کسی نے خوب سزا دی ہے مسکرانے کی
یہ مبالغہ نہیں حقیقت ہے کہ ہمارے ہاں قہقہہ توکیا ایک مسکراہٹ بھی کمیاب ہوچکی ہے
یہ تحقیق ہم نے اب سے کم و بیش 30 برس قبل کہیں پڑھی تھی کہ ایک قہقہہ ایک چھٹانک (آج کے 50 گرام) خالص گھی کے برابر ہوتا ہے۔ دوسری تحقیق کہتی ہے کہ دن میں ایک قہقہہ لگایے اورخود کو ہارٹ اٹیک سے بچائیے۔ افسوس ہمارے معاشرے میں اب واقعی لوگ دل کھول کر ہنسنا بھول گئے ہیں، انھیں اب صرف اپنی بے کسی اور بے بسی پر رونا آتا ہے اور یہ رونا پیٹنا ان کی زندگی کا جزو لازم بن چکا ہے اور ایسا کیوں نہ ہو جس معاشرے میں بمشکل تمام 15 ہزارمہینہ تنخواہ ہو عام آدمی کی، وہاں 30 روزکوئی بال بچے دارکیسے گزارا کرسکتا ہے؟
جس معاشرے میں چھوٹی چھوٹی ضرورتوں اورخواہشات کو پورا کرنے کے لیے دو دو سال کی کمیٹی BC ڈالنی پڑتی ہو، جہاں پینے کا پانی منہ مانگے داموں خریدنا پڑے اور جہاں خون کی ارزانی ہو اس معاشرے کے لوگوں کے چہروں پر مسکراہٹ کیسے اورکیوں کر آسکتی ہے؟ ہمارے ہاں جنازوں میں لوگوں کی جیبیں کٹ جاتی ہیں، قبرستان میں گن پوائنٹ پر قیمتی چیزوں سے محروم کردیا جاتا ہے اور قبر حاصل کرنے کے لیے منہ مانگے دام وصول کیے جاتے ہیں ۔ ہماری تنگ دستی کا عالم دیکھیں مسجدوں کے طہارت خانے کے لوٹے تک زنجیروں سے جکڑے ملتے ہیں۔ ویسے بھی دانا کہتے ہیں کہ وہ معاشرے تباہ ہوجاتے ہیں جہاں پانی خرید کر پیا جائے اور خون سڑکوں پر بہے۔
یہ مبالغہ نہیں حقیقت ہے کہ ہمارے ہاں قہقہہ توکیا ایک مسکراہٹ بھی کمیاب ہوچکی ہے، بعض چشم کشا شعر تو اس نوعیت کے بھی ہیں کہ مسکرانے کی بات کرتے ہو، دل جلانے کی بات کرتے ہو، اگرکسی محفل میں ٹائم پاس کرنے کے لیے لطیفے سنائے جا رہے ہوں تو ہنسی کے لیے ترسے گلے اور ہونٹوں کے مالک لوگ ایسے ایسے لطیفوں پر لوٹ پوٹ ہوجاتے ہیں جن پر صرف رویا جاسکتا ہے۔ ہمارے احباب یا دیگر محافل میں تازہ لطیفہ تو سننے کو ملتا ہی نہیں یار لوگ تازہ لطیفے کا کہہ کرکوئی بوسیدہ سا لطیفہ سنا دیتے ہیں اور پھر اس پر خود ہی ہنسنا شروع کردیتے ہیں۔
اس بات میں کوئی دو رائے نہیں ہوسکتی کہ ہمارا معاشرہ ہنسی کے معاملے میں اتنا بخیل ہوگیا ہے کہ اس کا سایہ ہمارے ادب پر بھی بری طرح پڑا ہے۔ شفیق الرحمن، سید ضمیر جعفری، پطرس بخاری، ابن انشا، کرنل محمد خان، مشتاق احمد یوسفی، انور مقصود، عطا الحق قاسمی اور ڈاکٹر محمد یونس بٹ کو مزاحیہ ادب کا قیمتی اثاثہ قرار دیا جاسکتا ہے۔ ان میں سے بھی اکثر اب اس دنیا سے کوچ کرچکے ہیں لہٰذا جس معاشرے میں مزاح نگاروں کی تعداد ایک ہاتھ کی انگلیوں پر گنی جاسکتی ہو اور پھر بھی انگلیاں پوری نہ ہوں وہاں قہقہے کی کمیابی بلکہ نایابی کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔
