قومی احتساب بیورو اور سندھ
بل کی منظوری کے وقت سندھ اسمبلی میں اپوزیشن کی تمام جماعتوں نے پرزور انداز میں اس بل کی مخالفت کی تھی
ان دنوں ہر طرف پاناما لیکس سے متعلق وزیراعظم میاں نواز شریف اور ان کے خاندان کے بارے میں جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم کی رپورٹ کا چرچا ہے، جو سپریم کورٹ میں پیش کی جاچکی ہے، اب ہر کوئی اپنی اپنی سمجھ کے مطابق نہ صرف اس پر تبصرے کررہا ہے بلکہ پیش گوئی بھی کررہا ہے کہ سپریم کورٹ اس رپورٹ کی روشنی میں کیا فیصلہ سنائے گی۔
عام لوگوں میںیہ تاثر پایا جاتا ہے کہ شریف خاندان پھنس چکا ہے یا ''پھنسا'' دیا گیا ہے، جے آئی ٹی کی رپورٹ ان کے لیے گلے کا پھندا ثابت ہوسکتی ہے، تاہم اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ شریف خاندان قسمت کا دھنی ہے اور کسی نہ کسی طرح اس بحران سے نکل آئے گا جیسا کہ ماضی میں ہوا تھا۔ بہرحال اس مقدمے کا اونٹ آئندہ دو ہفتوں میں کسی نہ کسی کروٹ بیٹھ ہی جائے گا، اس وقت تک میڈیا خاص طور پر الیکٹرونک میڈیا لوگوں کو اپنے نت نئے تبصروں اور تجزیوں سے مشغول رکھے گا، اس شور شرابے میں سندھ حکومت کی جانب سے احتساب کے وفاقی قانون کو ختم کرنے کی کوشش پس منظر میں چلی گئی ہے۔
آپ کو یاد ہوگا کہ گزشتہ دنوں سندھ اسمبلی میں ایک بل منظور کرایا گیا ہے جو قومی احتساب آرڈیننس 1999کی تنسیخ سے متعلق ہے، یہ بل اگر نافذالعمل ہوا تو سندھ میں قومی احتساب بیورو کی تمام سرگرمیاں معطل ہوجائیں گی اور اس کے تیار کردہ تمام ریفرنس اور مقدمات صوبائی محکمہ اینٹی کرپشن کو منتقل کر دیے جائیں گے۔
یہ بل منظوری کے لیے گورنر سندھ محمد زبیر کو بھیجا گیا ہے، ان کے دستخط کے بعد یہ قانونی شکل اختیار کر لے گا۔ فی الحال یہ ابھی تک محض ایک بل ہے اور اس کی نوعیت ایک قرارداد یا تجویز کی سی ہے، اسے گورنر سے منظور کرانے میں پیپلزپارٹی کی حکومت کو کافی دشواری کا سامنا کرنا پڑے گا کیونکہ گورنر محمد زبیر واضح طور پر کہہ چکے ہیں کہ وہ اس پر دستخط نہیں کریں گے اور اعتراضات کے ساتھ واپس بھجوا دیں گے۔
بل کی منظوری کے وقت سندھ اسمبلی میں اپوزیشن کی تمام جماعتوں نے پرزور انداز میں اس بل کی مخالفت کی تھی اور کھل کر کہا تھا کہ اس بل کی آڑ میں صوبائی حکومت کرپشن کے الزامات میں ملوث اپنے چہیتوں کو نہ صرف احتساب سے بچانا چاہتی ہے بلکہ آئندہ کے لیے سندھ میں احتساب کا دروازہ ہی بند کر دینا چاہتی ہے تاکہ کرپشن میں ملوث لوگ بلاخوف و خطر اپنا کام جاری رکھ سکیں۔
