پاکستان میں جمہوری جدوجہد اور عورت آخری حصہ
پنجاب اور بلوچستان سے خواتین کی ایک بڑی تعداد ہمیں ہر سطح پر جمہوری جدوجہد کرتی نظر آتی ہے۔
قیام پاکستان سے 1964 کے صدارتی انتخابات تک ہماری عورتیں سماجی اور ثقافتی سرگرمیوں میں مصروف رہیں۔ وہ لڑکیوں کے لیے نئے اسکول قائم کررہی تھیں، انڈسٹریل ہوم کھل رہے تھے۔ نرسنگ کے شعبے میں کام ہو رہا تھا لیکن سیاست میں ان کی حصہ داری نہ ہونے کے برابر تھی۔ سابق مشرقی پاکستان میں یہ صورت حال قدرے مختلف تھی۔ وہاں کالجوں اور یونیورسٹیوں میں پڑھنے والی لڑکیاں مختلف سیاسی جماعتوں سے وابستہ تھیں۔ وہ احتجاجی مظاہروں میں حصہ لیتیں اور ریاستی جبر کا نشانہ بنتیں۔ موتیا سرکار پر جس نوعیت کا تشدد ہوا، مشرقی پاکستان کی عورت اسے کیسے بھول سکتی تھی۔
ملک کے مغربی حصے میں جب محترمہ فاطمہ جناح حزب اختلاف کی متفقہ امید وار کے طور پر سامنے آئیں تو حکمران طبقے میں کھلبلی مچ گئی۔ جنرل ایوب خان اور ان کے ساتھیوں کو اس کا علم تھا کہ وہ محترمہ کی عوامی مقبولیت کا سامنا نہ کرسکیں گے، ان پر بدعنوانی کے الزامات عائد نہیں کیے جاسکتے تھے، اسی لیے ان پر مذہبی حوالوں سے یلغار ہوئی۔ وہ علمائے سو جو ایوب خان کی سرپرستی میں پھل پھول رہے تھے، انھوں نے یہ آواز بلند کی کہ کوئی عورت کسی اسلامی مملکت کی سربراہ نہیں ہوسکتی۔
یہ ایک ایسا شور و غوغا تھا جس کا آج تصور نہیں کیا جاسکتا۔اس وقت مغربی حصے کے عوام کو جن میں مرد اور عورتیں سب ہی شامل تھیں، اس بات کا احساس ہوا کہ سیاست میں ان کی سر گرم حصہ داری کے ذریعے ہی وہ اپنا اور اپنی آئندہ نسلوں کا مستقبل سنوار سکتے ہیں۔ پاکستانی عورت نے 1964 کے صدارتی انتخابات سے یہ سیکھا کہ اسے بھی سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینا چاہیے۔ وہ یہ جان گئی کہ سیاست میں حصہ لیے بغیر وہ نہ اپنی حالت سنوار سکتی ہے اور نہ ملک کی تعمیر و ترقی میں اپنا حصہ ڈال سکتی ہے۔
جولائی 1967 میں اب سے 50 برس پہلے محترمہ فاطمہ جناح کا انتقال ہوا۔ ان کے مخالفین تو ایک طرف رہے، ان کے حامیوں کو بھی اس کا اندازہ نہیں تھا کہ ان کا جنازہ اس شان سے اٹھے گا۔ یہ وہ دن تھے جب میں روزنامہ ''مشرق'' میں ایک خاتون کی ڈائری لکھ رہی تھی۔ اس جلوس جنازہ کے ساتھ میں میلوں پیدل چلی تھی۔ مجھے آج بھی وہ جلوس جنازہ یاد ہے جو لاکھوں پر مشتمل تھا۔ یہ اس سیاسی رہنما کا جنازہ تھا جس کو صرف 3 برس پہلے بد ترین دھاندلی سے ہرا دیا گیا تھا لیکن روتے اور آہ و بکا کرتے ہوئے مردوں ، عورتوں اور کم عمر لڑکوں کا فیصلہ کچھ اور تھا جو اس کے آخری سفر پر امنڈ آئے تھے۔
