پدرم سلطان نابود
اکثر کی ابتدا اور انتہا نظروں کے سامنے ہے، اب ان میں سے بہت سے دولت میں لتھڑے ہوئے اور خود کو پدرم سلطان بود کہتے ہیں
LONDON:
گردش ایام ہر انسان کے ماضی کو کبھی کبھی اس طرح اس کی نظرہی کے سامنے لاکر منظر کی طرح چلانے لگتی ہے کہ اگرچہ بعض اوقات اسے خوف، غصے، پشیمانی، ہنسی اور اختلاح قلب کی کیفیات کا سامنا ہوتا ہے لیکن یہ مصرع دہرانے سے ہر منظر تحلیل ہوجاتا ہے کہ
''راضی ہیں ہم اس پر جس میں تیری رضا ہو''
اگلے روز اپنی موٹر کار پر جل کر راکھ ہوجانے والی لاہور کی سب سے بڑی کتابوں اور سیٹشنری کی دوکان فیروز سنز کے سامنے سے گزر ہوا تو یونیورسٹی لاء کالج میں طالبعلمی کے دنوں کا ایک منظر ذہن کی اسکرین پر فلمی سین کی طرح چلنے لگا جو ایچیسن کالج کی دیوار شروع ہونے تک چلا اور پھر کسی گاڑی کے ہارن بجنے پر غائب ہوگیا۔ ایک رات دس بجے کے قریب میں اور عبدالحئی فیروز سنز کے سامنے بس اسٹاپ پر کھڑے بس کا انتظار کررہے تھے، بس آنے میں تاخیر ہوئی تو عبدالحئی نے کہا میری جیب تو خالی ہے تمہارے پاس کتنے پیسے ہیں۔ میں نے جواب دیا ، صرف بس کی دو ٹکٹ کے لیے۔
اس نے زم زم آئس کریم کی ریڑھی کی طرف دیکھ کر کہا کہ تو پھر ایک آئس کریم لے کر پیدل رہائش گاہ کی طرف چلیں یا بس کا انتظار کیا جائے۔ متفقہ فیصلہ ہوا کہ آئس کریم کا لطف اٹھاتے ہوئے پیدل مارچ کیا جائے۔ ہم رات گیارہ بجے اپنی ایک کمرے کی رہائش گاہ پہنچ گئے لیکن اگلی صبح تک ہم ہشاش بشاش تھے۔ ایک لمحے کے لیے بھی پریشانی نہ ہوئی کہ یونیورسٹی لاء کالج کے سیالکوٹ سے آئے ہوئے دو طالبعلم خالی جیب ہیں جب کہ آج کل گھر سے نکلتے وقت تسلی کرتے ہیںکہ جیب میں بٹوہ اور موبائل فون موجود ہیںکہ نہیں، مقام حیرت، وقت کیسے بدلتا ہے۔
لاء کالج ہی کے زمانے کا ایک اور واقعہ یاد آیا۔ MSC فزکس کے طالبعلم نوید اللہ بٹ نے کہا کہ بھاٹی گیٹ کے باہر مشہور ریستوران پر لنچ کرنے چلیں، مجھے بھی وہاں کا کھانا پسند تھا۔ لہٰذا دونوں نے وہاں لنچ کیا پھر بٹ صاحب نے میری طرف دیکھ کر کہا، بل تم ادا کردو۔ میں نے کہا، لنچ کی دعوت تو تم نے دی تھی، میرے پاس تو پیسے نہیں ہیں۔ بٹ صاحب نے ذرا پریشان ہوکر کہا ، پیسے تو میرے پاس بھی نہیں۔ ہم دونوں فکر مند ہوکر سوچ میں پڑگئے۔ پھر بٹ صاحب نے مجھے کہا، میں بیٹھا ہوں تم ریستوران سے نکل کر انار کلی میں بمبے کلاتھ ہاؤس کے باہر میرا انتظار کرنا۔ میں آہستہ آہستہ چل کر باہر نکلا اور انار کلی بازار کی طرف چل دیا۔