اپوزیشن لیڈر خواجہ اظہار الحسن تو اس کے خلاف عدالت سے رجوع کرنے کا اعلان بھی کرچکے ہیں مگر تاحال ان کی طرف سے ابھی تک کوئی پٹیشن ہائی کورٹ میں دائر نہیں کی گئی ہے۔ اسی دوران قومی احتساب قانون سے متعلق قومی اسمبلی کی پارلیمانی کمیٹی نے سندھ اسمبلی میں منظور کر دہ اس بل کو غیرآئینی قرار دیا ہے اور سندھ حکومت سے سفارش کی ہے کہ وہ اس پر نظرثانی کرے کہ آرٹیکل 142 اور 143 کے تحت یہ بل نافذالعمل نہیں ہوسکتا۔
قانونی موشگافیوں سے قطع نظر اہمیت اس بات کی ہے کہ اس بل کے پاس ہونے سے کرپشن کو فروغ ملے گا یا کرپشن کو روکنے میں مدد ملے گی؟ ایک ایسے وقت میں جب کہ ملک اپنی تاریخ کے اہم موڑ سے گزر رہا ہے پاناما لیکس کے نتیجے میں ملک کی سب سے بڑی عدالت وزیراعظم کا احتساب کررہی ہے، سندھ میں احتساب کے قوانین سے چھیڑچھاڑ بے وقت کی راگنی لگتی ہے۔
سوچنے کی بات یہ ہے کہ پیپلزپارٹی 5 برس تک وفاق میں برسر اقتدار رہی اور گزشتہ 9 برس سے سندھ میں حکومت کررہی ہے، اسے نیب آرڈیننس ختم کرنے کا خیال اچانک کیوں آیا ہے؟ یہ قانون اس نے اس وقت منسوخ کیوں نہیں کرایا جب وہ وفاق میں بھی برسراقتدار تھی۔ پیپلزپارٹی کے ناقدین کی رائے میں سندھ حکومت احتساب سے متعلق وفاقی قانون سے اب اس لیے جان چھڑانا چاہتی ہے تاکہ اپنے ان جیالوں کو قانون کے شکنجے سے بچا لے، جن کے خلاف کرپشن کے مقدمے چل رہے ہیں، ان میں حکمراں جماعت کے بعض سابق وزرا، مشیر اور سرکاری افسران شامل ہیں، جنھیں بدعنوانی کے مقدمات میں سزا ہوسکتی ہے۔
سندھ حکومت یقیناً اس امر سے آگاہ ہوگی کہ قومی احتساب قوانین سے متعلق قومی اسمبلی کی پارلیمانی کمیٹی نے سندھ اسمبلی میں منظور کردہ اس بل کو غیرآئینی قرار دیا ہے اور اس پر نظرثانی کی سفارش کی ہے، وفاقی وزیر قانون زاہد حامد کے بقول سندھ میں نیب کا اختیار ختم کرنے کا بل غیرآئینی اور غیرقانونی ہے اور اسے جلد بازی میں منظور کیا گیا ہے، آرٹیکل 142 اور 143 کے تحت اس بل کا اطلاق نہیں ہوسکتا۔ مگر وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ وفاقی وزیرقانون کے خیالات سے متفق نہیں۔
وہ سمجھتے ہیں کہ آئین کی 18ویں ترمیم کے بعد یہ صوبائی اختیار ہے کہ وہ کرپشن کی روک تھام کے لیے اپنا قانون متعارف کرائے۔ اس لیے انھوں نے گورنر محمد زبیر پر زور دیا ہے کہ وہ جلد از جلد بل پر دستخط کریں۔ اب گورنر ان کے دباؤ میں آتے ہیں یا نہیں، اس کا فیصلہ ہونے میں کچھ وقت لگے گا۔ گورنر کے پاس ایک ماہ کا وقت ہے۔ بل موصول ہونے کے بعد ایک ماہ کے اندر انھیں اس پر دستخط کرنے ہوتے ہیں یا بل کو واپس بھجوانا ہوتا ہے۔