ہمارے ہاں گو نثری مزاح لکھنے والوں کی کمی ہے لیکن لوگ اگر چاہیں تو ہنسنے کے لیے بہت سی سنجیدہ چیزوں سے بھی کام چلا سکتے ہیں مثلاً بیشتر اخبارات کے اداریے اور کالم اور ٹیلی ویژن کے ٹاک شوز جو لکھے اور مرتب تو بڑی سنجیدگی سے جاتے ہیں لیکن انھیں پڑھتے، دیکھتے اور سنتے ہوئے ہنسی روکنی مشکل ہوجاتی ہے۔ صاحبان اقتدار اور صاحبان سیاست کی اکثر سنجیدہ تقریریں اور بیانات پر بھی قہقہہ لگایا جاسکتا ہے۔ کہتے ہیں کہ جس طرح قہقہہ صحت کے لیے مفید ہے تو رونا بھی صحت کے لیے اتنا ہی مفید ہے۔
ایک سائنسی تحقیق کے مطابق رونے دھونے سے دل کا غبار دھل جاتا ہے اور انسان ہشاش بشاش ہوجاتا ہے جیسے مشرقی پاکستان کی ذلت آمیز علیحدگی پر رونے دھونے کے بعد ہماری پوری قوم ہشاش بشاش نظر آنے لگی ہے۔ لیکن صبح صبح کسی بھی ذی شعور کے سامنے اخبار رکھ دیا جائے اور اگر کسی ان پڑھ کو بھی دل ہلا دینے والی خبروں کی سرخیاں پڑھ کر سنائیں تو اس کی آیندہ نسل میں سے کسی کے چہرے پر ہنسی نہیں آئے گی۔ تاہم غور طلب بات یہی ہے کہ اگر ہمارے ماحول سے ہنسی یکسر غائب ہوگئی تو لوگ آنسوؤں کے سیلاب میں بہہ جائیں گے۔
بیشتر لوگ مزاحیہ کتابیں بالخصوص لطیفوں کی کتابیں خاصے شوق سے پڑھتے ہیں حالانکہ اگر ان میں حس مزاح نہیں تو انھیں اس قسم کی کتاب نہیں خریدنی چاہیے اور اگر ہے تو پھر اسے خریدنے کی کیا ضرورت ہے؟ ویسے بھی کتاب خرید کر پڑھنے سے وہ اتنی مزاحیہ نہیں لگتی جتنی وہ ہوتی ہے۔ البتہ مانگ کر ایسی کتاب پڑھنے پر بھی بندے کو ہنسی نہ آئے تو اس کا مطلب ہے کہ وہ خود مزاح نگار ہے۔
ہماری دانست میں مزاح نگار اور سنجیدہ رائٹر میں یہ فرق ہوتا ہے کہ سنجیدہ رائٹرکی بات سمجھ میں نہ آئے تو لوگ ہنستے ہیں جب کہ مزاح نگار کی بات سمجھ میں آجائے تو ہنستے ہیں۔ اردو ادب پر نگاہ کی جائے تو پتا چلتا ہے کہ خواتین نے اس صنف پر سرے سے طبع آزمائی نہیں کی۔ خواتین شاید اسی لیے مزاح نہیں لکھتیں کہ لوگ ہنسیں گے اور عورتوں کا مستقبل اس فیلڈ میں شاید اس لیے بھی نہیں بن سکا کیونکہ وہ اگر ذرا سا بھی کسی سے شگفتہ بات کریں تو دوسرا فوراً سنجیدہ ہونے کی کرتا ہے۔
ایک مفکر کا کہنا ہے کہ دنیا میں سب سے زیادہ بچہ ماں کی باتوں پر ہنستا ہے، بہرحال جس کو یہ پتا چل جائے کہ لوگ کس بات پر ہنستے ہیں وہ مزاح نگار نہیں بن سکتا، نقاد ہی بنتا ہے۔ اور اس بات سے کسی کو انکار نہیں ہوگا کہ مسکراہٹ بالخصوص کسی صنف نازک کی مسکراہٹ، صنف مخالف کے لیے خاص حوصلہ افزائی سمجھی جاتی ہے اور یہ بھی غلط نہیں ہے کہ ایک مسکراہٹ فاصلوں کو کم کرکے ماحول کو اچانک بے تکلف اور دوستانہ بنا دیتی ہے اور اجنبی فضا میں بھی ایک دم مانوس سی روشنی پھیل جاتی ہے۔ جہاں تک ہنسنے کی بات ہے یا تعلق ہے تو ہنسنے کی کئی اقسام ہوتی ہیں۔
