جمہوریت کو کوئی خطرہ نہیں
جب آمریت آنا بند ہوئی تو یہ شرفاء جمہوریت کے دستانے پہن کر لوٹ کھسوٹ میں لگ گئے۔
ہم جو بیانیہ بنانے جا رہے ہیں اس کی ترتیب یوں ہے کہ ''JIT بمقابلہ جمہوریت''۔ اس بیانیہ کے پیچھے کچھ لوگوں کے ذاتی مفادات بھی ہیں اور کچھ بیوقوفی میں بہے جارہے ہیں اور کچھ لوگوں کے لاشعور میں بات کچھ اور ہے، عملاً کر کچھ اور رہے ہیں۔ الٹے کو سیدھا اور سیدھے کو الٹا کر رہے ہیں۔ ان لوگوں کے درمیان اچکزئی قدرے بہتر ہیں کہ کم از کم وہ براہ راست بات تو کر رہے ہیں۔
بہت لوگ ایسے بھی ہیں جو صرف indirectly ہی بات کرتے ہیں۔ indirectly جو لوگ بات کرتے ہیں، ان میں سے ایک ہیں جاوید ہاشمی۔ ''میاں صاحب کا احتساب ہونا چاہیے لیکن پھر احتساب سب کا ہی ہونا چاہیے'' مطلب یہ کہ JIT کا مقصد ہی یہی تھا کہ جیسے جمہوریت کو پٹڑی سے اتارا جائے۔ میاں نوازشریف، شہباز شریف اور اسحٰق ڈار پاسبانِ جمہوریت۔ حسن، حسین اور مریم کا JIT میں پیش ہونا جیسے ماتم کی گھڑی ہو۔ JIT کس نے بنائی؟ سپریم کورٹ نے بنائی۔ اس لیے کہ ٹھوس شواہد پیش کیے جا سکیں۔ وہ شواہدات آیا کہ ریفرنس کی صورت میں نیب کو دیے جائیں یا پھر خود سپریم کورٹRespondent No 2 کو نااہل قرار دے۔ قانون شہادت میں ایک اصول ہے، اس اصول کے مطابق لاطینی اصطلاح میں (Falls in uno falls in omnibus) ''جو ایک مرتبہ جھوٹ بولے وہ ہمیشہ جھوٹا ہے''۔
اس اصطلاح کی بنیاد پر کورٹ نے کئی شواہدات کو پرکھا۔ مگر آگے چل کر Miscarriage of Justice ہوا۔ کیونکہ اگر کوئی ماضی میں جھوٹ بولتا ہے تو ضروری نہیں کہ وہ ہر بار جھوٹ بولے۔ سچ کیا ہے، جھوٹ کیا ہے، اس کو اس کی اپنی میرٹ پر پرکھنا چاہیے، نہ کہ کون بول رہا ہے۔ اور اس طرح کورٹ ارتقا کا سفر طے کرتے ہوئے اس اصول پر پہنچی (Sift the Grain from chaff) مطلب یہ کہ کسی جھوٹے آدمی کی زبان سے جھوٹ کے بجائے سچ اگلوانا۔ شواہدات کی سائنس کا ارتقا پھر کچھ ایسے ہوا (Forensic Evidences) بھی وجود میں آگئیں۔
لگ بھگ چار ہزار صفحات پر یہ شواہدات دس والیومز کی شکل میں JIT نے سپریم کورٹ میں جمع کروائے، جس میں 256 صفحات پر ان کے اپنے کمنٹس اور سفارشات ہیں۔ JIT کوئی آسمانی صحیفہ نہیں، انسانوں کی بنی ایک چھ رکنی ٹیم تھی، نہ ہی کوئی جج تھا اور نہ ہی ان کی ایسی کوئی ٹریننگ تھی اور نہ ہی اس کی کوئی ضرورت تھی۔ یہ تمام صرف تفتیشی افسران ہیں اور تفتیش کی سند سے خوب واقف ہیں اور اس حوالے سے ان کی ٹریننگ بھی ہے۔ عام طریقہ کار یہ ہے کہ FIR کٹتی ہے، io (انویسٹی گیشن آفیسر) سب سے پہلے تو اس بات کا تعین کرتا ہے کہ جرم کی نوعیت کیا ہے، اس تعین کے بعد تفتیش کا عمل شروع کرتا ہے، بیانات قلمبند کرتا ہے اور شواہدات جمع کرتا ہے، اور اس طرح ریاست اپنے وکیل یعنی پراسیکیوٹر کے ذریعے کیس داخل کرتی ہے۔ کیس داخل کرنا جرم کا ثابت ہونا نہیں ہوتا۔ (Appreciation of Evidences) یعنی شواہدات کے پیمانے کا تخمینہ لگانے کا اختیار کورٹ کے پاس ہوتا ہے۔
