شاہنواز بھٹو کھڑکیاں اور عمر ونگ
شاہنوازضابطے کے مطابق دودن تک ہاسٹل کی کھڑکیاں صاف کرتارہا۔کیاآج اس کا تصور بھی کیا جاسکتا ہے؟
RAWALPINDI:
کیڈٹ کالج حسن ابدال کے پرنسپل کرنل این ڈی حسن نے وفاقی وزیرقانون،عبدالحفیظ پیرزادہ کوصاف لفظوں میں بتادیاکہ وزیراعظم کے بیٹے کوکسی قسم کا پروٹوکول یااہمیت نہیں دی جائے گی۔اسکول میں عام طالبعلموں کی طرح رہنا ہوگا اورعام بچوں جیساسلوک کیاجائیگا۔
پیرزادہ خاموشی سے وزیراعظم ذوالفقارعلی بھٹوکے پاس واپس گیا۔بتایاکہ شاہنوازسے درسگاہ میں کوئی خصوصی سلوک نہیں کیا جائیگا۔ ایک منٹ کے بعدبھٹونے ہاں کردی۔نتیجہ یہ ہواکہ پاکستان کے وزیراعظم کابیٹاکیڈٹ کالج حسن ابدال پہنچ گیا۔
نصرت بھٹوبہرحال ماں تھیں۔انھیں فوجی اسکول کی دشواریوں کا اندازہ تھا۔یہ جرات تونہ کرسکیں کہ اپنے شوہرکاارادہ تبدیل کراسکیں۔ مگرانھوں نے دبے لفظوں میں''عمرونگ''یعنی عمرہوسٹل کے ہاؤس ماسٹر کو بھیگی آنکھوں سے مودبانہ درخواست کی،کہ بیٹا سانس کی بیماری میں مبتلاہے۔لہذااسے بہت زیادہ دوڑنے والی ورزش نہ کرائی جائے۔سلیمی صاحب جوعمرونگ کے ہاؤس ماسٹر تھے، انتہائی شائستہ طریقے سے کہنے لگے کہ قطعاً کسی قسم کا وعدہ نہیں کرسکتے۔اہم بات یہ بھی تھی کہ خاتون اوّل یہ ہمت نہ کرپائیں کہ کالج کے پرنسپل سے کچھ بھی کہہ پائیں۔
شاہنوازبھٹو،وزیراعظم کا چھوٹا بیٹا تھا۔ والد کی خواہش تھی کہ سخت ماحول میں رہے تاکہ اسے جفاکش بنایا جاسکے۔ اچھاطالبعلم بھی بنایاجاسکے۔اس کام کے لیے کیڈٹ کالج حسن ابدال سے بہتردرسگاہ کوئی بھی نہیں تھی۔ فرسٹ ائیر میں آنے والاپندرہ سولہ سال کے نوجوان کو بورڈنگ اسکول کاکوئی تجربہ نہیں تھا۔ پرنسپل کاپہلافیصلہ تھا کہ اسے علیحدہ کمرہ نہیں دیاجائیگا۔حسن ابدال میں سنگل روم صرف اور صرف ہاسٹل کے ونگ کمانڈراورتین دیگر سیکشن کمانڈروں کے لیے مختص تھے۔ہرہوسٹل میں صرف چارسنگل کمرے تھے اوران میں اپائنٹمنٹ ہولڈرزپہلے سے موجود تھے۔اگریہ کمرے خالی بھی ہوتے،تب بھی فرسٹ ائیرکے کسی طالبعلم کونہیں دیے جاسکتے تھے۔