کچھ لوگ ہنستے ہیں تو ان کے منہ سے آواز نہیں نکلتی صرف سامنے کے دانت نمودار ہوتے ہیں اور ان کا منہ سرخ ہوجاتا ہے۔ کچھ لوگ معمولی سی بات پر فلک شگاف قہقہہ لگاتے ہیں، کچھ لوگ کسی بات پر ہنستے ہیں تو ہنستے چلے جاتے ہیں، ان کا مخاطب انتظار کرتا ہے کہ ان کی ہنسی ختم ہو تو وہ بات آگے بڑھائے۔
کچھ لوگ قسطوں میں ہنستے ہیں آپ سمجھتے ہیں کہ شاید وہ ہنس چکے لیکن ایک جھٹکے کی کیفیت کے ساتھ وہ دوبارہ ہنسنا شروع کردیتے ہیں، کسی کے ہنسنے اور رونے کا انداز ایک ہی ہوتا ہے یعنی جس لے میں وہ روتے ہیں اسی طرز میں ہنستے بھی ہیں۔ اکثر لوگ اپنی بات پر خود ہی ہنسنا شروع کردیتے ہیں، بعض اوقات تو وہ ہنستے ہنستے لوٹ پوٹ بھی ہوجاتے ہیں۔ ان کی اس کیفیت پر ازراہ ہمدردی یا احتراماً ساتھ بیٹھے لوگ بھی ہنسنا شروع کردیتے ہیں۔
مزاح کی حقیقت کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ یہ ناہمواری سے پیدا ہوتا ہے لہٰذا مزاح میں یہ ناہمواری بھی مزاح پیدا کرنے کا باعث بنتی ہے۔ ہنسنے والوں کے علاوہ کچھ ہنسانے والے لوگ بھی ہوتے ہیں، ان میں سے کچھ لوگ اپنی حس مزاح کے بل بوتے پر ہنساتے ہیں اور کچھ حس مزاح سے محرومی کی بدولت لوگوں کو ہنسانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ اور یہ بھی ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ ہنسانا دنیا کا مشکل ترین کام ہوتا ہے کیونکہ کسی کو رلانا بہت آسان کام ہے۔ شاید اسی لیے ہر دور میں ہنسانے والے کو بہت بڑا اور بہت اچھا انسان مانا گیا ہے، ہم نے کہیں پڑھا تھا کہ ٹوٹے ہوئے لوگ ہنستے بہت ہیں۔
یہ ایک مسلمہ امر ہے کہ پاکستان مزاحیہ اداکاروں یا فنکاروں کے اعتبار سے ہمیشہ ایک زرخیز خطہ رہا ہے اور پاکستان کے مزاحیہ اداکاروں کو قدرت نے جو فطری خوبیاں عطا کیں وہ بھارت کے مزاحیہ اداکاروں کے حصے میں نہیں آئیں اور اس حوالے سے ہمارے اکثر مزاحیہ فنکار بین الاقوامی اہمیت کے حامل بھی کہے جاسکتے ہیں۔ ہمارے ہاں فن مزاح یا مزاحیہ اداکاری کے حوالے سے لہری، معین اختر، منور ظریف، رنگیلا، عمر شریف، ننھا اور علی اعجاز وغیرہ نے بے پناہ شہرت و مقبولیت حاصل کی اور ان کے پائے کا کوئی بھی اداکار بھارت آج تک سامنے لانے سے یکسر عاری نظر آتا ہے۔