ہمارے قانون کا origin اینگلو سیکسن لاء ہے، یعنی برطانیہ یا امریکا میں جج اور جیوری الگ الگ ہیں، ہندوستان اور پاکستان میں جج خود جیوری کا کام کرتا ہے، یعنی شواہدات (Evidences) کی ناپ تول بھی کرتا ہے۔ تو بات کچھ اس طرح سے بنتی ہے کہ JIT کیا ہے؟ شواہدات کو جمع کرنے کے لیے ترتیب دی ہوئی ٹیم، JIT کاکام تھا شواہدات کو جمع کرنا اور کورٹ کو پیش کرنا، جو انھوں نے کیا۔ اب یہ کورٹ کی صوابدید پر ہے کہ وہ کس ثبوت کو ٹھوس ثبوت قرار دے اور نہ بھی دے۔ کورٹ جس کاغذ پر ٹھپہ لگائے وہی ٹھوس ثبوت ہے، باقی تو سب قیاس آرائیاں ہیں، چاہے وہ قانونی پسِ منظر میں کی گئی ہوں یا سیاسی پسِ منظر میں۔ ان قیاس آرائیوں کو آپ ٹھوس ثبوت نہیں مان سکتے۔ ثبوت صرف وہی ہوگا جس پر کورٹ کا Stamp ہوگا۔
JIT نے تفتیش کی، رپورٹ جمع کروائی اور نتیجے پر بھی پہنچی، مگر اپنے اعتبار سے، اور ایک لحاظ سے یہ تمام شواہدات وہ ہیں جو ابھی خود پروسیس ہوں گے، یعنی ایک اور بھٹی سے گزریں گے۔ JIT ایک طرح سے سپریم کورٹ بھی تھی، کیونکہ وہ بیانات قلمبند کر رہی تھی۔ اب ان بیانات سے کوئی مکر نہیں سکتا۔ کیونکہ یہ بیانات جبراً نہیں لیے گئے۔ یہ بیانات کہ جیسے 164 کے تحت کورٹ کے پروسیس میں قلمبند ہوئے ہیں، مثال کے طور پر سعید احمد نے ان تمام بینک اکاؤنٹس کی تفصیلات دے دی ہیں جو اسحٰق ڈار نے استعمال کیے تھے۔ Virgin Island کے اٹارنی جنرل نے تصدیق کردی کہ نیلسن اور نیسکول کمپنیز کی Beneficiary مریم نواز ہیں اور ایسے بہت سے شواہدات ہیں جو کورٹ کو ایک واضح تصویر پیش کریں گے۔
اب اس بات پر آتے ہیں کہ جمہوریت کو کیا خطرہ ہے؟ مجھے تو کہیں دور تک شب خوں نظر نہیں آرہا، جوکہ اس ملک میں آئے پاناما کے بحران کو Capitalized کرے۔ رہا سوال کورٹ کا، تو وہ آزاد ہے۔
"Let the justice be done though the Havens Falls" آندھی آئے یا طوفان، کورٹ کو اس سے غرض نہیں۔ جمہوریت کو خطرہ ہے، یہ ہنگامہ دراصل ان لوگوں کا پیدا کردہ ہے جو خود مافیا کا راج چاہتے ہیں۔ پاکستان میں Non Diluted Democracy نہیں ہے، بلکہ Quasi Democracy ہے۔ ابھی اس Demorcracy نے اپنی جڑیں مضبوط نہیں کی ہیں۔ ان کو کوئی بھی ہائی جیک کرسکتا ہے۔ کل تک اس کو اسٹیبلشمنٹ سے خطرہ تھا۔ آج اس کو Oligarchy (شرفاء) سے خطرہ ہے۔
جب آمریت آنا بند ہوئی تو یہ شرفاء جمہوریت کے دستانے پہن کر لوٹ کھسوٹ میں لگ گئے۔ ہر وہ ادارہ جو احتساب کے لیے بنا تھا، انھوں نے تباہ کیا۔ جاوید ہاشمی کے لیے عرض ہے کہ سب کا احتساب ہونا چاہیے لیکن اگر شروعات سیاستدانوں سے ہوئی تو بری بات کیا ہے۔
یا تو یہ کہا جائے کہ یہ وہ احتساب ہے جو جنرل ایوب، جنرل ضیاء، جنرل مشرف نے کیا تھا۔ تو پھر بحث کی ضرورت ہی ختم ہوجاتی ہے۔ جب کسی نے اپنی آنکھیں بند کی ہوئی ہوں اور سچ کا سامنا ہی نہ کرنا چاہے تو پھر کیا کیا جائے۔
یہ تفتیش ICIJ نے کی ہے، جس کی ساخت پر کوئی شک نہیں ہے۔ اب ہماری جمہوریت کو اور شفاف ہونا ہے۔ آمریت نے جمہوریت کو نقصان پہنچایا، سیاستدانوں کی کرپشن کو بہانہ بنا کر اور اب کوئی اور نہیں، خود جمہوریت کو جمہوریت کے پاسبانوں سے خطرہ ہے۔