ٹرین میں ایک اور مسلم خاندان بھارتی انتہا پسند ہندوؤں کا شکار
بھارت کی ریلوے پولیس نے 30 افراد سے پوچھ گچھ کے بعد 3 مشتبہ افراد کو گرفتار کرلیا ہے
بھارتی ریاست اترپردیش میں ضلع فرخ آباد کے نزدیک ریل گاڑی میں سوار ایک مسلمان خاندان کو ہندو انتہا پسند ہجوم نے باقاعدہ شناخت کرکے ان کے ساتھ مارپیٹ اور لوٹ مار کی جبکہ ریلوے پولیس یہ سارا تماشا دیکھتی رہی۔
بدھ کے روز کیے گئے اس حملے کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوجانے کے بعد بھارت کا محکمہ پولیس حرکت میں آیا اور اس واردات کا مقدمہ گزشتہ روز نامعلوم افراد کے خلاف درج کرلیا گیا ہے۔
تفصیلات کے مطابق شاکر نامی شخص اپنی اہلیہ اور معذور بیٹے کے ساتھ گڑگاؤں سے قائم گنج جارہا تھا جبکہ اس کے چار رشتہ دار بھی ہمراہ تھے۔ راستے میں فرخ آباد سے پہلے چند لڑکوں نے ریل گاڑی ركوائی اور ان کی بوگی میں چڑھ گئے۔ بھارتی اخبار ''دی ہندو'' نے اپنے اسٹاف رپورٹر کے حوالے سے لکھا ہے کہ بوگی میں چڑھنے والے ہندو انتہا پسندوں نے خاتون کے برقع پوش ہونے کی وجہ سے مسلمان گھرانے کو شناخت کیا اور اس کے بعد ان پر حملہ کردیا۔
ان لوگوں نے سب سے پہلے اس معذور لڑکے کو مارنا شروع کردیا اور جب انہیں روکا گیا تو وہ دوسرے مسافروں کے ساتھ بھی مارپیٹ کرنے لگے۔ مسافروں نے بڑی مشکل سے انہیں ٹرین سے نکال باہر کیا اور دروازے کھڑکیاں بند کرلیں لیکن پھر بھی وہ ایک کھڑکی توڑ کر دوبارہ بوگی میں گھس آئے۔
حملہ آوروں نے شاکر اور اس کے خاندان والوں سے موبائل اور زیورات چھین لیے جبکہ انہیں جان سے مارنے کی دھمکیاں بھی دیں۔
مودی سرکار کی خاموش حمایت کے باعث بھارت میں نام نہاد ''گئو رکشکوں'' کے ہاتھوں مسلمانوں پر تشدد اور قتل و غارت گری کے واقعات میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے اور ایسے بیشتر واقعات میں قانون نافذ کرنے والے ادارے خاموش رہتے ہیں۔ اس سے پہلے بھی عید کے موقعے پر دہلی کے نزدیک ایک ہندو جنونی ہجوم نے بس میں سفر کرنے والے 16 سالہ جنید پر گائے کا گوشت رکھنے کا الزام لگا کر اسے بدترین تشدد کرکے قتل کردیا تھا جبکہ اس کے بھائیوں کو شدید زخمی کردیا تھا۔ تب بھی دہلی پولیس نے خاصی دیر بعد ''نامعلوم ہجوم'' کے خلاف مقدمہ درج کرکے ایک شخص کو گرفتار کیا تھا اور فائل بند کردی تھی۔
فرخ آباد واقعے کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوجانے کے بعد بھارتی ریلوے پولیس نے اسی ویڈیو کی بنیاد پر 30 مشتبہ افراد سے پوچھ گچھ کی اور ان میں سے 3 افراد کو حراست میں بھی لیا جاچکا ہے۔
واضح رہے کہ انتہا پسند ہجوم کی بڑھتی ہوئی دہشت گردی کے باعث مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کا گھروں سے نکلنا اور محفوظ طور پر سفر کرنا مشکل سے مشکل تر ہوتا جارہا ہے جبکہ سماجی مبصرین نے اس حوالے سے بھارتی سیاست دانوں کے ردِعمل کو ''مجرمانہ خاموشی'' قرار دیا ہے۔
بدھ کے روز کیے گئے اس حملے کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوجانے کے بعد بھارت کا محکمہ پولیس حرکت میں آیا اور اس واردات کا مقدمہ گزشتہ روز نامعلوم افراد کے خلاف درج کرلیا گیا ہے۔
تفصیلات کے مطابق شاکر نامی شخص اپنی اہلیہ اور معذور بیٹے کے ساتھ گڑگاؤں سے قائم گنج جارہا تھا جبکہ اس کے چار رشتہ دار بھی ہمراہ تھے۔ راستے میں فرخ آباد سے پہلے چند لڑکوں نے ریل گاڑی ركوائی اور ان کی بوگی میں چڑھ گئے۔ بھارتی اخبار ''دی ہندو'' نے اپنے اسٹاف رپورٹر کے حوالے سے لکھا ہے کہ بوگی میں چڑھنے والے ہندو انتہا پسندوں نے خاتون کے برقع پوش ہونے کی وجہ سے مسلمان گھرانے کو شناخت کیا اور اس کے بعد ان پر حملہ کردیا۔
ان لوگوں نے سب سے پہلے اس معذور لڑکے کو مارنا شروع کردیا اور جب انہیں روکا گیا تو وہ دوسرے مسافروں کے ساتھ بھی مارپیٹ کرنے لگے۔ مسافروں نے بڑی مشکل سے انہیں ٹرین سے نکال باہر کیا اور دروازے کھڑکیاں بند کرلیں لیکن پھر بھی وہ ایک کھڑکی توڑ کر دوبارہ بوگی میں گھس آئے۔
حملہ آوروں نے شاکر اور اس کے خاندان والوں سے موبائل اور زیورات چھین لیے جبکہ انہیں جان سے مارنے کی دھمکیاں بھی دیں۔
مودی سرکار کی خاموش حمایت کے باعث بھارت میں نام نہاد ''گئو رکشکوں'' کے ہاتھوں مسلمانوں پر تشدد اور قتل و غارت گری کے واقعات میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے اور ایسے بیشتر واقعات میں قانون نافذ کرنے والے ادارے خاموش رہتے ہیں۔ اس سے پہلے بھی عید کے موقعے پر دہلی کے نزدیک ایک ہندو جنونی ہجوم نے بس میں سفر کرنے والے 16 سالہ جنید پر گائے کا گوشت رکھنے کا الزام لگا کر اسے بدترین تشدد کرکے قتل کردیا تھا جبکہ اس کے بھائیوں کو شدید زخمی کردیا تھا۔ تب بھی دہلی پولیس نے خاصی دیر بعد ''نامعلوم ہجوم'' کے خلاف مقدمہ درج کرکے ایک شخص کو گرفتار کیا تھا اور فائل بند کردی تھی۔
فرخ آباد واقعے کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوجانے کے بعد بھارتی ریلوے پولیس نے اسی ویڈیو کی بنیاد پر 30 مشتبہ افراد سے پوچھ گچھ کی اور ان میں سے 3 افراد کو حراست میں بھی لیا جاچکا ہے۔
واضح رہے کہ انتہا پسند ہجوم کی بڑھتی ہوئی دہشت گردی کے باعث مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کا گھروں سے نکلنا اور محفوظ طور پر سفر کرنا مشکل سے مشکل تر ہوتا جارہا ہے جبکہ سماجی مبصرین نے اس حوالے سے بھارتی سیاست دانوں کے ردِعمل کو ''مجرمانہ خاموشی'' قرار دیا ہے۔