بل واپس اسمبلی میں بھیجنے کی صورت میں صوبائی حکومت کو اس میں ردو بدل کرنا ہوگا اور اسے وفاق کے لیے قابل قبول بنانا ہوگا، بصورت دیگر صوبے اور وفاق میں ایک خاموش جنگ یا محاذ آرائی شروع ہوجائے گی۔ کرپشن کے خلاف اقدامات کے حوالے سے سندھ حکومت کا ریکارڈ اگر اچھا ہوتا تو اس بل کی مخالفت کرنا مشکل ہوتی، مگر بدقسمتی سے سندھ میں کرپشن کی روک تھام کے لیے کچھ ہوتا نظر نہیں آرہا، اینٹی کرپشن کا محکمہ طویل عرصہ سے غیرفعال ہے، اس کی کارکردگی نہ ہونے کے برابر ہے، ایسے میں کرپشن کی روک تھام کے وفاقی ادارے کو سندھ میں کام کرنے سے روکنے کے بل کو صوبے میں کرپشن کرنے کی آزادی دینے کا بل نہ کہا جائے گا تو اور کیا کہا جائے گا؟
بہتر یہ ہوگا کہ وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ صوبائی خودمختاری کی آڑ میں صوبے میں وفاقی احتساب بیورو کو کام کرنے سے روکنے کے بجائے اپنی حکومت کی گورننس کو بہتر بنانے پر توجہ دیں اور کرپٹ لوگوں کو اپنے مقدمات کا خود سامنا کرنے کا مشورہ دیں، انھیں کسی قسم کا تحفظ فراہم نہ کریں، بدعنوانی کا کلچر ہمارے پورے سیاسی اور انتظامی نظام میں جڑیں پکڑ چکا ہے، جسے ادارہ جاتی سطح پر اکھاڑ پھینکنے کی ضرورت ہے۔
سرکاری محکموں کے اہلکاروں کے ہاتھوں ستائے ہوئے عوام ریلیف چاہتے ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ سندھ کی حکومت کرپشن کی روک تھام کے قانون کو ختم کرنے کے بجائے کرپشن کے خاتمے کیلیے ٹھوس اقدامات کرے، ماضی میں ناجائز کاموں کے لیے رشوت لی جاتی تھی، اب تو ہر جائز کام بھی بغیر رشوت دیے ہوجانے کا تصور نہیں کیا جاسکتا، اس صورتحال کو بدلنے کی اشد ضرورت ہے۔
(تازہ ترین:گورنر سندھ نے اپنے اعتراضات کے ساتھ بل سندھ حکومت کو واپس بھجوادیاہے)
عام لوگوں میںیہ تاثر پایا جاتا ہے کہ شریف خاندان پھنس چکا ہے یا ''پھنسا'' دیا گیا ہے، جے آئی ٹی کی رپورٹ ان کے لیے گلے کا پھندا ثابت ہوسکتی ہے، تاہم اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ شریف خاندان قسمت کا دھنی ہے اور کسی نہ کسی طرح اس بحران سے نکل آئے گا جیسا کہ ماضی میں ہوا تھا۔ بہرحال اس مقدمے کا اونٹ آئندہ دو ہفتوں میں کسی نہ کسی کروٹ بیٹھ ہی جائے گا، اس وقت تک میڈیا خاص طور پر الیکٹرونک میڈیا لوگوں کو اپنے نت نئے تبصروں اور تجزیوں سے مشغول رکھے گا، اس شور شرابے میں سندھ حکومت کی جانب سے احتساب کے وفاقی قانون کو ختم کرنے کی کوشش پس منظر میں چلی گئی ہے۔
آپ کو یاد ہوگا کہ گزشتہ دنوں سندھ اسمبلی میں ایک بل منظور کرایا گیا ہے جو قومی احتساب آرڈیننس 1999کی تنسیخ سے متعلق ہے، یہ بل اگر نافذالعمل ہوا تو سندھ میں قومی احتساب بیورو کی تمام سرگرمیاں معطل ہوجائیں گی اور اس کے تیار کردہ تمام ریفرنس اور مقدمات صوبائی محکمہ اینٹی کرپشن کو منتقل کر دیے جائیں گے۔