یہ اس عورت کا رخصتی سفر تھا جس کے بارے میں ہمارے علمائے دین متین کا کہنا تھا کہ وہ سربراہِ مملکت نہیں ہوسکتی۔ ایک طرف کرم خوردہ کتابوں کے حوالے تھے دوسری طرف عوامی فیصلہ تھا جن کے خیال میں وہ ایک بے بدل رہنما تھی۔ جولائی کی گرم دوپہر میں میلوں لمبا وہ جلوس جو رواں دواں تھا اس بات کی گواہی تھا کہ عام پاکستانی کے خیال میں سیاست مسلمان عورت کے لیے شجر ممنوع نہیں۔
یہی وہ دن تھے جب 30 نومبر 1967 کو ذوالفقار علی بھٹو کی پیپلز پارٹی ملک کے سیاسی افق پر ابھری اور جس میں ابتدا سے پُر جوش اور سیاسی شعور رکھنے والی عورتیں شامل ہوئیں اور انھوں نے ملک کا سیاسی منظر نامہ بدل دیا۔ ادھر مشرقی پاکستان میں بنگالی عورت عوامی لیگ کا متحرک اور پُرجوش حصہ تھی۔ پاکستان پیپلز پارٹی کی محترمہ نصرت بھٹو نے آنے والے دنوں میں جی کھول کر سیاست میں حصہ لیا۔ ان کی موجودگی اور حرکت پذیری نے پاکستانی عورتوںاور بہ طور خاص سندھ کی شہری اور دیہی عورت کو آگے بڑھ کر اپنے حقوق کی جنگ لڑنے کا راستہ دکھایا۔
اسی طرح مغربی پاکستان جو اب صرف پاکستان رہ گیا تھا، اس میں نصرت بھٹو کی سربراہی میں نئی نسل کی پُر جوش خواتین سامنے آئیں اور انھوں نے عورتوں کی تعلیم، صحت، روزگار اور ان کے آئینی اور قانونی حقوق کے لیے ایک لمبی لڑائی کا آغاز کیا۔ آغاز سفر میں شیری رحمان، فوزیہ وہاب، ناہید خان اور بہت سی دوسری خواتین شامل تھیں۔ بھٹو صاحب کی شہادت پر پیپلز پارٹی کی رکن اور ہمدرد خواتین نے محترمہ نصرت بھٹو کی قیادت میں جمہوریت کی لڑائی لڑی۔ اس لڑائی میں ہمیں پُر جوش خواتین کئی محاذوں پر دکھائی دیتی ہیں۔
ان ہی میں رضیہ بھٹی اور نسیم زہرا تھیں جو اپنے قلم سے جدوجہد کررہی تھیں۔ ان میں فوزیہ وہاب، ناہید خان اور دوسری ان گنت خواتین تھیں جو اس حقیقت سے آگاہ تھیں کہ ایک فوجی آمر کے خلاف لڑائی بہت مشکل ہے۔ جنرل ضیاء الحق نے جب خواتین دشمن سیاہ قوانین کو آرڈیننس کے ذریعے نافذ کیا تو یہ ہماری پڑھی لکھی ادیب، شاعر، صحافی اور وکیل برادری سے تعلق رکھنے والیاں تھیں جنھوں نے ایک آئینی اور جمہوری جدوجہد کا آغاز کیا۔ سچ تو یہ ہے کہ جنرل ضیاء کے خلاف جتنی شعوری اور مشکل جدوجہد عورتوں نے کی، اس کی مثال ملنی ذرا مشکل ہے۔
ملک کے سیاسی افق پر بے نظیر بھٹو طلوع ہوئیں۔ ان کے گرد متحرک عورتوں کا ایک بڑا جتھا تھا۔ وہ خود ساختہ جلاوطنی ختم کرکے پاکستان آئیں اور لاہور ائیر پورٹ پر اتریں تو ان کے لیے لاکھوں کا ہجوم چشم براہ تھا۔ بے نظیر بھٹو مسلم دنیا کی پہلی خاتون وزیراعظم منتخب ہوئیں تو پاکستان کی غریب اور مفلوک الحال عورت نے ان کی کامیابی کا جشن منایا۔ بے نظیر بھٹو دو مرتبہ وزیراعظم منتخب ہوئیں اور دونوں مرتبہ پاکستانی عورتوں کی سیاسی اور جمہوری جدوجہد کچھ آگے بڑھی۔