بدقسمتی سے ہمارا ملک ہمارا معاشرہ ہنسی، خوشی کے فطری اور قدرتی وصف سے محروم ہوتا چلا جا رہا ہے ایک عجیب سی یاسیت اور حزنِ ملال نے ہم سب کا احاطہ کر رکھا ہے جس میں ہم سب مقید ہوکر رہ گئے ہیں۔ اور یہ آفاقی سچائی ہے کہ جس معاشرے میں قہقہہ مرجائے وہاں مسکراہٹ بیوہ ہوجاتی ہے اور اس امر سے بھی انکار ممکن نہیں کہ ہنسنے اور خوش ہونے میں بہت فرق ہوتا ہے۔ خوشی انسان کے پاس تھوڑی دیر کے لیے آتی ہے لیکن دکھ انسان کو چمٹے جاتے ہیں اور اسے کبھی چھوڑ کر نہیں جاتے اور ایسا اس لیے بھی ہے کہ خوشی اس بارش کی مانند ہوتی ہے جس سے پہلے بھی حبس ہوتا ہے اور بعد میں بھی۔
جس معاشرے میں چھوٹی چھوٹی ضرورتوں اورخواہشات کو پورا کرنے کے لیے دو دو سال کی کمیٹی BC ڈالنی پڑتی ہو، جہاں پینے کا پانی منہ مانگے داموں خریدنا پڑے اور جہاں خون کی ارزانی ہو اس معاشرے کے لوگوں کے چہروں پر مسکراہٹ کیسے اورکیوں کر آسکتی ہے؟ ہمارے ہاں جنازوں میں لوگوں کی جیبیں کٹ جاتی ہیں، قبرستان میں گن پوائنٹ پر قیمتی چیزوں سے محروم کردیا جاتا ہے اور قبر حاصل کرنے کے لیے منہ مانگے دام وصول کیے جاتے ہیں ۔ ہماری تنگ دستی کا عالم دیکھیں مسجدوں کے طہارت خانے کے لوٹے تک زنجیروں سے جکڑے ملتے ہیں۔ ویسے بھی دانا کہتے ہیں کہ وہ معاشرے تباہ ہوجاتے ہیں جہاں پانی خرید کر پیا جائے اور خون سڑکوں پر بہے۔
یہ مبالغہ نہیں حقیقت ہے کہ ہمارے ہاں قہقہہ توکیا ایک مسکراہٹ بھی کمیاب ہوچکی ہے، بعض چشم کشا شعر تو اس نوعیت کے بھی ہیں کہ مسکرانے کی بات کرتے ہو، دل جلانے کی بات کرتے ہو، اگرکسی محفل میں ٹائم پاس کرنے کے لیے لطیفے سنائے جا رہے ہوں تو ہنسی کے لیے ترسے گلے اور ہونٹوں کے مالک لوگ ایسے ایسے لطیفوں پر لوٹ پوٹ ہوجاتے ہیں جن پر صرف رویا جاسکتا ہے۔ ہمارے احباب یا دیگر محافل میں تازہ لطیفہ تو سننے کو ملتا ہی نہیں یار لوگ تازہ لطیفے کا کہہ کرکوئی بوسیدہ سا لطیفہ سنا دیتے ہیں اور پھر اس پر خود ہی ہنسنا شروع کردیتے ہیں۔
اس بات میں کوئی دو رائے نہیں ہوسکتی کہ ہمارا معاشرہ ہنسی کے معاملے میں اتنا بخیل ہوگیا ہے کہ اس کا سایہ ہمارے ادب پر بھی بری طرح پڑا ہے۔ شفیق الرحمن، سید ضمیر جعفری، پطرس بخاری، ابن انشا، کرنل محمد خان، مشتاق احمد یوسفی، انور مقصود، عطا الحق قاسمی اور ڈاکٹر محمد یونس بٹ کو مزاحیہ ادب کا قیمتی اثاثہ قرار دیا جاسکتا ہے۔ ان میں سے بھی اکثر اب اس دنیا سے کوچ کرچکے ہیں لہٰذا جس معاشرے میں مزاح نگاروں کی تعداد ایک ہاتھ کی انگلیوں پر گنی جاسکتی ہو اور پھر بھی انگلیاں پوری نہ ہوں وہاں قہقہے کی کمیابی بلکہ نایابی کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔
ہمارے ہاں گو نثری مزاح لکھنے والوں کی کمی ہے لیکن لوگ اگر چاہیں تو ہنسنے کے لیے بہت سی سنجیدہ چیزوں سے بھی کام چلا سکتے ہیں مثلاً بیشتر اخبارات کے اداریے اور کالم اور ٹیلی ویژن کے ٹاک شوز جو لکھے اور مرتب تو بڑی سنجیدگی سے جاتے ہیں لیکن انھیں پڑھتے، دیکھتے اور سنتے ہوئے ہنسی روکنی مشکل ہوجاتی ہے۔ صاحبان اقتدار اور صاحبان سیاست کی اکثر سنجیدہ تقریریں اور بیانات پر بھی قہقہہ لگایا جاسکتا ہے۔ کہتے ہیں کہ جس طرح قہقہہ صحت کے لیے مفید ہے تو رونا بھی صحت کے لیے اتنا ہی مفید ہے۔
