آئیے واشنگٹن چلیں
یہاں سرمایہ دارانہ نظام کی بہت سی خباثتیں جابجا نظر آتی ہیں۔
یہ اظہاریہ امریکا کے وفاقی دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی سے تحریر کررہا ہوں۔ وہ شہر جہاں ترقی پذیر ممالک کے مقدروں کے فیصلے ہوتے ہیں۔ یہاں کئی احباب سے ملاقاتیں ہوئیں، جن میں وائس آف امریکا سے وابستہ سینئر صحافیوں، جن میں رضی احمد رضوی (کزن کمال احمد رضوی مرحوم)، افسر امام کے علاوہ کراچی کے ایک انگریزی رونامے کے نمایندے انور اقبال اور پاکستان کے نجی ٹیلی ویژن کے بیورو چیف کوثر جاوید کے علاوہ مولانا شاہ احمد نورانی مرحوم کے بھانجے اور ڈاکٹر فریدہ احمد اور محمد احمد صدیقی کے فرزند سے بھی ملاقات ہوئی۔ یہ بھی اندازہ ہوا کہ پاکستان ہو یا امریکا صحافی کا اپنا اثر ورسوخ واقعی بہت کام آتا ہے۔ کوثر جاوید نے ہمیں ہالیڈے ان میں 280 ڈالر یومیہ کرایہ والا کمرہ صرف 80 ڈالر میں دلوایا، نتیجتاً 10 فیصد ٹیکس کے ساتھ ہمیں کل 88 ڈالر ادا کرنا پڑے۔
رضی احمد رضوی سے پاکستان اور عالمی سیاست پر کافی دیر تک گفتگو ہوئی۔ وہ معظم علی مرحوم کے دور میں PPI میں کام کرچکے ہیں، اس لیے بیشتر سینئر صحافیوں سے واقف ہیں۔ انھوں نے خاص طور پر فضل قریشی، اویس اسلم علی اور فاروق معین کی خیروعافیت دریافت کی، کراچی پریس کلب اور پرانے ساتھیوں کے بارے میں بھی دیر تک گفتگو ہوئی۔ جب افسر امام ہمیں لینے آئے تو کہنے لگے، ابھی تو گفتگو شروع ہوئی ہے، ابھی سے لے جارہے ہو۔ ان احباب سے ملنے کے بعد محسوس ہی نہیں ہورہا تھا کہ ہم وطن سے دور امریکا میں ہیں۔
سہ پہر کو افسر امام اور انور اقبال کے ساتھ واشنگٹن سے متصل قصبے Springfield آگئے۔ دراصل واشنگٹن میں رہائش بہت مہنگی ہے، اس لیے دوسری ریاستوں اور غیر ممالک سے آئے ہوئے لوگ شہر سے متصل دیگر ریاستوں کے شہروں اور قصبوں میں رہائش اختیار کرتے ہیں۔ یہاں کئی پاکستانی ریستوران ہیں، جن میں اچھے پاکستانی کھانے دستیاب ہیں۔ شام کو یہاں رہائش پذیر پاکستانی صحافی جمع ہوکر گپ شپ کرتے ہیں۔ ایک طرح سے یہ ان کا غیر رسمی پریس کلب ہے۔ اسے انھوں نے منڈی بہاؤالدین کا نام دے رکھا ہے۔ یہاں بڑی تعداد میں صحافی بھائیوں سے ملنے کا اتفاق ہوا۔ کوئی رات کے گیارہ بجے کے قریب انور اقبال نے ہمیں ہوٹل چھوڑ دیا۔
گزشتہ روز سب سے پہلے اپنے سفارت خانے گئے، وہاں منسٹر پریس عابد سعید اور پریس اتاشی زوبیہ مسعود سے ملاقات ہوئی۔ دونوں نے گرمجوشی کے ساتھ ہمارا استقبال کیا۔ وہاں سے فارغ ہوکر وائٹ ہاؤس دیکھنے چلے گئے۔ اس کے بعد مختلف میوزیم اور دیگر اہم مقامات دیکھے۔ غروب آفتاب کے ساتھ ہی واپس Youngsvell کے لیے روانہ ہوگئے۔