ایک گھنٹہ گزر گیا تو دیکھا بٹ صاحب خراماں خراماں چلتے ہوئے آرہے ہیں، میں نے گھبرائی آواز میں میں پوچھا کیا ہوا ،کیسے نکل کر آئے۔ جواب ملا ریستوران میں ہر وقت گاہکوں کا رش ہوتا ہے، میں باتھ روم چلا گیا ،آدھا گھنٹہ اندر گزار کر ٹہلتا ہوا ریستوران سے باہر نکل آیا۔ اب تمہارے سامنے موجود ہوں۔ اب میں کبھی کبھار اس طرف سے گزرتا ہوں تو شرمندگی محسوس ہوتی ہے۔ سوچتا ہوں کسی روز With Interest بل کی پے منٹ کر ہی دوں، میں تب کے ایسے بے شمار خود سے بھی گئے گزرے ساتھیوں کو جانتا ہوں جو آج پدرم سلطان بود کہتے ہیں اور یہی ہمارا المیہ ہے کہ ہم سچ بولنے سے کراتے ہیں۔
اس تحریر کا مقصد صرف اس قدر ہے کہ زندگی کا کیا بھروسہ، زمانہ طالب علمی میں اپنی مفلوک الحالی کا ذکر کیا تو بعد کی زندگی میں رب ذوالجلال کی عطاؤں کا شکر ادا کرنے کے علاوہ دو محسنوں کا ذکر نہ کرنا احسان فراموشی ہوگا۔ طالب علمی کے دنوں میں میرے قلیل اخراجات ٹیوشن پڑھا کر پورے ہوجاتے تھے۔ جیب خالی ہوتی تو زمانۂ حال کے برعکس کوئی پریشانی نہ ہوتی نہ فاقہ کی حالت میں دل ڈوبتا نہ گرمی و حبس کے موسم میں پیدل چلنا باعث تکلیف ہوتا اور مشق سخن اور چکی کی مشقت مستقل چلتی رہتی۔
میرے ایک محسن کزن کے خاوند کرنل سعید تھے جن کی تعیناتی لاہور ہی میںتھی، عام فوجی افسروں کے برعکس وہ اعلیٰ تعلیم یافتہ تھے ۔ انھوں نے مجھ سے وعدہ کررکھا تھا کہ تعلیم مکمل کرنے پر وہ مجھے لیبر آفیسر کی نوکری دلوا دیں گے۔ میرا ایل ایل بی کا رزلٹ نکلا تو میں فضاؤں میں اڑتا ان کی کنٹونمنٹ والی کوٹھی پہنچ گیا اور انھیں لاء کرلینے کی خوشخبری سنا کر ان کا ملازمت دلوانے کا وعدہ یاد دلایا۔
کرنل سعید بھائی کو طویل لیکچر دینے کا شوق تھا۔ انھوں نے چائے پلانے کے دوران اپنے دوستوں، بعض اعلیٰ سول افسروں کی جدوجہد اور کامیابیوں کے قصے دہرائے اور یہاں تک بتایا کہ ایک کمشنر اپنی غربت کی وجہ سے گلی کی اسٹریٹ لائٹ کی روشنی میں سول سروس کے امتحان کی تیاری کرتا تھا۔
اس روز میں ملازمت ملنے کی امید کو چکنا چور ہوتے دیکھ کر انتہائی ڈپریشن کی حالت میں کرنل سعید کی کوٹھی سے باہر نکلا اور کرشن نگر میں اپنی رہائش گاہ پہنچ کر بستر پر جاگرا۔ حیرت ہے کہ میں بستر سے اٹھا تو مجھ میں ایک عزم بیدار ہوچکا تھا۔ گویا کرنل سعید بھائی کے لیکچر نے مجھ پر جو ڈپریشن کا حملہ کیا اس کے نتیجے میں میں نے اسے چیلنج سمجھ کر حالات سے لڑنے کا ارادہ کرلیا تھا۔ خدا کا شکر کہ میں لڑ کر کامیابی سے ہمکنار ہوا۔