ایک سائنسی تحقیق کے مطابق رونے دھونے سے دل کا غبار دھل جاتا ہے اور انسان ہشاش بشاش ہوجاتا ہے جیسے مشرقی پاکستان کی ذلت آمیز علیحدگی پر رونے دھونے کے بعد ہماری پوری قوم ہشاش بشاش نظر آنے لگی ہے۔ لیکن صبح صبح کسی بھی ذی شعور کے سامنے اخبار رکھ دیا جائے اور اگر کسی ان پڑھ کو بھی دل ہلا دینے والی خبروں کی سرخیاں پڑھ کر سنائیں تو اس کی آیندہ نسل میں سے کسی کے چہرے پر ہنسی نہیں آئے گی۔ تاہم غور طلب بات یہی ہے کہ اگر ہمارے ماحول سے ہنسی یکسر غائب ہوگئی تو لوگ آنسوؤں کے سیلاب میں بہہ جائیں گے۔
بیشتر لوگ مزاحیہ کتابیں بالخصوص لطیفوں کی کتابیں خاصے شوق سے پڑھتے ہیں حالانکہ اگر ان میں حس مزاح نہیں تو انھیں اس قسم کی کتاب نہیں خریدنی چاہیے اور اگر ہے تو پھر اسے خریدنے کی کیا ضرورت ہے؟ ویسے بھی کتاب خرید کر پڑھنے سے وہ اتنی مزاحیہ نہیں لگتی جتنی وہ ہوتی ہے۔ البتہ مانگ کر ایسی کتاب پڑھنے پر بھی بندے کو ہنسی نہ آئے تو اس کا مطلب ہے کہ وہ خود مزاح نگار ہے۔
ہماری دانست میں مزاح نگار اور سنجیدہ رائٹر میں یہ فرق ہوتا ہے کہ سنجیدہ رائٹرکی بات سمجھ میں نہ آئے تو لوگ ہنستے ہیں جب کہ مزاح نگار کی بات سمجھ میں آجائے تو ہنستے ہیں۔ اردو ادب پر نگاہ کی جائے تو پتا چلتا ہے کہ خواتین نے اس صنف پر سرے سے طبع آزمائی نہیں کی۔ خواتین شاید اسی لیے مزاح نہیں لکھتیں کہ لوگ ہنسیں گے اور عورتوں کا مستقبل اس فیلڈ میں شاید اس لیے بھی نہیں بن سکا کیونکہ وہ اگر ذرا سا بھی کسی سے شگفتہ بات کریں تو دوسرا فوراً سنجیدہ ہونے کی کرتا ہے۔
ایک مفکر کا کہنا ہے کہ دنیا میں سب سے زیادہ بچہ ماں کی باتوں پر ہنستا ہے، بہرحال جس کو یہ پتا چل جائے کہ لوگ کس بات پر ہنستے ہیں وہ مزاح نگار نہیں بن سکتا، نقاد ہی بنتا ہے۔ اور اس بات سے کسی کو انکار نہیں ہوگا کہ مسکراہٹ بالخصوص کسی صنف نازک کی مسکراہٹ، صنف مخالف کے لیے خاص حوصلہ افزائی سمجھی جاتی ہے اور یہ بھی غلط نہیں ہے کہ ایک مسکراہٹ فاصلوں کو کم کرکے ماحول کو اچانک بے تکلف اور دوستانہ بنا دیتی ہے اور اجنبی فضا میں بھی ایک دم مانوس سی روشنی پھیل جاتی ہے۔ جہاں تک ہنسنے کی بات ہے یا تعلق ہے تو ہنسنے کی کئی اقسام ہوتی ہیں۔
کچھ لوگ ہنستے ہیں تو ان کے منہ سے آواز نہیں نکلتی صرف سامنے کے دانت نمودار ہوتے ہیں اور ان کا منہ سرخ ہوجاتا ہے۔ کچھ لوگ معمولی سی بات پر فلک شگاف قہقہہ لگاتے ہیں، کچھ لوگ کسی بات پر ہنستے ہیں تو ہنستے چلے جاتے ہیں، ان کا مخاطب انتظار کرتا ہے کہ ان کی ہنسی ختم ہو تو وہ بات آگے بڑھائے۔
