کرپشن کا کلچر

آج کی دنیا میں ترقی یافتہ اقوام وہ ہیں جنہوں نے اپنے اپنے ملکوں میں کرپشن پر سخت ترین احتساب کا نظام اپنایا۔


Zamrad Naqvi July 17, 2017
www.facebook.com/shah Naqvi

جے آئی ٹی رپورٹ کیا آئی، پورے ملک میں بھونچال آ گیا۔ پہلے دس جولائی کا انتظار تھا اب سترہ جولائی کا انتظار ہو رہا ہے لیکن کسی کو پتہ نہیں کہ سپریم کورٹ اس رپورٹ کو سامنے رکھ کر کیا فیصلہ دے گی اور یہ فیصلہ کب آئے گا۔کیا یہ فیصلہ فوری آئے گا یا اس میں کچھ دیر لگے گی۔ قانونی ماہرین کہتے ہیں کہ اس میں ایک مہینہ بھی لگ سکتا ہے۔

ملک اس وقت شدید محاذ آرائی کا شکار ہے۔ سیاسی بحران کے پیش نظر اسٹاک مارکیٹ میں سرمایہ کاروں کے چار سو ارب روپے ڈوب گئے ہیں۔ اپوزیشن کی بڑی پارٹیاں مطالبہ کر رہی ہیں کہ نواز شریف فوری استعفیٰ دیں۔ اس میں ہی ان کی اور پارٹی کی بھلائی ہے۔ اس طرح نہ صرف وہ اپنی باقی مدت پوری کر سکیں گے بلکہ جمہوریت بھی مضبوط رہے گی۔ اداروں سے محاذ آرائی میں جمہوریت کے ڈی ریل ہونے کا شدید خدشہ ہے۔ نواز شریف بار بار الزام لگا رہے ہیں کہ میرے خلاف سازش ہو رہی ہے لیکن وہ سازش کرنے والوں کا کھل کر نام نہیں لیتے۔

اس حوالے سے معترفین کہتے ہیں کہ سازش وہ ہوتی ہے جو چھپ کر کی جائے لیکن یہاں تو عدالتی کارروائی کھلی عدالت میں ہو رہی ہے۔ جے آئی ٹی رپورٹ پر ایک بڑا اعتراض یہ ہے کہ اتنی ضخیم دستاویز ساٹھ دن میں تیار نہیں ہو سکتی جب کہ اصل حقیقت یہ ہے کہ جے آئی ٹی دستاویز کا دو تہائی حصہ ان کاغذات پر مشتمل ہے جو مختلف اداروں پر اور بیرون ملک سے منگوائے گئے جس میں فوٹو کاپیز بھی شامل ہے۔ جے آئی ٹی کا اپنا کام مجموعی کاغذات کے صرف پچس سے تیس فیصد پر مشتمل ہے۔

حکومتی اراکین اور میڈیا میں ان کے حمایتیوں نے ایک حکمت عملی کے تحت جے آئی ٹی کو متنازعہ بنانے کی کوشش کی اور اس میں کسی حد تک کامیاب بھی رہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ میڈیا میں وہ لکھنے اور بولنے والے جنہوں نے بڑی مہارت سے غیرجانبداری کا لبادہ اوڑھا ہوا تھا اب وہ بے نقاب ہو گئے ہیں۔ اپنی تلواریں بے نیام کر کے حکومتی حق میں جہاد کر رہے ہیں۔ انھیں کرنا بھی چاہیے آخر ان کے مفادات داؤ پر لگے ہوئے ہیں۔

نواز شریف کا ووٹ بینک بہت مضبوط ہے۔ ہونا بھی چاہیے کہ آخر انھوں نے مختلف وقفوں سے پنجاب اور پاکستان پر 30سال حکومت کی ہے لیکن اب جے آئی ٹی رپورٹ سامنے آنے سے لوگوں کی سوچ تبدیل ہونا شروع ہو گئی ہے۔ بڑے پیمانے پر کرپشن کا آغاز ضیا الحق دور سے شروع ہوا۔ سمجھنے کی بات یہ ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی اس لیے نہیں دی گئی کہ انھوں نے ملک توڑا تھا یا انھوں نے کرپشن کی تھی۔ ان کے مخالفین نے بڑی کوشش کی کسی طرح ان کی کرپشن نکال لیں لیکن ناکام رہے۔