یہ بات عام طور پر کہی جاتی ہے کہ سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا۔ بہ طور خاص پاکستان جیسے ملکوں میں جہاں طویل عرصے تک مطلق العنان فوجی آمر حکومت کرتے ہوں۔ اپنی خود نوشت ''دخترِ مشرق'' میں بے نظیر نے لکھا ہے کہ ''گرمی کے موسم میں میری جیل کی کھولی دہکتا ہوا تنور بن چکی تھی۔ میری کھال پھٹ گئی تھی اور وہ ورق کی طرح میرے ہاتھ سے اتر رہی تھی۔ میرے بال جو بہت گھنے تھے، وہ ہاتھ لگانے سے نکل جاتے تھے۔ کیڑے مکوڑے میری کھولی میں یوں چلتے پھرتے نظر آتے جیسے کوئی فاتح فوج ہو۔ ٹڈے، مچھر ، کاٹنے والی مکھیاں، شہد کی مکھیاں اور کٹھمل فرش کی درز سے نکل آتے۔ کاکروچ، سرخ چونٹیوں کی قطار اور مکڑیاں میرے چاروں طرف منڈلاتیں۔''
جنرل ضیاء کے بعد جنرل مشرف نے جمہوریت پر شب خون مارا۔ اس مرتبہ ان کا شکار میاں نواز شریف ہوئے۔جولائی 2000 ء میں کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ ان کی بیگم جن کی بیشتر لوگوں نے جھلک بھی نہیں دیکھی تھی، وہ میدان میں اتریں گی اور بڑے بڑوں کے چھکے چھڑا دیں گی۔ یہ موقع نہیں کہ اس دور کے سیاسی طوطا چشموں کا ذکر کیا جائے لیکن اس زمانے میں بیگم کلثوم نواز نے جس استقامت سے بحالی جمہوریت کے لیے اقدام کیا، اس کی ان لوگوں کو توقع نہیں تھی۔
میاں نواز شریف اور شہباز شریف جیل میں تھے، ان پر دہشت گردی کی عدالت میں مقدمہ چل رہا تھا۔ ان کی کئی پیشیوں پر میں عدالت میں موجود تھی۔ ان ہی دنوں سر پر لاٹھیاں کھا کر لہولہان ہوجانے والی نصرت بھٹو، اپنے چھوٹے چھوٹے بچوں کا ہاتھ تھامے عدالتوں میں دربدر ہونے والی، میاں نواز شریف سے میثاق جمہوریت کرنے والی، جمہوریت کی جدوجہد میں جان کا نذرانہ دینے والی بے نظیر بھٹو۔
8 جولائی 2000ء کی رات کلثوم نواز کی گاڑی جس حال میں گھسیٹ کر اور کرین سے اٹھائی گئی، بلوچستان اور تھر کے قحط زدگان کے لیے چندہ اکٹھا کرنے کی مہم چلانے سے روک دی جانے والی کلثوم نواز اس بات کا روشن ثبوت ہیں کہ یہ تمام خواتین جمہوریت اور آئینی جدوجہد کے لیے سب کچھ کر گزریں اور ان کے ساتھ مردوں اور عورتوں کا ایک بڑا قافلہ تھا۔ اس جدوجہد میں ہم نسیم ولی خان کو کیسے بھول سکتے ہیں جو اپنے ساتھ بہت سے پشتون مردوں اور عورتوں کا قافلہ لے کر چلیں اور ہر مرحلے سے سرخرو گزریں۔
50 برس پر پھیلی ہوئی یہ جمہوری جدوجہد جس میں کبھی ویف کی کارکنان لاہور کی مال روڈ پر لاٹھیاں کھاتی اور اپنے ساتھ چلنے والے حبیب جالب کی خون سے تر پیشانی کو صاف کرتی ہیں۔ جن میں طاہرہ مظہر علی خان، عاصمہ جہانگیر، حنا جیلانی اور متعدد خواتین سینہ سپر رہیں، خیبر پختونخوا سے بشریٰ گوہر ، کراچی سے کشور زہرا سندھ سے شازیہ مری، سسی پلیجو، فرح ناز اصفہانی دکھائی دیتی ہیں۔ پنجاب اور بلوچستان سے خواتین کی ایک بڑی تعداد ہمیں ہر سطح پر جمہوری جدوجہد کرتی نظر آتی ہے۔
