پانی رے پانی
عوام کیا کرتے؟ بے چارے بورنگ کروا کر سکشن پمپ کے ذریعے پانی حاصل کرنا شروع کردیا، چاہے پانی میٹھا ہو یا کھارا۔
''پورے پندرہ روز بعد پانی آیا تھا لیکن اس قدر بدبودار اور کالا جیسے گٹر کا پانی ہو، اب ایسا پانی دینے کا بھی کیا فائدہ؟ اس سے بہتر ہے کہ بند ہی رکھو، اب اگر یہ پانی ہم ٹینک میں چھوڑ دیں تو پھر جو تھوڑا بہت پانی جمع شدہ ہے وہ بھی گندا ہو اور ٹینک کی صفائی الگ کروائی جائے۔''
یہ گھر تھا ایک بزرگ خاتون کا، جن کا کسی پڑوسی سے ملتے ہی پہلا جملہ یہ ہوتا ہے ''کچھ خبر ہے پانی کب آئے گا؟''
ایسا ہرگز نہیں ہے کہ یہ حالت کراچی کے چند علاقوں کی ہو، بلکہ وہ پرانے علاقے بھی اس صورتحال سے محفوظ نہیں رہے جنھیں قائم ہوئے پچاس برس سے بھی زائد گزر چکے ہیں۔ ایسے علاقوں میں پہلے تو زیرزمین ٹینکوں کا کوئی رواج ہی نہ تھا، اچھا بھلا میونسپلٹی کا پانی چوبیس گھنٹوں آتا رہتا تھا، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ نلکوں سے گرتے پانی کی دھار بتدریج گھٹتی گئی اور یہاں تک کہ نلکوں سے صرف ہوا آتی سنائی دیتی تھی۔ ایسے میں لوگوں نے پانی کو محفوظ کرنے کے لیے زیرزمین ٹینک کھدوانے شروع کردیے، جہاں پانی کو محفوظ کرلیا جاتا، موٹے موٹے پائپوں کو حد درجہ نچلی سطح تک لے جایا جاتا تاکہ پانی کا بہاؤ تیز رفتار ہو، جن کے پائپ اونچے ہوتے وہ صرف صبر کے پنکھے جھلتے۔
کراچی کی مزید گمبھیر ہوتی آبادی نے 80 کی دہائی میں فلیٹوں کا ایک ایسا سلسلہ کھولا کہ جو ابھی تک جاری ہے۔ اس سلسلے نے رہی سہی ہمت بھی توڑ ڈالی، ایسے میں ایک نیا آلہ وجود میں آیا جسے سکشن پمپ اور عوامی زبان میں چور مشین کا نام دیا جاتا ہے، پہلے پہل یہ چور مشین یوں کہلائی گئی کہ اسے چھپ چھپا کر لگایا جاتا تھا، یہ قانوناً جرم بھی تھا اور اس کی برآمدگی پر جرمانہ اور کچھ سزا بھی مقرر تھی، لہٰذا پڑوسی ایک دوسرے کے گھروں پر نظر نہیں بلکہ کان رکھتے تھے کہ کہیں چور مشین تو نہیں چل رہی۔
زمانہ آج کہاں سے کہاں جا پہنچا ہے اور یہ عروس البلاد شہر کراچی پانی پانی کر رہا ہے۔ اسکیم 33 کی آبادی کے ساتھ ہی چور مشین خاصی بہادری سے لگائی جانے لگی کہ اس میں بے چارے صارف کا ہی نرا خرچہ تھا، ٹھک ٹھک ٹھک کی آواز کے ساتھ سارا سارا دن یہ مشین چلتی رہتی۔ بے چارے شرفا اپنے بجلی کے میٹرز پر نظر رکھتے اور ایسے وقت فریج اور فالتو بتیاں بند کراتے پھرتے، جب کہ بہادر لوگ جو ہمیشہ سے وہی کرتے آئے ہیں اور اب بھی لاکھ جتن کے باوجود وہی کر رہے ہیں سکشن پمپ سے پانی کھینچنے کے بھی اوقات کار مقرر ہوگئے، جس کا سکشن پمپ تگڑا ہوتا وہ دور سے بھی پانی گھسیٹ کر لے آتا یہاں تک کہ دوسروں کے ٹینکوں سے بھی۔
بات حکومتی اداروں کے پانیوں تک ہی محدود رہتی تو شاید بہتر تھا پھر یہ بھی ہوا کہ حکومتی اداروں نے ذرا مستعدی دکھائی، پانی فراہم کرنے میں نہیں بلکہ پانی کے بلوں کی وصولیابی کے لیے، جو اب ماہانہ بلوں کے ساتھ ضرور آتے ہیں چاہے پانی آئے یا نہ آئے۔ شکایت کرو کہ بھائی! پھر یہ بل کیسا؟ خاص کر فلیٹوں میں جہاں بورنگ کا کھارا پانی استعمال کیا جاتا ہے۔ دوسری جانب سے جواب ملتا ہے۔ سیوریج کا پانی تو خارج ہوتا ہے ناں۔ اور بس ایک سرد آہ!