شاہنواز بھٹو فرسٹ ائیرمیں داخل ہواتھا۔عمرونگ کی فرسٹ فلورپر اسے جوکمرہ دیا گیا، اس میں دواورطلباء بھی موجود تھے۔ درمیانہ سائزکے کمرے میں ہرکیڈٹ کے لیے ایک سادہ سی چارپائی،ایک ٹیبل،ایک کرسی اورآدھی الماری موجود تھی۔ صرف اس کمرے میں ہی نہیں،پورے کالج میں ہر طالبعلم کوصرف یہی اشیاء مہیاکی جاتی تھیں۔ شاہنواز بھٹو کو بھی وہی اشیاء فراہم کی گئیں۔بھٹو یاان کی اہلیہ نے ایک باربھی نہیں کہاکہ ان کے بیٹے کوعلیحدہ کمرہ دیاجائے یاکوئی بہترچارپائی یاکرسی فراہم کی جائے۔
چنددن گرزے۔ایک دم شاہنوازکواندازہ ہواکہ اسے سانس کی اس درجہ بیماری نہیں کہ باسکٹ بال نہ کھیل سکے۔ ماں کی ہدایت کے برعکس باسکٹ بال کھیلناشروع کردی۔یہ اسکاپسندیدہ کھیل تھا۔امریکا میں بھی شوق سے باسکٹ بال کھیلتا رہاتھا۔ کالج میں گیم کے انچارج سر،جی لارنس تھے۔ تاریخ کے پروفیسرتھے مگرکمال کی باسکٹ بال کھیلتے تھے اور سکھاتے بھی تھے۔
شاہنواز،جی لارنس کے پاس گیاکہ اپنی گیم کو مزید بہتر کرنا چاہتاہے۔تاکہ کالج ٹیم میں آسکے۔ سرلارنس کوپتہ تھاکہ شاہنوازسانس کے مرض میں مبتلا ہے۔ انھوں نے کہا،پرنسپل صاحب سے پوچھ کوجواب دونگا۔کرنل این ڈی حسن نے کالج ڈاکٹرسے شاہنواز کو چیک کروایا۔ ڈاکٹرنے بتادیاکہ شاہنواز یہ گیم کھیل سکتا ہے۔ چارماہ میں سرلارنس نے شاہنوازکی کھیل کواتنابہترکردیاکہ میرٹ پرٹیم میں آگیا۔آج تک یاد ہے۔ تیزی سے دوڑتا ہواپول کے نزدیک پہنچ کر مہارت سے گیند اُچھالتا تھا اوربال نیٹ میں پہنچ جاتی تھی۔
جب وزیراعظم کوپتہ چلاکہ بیٹاباسکٹ بال کھیل رہا ہے توحیران رہ گئے۔ انھوں نے نصرت بھٹوسے پوچھا۔ خاتون اوّل کوبالکل اندازہ نہیں تھاکہ شاہنوازاتنی تندہی سے باسکٹ بال کھیل رہاہے۔کرنل این ڈی حسن سے بڑے ادب سے گلہ کیا،کہ میرے بیٹے کو تو دمہ کامرض ہے،آپ نے اسے اتنامشکل کھیل کھیلنے کی کیسے اجازت دی۔
پرنسپل کاجواب تھا۔مجھے پورااطمینان ہے کہ شاہنوازبہترین اسپورٹس مین ہے۔ آپ کوفکرکرنے کی ضرورت نہیں۔اگراسے کچھ ہوا تو ذمے دارمیں ہونگا۔نصرت بھٹوخاموش ہوگئیں،جب تک شاہنواز،حسن ابدال رہا، باسکٹ بال کھیلتا رہا۔ خاتون اوّل کی ذاتی خواہش کاکوئی احترام نہیں کیاگیا۔کالج انتظامیہ کاکوئی بال بھی بیکانہ کر سکا۔ کیاآج کے پاکستان میں یہ ممکن ہے؟