میں ایئرفورس کی افسری کا ایک اخباری اشتہار پڑھ کر انٹرویو اور ٹیسٹ وغیرہ کے مراحل طے کرکے CMB تک پہنچ گیا اور سلیکٹ ہونے کے لیے انڈویٹ ہونے کی بنا پر تین ماہ کے لیے Defer ہوا تاکہ اپنے وزن کی چار پونڈ کمی پوری کروں، میں کھا پی کر آرام کررہا تھا کہ میرے عزیز دوست توقیر حسین نے مجھے CSS اور PCS کے لیے تیاری پر مائل کرلیا۔
پاکستان ایئرفورس کی ملازمت 90 فیصد میری جیب میں تھی، جب میں نے وزن بڑھا کر دوبارہ میڈیکل بورڈ کے روبرو پیش ہونے کا ارادہ ترک کرکے توقیر حسین کی رہائش گاہ پر منتقل ہوکر اس کی رہنمائی میں مقابلے کے امتحان کی تیاری شروع کردی، اگر مجھے آج ایئرفورس والا Option ترک کرکے کسی امتحان کی تیاری کرنے اور قسمت آزمانے کا کہا جائے تو سو بار سوچوں گا لیکن میں نے Risk لیا اور خدا مہربان ہوا۔
گزشتہ پچاس برس کے دوران بے شمار کاروباریوں، سول و فوجی افسروں اور میدان سیاست کے کھلاڑیوں کو دیکھنے، ملنے اور برتنے کا موقع ملا ۔اکثر کی ابتدا اور انتہا نظروں کے سامنے ہے، اب ان میں سے بہت سے دولت میں لتھڑے ہوئے اور خودکو پدرم سلطان بود کہتے ہیں، ان کی گفتگو سن کر صرف زیر لب مسکرا دینا ہی کافی ہوتا ہے کیونکہ اپنے بارے میں معلوم ہے کہ پدرم سلطان نہ بود۔
گردش ایام ہر انسان کے ماضی کو کبھی کبھی اس طرح اس کی نظرہی کے سامنے لاکر منظر کی طرح چلانے لگتی ہے کہ اگرچہ بعض اوقات اسے خوف، غصے، پشیمانی، ہنسی اور اختلاح قلب کی کیفیات کا سامنا ہوتا ہے لیکن یہ مصرع دہرانے سے ہر منظر تحلیل ہوجاتا ہے کہ
''راضی ہیں ہم اس پر جس میں تیری رضا ہو''
اگلے روز اپنی موٹر کار پر جل کر راکھ ہوجانے والی لاہور کی سب سے بڑی کتابوں اور سیٹشنری کی دوکان فیروز سنز کے سامنے سے گزر ہوا تو یونیورسٹی لاء کالج میں طالبعلمی کے دنوں کا ایک منظر ذہن کی اسکرین پر فلمی سین کی طرح چلنے لگا جو ایچیسن کالج کی دیوار شروع ہونے تک چلا اور پھر کسی گاڑی کے ہارن بجنے پر غائب ہوگیا۔ ایک رات دس بجے کے قریب میں اور عبدالحئی فیروز سنز کے سامنے بس اسٹاپ پر کھڑے بس کا انتظار کررہے تھے، بس آنے میں تاخیر ہوئی تو عبدالحئی نے کہا میری جیب تو خالی ہے تمہارے پاس کتنے پیسے ہیں۔ میں نے جواب دیا ، صرف بس کی دو ٹکٹ کے لیے۔