عوام کیا کرتے؟ بے چارے بورنگ کروا کر سکشن پمپ کے ذریعے پانی حاصل کرنا شروع کردیا، چاہے پانی میٹھا ہو یا کھارا۔ پانی تو پانی ہے ناں۔ لیکن جس تیزی سے کنوئیں کھودے جارہے ہیں اس سے زیرزمین پانی کی کمیابی کا بھی امکان ہے، ویسے بھی بہت سے لوگوں کے کنوئیں بھی خشک ہونے کی صدائیں سنتے رہتے ہیں۔
خدا بھلا کرے ان خدائی فوجدار قسم کے ٹینکر مافیا کا، کہ جن کے پاس جادوئی قسم کے نلکے ہیں جو کبھی خشک نہیں ہوتے، دھڑاکے سے شہر بھر میں دندناتے پھرتے ہیں، جب سندھ کے نئے وزیراعلیٰ سید مراد علی شاہ آئے تو اپنے ساتھ پانی کی بہاریں لائے تھے، کچھ آنسو خشک ہوئے تھے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کنوئیں تو خشک ہوتے جا رہے ہیں لیکن آنکھیں۔۔۔۔
سپریم کورٹ آف پاکستان کے واٹر کمیشن نے بڑی محنت سے رپورٹ بنائی تھی جس کے مطابق ''کراچی، حیدرآباد اور اندرون سندھ کے شہری مضر صحت پانی استعمال کرنے پر مجبور ہیں اور حکومت عوام کو صاف پانی کی فراہمی میں ناکام ہوچکی ہے۔''
حیدرآباد کے کئی علاقے جن میں پھلیلی، پریٹ آباد، قاسم آباد، حسین آباد، حالی روڈ، پکا قلعہ، کچا قلعہ وغیرہ شامل ہیں، شہری مضر صحت، بدبودار اور گدلا پانی پینے کی وجہ سے پیٹ اور جلدی امراض میں مبتلا ہیں۔ کہا جارہا ہے محکمہ وارسا کی نااہلی کے باعث دریائے سندھ سے بغیر فلٹر شدہ پانی شہری علاقوں میں سپلائی کیا جا رہا ہے جب کہ وارسا کے ایک سینئر افسر کے مطابق سپریم کورٹ کے احکامات پر چار فلٹر پلانٹس فعال کرنے پر کام جاری ہے جب کہ شہر کے بڑے علاقے کو مین فلٹر پلانٹ سے پانی فراہم کیا جا رہا ہے۔
اب ذرا بات ہوجائے لاہور شہر کی جہاں پانی نلکوں سے ماشا اللہ آتا رہتا ہے اور جب پانی بند ہوتا ہے تو پتا چل جاتا ہے کہ بجلی چلی گئی۔ وہ پانی صاف بھی ہوتا ہے اور صحت مند بھی۔ پھر بھی شہری اسے ابال کر استعمال کرتے ہیں۔ صاف پانی کی تعریف یہ ہے جو ذائقے میں بہتر، کسی خوشبو یا بدبو کے بغیر ہو اور اس کی رنگت بالکل شفاف ہو۔
کینیڈا کی ایک پانی فلٹریشن کمپنی نے بڑی آسان ترکیب بتائی ہے، ایک شیشے کے گلاس میں نلکے کا پانی لیں اور دوسرے میں فلٹر کا پانی۔ آپ خود محسوس کریں گے کہ جس گلاس میں نلکے کا پانی ہے اس کے مقابلے میں فلٹر پانی شیشے کے گلاس جیسا ہی نظر آئے گا گویا صاف اور شفاف، جب کہ نلکے کا پانی اور وہ بھی خاص کر سندھ اور اندرون پنجاب کے علاقوں کا پانی۔
ارے بھئی! آپ خود تجربہ کرکے دیکھ لیں۔ بارشوں کے موسم میں یہ آلودگی کچھ زیادہ ہی نکھر کر سامنے آتی ہے جس کے لیے کلورین کی ٹکیوں کا استعمال بھی کیا جاتا ہے، لیکن خیال رہے کہ زیادہ کلورین بھی صحت کے لیے مضر صحت ہے۔ آئیے ہم سب مل کر دعا کریں کہ ہمیں صاف شفاف پانی دستیاب ہو جسے ہم بھی سنبھال کر احتیاط سے خرچ کریں۔ آمین۔
