موجودہ دور حکومت میں ملک کو 99 ارب ڈالر کا تجارتی خسارہ
نمائشوں پر کروڑوں روپے لٹائے اوربرآمدی آرڈرز کے جھوٹے دعوے کیے گئے
موجودہ وفاقی حکومت کی ناکام و ناقص تجارتی پالیسی اور برآمدات سے متعلق اہم عہدوں پر میرٹ کی خلاف ورزی کی وجہ سے 4 سال کے دوران بیرونی تجارت کو 98.66ارب ڈالر خسارے کا سامنا کرنا پڑا۔
وفاقی وزارت تجارت کی ناقص پالیسیوں اہم برآمدی صنعتوں کو درپیش مسائل حل نہ ہونے اور ٹریڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے سربراہ کی تعیناتی کے لیے میرٹ اور قواعد ضوابط کی خلاف ورزی کی وجہ سے وفاقی حکومت برآمدات میں کمی کا سلسلہ روکنے اور درآمدات میں ہوشربا اضافے کو کنٹرول کرنے میں بری طرح ناکام رہی نتیجے میں پاکستان کی برآمدات 25ارب ڈالر کی سطح سے کم ہوکر 20ارب ڈالر کی سطح پر آگئی جبکہ درآمدات کی 45ارب ڈالر سے بڑھ کر مالیت 53ارب ڈالر کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی۔
پاکستان کے تمام اہم برآمدی شعبوں کی برآمدات میں نمایاں کمی واقع ہوئی۔ سرکاری اعدادوشمار کے مطابق مالی سال 2013-14کے دوران 20ارب ڈالر، مالی سال 2014-15کے دوران 22ارب ڈالر، مالی سال 2015-16کے دوران 23.90ارب ڈالر جبکہ 2016-17کے دوران 32.57ارب ڈالر خسارے کا سامنا کرنا پڑا۔ کارکردگی کے بجائے سفارش اور تعلقات کی بنیاد پر تعینات کیے گئے پاکستان کے 41ملکوں میں 57کمرشل قونصلر اور ٹریڈ سیکریٹریز مل کر پاکستان کی برآمدات میں 1ڈالر کااضافہ بھی نہ کرسکے جن پر صرف تنخواہوں اور مراعات کی مد میں سالانہ 2ارب روپے سے زائد کی رقم خرچ کی جارہی ہے۔
موجودہ حکومت نے برآمدات میں اضافے کے لیے ٹریڈ پالیسی فریم ورک 2015-18کے تحت برآمدات کا حجم 35ارب ڈالر تک بڑھانے کا ہدف مقرر کیا تھا تاہم مربوط پالیسیوں کے فقدان، بیرون ملک ٹریڈ کمشنرز اور کمرشل اتاشیوں کی ناقص کارکردگی، ٹریڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے سربراہ کے عہدے پر پیشہ ورانہ مہارت اور قابلیت سے محروم فرد کی سیاسی بنیادوں پر تعیناتی سمیت ریسرچ اینڈ ڈیولپمنٹ کے ذریعے پاکستانی مصنوعات میں تنوع اور نئی منڈیوں کی تلاش کے لیے موثراقدامات نہ ہونے کی وجہ سے پاکستان کو بیرونی تجارت میں بدترین خسارے کا سامنا کرناپڑا۔
ٹریڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی پاکستان کی فیشن انڈسٹری کوفروغ دینے میں مصروف رہی اور بھارت کے ساتھ پینگیں بڑھاتے ہوئے عالیشان پاکستان نمائشوں کے انعقاد پر کروڑوں روپے کا فنڈ ٹھکانے لگایا گیا اسی طرح ایکسپو پاکستان نمائشوں کے اختتام پر کروڑوں ڈالر مالیت کے برآمدی آرڈرز حاصل کرنے کے جھوٹے دعوے کیے جاتے رہے حقیقیت میں زیادہ تر غیر حقیقی خریداروں کو پاکستان تفریحی دورے پر مدعو کیا گیا۔
ٹریڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے سربراہ خود اپنی ہی ٹریڈ کی برآمدات بڑھانے میں ناکام رہے اور لیدر انڈسٹری کو بھی برآمدات میں نمایاں کمی کا سامنا کرنا پڑا۔ برآمدات میں تشویشناک حد تک کمی کے باوجود تین ماہ سے زائد کا عرصہ گزرنے کے باوجود ٹریڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے سربراہ کا عہدہ خالی پڑا ہے۔
برآمد کنندگان کے مطابق وفاقی وزیر تجارت خرم دستگیر کسی بھی قسم کے اختیارت سے محروم نمائشی وزیر کے طور پرخدمات انجام دیتے رہے اور برآمد کنندگان کو کرائی جانیو الی یقین دہانیاں پوری نہ ہوسکیں۔ برآمد کنندگان کے اربوں روپے کے ریفنڈز پھنسے ہونے کی وجہ سے سرمائے کی قلت بھی برآمدات میں کمی کا سبب بنی رہی۔
واضح رہے کہ مالی سال 2013-14سے مالی سال 2016-17کے دوران چاول کی برآمدات 2.16ارب ڈالر کی سطح سے کم ہوکر 1.46ارب ڈالر، پھل اور سبزیوں کی برآمدات 65کروڑ ڈالر سے کم ہوکر 53کروڑ ڈالر، ٹیکسٹائل کی برآمدات 13.74ارب ڈالر سے کم ہوکر 11.23ارب ڈالر، کھیلوں کے سامان کی برآمدات 35کروڑ 80لاکھ ڈالر سے کم ہوکر 28کروڑ ڈالر، خام چمڑے کی برآمد 55کروڑ ڈالر سے کم ہوکر 31کروڑ 49لاکھ ڈالر، چمڑے کی مصنوعات کی برآمدات 62کروڑ ڈالر سے کم ہوکر 44کروڑ 35لاکھ ڈالر، سرجری کے آلات کی برآمدات 33کروڑ 56لاکھ ڈالر سے کم ہوکر 30کروڑ 73لاکھ ڈالر، کیمکلز اور ادویات کی برآمدات ایک ارب 17کروڑ ڈالر سے کم ہوکر 78کروڑ 34لاکھ ڈالر، انجینئرنگ مصنوعات کی برآمدات 32کروڑ 11لاکھ ڈالر سے کم ہوکر 16کروڑ ڈالر، سیمنٹ کی برآمدات 50کروڑ 94لاکھ ڈالر سے کم ہوکر 22کروڑ ڈالر، نیم قیمتی پتھروں کی برآمد 64لاکھ ڈالر سے کم ہوکر 27لاکھ ڈالر سونے کے زیورات کی برآمد 32کروڑ 44لاکھ ڈالر کے مقابلے میں 53لاکھ ڈالر کی کم ترین سطح پر آگئی۔
وفاقی وزارت تجارت کی ناقص پالیسیوں اہم برآمدی صنعتوں کو درپیش مسائل حل نہ ہونے اور ٹریڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے سربراہ کی تعیناتی کے لیے میرٹ اور قواعد ضوابط کی خلاف ورزی کی وجہ سے وفاقی حکومت برآمدات میں کمی کا سلسلہ روکنے اور درآمدات میں ہوشربا اضافے کو کنٹرول کرنے میں بری طرح ناکام رہی نتیجے میں پاکستان کی برآمدات 25ارب ڈالر کی سطح سے کم ہوکر 20ارب ڈالر کی سطح پر آگئی جبکہ درآمدات کی 45ارب ڈالر سے بڑھ کر مالیت 53ارب ڈالر کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی۔
پاکستان کے تمام اہم برآمدی شعبوں کی برآمدات میں نمایاں کمی واقع ہوئی۔ سرکاری اعدادوشمار کے مطابق مالی سال 2013-14کے دوران 20ارب ڈالر، مالی سال 2014-15کے دوران 22ارب ڈالر، مالی سال 2015-16کے دوران 23.90ارب ڈالر جبکہ 2016-17کے دوران 32.57ارب ڈالر خسارے کا سامنا کرنا پڑا۔ کارکردگی کے بجائے سفارش اور تعلقات کی بنیاد پر تعینات کیے گئے پاکستان کے 41ملکوں میں 57کمرشل قونصلر اور ٹریڈ سیکریٹریز مل کر پاکستان کی برآمدات میں 1ڈالر کااضافہ بھی نہ کرسکے جن پر صرف تنخواہوں اور مراعات کی مد میں سالانہ 2ارب روپے سے زائد کی رقم خرچ کی جارہی ہے۔