کچھ لوگ قسطوں میں ہنستے ہیں آپ سمجھتے ہیں کہ شاید وہ ہنس چکے لیکن ایک جھٹکے کی کیفیت کے ساتھ وہ دوبارہ ہنسنا شروع کردیتے ہیں، کسی کے ہنسنے اور رونے کا انداز ایک ہی ہوتا ہے یعنی جس لے میں وہ روتے ہیں اسی طرز میں ہنستے بھی ہیں۔ اکثر لوگ اپنی بات پر خود ہی ہنسنا شروع کردیتے ہیں، بعض اوقات تو وہ ہنستے ہنستے لوٹ پوٹ بھی ہوجاتے ہیں۔ ان کی اس کیفیت پر ازراہ ہمدردی یا احتراماً ساتھ بیٹھے لوگ بھی ہنسنا شروع کردیتے ہیں۔
مزاح کی حقیقت کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ یہ ناہمواری سے پیدا ہوتا ہے لہٰذا مزاح میں یہ ناہمواری بھی مزاح پیدا کرنے کا باعث بنتی ہے۔ ہنسنے والوں کے علاوہ کچھ ہنسانے والے لوگ بھی ہوتے ہیں، ان میں سے کچھ لوگ اپنی حس مزاح کے بل بوتے پر ہنساتے ہیں اور کچھ حس مزاح سے محرومی کی بدولت لوگوں کو ہنسانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ اور یہ بھی ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ ہنسانا دنیا کا مشکل ترین کام ہوتا ہے کیونکہ کسی کو رلانا بہت آسان کام ہے۔ شاید اسی لیے ہر دور میں ہنسانے والے کو بہت بڑا اور بہت اچھا انسان مانا گیا ہے، ہم نے کہیں پڑھا تھا کہ ٹوٹے ہوئے لوگ ہنستے بہت ہیں۔
یہ ایک مسلمہ امر ہے کہ پاکستان مزاحیہ اداکاروں یا فنکاروں کے اعتبار سے ہمیشہ ایک زرخیز خطہ رہا ہے اور پاکستان کے مزاحیہ اداکاروں کو قدرت نے جو فطری خوبیاں عطا کیں وہ بھارت کے مزاحیہ اداکاروں کے حصے میں نہیں آئیں اور اس حوالے سے ہمارے اکثر مزاحیہ فنکار بین الاقوامی اہمیت کے حامل بھی کہے جاسکتے ہیں۔ ہمارے ہاں فن مزاح یا مزاحیہ اداکاری کے حوالے سے لہری، معین اختر، منور ظریف، رنگیلا، عمر شریف، ننھا اور علی اعجاز وغیرہ نے بے پناہ شہرت و مقبولیت حاصل کی اور ان کے پائے کا کوئی بھی اداکار بھارت آج تک سامنے لانے سے یکسر عاری نظر آتا ہے۔
بدقسمتی سے ہمارا ملک ہمارا معاشرہ ہنسی، خوشی کے فطری اور قدرتی وصف سے محروم ہوتا چلا جا رہا ہے ایک عجیب سی یاسیت اور حزنِ ملال نے ہم سب کا احاطہ کر رکھا ہے جس میں ہم سب مقید ہوکر رہ گئے ہیں۔ اور یہ آفاقی سچائی ہے کہ جس معاشرے میں قہقہہ مرجائے وہاں مسکراہٹ بیوہ ہوجاتی ہے اور اس امر سے بھی انکار ممکن نہیں کہ ہنسنے اور خوش ہونے میں بہت فرق ہوتا ہے۔ خوشی انسان کے پاس تھوڑی دیر کے لیے آتی ہے لیکن دکھ انسان کو چمٹے جاتے ہیں اور اسے کبھی چھوڑ کر نہیں جاتے اور ایسا اس لیے بھی ہے کہ خوشی اس بارش کی مانند ہوتی ہے جس سے پہلے بھی حبس ہوتا ہے اور بعد میں بھی۔