چلتے رہتے ہیں۔ نسلیں مِٹ جاتی ہیں۔ زمینیں بانجھ ہوجاتی ہیں۔ دریا سوکھ جاتے ہیں۔ ہرے بھرے جنگل، صحراؤں میں بدل جاتے ہیں۔ ہواؤں کا رُخ، موسم کا تغیّر بدل جاتا ہے۔ لہو، خاک بنتا رہتا ہے۔ لیکن ایک بار جب عذاب کا قہر شروع ہوجائے تو روکے نہیں رُکتا۔ بگٹٹ بھاگتا چلا جاتا ہے۔ کیا مرد، کیا عورت، کیا بچّہ کیا جوان، سب کو روندتا ہوا، کہیں رُکے بِنا، پڑاؤ ڈالے بِنا اُڑے چلا جاتا ہے۔
کِسی فرد، کِسی قوم، کِسی نسل کو استثناء حاصل نہیں۔ تاریخ کے لہو رنگ صفحات ہر قوم، ہر نسل کی ابتدا اور انتہا، عروج اور زوال کی داستانوں سے بھرے ہوئے ہیں۔ ہم اپنے عذاب کی ابتدا میں ہیں۔ انتہا کیا ہوگی؟ کب ہوگی؟ اُس وقت تک ہم نہیں ہوں گے۔ حِرص، ہوس، لالچ، خودغرضی، جھوٹ، بے ایمانی، نفسانفسی، اَقرباپروری، جاہ پرستی، ناانصافی۔ اجتماعی عذاب کی ابتدائی علامات ہوتی ہیں۔
گریبان میں جھانکیے اور دیکھیے۔ آج ہم کہاں کھڑے ہیں۔ کہا ں سے چلے تھے کہاں آگئے ہیں۔ اپنے آپ کو بیچتے بیچتے اپنے ماضی اور مستقبل کو بھی بیچ چکے ہیں۔ نہ دِلوں میں احساس بچا ہے، نہ دعاؤں میں اثر۔ سب کچھ گرِوی رکھ دیا ہے۔ کتاب کُھل چُکی ہے۔ حساب کتاب ہورہا ہے۔ روز کِسی نہ کِسی بات کی فِکر نہیں۔ فِکر کی ضرورت بھی کیا ہے۔ اپنے پاس اپنا کچھ خالص ہو بھی، جِس کی فِکر کی جائے۔ جو چل رہا ہے۔ جیسا چل رہا ہے۔ جب تک چل رہا ہے۔ چلنے دہ۔ رُکو مت، چلتے رہو۔