سالانہ پریڈانتہائی اہم واقعہ ہوتاتھا۔اس کے لیے مشق تین مہینے پہلے شروع کردی جاتی تھی۔مشق انتہائی مشکل اورمشقت والاکام تھا۔مارچ کرنے کے ساتھ ساتھ، ایک ڈیڑھ گھنٹہ ساکت رہنے کی تربیت بھی دی جاتی تھی۔ مسلسل کھڑا رہنے سے کئی باربچے بیہوش ہوکرگرجاتے تھے۔ مگر پریڈ بلاکسی تعطل کے جاری رہتی تھی۔شاہنوازبڑی محنت سے پریڈ سیکھتا تھا۔کوئی غلطی ہوتی تو ایڈجوٹنٹ، اسے وہی جسمانی سزادیتاجوعام طلباء کودی جاتی تھی۔
پریڈ کی تیاری میں ایک چیزانتہائی اہم تھی۔اپنے اپنے کالے فوجی جوتوں کو واٹرپالش کرنا۔یہ پالش کسی طرح بھی عام چیزنہیں تھی۔پانی اورپالش کوملاکرکئی گھنٹوں کی محنت کے بعد جوتے اس قابل ہوتے تھے کہ پہنے جاسکیں۔کئی باردودودن لگ جاتے تھے، پھر کہیں جاکراس درجہ چمک آتی تھی کہ ہاؤس ماسٹرمطمئن ہوسکے۔شاہنوازعام پالش توکرتاہی تھامگراسے واٹرپالش کا کوئی پتہ نہیں تھا۔کسی سے پوچھے بغیراپنے جوتے وزیراعظم ہاؤس بھجوادیے۔
وہاں کسی ویٹرنے واٹرپالش کی۔جب ایک ملازم چمکتے ہوئے جوتے لے کرعمرونگ پہنچا تو پرنسپل، کرنل این ڈی حسن معمول کے راؤنڈپرتھا۔ملازم بڑے آرام سے جوتے لے کرشاہنوازکے کمرے میں چھوڑکرواپس آگیا۔پرنسپل صاحب پیچھے پیچھے گئے۔انھیں پتہ چل گیاکہ شاہنوازبھٹونے سالانہ پریڈکے لیے جوتے خودپالش نہیں کیے۔کالج میں طوفان آگیا۔کیونکہ یہ بنیادی طورپردرسگاہ کے ڈسپلن کے خلاف تھا۔ہاؤس ماسٹرکوحکم دیاگیاکہ ضابطے کے حساب سے شاہنواز بھٹو کوسخت سزادی جائے۔
سلیمی صاحب یعنی ہاؤس ماسٹرنے سزادی کہ ہفتہ اوراتوارکوویک اینڈ ہے۔ لیکن سزاکے طورپرشاہنوازگھرنہیں جائیگا۔ کیا آپ یقین کرسکتے ہیں کہ سزاکااصل حصہ کیاتھا۔ شاہنواز دودن تک پورے ہوسٹل کی کھڑکیوں کے شیشے صاف کریگا۔ ایسے ہی ہوا۔جب بچہ گھرنہ پہنچاتونصرت بھٹوخودکالج گئیں کہ بیٹے کوساتھ لے جائیں۔عمرونگ پہنچی توپتہ چلاکہ پورا ہوسٹل خالی ہے اورطالبعلم ویک اینڈپرگئے ہوئے ہیں۔
پریشانی میں ہوسٹل کے بیرے سے پوچھاکہ میرا بیٹا کدھر ہے۔ بیرے نے بڑے آرام سے جواب دیاکہ کھڑکیوں کے شیشے صاف کررہاہے۔اتنی دیرمیں ہاؤس ماسٹربھی پہنچ گئے۔ انھوں نے خاتون اوّل کوکھل کربتادیاکہ ان کے صاحبزادے نے کالج ڈسپلن کی خلاف ورزی کی ہے۔ سالانہ پریڈکے لیے جوتے خودپالش نہیں کیے بلکہ وزیراعظم ہاؤس سے کروائے ہیں۔ لہذا سزا کے طورپر شیشے صاف کر رہا ہے۔