یہ بل منظوری کے لیے گورنر سندھ محمد زبیر کو بھیجا گیا ہے، ان کے دستخط کے بعد یہ قانونی شکل اختیار کر لے گا۔ فی الحال یہ ابھی تک محض ایک بل ہے اور اس کی نوعیت ایک قرارداد یا تجویز کی سی ہے، اسے گورنر سے منظور کرانے میں پیپلزپارٹی کی حکومت کو کافی دشواری کا سامنا کرنا پڑے گا کیونکہ گورنر محمد زبیر واضح طور پر کہہ چکے ہیں کہ وہ اس پر دستخط نہیں کریں گے اور اعتراضات کے ساتھ واپس بھجوا دیں گے۔
بل کی منظوری کے وقت سندھ اسمبلی میں اپوزیشن کی تمام جماعتوں نے پرزور انداز میں اس بل کی مخالفت کی تھی اور کھل کر کہا تھا کہ اس بل کی آڑ میں صوبائی حکومت کرپشن کے الزامات میں ملوث اپنے چہیتوں کو نہ صرف احتساب سے بچانا چاہتی ہے بلکہ آئندہ کے لیے سندھ میں احتساب کا دروازہ ہی بند کر دینا چاہتی ہے تاکہ کرپشن میں ملوث لوگ بلاخوف و خطر اپنا کام جاری رکھ سکیں۔
اپوزیشن لیڈر خواجہ اظہار الحسن تو اس کے خلاف عدالت سے رجوع کرنے کا اعلان بھی کرچکے ہیں مگر تاحال ان کی طرف سے ابھی تک کوئی پٹیشن ہائی کورٹ میں دائر نہیں کی گئی ہے۔ اسی دوران قومی احتساب قانون سے متعلق قومی اسمبلی کی پارلیمانی کمیٹی نے سندھ اسمبلی میں منظور کر دہ اس بل کو غیرآئینی قرار دیا ہے اور سندھ حکومت سے سفارش کی ہے کہ وہ اس پر نظرثانی کرے کہ آرٹیکل 142 اور 143 کے تحت یہ بل نافذالعمل نہیں ہوسکتا۔
قانونی موشگافیوں سے قطع نظر اہمیت اس بات کی ہے کہ اس بل کے پاس ہونے سے کرپشن کو فروغ ملے گا یا کرپشن کو روکنے میں مدد ملے گی؟ ایک ایسے وقت میں جب کہ ملک اپنی تاریخ کے اہم موڑ سے گزر رہا ہے پاناما لیکس کے نتیجے میں ملک کی سب سے بڑی عدالت وزیراعظم کا احتساب کررہی ہے، سندھ میں احتساب کے قوانین سے چھیڑچھاڑ بے وقت کی راگنی لگتی ہے۔
سوچنے کی بات یہ ہے کہ پیپلزپارٹی 5 برس تک وفاق میں برسر اقتدار رہی اور گزشتہ 9 برس سے سندھ میں حکومت کررہی ہے، اسے نیب آرڈیننس ختم کرنے کا خیال اچانک کیوں آیا ہے؟ یہ قانون اس نے اس وقت منسوخ کیوں نہیں کرایا جب وہ وفاق میں بھی برسراقتدار تھی۔ پیپلزپارٹی کے ناقدین کی رائے میں سندھ حکومت احتساب سے متعلق وفاقی قانون سے اب اس لیے جان چھڑانا چاہتی ہے تاکہ اپنے ان جیالوں کو قانون کے شکنجے سے بچا لے، جن کے خلاف کرپشن کے مقدمے چل رہے ہیں، ان میں حکمراں جماعت کے بعض سابق وزرا، مشیر اور سرکاری افسران شامل ہیں، جنھیں بدعنوانی کے مقدمات میں سزا ہوسکتی ہے۔