یہ گھر تھا ایک بزرگ خاتون کا، جن کا کسی پڑوسی سے ملتے ہی پہلا جملہ یہ ہوتا ہے ''کچھ خبر ہے پانی کب آئے گا؟''
ایسا ہرگز نہیں ہے کہ یہ حالت کراچی کے چند علاقوں کی ہو، بلکہ وہ پرانے علاقے بھی اس صورتحال سے محفوظ نہیں رہے جنھیں قائم ہوئے پچاس برس سے بھی زائد گزر چکے ہیں۔ ایسے علاقوں میں پہلے تو زیرزمین ٹینکوں کا کوئی رواج ہی نہ تھا، اچھا بھلا میونسپلٹی کا پانی چوبیس گھنٹوں آتا رہتا تھا، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ نلکوں سے گرتے پانی کی دھار بتدریج گھٹتی گئی اور یہاں تک کہ نلکوں سے صرف ہوا آتی سنائی دیتی تھی۔ ایسے میں لوگوں نے پانی کو محفوظ کرنے کے لیے زیرزمین ٹینک کھدوانے شروع کردیے، جہاں پانی کو محفوظ کرلیا جاتا، موٹے موٹے پائپوں کو حد درجہ نچلی سطح تک لے جایا جاتا تاکہ پانی کا بہاؤ تیز رفتار ہو، جن کے پائپ اونچے ہوتے وہ صرف صبر کے پنکھے جھلتے۔
کراچی کی مزید گمبھیر ہوتی آبادی نے 80 کی دہائی میں فلیٹوں کا ایک ایسا سلسلہ کھولا کہ جو ابھی تک جاری ہے۔ اس سلسلے نے رہی سہی ہمت بھی توڑ ڈالی، ایسے میں ایک نیا آلہ وجود میں آیا جسے سکشن پمپ اور عوامی زبان میں چور مشین کا نام دیا جاتا ہے، پہلے پہل یہ چور مشین یوں کہلائی گئی کہ اسے چھپ چھپا کر لگایا جاتا تھا، یہ قانوناً جرم بھی تھا اور اس کی برآمدگی پر جرمانہ اور کچھ سزا بھی مقرر تھی، لہٰذا پڑوسی ایک دوسرے کے گھروں پر نظر نہیں بلکہ کان رکھتے تھے کہ کہیں چور مشین تو نہیں چل رہی۔
زمانہ آج کہاں سے کہاں جا پہنچا ہے اور یہ عروس البلاد شہر کراچی پانی پانی کر رہا ہے۔ اسکیم 33 کی آبادی کے ساتھ ہی چور مشین خاصی بہادری سے لگائی جانے لگی کہ اس میں بے چارے صارف کا ہی نرا خرچہ تھا، ٹھک ٹھک ٹھک کی آواز کے ساتھ سارا سارا دن یہ مشین چلتی رہتی۔ بے چارے شرفا اپنے بجلی کے میٹرز پر نظر رکھتے اور ایسے وقت فریج اور فالتو بتیاں بند کراتے پھرتے، جب کہ بہادر لوگ جو ہمیشہ سے وہی کرتے آئے ہیں اور اب بھی لاکھ جتن کے باوجود وہی کر رہے ہیں سکشن پمپ سے پانی کھینچنے کے بھی اوقات کار مقرر ہوگئے، جس کا سکشن پمپ تگڑا ہوتا وہ دور سے بھی پانی گھسیٹ کر لے آتا یہاں تک کہ دوسروں کے ٹینکوں سے بھی۔
بات حکومتی اداروں کے پانیوں تک ہی محدود رہتی تو شاید بہتر تھا پھر یہ بھی ہوا کہ حکومتی اداروں نے ذرا مستعدی دکھائی، پانی فراہم کرنے میں نہیں بلکہ پانی کے بلوں کی وصولیابی کے لیے، جو اب ماہانہ بلوں کے ساتھ ضرور آتے ہیں چاہے پانی آئے یا نہ آئے۔ شکایت کرو کہ بھائی! پھر یہ بل کیسا؟ خاص کر فلیٹوں میں جہاں بورنگ کا کھارا پانی استعمال کیا جاتا ہے۔ دوسری جانب سے جواب ملتا ہے۔ سیوریج کا پانی تو خارج ہوتا ہے ناں۔ اور بس ایک سرد آہ!