مسلم لیگ ن میں ہر ضلع اور تحصیل کی نوجوان لڑکیاں نظر آتی ہیں۔ یہ سیکڑوں اور ہزاروں جن کے نام یہاں نہیں لکھے جاسکے اور جو مختلف جماعتوں سے وابستہ رہیں لیکن جن کا ہدف جمہوریت کی سر بلندی تھا۔ یہ سب لائق تحسین ہیں۔ آج نہیں تو کل ان کی جدوجہد رنگ لائے گی اور ہمارے یہاں بھی ایک بہتر اور انصاف پر مبنی سماج ابھرے گا اور ہم بھی یہ کہہ سکیں گے کہ راج کرے گی خلق خدا۔
ملک کے مغربی حصے میں جب محترمہ فاطمہ جناح حزب اختلاف کی متفقہ امید وار کے طور پر سامنے آئیں تو حکمران طبقے میں کھلبلی مچ گئی۔ جنرل ایوب خان اور ان کے ساتھیوں کو اس کا علم تھا کہ وہ محترمہ کی عوامی مقبولیت کا سامنا نہ کرسکیں گے، ان پر بدعنوانی کے الزامات عائد نہیں کیے جاسکتے تھے، اسی لیے ان پر مذہبی حوالوں سے یلغار ہوئی۔ وہ علمائے سو جو ایوب خان کی سرپرستی میں پھل پھول رہے تھے، انھوں نے یہ آواز بلند کی کہ کوئی عورت کسی اسلامی مملکت کی سربراہ نہیں ہوسکتی۔
یہ ایک ایسا شور و غوغا تھا جس کا آج تصور نہیں کیا جاسکتا۔اس وقت مغربی حصے کے عوام کو جن میں مرد اور عورتیں سب ہی شامل تھیں، اس بات کا احساس ہوا کہ سیاست میں ان کی سر گرم حصہ داری کے ذریعے ہی وہ اپنا اور اپنی آئندہ نسلوں کا مستقبل سنوار سکتے ہیں۔ پاکستانی عورت نے 1964 کے صدارتی انتخابات سے یہ سیکھا کہ اسے بھی سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینا چاہیے۔ وہ یہ جان گئی کہ سیاست میں حصہ لیے بغیر وہ نہ اپنی حالت سنوار سکتی ہے اور نہ ملک کی تعمیر و ترقی میں اپنا حصہ ڈال سکتی ہے۔
جولائی 1967 میں اب سے 50 برس پہلے محترمہ فاطمہ جناح کا انتقال ہوا۔ ان کے مخالفین تو ایک طرف رہے، ان کے حامیوں کو بھی اس کا اندازہ نہیں تھا کہ ان کا جنازہ اس شان سے اٹھے گا۔ یہ وہ دن تھے جب میں روزنامہ ''مشرق'' میں ایک خاتون کی ڈائری لکھ رہی تھی۔ اس جلوس جنازہ کے ساتھ میں میلوں پیدل چلی تھی۔ مجھے آج بھی وہ جلوس جنازہ یاد ہے جو لاکھوں پر مشتمل تھا۔ یہ اس سیاسی رہنما کا جنازہ تھا جس کو صرف 3 برس پہلے بد ترین دھاندلی سے ہرا دیا گیا تھا لیکن روتے اور آہ و بکا کرتے ہوئے مردوں ، عورتوں اور کم عمر لڑکوں کا فیصلہ کچھ اور تھا جو اس کے آخری سفر پر امنڈ آئے تھے۔
یہ اس عورت کا رخصتی سفر تھا جس کے بارے میں ہمارے علمائے دین متین کا کہنا تھا کہ وہ سربراہِ مملکت نہیں ہوسکتی۔ ایک طرف کرم خوردہ کتابوں کے حوالے تھے دوسری طرف عوامی فیصلہ تھا جن کے خیال میں وہ ایک بے بدل رہنما تھی۔ جولائی کی گرم دوپہر میں میلوں لمبا وہ جلوس جو رواں دواں تھا اس بات کی گواہی تھا کہ عام پاکستانی کے خیال میں سیاست مسلمان عورت کے لیے شجر ممنوع نہیں۔
