جمہوریت اور سسٹم چلتا رہے

بہر حال متحدہ اپوزیشن نے اس امر پر زور دیا کہ جمہوریت ڈی ریل نہیں ہونی چاہیے


Editorial July 16, 2017
بہر حال متحدہ اپوزیشن نے اس امر پر زور دیا کہ جمہوریت ڈی ریل نہیں ہونی چاہیے . فوٹو : فائل

مسلم لیگ (ن) کی پارلیمانی پارٹی نے وزیراعظم نواز شریف پر بھر پور اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے ان کی مکمل حمایت کا اعلان کیا ہے جب کہ وزیراعظم نوازشریف نے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ آئین، آزاد عدلیہ اور قانون کی حکمرانی پر یقین رکھتے ہیں۔

انہیں یقین ہے سپریم کورٹ ہمارے تحفظات سنے گی، وزیراعظم نے کہا کہ میرا ضمیر صاف ہے لہٰذا استعفیٰ دینے کا سوچ بھی نہیں سکتا اور پاکستان کے عوام کی خاطر آخری دم تک لڑوں گا جب کہ پارلیمانی پارٹی نے اپنے متفقہ اعلان میں کہاکہ جے آئی ٹی رپورٹ تضادات کا مجموعہ ہے جو 2 ماہ میں نہیں بلکہ کافی عرصہ پہلے تیار کیا گیا، سیاسی سطح پر تند وتیز بیانات کا سلسلہ جاری ہے.

قبل ازیں وزیراعظم نواز شریف کی زیر صدارت وفاقی کابینہ کے اجلاس کے حوالہ سے میڈیا رپورٹس میں بتایا گیا کہ وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار نے صورتحال پر بے لاگ گفتگو کی، وزیراعظم کو مشورے دیے اور کہا کہ جو ہو رہا ہے اور جو کچھ ہونے جا رہا ہے کوئی معجزہ ہی آپ کو بچا سکتا ہے۔ ان سے منسوب یہ صائب استدعا بھی سامنے آئی کہ اداروں کے ساتھ تصادم ہر گز نہیں ہونا چاہیے اور کوئی بہتر راستہ نکالنا چاہیے۔ بعد ازاں وزارت داخلہ کا ایک بیان بھی جاری ہوا کہ چوہدری نثار نے کابینہ اجلاس سے بائیکاٹ کیا اور نہ تلخی ہوئی۔ بہر حال سیاسی اور قانونی جنگ میں سیاسی اخلاقیات اور عدلیہ کے احترام کو ملحوظ رکھنا ناگزیر ہے۔

ملکی سیاست کو بلاشبہ پاناما پیپرز کیس کے اٹھائے ہوئے ہولناک سیاسی طوفان کا سامنا ہے ۔ جسے برسوں کے تجاہل عارفانہ اور غفلت و جوابدہی سے گریز کا شاخسانہ بھی قراردیا جاسکتا ہے تاہم یہ حقیقت ہے کہ یہ بلائے ناگہانی حکمرانوں کے اپنے غیر جمہوری طرز عمل کا نتیجہ ہے۔

اب برسوں سے مجتمع ہوتا ہوا طوفان اہل اقتدار کو سر پرگرتا ہوا گلیشیئر نظر آیا ہے تو لازم ہے کہ تاریخ کے اس اہم موڑ پر بصیرت کا مظاہرہ ہو، شفاف حکمرانی کے مستقبل اور ملکی سلامتی و استحکام کو یقینی بنانے کے لیے سیاسی افق پر امید و خدشات کے درمیان فیصلہ کن اور اعصاب شکن کشمکش میں قوم خوشخبری ملنی چاہیے۔

حقیقت یہ ہے کہ موجودہ صورتحال سیاسی فہم وفراست ، دوراندیشی اور عدالتی پراسیس کا ایک صبر آزما امتحان ہے جس سے نکل کر ہی عدلیہ اور سیاست دان ملکی تاریخ کا رخ بدل سکتے ہیں۔ وزیراعظم کے استعفے پر اصرار کی بجائے اپوزیشن سپریم کورٹ کے فیصلہ کا انتظار کرے، عدلیہ جو بھی فیصلے کریگی وزیراعظم سمیت تمام فریقین کے لیے وہ قابل قبول ہوگا جب کہ حکومتی حلقوں کا کہنا ہے کہ وزیراعظم سیاسی صورتحال پر قوم سے خطاب بھی کر سکتے ہیں۔

ادھر اپوزیشن نے وزیراعظم نوازشریف سے استعفیٰ کے لیے3آپشنز پر مشتمل اپنی حکمت عملی طے کرلی ہے ، جے آئی ٹی کی تحقیقاتی رپورٹ منظر عام پر آنے کے بعد ممکنہ طور پر عبوری وزیراعظم کے لیے مختلف مسلم لیگی وزرا کے نام میڈیا میں گردش کررہے ہیں، سپریم کورٹ نے وزیراعظم پاکستان نواز شریف، وزیراعلیٰ پنجاب اور وفاقی وزراء سمیت ن لیگ کے رہنماؤںکیخلاف دائر توہین عدالت کی درخواستیں ابتدائی سماعت کے لیے منظور کی ہیں، ان درخواستوں کی سماعت 17جولائی کو ہونے کا امکان ہے۔

تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے کہا ہے آنے والا ہفتہ پاکستان کی تاریخ کے لیے اہم ہوگا، نیا پاکستان نظر آرہا ہے، ہم سب اسلام آباد آئیں گے اور خوشیاں منائیں گے، انھوں نے کہوٹہ میں جلسے سے خطاب میں یہ باتیں کیں۔وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا پرویز خٹک نے کہا ہے کہ ملک میں قبل از وقت انتخابات نہیں ہونگے، اسمبلیاں اپنی مدت پوری کریں گی۔

شنید ہے کہ متحدہ اپوزیشن کے درمیان وزیراعظم نواز شریف کے استعفے کے مطالبہ پر اختلاف جب کہ اسمبلیوں کی آئینی مدت پوری کرنے پر اتفاق ہوگیا ہے، عوامی نیشنل پارٹی اور قومی وطن پارٹی نے سپریم کورٹ کے فیصلے سے قبل وزیراعظم کے استعفے کے مطالبہ کی مخالفت کی، اجلاس میں اپوزیشن جماعتوں کے98 اراکین اسمبلی نے قومی اسمبلی کا اجلاس بلانے کی ریکوزیشن دستخط کر کے اپوزیشن لیڈر کے حوالے کی ۔ متحدہ اپوزیشن کا اجلاس اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہاؤس میں ہوا جو تین گھنٹے تک جاری رہا۔

اجلاس میں سپریم کورٹ میں پاناما اسکینڈل کے حوالے سے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی)کی رپورٹ پیش ہونے کے بعد کی صورتحال پر غور کیا گیا۔ اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ نے کہا کہ وزیراعظم نے پارلیمنٹ سمیت قوم سے دو بار خطاب میں استعفیٰ کی پیشکش کی تھی، انھیں اپنے ان تینوں وعدوں کی پاسداری کرنی چاہیے، جمہوریت اور سسٹم چلتا رہے لیکن وزیراعظم کے پاس عہدے پر رہنے کا جواز نہیں۔

بہر حال متحدہ اپوزیشن نے اس امر پر زور دیا کہ جمہوریت ڈی ریل نہیں ہونی چاہیے، پاناما لیکس معاملہ کی تحقیقات کے لیے قائم مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کی رپورٹ عدالت عظمیٰ کی ویب سائٹ پر جاری کردی گئی ہے۔ شریف خاندان نے جے آئی ٹی رپورٹ کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

 

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