اس نے زم زم آئس کریم کی ریڑھی کی طرف دیکھ کر کہا کہ تو پھر ایک آئس کریم لے کر پیدل رہائش گاہ کی طرف چلیں یا بس کا انتظار کیا جائے۔ متفقہ فیصلہ ہوا کہ آئس کریم کا لطف اٹھاتے ہوئے پیدل مارچ کیا جائے۔ ہم رات گیارہ بجے اپنی ایک کمرے کی رہائش گاہ پہنچ گئے لیکن اگلی صبح تک ہم ہشاش بشاش تھے۔ ایک لمحے کے لیے بھی پریشانی نہ ہوئی کہ یونیورسٹی لاء کالج کے سیالکوٹ سے آئے ہوئے دو طالبعلم خالی جیب ہیں جب کہ آج کل گھر سے نکلتے وقت تسلی کرتے ہیںکہ جیب میں بٹوہ اور موبائل فون موجود ہیںکہ نہیں، مقام حیرت، وقت کیسے بدلتا ہے۔
لاء کالج ہی کے زمانے کا ایک اور واقعہ یاد آیا۔ MSC فزکس کے طالبعلم نوید اللہ بٹ نے کہا کہ بھاٹی گیٹ کے باہر مشہور ریستوران پر لنچ کرنے چلیں، مجھے بھی وہاں کا کھانا پسند تھا۔ لہٰذا دونوں نے وہاں لنچ کیا پھر بٹ صاحب نے میری طرف دیکھ کر کہا، بل تم ادا کردو۔ میں نے کہا، لنچ کی دعوت تو تم نے دی تھی، میرے پاس تو پیسے نہیں ہیں۔ بٹ صاحب نے ذرا پریشان ہوکر کہا ، پیسے تو میرے پاس بھی نہیں۔ ہم دونوں فکر مند ہوکر سوچ میں پڑگئے۔ پھر بٹ صاحب نے مجھے کہا، میں بیٹھا ہوں تم ریستوران سے نکل کر انار کلی میں بمبے کلاتھ ہاؤس کے باہر میرا انتظار کرنا۔ میں آہستہ آہستہ چل کر باہر نکلا اور انار کلی بازار کی طرف چل دیا۔
ایک گھنٹہ گزر گیا تو دیکھا بٹ صاحب خراماں خراماں چلتے ہوئے آرہے ہیں، میں نے گھبرائی آواز میں میں پوچھا کیا ہوا ،کیسے نکل کر آئے۔ جواب ملا ریستوران میں ہر وقت گاہکوں کا رش ہوتا ہے، میں باتھ روم چلا گیا ،آدھا گھنٹہ اندر گزار کر ٹہلتا ہوا ریستوران سے باہر نکل آیا۔ اب تمہارے سامنے موجود ہوں۔ اب میں کبھی کبھار اس طرف سے گزرتا ہوں تو شرمندگی محسوس ہوتی ہے۔ سوچتا ہوں کسی روز With Interest بل کی پے منٹ کر ہی دوں، میں تب کے ایسے بے شمار خود سے بھی گئے گزرے ساتھیوں کو جانتا ہوں جو آج پدرم سلطان بود کہتے ہیں اور یہی ہمارا المیہ ہے کہ ہم سچ بولنے سے کراتے ہیں۔
اس تحریر کا مقصد صرف اس قدر ہے کہ زندگی کا کیا بھروسہ، زمانہ طالب علمی میں اپنی مفلوک الحالی کا ذکر کیا تو بعد کی زندگی میں رب ذوالجلال کی عطاؤں کا شکر ادا کرنے کے علاوہ دو محسنوں کا ذکر نہ کرنا احسان فراموشی ہوگا۔ طالب علمی کے دنوں میں میرے قلیل اخراجات ٹیوشن پڑھا کر پورے ہوجاتے تھے۔ جیب خالی ہوتی تو زمانۂ حال کے برعکس کوئی پریشانی نہ ہوتی نہ فاقہ کی حالت میں دل ڈوبتا نہ گرمی و حبس کے موسم میں پیدل چلنا باعث تکلیف ہوتا اور مشق سخن اور چکی کی مشقت مستقل چلتی رہتی۔
