پیپلز پارٹی جماعت نہیں ایسوسی ایشن ہے ایوان صدر میں سیاسی سرگرمیاں نہیں ہونگی وفاق

پی پی حکمراں جماعت نہیں، رجسٹرڈ جماعت پارلیمنٹیرینز ہے،صدر سیاسی عہدہ جلد چھوڑ دینگے، عدالت نے تحریری بیان قبول کر لیا

صدر ایک عہدہ کب چھوڑینگے؟ لاہور ہائیکورٹ، پی پی حکمراں جماعت نہیں، رجسٹرڈ جماعت پارلیمنٹیرینز ہے، صدر سیاسی عہدہ جلد چھوڑ دینگے، عدالت نے تحریری بیان قبول کر لیا۔ فوٹو : فائل

SWAT:
چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ عمر عطا بندیال کی سربراہی میں فل بینچ نے صدرکے 2عہدوں کے حوالے سے توہین عدالت کی درخواستوں پر وفاق کے وکیل کو ہدایت کی ہے کہ صدر سے ہدایات لیکر آگاہ کریں کہ وہ کب سیاسی عہدہ چھوڑ رہے ہیں۔

بدھ کو وفاق کی جانب سے عدالت کو تحریری طور پر بتایا گیا کہ ایوان صدر اسلام آباد میں پیپلز پارٹی کی کوئی سیاسی سرگرمیاں نہیں ہوں گی، صدر زرداری جس پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین ہیں وہ کوئی سیاسی جماعت نہیں بلکہ تنظیم ہے۔ بی بی سی کے مطابق وسیم سجاد نے کہا کہ پیپلزپارٹی رجسٹرڈ جماعت نہیں بلکہ سیاسی ایسوسی ایشن ہے۔ اس پر جسٹس سید منصور علی شاہ نے استفسارکیا کہ کیا یہ این جی او ہے؟ جس کا سیاسی ایجنڈا ہے، اس پر وسیم سجاد نے کہا کہ سیاسی جماعت پیپلزپارٹی پارلیمنٹیرینز ہے جس کے صدر امین فہیم اور جنرل سیکریٹری راجا پرویزاشرف ہیں اور یہ جماعت اقتدار میں ہے، اس کے وزرا یا وزیر اعظم صدر سے ملتے ہیں تو اسے سیاسی اجلاس نہیں کہا جاسکتا۔

صدرکی پیپلز پارٹی میں کوئی قانونی حیثیت نہیں کیونکہ وہ الیکشن کمشن میں رجسٹرڈ ہے اور نہ انتخابات میں امیدوار کھڑے کرسکتی ہے۔ عدالت نے ریمارکس دیے کہ صدر زرداری کی پیپلز پارٹی بھی سیاسی ایجنڈا رکھتی ہے، وہ ایک بااثر تنظیم ہے، آپ صدر سے ہدایات لیں کہ وہ اپنا سیاسی عہدہ کب چھوڑ رہے ہیں اوراگر وہ ایک تنظیم کے شریک چیئرمین ہیں تو عدالت بھی اس پر غورکرے گی۔ اس حوالے سے اپنے دلائل بھی دیں کہ کیا ان کے اس عہدے سے دو عہدے چھوڑنے سے متعلق ہائیکورٹ کے فیصلہ سے ٹکرائو تو نہیں۔ عدالت آپ کا جواب قبول کرتی ہے تاہم اس اہم نکتہ پر بھی غور کیا جانا چاہیے۔ وفاق پاکستان کے وکیل کی جانب سے عدالت کے روبرو داخل کیے گئے جواب میں کہا گیا کہ ایوان صدر میں پیپلز پارٹی کی سیاسی سرگرمیاں اب نہیں ہونگی اور صدر جتنی جلدی ہو سکے گا خودکوسیاسی عہدہ سے الگ کر لیں گے۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے سوال کیا کہ جب صدر جلسے میں ایک سیاسی جماعت کی حمایت اور دوسرے کی مخالفت کریں گے توکیا اسے غیرجانبداری کہا جا سکتا ہے؟۔ نجی ٹی وی کے مطابق عدالت نے قراردیا کہ جب صدر جلسوں میں ایک سیاسی جماعت کی حمایت اوردوسری کی مخالفت کریگا تو وہ غیر جانبدار نہیں رہتا، چیف جسٹس نے استفسارکیا کہ اگر صدر اپنی تنظیم کی سرگرمیاں میں حصہ لیتے ہیں تو کیا وہ عدالتی فیصلوں کے خلاف ہو سکتی ہے یا نہیں، صدر سے ہدایات لیکر آگاہ کریں، عدالت بھی اس نکتہ پر غور کرے گی۔




آئی این پی کے مطابق جسٹس منصور نے کہاکہ سیاسی سرگرمیاں ایوان صدر میں نہیں توکراچی میں ہوسکتی ہیں، وسیم سجادکاکہنا تھا کہ ایوان صدر اسلام آباد میں ہے، باقی صدرکے گھر ہیں۔ اِس پر چیف جسٹس نے کہاکہ ایوان صدر میں سیاسی سرگرمیاں بندکرنے کا بیان خوشگوار ہے، جسٹس ناصر سعید نے قرار دیاکہ ہم پیپلز پارٹی کیخلاف نہیں، ایوان صدر میں کسی جماعت کی سیاسی سرگرمیاں نہیں ہونی چاہیئں۔ ثنا نیوز کے مطابق عدالت نے استفسار کیاکہ کیا صدر جس جماعت کے سربراہ ہیں وہ ایکٹو ہے اور سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لے رہی ہے؟ جواخباری تراشے پیش کیے گئے ان سے واضح ہے کہ پیپلز پارٹی ایوان صدر میں اجلاس کرتی ہے۔ وسیم سجاد نے بتایا کہ پی پی اس وقت تک سیاسی سرگرمیاں نہیں کر سکتی جس وقت تک اس جماعت کے الیکشن نہ ہوں اور وہ رجسٹرڈ نہ ہو، پی پی رجسٹرڈ نہیں اور نہ ہی اس جماعت میں انتخابات ہوئے ہیں۔