سندھ حکومت یقیناً اس امر سے آگاہ ہوگی کہ قومی احتساب قوانین سے متعلق قومی اسمبلی کی پارلیمانی کمیٹی نے سندھ اسمبلی میں منظور کردہ اس بل کو غیرآئینی قرار دیا ہے اور اس پر نظرثانی کی سفارش کی ہے، وفاقی وزیر قانون زاہد حامد کے بقول سندھ میں نیب کا اختیار ختم کرنے کا بل غیرآئینی اور غیرقانونی ہے اور اسے جلد بازی میں منظور کیا گیا ہے، آرٹیکل 142 اور 143 کے تحت اس بل کا اطلاق نہیں ہوسکتا۔ مگر وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ وفاقی وزیرقانون کے خیالات سے متفق نہیں۔
وہ سمجھتے ہیں کہ آئین کی 18ویں ترمیم کے بعد یہ صوبائی اختیار ہے کہ وہ کرپشن کی روک تھام کے لیے اپنا قانون متعارف کرائے۔ اس لیے انھوں نے گورنر محمد زبیر پر زور دیا ہے کہ وہ جلد از جلد بل پر دستخط کریں۔ اب گورنر ان کے دباؤ میں آتے ہیں یا نہیں، اس کا فیصلہ ہونے میں کچھ وقت لگے گا۔ گورنر کے پاس ایک ماہ کا وقت ہے۔ بل موصول ہونے کے بعد ایک ماہ کے اندر انھیں اس پر دستخط کرنے ہوتے ہیں یا بل کو واپس بھجوانا ہوتا ہے۔
بل واپس اسمبلی میں بھیجنے کی صورت میں صوبائی حکومت کو اس میں ردو بدل کرنا ہوگا اور اسے وفاق کے لیے قابل قبول بنانا ہوگا، بصورت دیگر صوبے اور وفاق میں ایک خاموش جنگ یا محاذ آرائی شروع ہوجائے گی۔ کرپشن کے خلاف اقدامات کے حوالے سے سندھ حکومت کا ریکارڈ اگر اچھا ہوتا تو اس بل کی مخالفت کرنا مشکل ہوتی، مگر بدقسمتی سے سندھ میں کرپشن کی روک تھام کے لیے کچھ ہوتا نظر نہیں آرہا، اینٹی کرپشن کا محکمہ طویل عرصہ سے غیرفعال ہے، اس کی کارکردگی نہ ہونے کے برابر ہے، ایسے میں کرپشن کی روک تھام کے وفاقی ادارے کو سندھ میں کام کرنے سے روکنے کے بل کو صوبے میں کرپشن کرنے کی آزادی دینے کا بل نہ کہا جائے گا تو اور کیا کہا جائے گا؟
بہتر یہ ہوگا کہ وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ صوبائی خودمختاری کی آڑ میں صوبے میں وفاقی احتساب بیورو کو کام کرنے سے روکنے کے بجائے اپنی حکومت کی گورننس کو بہتر بنانے پر توجہ دیں اور کرپٹ لوگوں کو اپنے مقدمات کا خود سامنا کرنے کا مشورہ دیں، انھیں کسی قسم کا تحفظ فراہم نہ کریں، بدعنوانی کا کلچر ہمارے پورے سیاسی اور انتظامی نظام میں جڑیں پکڑ چکا ہے، جسے ادارہ جاتی سطح پر اکھاڑ پھینکنے کی ضرورت ہے۔
سرکاری محکموں کے اہلکاروں کے ہاتھوں ستائے ہوئے عوام ریلیف چاہتے ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ سندھ کی حکومت کرپشن کی روک تھام کے قانون کو ختم کرنے کے بجائے کرپشن کے خاتمے کیلیے ٹھوس اقدامات کرے، ماضی میں ناجائز کاموں کے لیے رشوت لی جاتی تھی، اب تو ہر جائز کام بھی بغیر رشوت دیے ہوجانے کا تصور نہیں کیا جاسکتا، اس صورتحال کو بدلنے کی اشد ضرورت ہے۔
(تازہ ترین:گورنر سندھ نے اپنے اعتراضات کے ساتھ بل سندھ حکومت کو واپس بھجوادیاہے)