اب ذرا قارئین کی معلومات میں اضافے کے لیے امریکا کے دارالحکومت کے بارے میں مختصر سا احوال پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ بہت سے قارئین یہ تو جانتے ہی ہوں گے کہ ابتدا میں ریاست ہائے متحدہ امریکا 13 ریاستوں پر مشتمل یونین تھا، جس نے 4 جولائی 1776 کو برطانیہ کی بالادستی کا خاتمہ کرکے اپنی آزاد وفاقی ریاست بنانے کا فیصلہ کیا۔ 17 ستمبر 1787 کو آئین کا مسودہ ایوان نمایندگان میں پیش کیا گیا، جو طویل بحث و تمحیص کے بعد 21 جون 1788 کو منظور کرلیا گیا اور 4 مارچ 1789 سے نافذالعمل ہوگیا۔ اس کے بعد یکے بعد دیگرے مختلف ریاستیں اس یونین یا فیڈریشن میں شامل ہوتی چلی گئیں۔ یوں آج ریاست ہائے متحدہ امریکا 50 ریاستوں پر مشتمل وفاق ہے۔
آئین میں درج کیا گیا تھا کہ وفاق کا اپنا ایک دارالحکومت ہوگا جو کسی ریاست کا انتظامی حصہ نہیں ہوگا۔ 16 جولائی 1790 کو کانگریس نے ریزیڈنس ایکٹ منظور کیا۔ جس کے بعد دریائے پوٹومک کے اطراف وفاقی دارالحکومت کے قیام کا فیصلہ کیا گیا۔ اس مقصد کے لیے ورجینیا اور میری لینڈ کی ریاستوں نے قطعات ارض عطیہ کیے۔ اس کا سرکاری نام واشنگٹن ڈی سی (یعنی ڈسٹرکٹ کولمبیا) تجویز کیا گیا۔
یاد رہے کہ واشنگٹن نامی ایک ریاست شمال مغرب میں کینیڈا کی سرحد سے متصل ہے۔ واشنگٹن ڈی سی انتظامی طور پر نیم خودمختار ڈسٹرکٹ ہے، جس کے انتظامی امور میں وفاقی حکومت، کانگریس یا سینیٹ مداخلت نہیں کرتی، بلکہ میئر کی سربراہ میں ایک 13 رکنی منتخب کونسل انتظام و انصرام چلاتی ہے۔
میئر شہر کا انتظامی سربراہ ہوتا ہے، جو 13 رکنی منتخب کونسل کے فیصلوں پر عملدرآمد کرانے کے ساتھ شہر کے تمام انتظامی امور کی نگرانی کرتا ہے۔ پولیس، ابتدائی و ثانوی تعلیم، صحت، نکاسی و فراہمی آب اور بلڈنگ کنٹرول سمیت 21محکمے یا شعبہ جات شہری حکومت کے دائرہ اختیار میں آتے ہیں۔ شہر کے لیے ترقیاتی بجٹ کونسل منظور کرتی ہے۔ جو میئر کی نگرانی میں خرچ کیا جاتا ہے اور کونسل مانیٹرنگ کرتی ہے۔ اس وقت شہر کا سالانہ بجٹ 8.8 بلین ڈالر ہے۔ جس کا بیشتر حصہ پبلک اسکولوں، اسپتالوں اور ڈسپنسریوں کے علاوہ سڑکوں اور دیگر ترقیاتی کاموں پر صرف کیا جاتا ہے۔
شہر کا اپنا عدالتی نظام ہے، جو دو درجات پر مشتمل ہے۔ سپریئر کورٹ آف ڈسٹرکٹ آف کولمبیا مقامی ٹرائل کورٹ ہے۔ جب کہ کورٹ آف اپیل اعلیٰ عدالت ہے۔ دونوں عدالتوں کے ججوں کا تقرر امریکی صدر 15 برس کے لیے کرتے ہیں، جن کی توثیق سینیٹ کرتی ہے۔ ان عدالتوں میں ایک ایک چیف جج کے علاوہ کل 61 ایسوسی ایٹ جج ہیں، جو مقدمات چلاتے ہیں، جب کہ فوجداری مقدمات چلانے کے لیے 24 مجسٹریٹ تعینات ہیں۔ عدالتوں کی قانونی مدد کے لیے ڈسٹرکٹ اٹارنی کا تقرر بھی کیا جاتا ہے۔
شروع ہی سے کوشش کی گئی کہ شہر کی آبادی میں بے بہا اضافہ نہ ہونے پائے۔ اس مقصد کے لیے اطراف کی ریاستوں میں ضروری سہولیات سے آراستہ بستیاں بسائی گئیں اور انھیں ہائی ویز کے ذریعے وفاقی دارالحکومت سے جوڑ دیا گیا۔ کتنی حیرت کی بات ہے کہ اپنے قیام کے سوا دو سو برس بعد بھی اس شہر کی آبادی 6 لاکھ 81 ہزار (2016 کی مردم شماری کے مطابق) ہے۔ البتہ دفتری اوقات میں اطراف کے شہروں اور قصبات سے چار لاکھ کے قریب لوگ بسلسلہ ملازمت یہاں آتے ہیں، جو شام کو واپس چلے جاتے ہیں۔ یوں صبح سات بجے سے 10 بجے تک اور شام کو 5 بجے سے 8 بجے تک ہائی ویز پر ٹریفک کا دباؤ رہتا ہے۔