عوام کیا کرتے؟ بے چارے بورنگ کروا کر سکشن پمپ کے ذریعے پانی حاصل کرنا شروع کردیا، چاہے پانی میٹھا ہو یا کھارا۔ پانی تو پانی ہے ناں۔ لیکن جس تیزی سے کنوئیں کھودے جارہے ہیں اس سے زیرزمین پانی کی کمیابی کا بھی امکان ہے، ویسے بھی بہت سے لوگوں کے کنوئیں بھی خشک ہونے کی صدائیں سنتے رہتے ہیں۔
خدا بھلا کرے ان خدائی فوجدار قسم کے ٹینکر مافیا کا، کہ جن کے پاس جادوئی قسم کے نلکے ہیں جو کبھی خشک نہیں ہوتے، دھڑاکے سے شہر بھر میں دندناتے پھرتے ہیں، جب سندھ کے نئے وزیراعلیٰ سید مراد علی شاہ آئے تو اپنے ساتھ پانی کی بہاریں لائے تھے، کچھ آنسو خشک ہوئے تھے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کنوئیں تو خشک ہوتے جا رہے ہیں لیکن آنکھیں۔۔۔۔
سپریم کورٹ آف پاکستان کے واٹر کمیشن نے بڑی محنت سے رپورٹ بنائی تھی جس کے مطابق ''کراچی، حیدرآباد اور اندرون سندھ کے شہری مضر صحت پانی استعمال کرنے پر مجبور ہیں اور حکومت عوام کو صاف پانی کی فراہمی میں ناکام ہوچکی ہے۔''
حیدرآباد کے کئی علاقے جن میں پھلیلی، پریٹ آباد، قاسم آباد، حسین آباد، حالی روڈ، پکا قلعہ، کچا قلعہ وغیرہ شامل ہیں، شہری مضر صحت، بدبودار اور گدلا پانی پینے کی وجہ سے پیٹ اور جلدی امراض میں مبتلا ہیں۔ کہا جارہا ہے محکمہ وارسا کی نااہلی کے باعث دریائے سندھ سے بغیر فلٹر شدہ پانی شہری علاقوں میں سپلائی کیا جا رہا ہے جب کہ وارسا کے ایک سینئر افسر کے مطابق سپریم کورٹ کے احکامات پر چار فلٹر پلانٹس فعال کرنے پر کام جاری ہے جب کہ شہر کے بڑے علاقے کو مین فلٹر پلانٹ سے پانی فراہم کیا جا رہا ہے۔
اب ذرا بات ہوجائے لاہور شہر کی جہاں پانی نلکوں سے ماشا اللہ آتا رہتا ہے اور جب پانی بند ہوتا ہے تو پتا چل جاتا ہے کہ بجلی چلی گئی۔ وہ پانی صاف بھی ہوتا ہے اور صحت مند بھی۔ پھر بھی شہری اسے ابال کر استعمال کرتے ہیں۔ صاف پانی کی تعریف یہ ہے جو ذائقے میں بہتر، کسی خوشبو یا بدبو کے بغیر ہو اور اس کی رنگت بالکل شفاف ہو۔
کینیڈا کی ایک پانی فلٹریشن کمپنی نے بڑی آسان ترکیب بتائی ہے، ایک شیشے کے گلاس میں نلکے کا پانی لیں اور دوسرے میں فلٹر کا پانی۔ آپ خود محسوس کریں گے کہ جس گلاس میں نلکے کا پانی ہے اس کے مقابلے میں فلٹر پانی شیشے کے گلاس جیسا ہی نظر آئے گا گویا صاف اور شفاف، جب کہ نلکے کا پانی اور وہ بھی خاص کر سندھ اور اندرون پنجاب کے علاقوں کا پانی۔
ارے بھئی! آپ خود تجربہ کرکے دیکھ لیں۔ بارشوں کے موسم میں یہ آلودگی کچھ زیادہ ہی نکھر کر سامنے آتی ہے جس کے لیے کلورین کی ٹکیوں کا استعمال بھی کیا جاتا ہے، لیکن خیال رہے کہ زیادہ کلورین بھی صحت کے لیے مضر صحت ہے۔ آئیے ہم سب مل کر دعا کریں کہ ہمیں صاف شفاف پانی دستیاب ہو جسے ہم بھی سنبھال کر احتیاط سے خرچ کریں۔ آمین۔