یہی وہ دن تھے جب 30 نومبر 1967 کو ذوالفقار علی بھٹو کی پیپلز پارٹی ملک کے سیاسی افق پر ابھری اور جس میں ابتدا سے پُر جوش اور سیاسی شعور رکھنے والی عورتیں شامل ہوئیں اور انھوں نے ملک کا سیاسی منظر نامہ بدل دیا۔ ادھر مشرقی پاکستان میں بنگالی عورت عوامی لیگ کا متحرک اور پُرجوش حصہ تھی۔ پاکستان پیپلز پارٹی کی محترمہ نصرت بھٹو نے آنے والے دنوں میں جی کھول کر سیاست میں حصہ لیا۔ ان کی موجودگی اور حرکت پذیری نے پاکستانی عورتوںاور بہ طور خاص سندھ کی شہری اور دیہی عورت کو آگے بڑھ کر اپنے حقوق کی جنگ لڑنے کا راستہ دکھایا۔
اسی طرح مغربی پاکستان جو اب صرف پاکستان رہ گیا تھا، اس میں نصرت بھٹو کی سربراہی میں نئی نسل کی پُر جوش خواتین سامنے آئیں اور انھوں نے عورتوں کی تعلیم، صحت، روزگار اور ان کے آئینی اور قانونی حقوق کے لیے ایک لمبی لڑائی کا آغاز کیا۔ آغاز سفر میں شیری رحمان، فوزیہ وہاب، ناہید خان اور بہت سی دوسری خواتین شامل تھیں۔ بھٹو صاحب کی شہادت پر پیپلز پارٹی کی رکن اور ہمدرد خواتین نے محترمہ نصرت بھٹو کی قیادت میں جمہوریت کی لڑائی لڑی۔ اس لڑائی میں ہمیں پُر جوش خواتین کئی محاذوں پر دکھائی دیتی ہیں۔
ان ہی میں رضیہ بھٹی اور نسیم زہرا تھیں جو اپنے قلم سے جدوجہد کررہی تھیں۔ ان میں فوزیہ وہاب، ناہید خان اور دوسری ان گنت خواتین تھیں جو اس حقیقت سے آگاہ تھیں کہ ایک فوجی آمر کے خلاف لڑائی بہت مشکل ہے۔ جنرل ضیاء الحق نے جب خواتین دشمن سیاہ قوانین کو آرڈیننس کے ذریعے نافذ کیا تو یہ ہماری پڑھی لکھی ادیب، شاعر، صحافی اور وکیل برادری سے تعلق رکھنے والیاں تھیں جنھوں نے ایک آئینی اور جمہوری جدوجہد کا آغاز کیا۔ سچ تو یہ ہے کہ جنرل ضیاء کے خلاف جتنی شعوری اور مشکل جدوجہد عورتوں نے کی، اس کی مثال ملنی ذرا مشکل ہے۔
ملک کے سیاسی افق پر بے نظیر بھٹو طلوع ہوئیں۔ ان کے گرد متحرک عورتوں کا ایک بڑا جتھا تھا۔ وہ خود ساختہ جلاوطنی ختم کرکے پاکستان آئیں اور لاہور ائیر پورٹ پر اتریں تو ان کے لیے لاکھوں کا ہجوم چشم براہ تھا۔ بے نظیر بھٹو مسلم دنیا کی پہلی خاتون وزیراعظم منتخب ہوئیں تو پاکستان کی غریب اور مفلوک الحال عورت نے ان کی کامیابی کا جشن منایا۔ بے نظیر بھٹو دو مرتبہ وزیراعظم منتخب ہوئیں اور دونوں مرتبہ پاکستانی عورتوں کی سیاسی اور جمہوری جدوجہد کچھ آگے بڑھی۔
یہ بات عام طور پر کہی جاتی ہے کہ سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا۔ بہ طور خاص پاکستان جیسے ملکوں میں جہاں طویل عرصے تک مطلق العنان فوجی آمر حکومت کرتے ہوں۔ اپنی خود نوشت ''دخترِ مشرق'' میں بے نظیر نے لکھا ہے کہ ''گرمی کے موسم میں میری جیل کی کھولی دہکتا ہوا تنور بن چکی تھی۔ میری کھال پھٹ گئی تھی اور وہ ورق کی طرح میرے ہاتھ سے اتر رہی تھی۔ میرے بال جو بہت گھنے تھے، وہ ہاتھ لگانے سے نکل جاتے تھے۔ کیڑے مکوڑے میری کھولی میں یوں چلتے پھرتے نظر آتے جیسے کوئی فاتح فوج ہو۔ ٹڈے، مچھر ، کاٹنے والی مکھیاں، شہد کی مکھیاں اور کٹھمل فرش کی درز سے نکل آتے۔ کاکروچ، سرخ چونٹیوں کی قطار اور مکڑیاں میرے چاروں طرف منڈلاتیں۔''