ہاؤس ماسٹرنے نصرت بھٹوکوبیٹے سے ملانے سے بھی انکار کردیا۔ نصرت بھٹو نے قطعاًیہ نہیں کہاکہ میں پرنسپل کوتبدیل کروادونگی یاہاؤس ماسٹرکومعطل کروا دونگی۔ بڑے ادب اوراحترام کے ساتھ بیگم بھٹوواپس تشریف لے گئیں۔ شاہنوازضابطے کے مطابق دودن تک ہاسٹل کی کھڑکیاں صاف کرتارہا۔کیاآج اس کا تصور بھی کیا جاسکتا ہے؟
ایک اورواقعہ بھی بہت اہم ہے۔شروع شروع میں جب بیگم وزیراعظم بیٹے کوملنے کالج آتی تھیں، تو وزیراعظم ہاؤس کی مرسیڈیزاوردیگرگاڑیاں پورے کالج سے گزر کر عمر ونگ تک آجاتی تھیں۔یعنی خاتون اوّل ہوسٹل کے مین گیٹ پراترتی تھیں۔جب یہ تین بارہوا تو کالج انتظامیہ کو محسوس ہواکہ کہ بیگم بھٹوکے علاوہ تمام والدین جب اپنے بچوں کوملنے آتے ہیں،توگاڑیاں پارکنگ میں کھڑی کرنے کے بعد پیدل چل کرہوسٹل تک آتے ہیں۔قانون بھی بعینہ یہی تھا۔
شاہنواز بھٹو نے بھی محسوس کیاکہ ان کی والدہ ہوسٹل گیٹ تک پروٹوکول کے ساتھ آتی ہیں۔اس سے پہلے کہ کوئی اورکہتا۔کرنل این ڈی حسن نے شائستگی سے ذوالفقار علی بھٹوکے ملٹری سیکریٹری کوفون کیااوراسے تنبیہ کی کہ نصرت بھٹوصاحبہ ہاسٹل تک گاڑی نہیں لاسکتیںکیونکہ یہ سہولت تمام طلباء کے والدین میں سے کسی کے پاس نہیں ہے۔ ملٹری سیکریٹری نے بیگم بھٹوکومنع کیاکہ سرکاری گاڑی کالج کے اندرنہ لے کرجائیں۔
کیاآپ یقین کرینگے کہ خاتون اوّل کالج پارکنگ میں عام والدین کی طرح گاڑی پارک کرتی تھیں۔پیدل چل کرہوسٹل آتی تھیں اوراپنے بچے کوساتھ لے کرسامنے گراؤنڈکے پتھریلے بینچ پربیٹھ جاتی تھیں۔عمرونگ،پارکنگ سے تقریباً ایک فرلانگ دور تھا۔بیگم بھٹو، انتہائی اطمینان سے بغیرکسی لاؤلشکرکے آرام سے پیدل چلتی ہوئی عمرونگ پہنچ جاتی تھیں۔
کئی بار دیکھا کہ بیگم بھٹو کے ساتھ بے نظیربھٹواوردیگراہل خانہ عام والدین کی طرح پیدل چلتے ہوئے بیٹے کے پاس جارہے ہوتے تھے۔آج تک یادہے کہ بیگم صاحبہ ساڑھی میں ملبوس ہوتی تھیں۔بے نظیرنے بھی عام سے کپڑے پہنے ہوتے تھے۔کالج انتظامیہ کی طرف سے کسی قسم کاکوئی خصوصی انتظام نہیں کیا جاتاتھا۔ایک سال بعدجب شاہنوازکاداخلہ امریکا میں ہوگیاتوکالج سے جانا نہیں چاہتا تھا۔ اس کے بہت سے دوست بن چکے تھے۔ اس نے سادگی سے روتے روتے کالج چھوڑاتھا۔
پتہ نہیں کیوں،مجھے یہ سچے واقعات الف لیلیٰ کی کہانی معلوم ہوتے ہیںکیونکہ آج کے پاکستان میں تو انکاتصوربھی محال ہے؟