اس مختصر جائزے کے پیش کرنے کا مقصد یہ ہے کہ انتظامی ڈھانچے کا تقابلی جائزہ لیا جاسکے۔ یہ بھی طے ہے کہ امریکا کوئی مثالی ملک نہیں ہے۔ یہاں سرمایہ دارانہ نظام کی بہت سی خباثتیں جابجا نظر آتی ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ امریکا نے سوا دو سو برسوں کے دوران عالمی قوت کے طور پر عالمی سطح پر بدترین زیادتیاں کی ہیں۔ جن میں جوہری ہتھیاروں کا استعمال، مختلف ممالک کو آپس میں لڑا کر اپنے مفادات حاصل کرنا اور ترقی پذیر ممالک پر اقتصادی پابندیاں عائد کرکے انھیں اپنے تابع لانے کی مذموم کوششیں شامل ہیں۔ مگر اپنے عوام کو ہر قسم کی سہولیات فراہم کرنے میں کبھی کسی قسم کی کوئی کوتاہی نہیں کی۔ جس کی وجہ سے صرف امریکی عوام ہی نہیں بلکہ باہر سے آنے والے تارک الوطن اور سیاح بھی ان قانونی اور شہری سہولیات سے استفادہ کرتے ہیں، جس کا نتیجہ یہ ہے کہ یہاں کسی قسم کا سیاسی خلفشار نہیں ہے۔
اس کے برعکس ہم ایک ایسے بدنصیب ملک کے شہری ہیں، جس کی حکمران اشرافیہ عالمی قوتوں کو تو ہر قسم کی سہولیات فراہم کرتی ہے، مگر اپنے عوام کے لیے اس کا رویہ سفاک نوآبادیاتی آقا والا ہوجاتا ہے۔ اس میں قصور ہمارا بھی ہے کہ جب ہمیں اپنے اپنے حکمران منتخب کرنے کا موقع ملتا ہے، تو ہم انتہائی غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ گویا پیر میں سال بھر پہننے والا جوتا خریدتے وقت تو ہر طرح کی چھان پھٹک کرتے ہیں، مگر پانچ برس کے لیے سروں پر مسلط رہنے والے حکمرانوں کے انتخاب میں کہیں برادری، کہیں قبائلی تعلق اور کہیں نسلی و لسانی شناخت کا سہارا لے کر نااہل افراد کو ایوانوں میں بھیج دیتے ہیں۔
دوسری بات یہ کہ امریکا 50 ریاستوں کی یونین ہے۔ یہ اسی وقت قائم رہ سکتی ہے، جب وفاق کے تصور کو اس کی روح کے مطابق نافذ کیا جائے۔ ساتھ ہی نچلے ترین انتظامی سطح پر سیاسی، انتظامی اور مالیاتی بااختیاریت دے کر عوام کو اطمینان کی زندگی گزارنے کا بھرپور موقع دیا گیا ہے۔ جب کہ ہمارے حکمران اپنی فیوڈل ذہنیت کے باعث اقتدار و اختیار کی مرکزیت قائم کرنے پر اپنی توانائیاں صرف کرتے ہیں۔ جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ عوام کے فوری حل طلب مسائل بھی بدانتظامی اور کرپشن کا شکار ہوجاتے ہیں۔ چنانچہ عوام ان سے جلدی بدظن ہونے لگتے ہیں۔ لہٰذا ضروری ہوگیا ہے کہ ہماری حکمران اشرافیہ امریکا اور دنیا کے مختلف ممالک میں رائج انتظامی ڈھانچوں کا مطالعہ کریں اور اپنے ملک کے انتظامی ڈھانچہ کو فرسودگی سے باہر نکالنے کی سبیل کریں۔