اس لیے اس جماعت کو ایکٹو نہیں کہا جاسکتا۔ عدالت نے مزید وضاحت طلب کی کہ ایوان صدر میں جو سیاسی سرگرمیاں ہوتی ہیں وہ پی پی کی ہوتی ہیں یا پیپلزپارٹی پارلیمنٹیرینز کی۔ وسیم سجاد نے کہاکہ صدر نے کیس کے فیصلہ کی آج تک خلاف ورزی نہیں کی، اخبارات میں جو چیزیں سامنے آئی ہیں وہ بے بنیاد ہیں، عدالت نے قراردیا کہ اگر ایوان صدر میں سیاسی سرگرمیاں جاری نہیں رکھی جائیں گی تو یہ انتہائی خوش آئند ہوگا اور اس سے امید کی جاسکتی ہے کہ ملک میں جمہوریت مضبوط ہو گی، اگرصدر ایوان صدرسے باہر جاکر اگرکسی سیاسی جماعت کیلیے ووٹ مانگتے ہیں توکیا یہ سیاسی سرگرمیوں میں شامل نہیں؟ جسٹس اعجاز نے استفسارکیا کہ اگر پیپلز پارٹی ووٹ مانگے توکیا ہو گا؟۔

وسیم سجاد نے کہاکہ صدر ووٹ مانگ سکتے ہیں۔ عدالت اس کیس کا فیصلہ نہ سنائے۔ ایسوسی ایشن کا سربراہ ہونا کوئی جرم نہیں۔ پی پی حکمران جماعت ہے اور نہ اس کا سیاست سے کوئی تعلق ہے۔ این این آئی کے مطابق وسیم سجاد نے کہا کہ صدر مملکت ججز کی تقرری کرتے ہیں، قوانین کے مسودوں پر دستخط کرتے ہیں، پارلیمنٹ کے اجلاس بلاتے ہیں، یہ آئینی، قانونی اور سیاسی عمل ہے، صدرنے اتحادی جماعت اے این پی کے سربراہ اسفند یار ولی سے بھی نگراں وزیر اعظم کی تقرری پر مشاورت کی۔ اب الیکشن کا انعقاد بھی سیاسی عمل ہے جو آئین اور قانون کے مطابق ہے، کیا صدر کواس سے بھی روکا جا سکتا ہے؟۔

فاروق لغاری بھی پہلے ممبر قو می اسمبلی تھے، بعد میں صدر بنے، لہٰذاصدر کو معاشرے یا سیاسی عمل سے الگ نہیں کیا جا سکتا، عدالت نے قرار دیا کہ وہ جائزہ لے گی کہ صدر کی ذاتی حیثیت میں سیاسی سرگرمیاں عدالتی فیصلے سے متصادم تو نہیں۔ جسٹس منصور نے استفسار کیا کہ صدر حکمران جماعت کے سربراہ نہیں ہیں، کیا صدر جس پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین ہیں وہ فعال ہے؟ اس پر وسیم سجاد نے جواب دیا کہ نہیں مگر انتخابات ہونیوالے ہیں وہ فعال ہو سکتی ہے۔ درخواست گزاروں اے کے ڈوگر اور اظہر صدیق نے حکومتی وکیل کے جواب کو مسترد کر دیا اور کہا کہ عدالت کو کسی اور معاملہ میں الجھایا جا رہا ہے۔ عدالت نے معاملے پر عدالتی کارروائی مکمل ہونے کے باوجود اس نکتہ پر غورکیلیے کہ کیا صدر کا یہ عہدہ دو عہدے چھوڑنے کے فیصلہ سے متصادم تو نہیں، درخواستوں کی سماعت 15فروری تک ملتوی کر دی۔

سماعت کے دوران اے کے ڈوگر اور وسیم سجادمیں تلخ جملوں کا تبادلہ بھی ہوا۔ بعد ازاں میڈیا سے گفتگو میں وسیم سجاد نے کہا کہ صدر کے پاس کوئی سیاسی عہدہ ہے نہ ہی انکا کوئی سیاسی ایجنڈا ہے۔ پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرینز جماعت انتخابی نشان لیتی ہے اور الیکشن کمیشن اسکو ریگولیٹ کرتا ہے جبکہ دوسری نجی تنظیم ہے جو قانون کے تحت سیاسی جماعت نہیں بن سکتی۔ جج صاحبان نے کہا کہ وہ میرے بیان پر غور کریں گے اور جو بیان میں نے جمع کروایا وہ بڑی پیش رفت ہے۔ جن معاملات پر عدالت نے وضاحت مانگی ہے اس پر غور کیا جائے گا تاہم جواب میں پیپلز پارٹی کا نام درج کرکے یہ تاثر دیا گیا ہے جیسے عدالت پیپلز پارٹی کیخلاف فیصلہ دیگی جبکہ عدالت چاہتی ہے کہ ایوان صدر میں کسی جماعت کی سیاسی سرگرمی نہ ہو۔
Load Next Story