موجودہ حکومت نے برآمدات میں اضافے کے لیے ٹریڈ پالیسی فریم ورک 2015-18کے تحت برآمدات کا حجم 35ارب ڈالر تک بڑھانے کا ہدف مقرر کیا تھا تاہم مربوط پالیسیوں کے فقدان، بیرون ملک ٹریڈ کمشنرز اور کمرشل اتاشیوں کی ناقص کارکردگی، ٹریڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے سربراہ کے عہدے پر پیشہ ورانہ مہارت اور قابلیت سے محروم فرد کی سیاسی بنیادوں پر تعیناتی سمیت ریسرچ اینڈ ڈیولپمنٹ کے ذریعے پاکستانی مصنوعات میں تنوع اور نئی منڈیوں کی تلاش کے لیے موثراقدامات نہ ہونے کی وجہ سے پاکستان کو بیرونی تجارت میں بدترین خسارے کا سامنا کرناپڑا۔
ٹریڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی پاکستان کی فیشن انڈسٹری کوفروغ دینے میں مصروف رہی اور بھارت کے ساتھ پینگیں بڑھاتے ہوئے عالیشان پاکستان نمائشوں کے انعقاد پر کروڑوں روپے کا فنڈ ٹھکانے لگایا گیا اسی طرح ایکسپو پاکستان نمائشوں کے اختتام پر کروڑوں ڈالر مالیت کے برآمدی آرڈرز حاصل کرنے کے جھوٹے دعوے کیے جاتے رہے حقیقیت میں زیادہ تر غیر حقیقی خریداروں کو پاکستان تفریحی دورے پر مدعو کیا گیا۔
ٹریڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے سربراہ خود اپنی ہی ٹریڈ کی برآمدات بڑھانے میں ناکام رہے اور لیدر انڈسٹری کو بھی برآمدات میں نمایاں کمی کا سامنا کرنا پڑا۔ برآمدات میں تشویشناک حد تک کمی کے باوجود تین ماہ سے زائد کا عرصہ گزرنے کے باوجود ٹریڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے سربراہ کا عہدہ خالی پڑا ہے۔
برآمد کنندگان کے مطابق وفاقی وزیر تجارت خرم دستگیر کسی بھی قسم کے اختیارت سے محروم نمائشی وزیر کے طور پرخدمات انجام دیتے رہے اور برآمد کنندگان کو کرائی جانیو الی یقین دہانیاں پوری نہ ہوسکیں۔ برآمد کنندگان کے اربوں روپے کے ریفنڈز پھنسے ہونے کی وجہ سے سرمائے کی قلت بھی برآمدات میں کمی کا سبب بنی رہی۔
واضح رہے کہ مالی سال 2013-14سے مالی سال 2016-17کے دوران چاول کی برآمدات 2.16ارب ڈالر کی سطح سے کم ہوکر 1.46ارب ڈالر، پھل اور سبزیوں کی برآمدات 65کروڑ ڈالر سے کم ہوکر 53کروڑ ڈالر، ٹیکسٹائل کی برآمدات 13.74ارب ڈالر سے کم ہوکر 11.23ارب ڈالر، کھیلوں کے سامان کی برآمدات 35کروڑ 80لاکھ ڈالر سے کم ہوکر 28کروڑ ڈالر، خام چمڑے کی برآمد 55کروڑ ڈالر سے کم ہوکر 31کروڑ 49لاکھ ڈالر، چمڑے کی مصنوعات کی برآمدات 62کروڑ ڈالر سے کم ہوکر 44کروڑ 35لاکھ ڈالر، سرجری کے آلات کی برآمدات 33کروڑ 56لاکھ ڈالر سے کم ہوکر 30کروڑ 73لاکھ ڈالر، کیمکلز اور ادویات کی برآمدات ایک ارب 17کروڑ ڈالر سے کم ہوکر 78کروڑ 34لاکھ ڈالر، انجینئرنگ مصنوعات کی برآمدات 32کروڑ 11لاکھ ڈالر سے کم ہوکر 16کروڑ ڈالر، سیمنٹ کی برآمدات 50کروڑ 94لاکھ ڈالر سے کم ہوکر 22کروڑ ڈالر، نیم قیمتی پتھروں کی برآمد 64لاکھ ڈالر سے کم ہوکر 27لاکھ ڈالر سونے کے زیورات کی برآمد 32کروڑ 44لاکھ ڈالر کے مقابلے میں 53لاکھ ڈالر کی کم ترین سطح پر آگئی۔