میرے ایک محسن کزن کے خاوند کرنل سعید تھے جن کی تعیناتی لاہور ہی میںتھی، عام فوجی افسروں کے برعکس وہ اعلیٰ تعلیم یافتہ تھے ۔ انھوں نے مجھ سے وعدہ کررکھا تھا کہ تعلیم مکمل کرنے پر وہ مجھے لیبر آفیسر کی نوکری دلوا دیں گے۔ میرا ایل ایل بی کا رزلٹ نکلا تو میں فضاؤں میں اڑتا ان کی کنٹونمنٹ والی کوٹھی پہنچ گیا اور انھیں لاء کرلینے کی خوشخبری سنا کر ان کا ملازمت دلوانے کا وعدہ یاد دلایا۔
کرنل سعید بھائی کو طویل لیکچر دینے کا شوق تھا۔ انھوں نے چائے پلانے کے دوران اپنے دوستوں، بعض اعلیٰ سول افسروں کی جدوجہد اور کامیابیوں کے قصے دہرائے اور یہاں تک بتایا کہ ایک کمشنر اپنی غربت کی وجہ سے گلی کی اسٹریٹ لائٹ کی روشنی میں سول سروس کے امتحان کی تیاری کرتا تھا۔
اس روز میں ملازمت ملنے کی امید کو چکنا چور ہوتے دیکھ کر انتہائی ڈپریشن کی حالت میں کرنل سعید کی کوٹھی سے باہر نکلا اور کرشن نگر میں اپنی رہائش گاہ پہنچ کر بستر پر جاگرا۔ حیرت ہے کہ میں بستر سے اٹھا تو مجھ میں ایک عزم بیدار ہوچکا تھا۔ گویا کرنل سعید بھائی کے لیکچر نے مجھ پر جو ڈپریشن کا حملہ کیا اس کے نتیجے میں میں نے اسے چیلنج سمجھ کر حالات سے لڑنے کا ارادہ کرلیا تھا۔ خدا کا شکر کہ میں لڑ کر کامیابی سے ہمکنار ہوا۔
میں ایئرفورس کی افسری کا ایک اخباری اشتہار پڑھ کر انٹرویو اور ٹیسٹ وغیرہ کے مراحل طے کرکے CMB تک پہنچ گیا اور سلیکٹ ہونے کے لیے انڈویٹ ہونے کی بنا پر تین ماہ کے لیے Defer ہوا تاکہ اپنے وزن کی چار پونڈ کمی پوری کروں، میں کھا پی کر آرام کررہا تھا کہ میرے عزیز دوست توقیر حسین نے مجھے CSS اور PCS کے لیے تیاری پر مائل کرلیا۔
پاکستان ایئرفورس کی ملازمت 90 فیصد میری جیب میں تھی، جب میں نے وزن بڑھا کر دوبارہ میڈیکل بورڈ کے روبرو پیش ہونے کا ارادہ ترک کرکے توقیر حسین کی رہائش گاہ پر منتقل ہوکر اس کی رہنمائی میں مقابلے کے امتحان کی تیاری شروع کردی، اگر مجھے آج ایئرفورس والا Option ترک کرکے کسی امتحان کی تیاری کرنے اور قسمت آزمانے کا کہا جائے تو سو بار سوچوں گا لیکن میں نے Risk لیا اور خدا مہربان ہوا۔
گزشتہ پچاس برس کے دوران بے شمار کاروباریوں، سول و فوجی افسروں اور میدان سیاست کے کھلاڑیوں کو دیکھنے، ملنے اور برتنے کا موقع ملا ۔اکثر کی ابتدا اور انتہا نظروں کے سامنے ہے، اب ان میں سے بہت سے دولت میں لتھڑے ہوئے اور خودکو پدرم سلطان بود کہتے ہیں، ان کی گفتگو سن کر صرف زیر لب مسکرا دینا ہی کافی ہوتا ہے کیونکہ اپنے بارے میں معلوم ہے کہ پدرم سلطان نہ بود۔