آخر کار انھیں ایک جھوٹے مقدمے میں پھانسی دی گئی جسے بعد میں پھانسی دینے والوں نے عدالتی قتل تسلیم کیا۔ پچھلے چالیس سال میں کرپشن پاکستانی قوم کے ایک بڑے حصے میں رچ بس گئی ہے۔ اب اسے معاشرتی برائی نہیں سمجھا جاتا۔ اب الٹ ہو گیا ہے۔ اب اسے رزق حرام نہیں سمجھا جاتا۔ پچھلے چالیس سالوں میں اتنے بڑے پیمانے پر کرپشن ہوئی ہے کہ ہر طبقہ کم و بیش اس غلاظت کا شکار ہو گیا ہے۔ اب اس کو برا کہنے والے بہت کم رہ گئے ہیں۔ زیادہ تر وہ لوگ برا کہتے ہیں جو کرپشن کرنے کی پوزیشن میں نہیں۔ یہ اخلاقی زوال کی انتہا ہے۔

آج کی دنیا میں ترقی یافتہ اقوام وہ ہیں جنہوں نے اپنے اپنے ملکوں میں کرپشن پر سخت ترین احتساب کا نظام اپنایا اور اس کے مرتکب افراد کو عبرت ناک سزائیں دیں چاہے۔ کیوں کہ عوام کے منتخب نمایندہ ہونے کا ہر گز مطلب یہ نہیں کہ اسے کرپشن کرنے کا لائسنس مل گیا ہے۔ جنوبی کوریا کی طاقتور خاتون صدر کرپشن کے الزام ثابت ہونے پر آجکل جیل میں ہے۔ برازیل کے سابق صدر کو اسی الزام میں دس سال کی سزا سنائئی گئی ہے۔

اسپین کے بادشاہ کے سالے کی سزا مزید بڑھانے پر غور ہو رہا ہے۔ اسرائیل کے سابق صدر کے ساتھ بھی یہی کچھ ہوا۔ آج کل پوری دنیا میں کرپشن کے خلاف سخت اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں کیونکہ کرپشن سے غربت مہنگائی بے روز گاری بھوک بڑھتی ہے اور عوام اپنے حق سے محروم ہو جاتے ہیں۔

پاکستان جیسے ملکوں میں پانامہ کو سازش کہا جا رہا ہے۔ پانامہ کیس کا اچانک سامنے آنا اس بات کو ثابت کرتا ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام شدید بحران میں ہے۔ اس نظام کی ڈوبتی نیا کو بچانے کے لیے ضروری ہے کہ ان حکمرانوں اور سرمایہ داروں کا احتساب کیا جائے جو اپنے اپنے ملکوں کی دولت کو لوٹ کر اپنے عوام کو مزید غریب کر کے وہاں عوامی بغاوت کی راہ ہموار کر رہے ہیں۔

اگر کوئی کلرک پٹواری تحصیلدار تھانیدار یا سرکاری اہلکار کرپشن کرتا ہے اور اس ناجائز دولت سے وہ اور اس کے اہل و عیال مستفید ہوتے ہیں تو کیا وہ اس صورت میں اپنے حکمرانوں کی کرپشن کی مذمت کریں گے؟ ہرگز نہیں کیونکہ حکمرانوں کی بڑے پیمانے پر کرپشن نسبتاً چھوٹے پیمانے پر کرپشن کا جواز بنتی ہے۔

جے آئی ٹی کے سربراہ واجد ضیا نے کہا ہے کہ جے آئی ٹی کا سربراہ نامزد ہونا میرے لیے باعث فخر ہے جس کے لیے میں سپریم کورٹ کا مشکور ہوں کہ اس نے مجھ پر اعتماد کیا۔ انھوں نے کہا ہم سچ تلاش کرنے میں کامیاب ہوئے۔ جے آئی ٹی ممبران کی صلاحیتوں کے بغیر ہدف کا حصول ناممکن تھا۔ ممبران نے عزم اور غیرجانبداری سے کام مکمل کیا۔ بطور سربراہ تفتیش کے تمام پہلوؤں کی ذمے داری لیتا ہوں۔ انھوں نے اس خدشے کا بھی اظہار کیا کہ ہو سکتا ہے کہ جے آئی ٹی ارکان کو مستقبل میں دھمکیاں دی جائیں اور نشانہ بنایا جائے۔

وزیر خارجہ چوہدری نثار نے وفاقی کابینہ کے اجلاس میں وزیراعظم سے کہا کہ جو ہو رہا ہے اور جو کچھ ہونے جا رہا ہے کوئی معجزہ ہی آپ کو بچا سکتا ہے۔ انھوں نے واضع کیا کہ خوشامدی مشیروں نے صورت حال کو اس مقام پر پہنچایا۔ سارے معاملے کو مس ہینڈل کیا گیا۔ سیاسی اور لیگل ٹیم اس معاملے سے اچھی طرح نہیں نمٹ سکتی۔

سپریم کورٹ میں عدالتی کارروائی کے حوالے سے اہم تاریخیں 19,18 اور 22,21جولائی ہیں۔

سیل فون:۔0346-4527997

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