جنرل ضیاء کے بعد جنرل مشرف نے جمہوریت پر شب خون مارا۔ اس مرتبہ ان کا شکار میاں نواز شریف ہوئے۔جولائی 2000 ء میں کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ ان کی بیگم جن کی بیشتر لوگوں نے جھلک بھی نہیں دیکھی تھی، وہ میدان میں اتریں گی اور بڑے بڑوں کے چھکے چھڑا دیں گی۔ یہ موقع نہیں کہ اس دور کے سیاسی طوطا چشموں کا ذکر کیا جائے لیکن اس زمانے میں بیگم کلثوم نواز نے جس استقامت سے بحالی جمہوریت کے لیے اقدام کیا، اس کی ان لوگوں کو توقع نہیں تھی۔
میاں نواز شریف اور شہباز شریف جیل میں تھے، ان پر دہشت گردی کی عدالت میں مقدمہ چل رہا تھا۔ ان کی کئی پیشیوں پر میں عدالت میں موجود تھی۔ ان ہی دنوں سر پر لاٹھیاں کھا کر لہولہان ہوجانے والی نصرت بھٹو، اپنے چھوٹے چھوٹے بچوں کا ہاتھ تھامے عدالتوں میں دربدر ہونے والی، میاں نواز شریف سے میثاق جمہوریت کرنے والی، جمہوریت کی جدوجہد میں جان کا نذرانہ دینے والی بے نظیر بھٹو۔
8 جولائی 2000ء کی رات کلثوم نواز کی گاڑی جس حال میں گھسیٹ کر اور کرین سے اٹھائی گئی، بلوچستان اور تھر کے قحط زدگان کے لیے چندہ اکٹھا کرنے کی مہم چلانے سے روک دی جانے والی کلثوم نواز اس بات کا روشن ثبوت ہیں کہ یہ تمام خواتین جمہوریت اور آئینی جدوجہد کے لیے سب کچھ کر گزریں اور ان کے ساتھ مردوں اور عورتوں کا ایک بڑا قافلہ تھا۔ اس جدوجہد میں ہم نسیم ولی خان کو کیسے بھول سکتے ہیں جو اپنے ساتھ بہت سے پشتون مردوں اور عورتوں کا قافلہ لے کر چلیں اور ہر مرحلے سے سرخرو گزریں۔
50 برس پر پھیلی ہوئی یہ جمہوری جدوجہد جس میں کبھی ویف کی کارکنان لاہور کی مال روڈ پر لاٹھیاں کھاتی اور اپنے ساتھ چلنے والے حبیب جالب کی خون سے تر پیشانی کو صاف کرتی ہیں۔ جن میں طاہرہ مظہر علی خان، عاصمہ جہانگیر، حنا جیلانی اور متعدد خواتین سینہ سپر رہیں، خیبر پختونخوا سے بشریٰ گوہر ، کراچی سے کشور زہرا سندھ سے شازیہ مری، سسی پلیجو، فرح ناز اصفہانی دکھائی دیتی ہیں۔ پنجاب اور بلوچستان سے خواتین کی ایک بڑی تعداد ہمیں ہر سطح پر جمہوری جدوجہد کرتی نظر آتی ہے۔
مسلم لیگ ن میں ہر ضلع اور تحصیل کی نوجوان لڑکیاں نظر آتی ہیں۔ یہ سیکڑوں اور ہزاروں جن کے نام یہاں نہیں لکھے جاسکے اور جو مختلف جماعتوں سے وابستہ رہیں لیکن جن کا ہدف جمہوریت کی سر بلندی تھا۔ یہ سب لائق تحسین ہیں۔ آج نہیں تو کل ان کی جدوجہد رنگ لائے گی اور ہمارے یہاں بھی ایک بہتر اور انصاف پر مبنی سماج ابھرے گا اور ہم بھی یہ کہہ سکیں گے کہ راج کرے گی خلق خدا۔