غیر قانونی کنکشن اور رساؤ سے لائنوں کا پانی آلودہ ہو گیا
کرپٹ واٹر بورڈ افسران اور پانی چور مافیا نے غیرقانونی کنکشن لگاکر پانی کی بیشتر لائنیں چھلنی کردیں
شہر میں آلودہ پانی کی فراہمی کی بڑی وجہ رساؤ کے باعث فراہمی و نکاسی آب کی لائنوں کا مل جانا ہے منصوبہ بندی کے بغیر فراہمی ونکاسی آب کی لائنیں واٹربورڈ سمیت مختلف اداروں اور بااثر افراد نے ڈالی ہیں جس سے پورا نظام تباہ ہورہا ہے۔
سندھ ہائی کورٹ کے پانی،صحت اور صفائی سے متعلق کمیشن میں جمع کرائی گئی رپورٹ میں انکشاف ہوا ہے کہ کراچی کے شہریوں کو فراہم کیے جانے والے پانی میں انسانی فضلہ شامل ہے کراچی میں آلودہ پانی کی فراہمی کی بڑی وجہ فراہمی و نکاسی آب کی کی لائنوں کا مل جانا ہے شہر میں پانی و سیوریج کی لائنوں کی تنصیب واٹر بورڈ، ضلعی بلدیاتی ادارے، کنٹونمنٹ بورڈز اور سیاسی بااثر افراد کرتے ہیں یہ لائنیں بغیر منصوبہ بندی کے اس طرح ڈالی گئی ہیں کہ پانی و سیوریج کی لائنیں رساؤ اور ٹھوٹ پھوٹ کے باعث آپس میں مل گئی ہیں۔
واٹر بورڈ کے پاس شہر میں زیر زمین پانی اور سیوریج لائنوں کا جامع ریکارڈ موجود ہے اور نہ ہی کوئی ماسٹر پلان تشکیل دیا گیا پانی وسیوریج کا پورا نظام فرسودہ طریقے سے چلایا جارہا ہے اور اس نظام میں بہتری کے لیے جدید ٹیکنالوجی سے مدد نہیں لی جارہی واٹر بورڈکے پاس موجود ریکارڈ اور نقشے پرانے ہوچکے ہیں جبکہ بیشتر علاقوں میں پانی وسیوریج کے نظام کا کوئی ریکارڈ موجود نہیں ہنگامی مواقع پر واٹر بورڈ کے افسر پرانے رٹائرڈ عملے کو طلب کرکے لائنوں کی موجودگی کا پتہ لگاتے ہیں بیشتر مقامات پر کھدائی کے بعد انکشاف ہوتا ہے یہاں سے پانی یا سیوریج کی لائن گزررہی ہے20 سال کے دوران فراہمی و نکاسی آب کے نظام کو مستحکم کرنے کے لیے اربوں روپے خرچ کرنے کے دعوے کیے گئے تاہم شہریوں کے مسائل میں مزید اضافہ ہوگیا۔
شہر کے اندرونی علاقوں میں فراہمی ونکاسی آب کا نظام بوسیدہ ہوگیا سیوریج کا پورا نظام تباہی کے دھانے پر کھڑا ہے واٹر بورڈ اپنے سیوریج کا نظام برساتی نالوں میں ڈال کر عارضی طور پر کام چلارہا ہے برساتی نالوں کے اوپر اور درمیان سے پانی کی بوسیدہ اور ٹوٹی ہوئی لائنیں گزررہی ہیں سیوریج کے بوسیدہ نظام سے پانی کی لائنوں میں گندا پانی شامل ہوتا ہے اور زیر زمین پانی بھی آلودہ ہورہا ہے پانی کی لائنوں میں رساؤ کے سبب 30 فیصد پانی ضایع ہوجاتا ہے۔
واٹر بورڈ کے کرپٹ عملے اور پانی چور مافیا نے غیرقانونی کنکشن مارکر شہر بھر کی پانی کی چھوٹی بڑی لائنیں چھلنی کردی ہیں شہر کے بیشتر علاقوں میں واٹر بورڈ کی رٹ ہی موجود نہیں واٹر بورڈ کا عملہ جب وہاں کارروائی کرنے جاتا ہے تو بااثر سیاسی افراد انھیں مارکر بھگادیتے ہیں کچی آبادیاں واٹر بورڈ کے دائرہ اختیار میں نہیں آتی وہاں ضلعی بلدیاتی اداروں اور مکینوں نے بغیر منصوبہ بندی خود پانی کا نظام ڈال دیا ہے۔
علاوہ ازیں شہر کی بڑی مرکزی لائنیں بھی کچی آبادیوں سے گزرتی ہیں بوسیدہ نظام کی وجہ سے شہریوں کو آلودہ پانی مل رہا ہے جب تک پورے نظام کی اوورہالنگ نہیں ہوگی نظام درست نہیں ہوسکتا واٹر بورڈ کے کرپٹ اور نااہل افسران نے اس نظام کو تباہ و برباد کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی لہذا سب سے پہلے ان کا احتساب ہونا چاہیے۔
سندھ ہائی کورٹ کے پانی،صحت اور صفائی سے متعلق کمیشن میں جمع کرائی گئی رپورٹ میں انکشاف ہوا ہے کہ کراچی کے شہریوں کو فراہم کیے جانے والے پانی میں انسانی فضلہ شامل ہے کراچی میں آلودہ پانی کی فراہمی کی بڑی وجہ فراہمی و نکاسی آب کی کی لائنوں کا مل جانا ہے شہر میں پانی و سیوریج کی لائنوں کی تنصیب واٹر بورڈ، ضلعی بلدیاتی ادارے، کنٹونمنٹ بورڈز اور سیاسی بااثر افراد کرتے ہیں یہ لائنیں بغیر منصوبہ بندی کے اس طرح ڈالی گئی ہیں کہ پانی و سیوریج کی لائنیں رساؤ اور ٹھوٹ پھوٹ کے باعث آپس میں مل گئی ہیں۔
واٹر بورڈ کے پاس شہر میں زیر زمین پانی اور سیوریج لائنوں کا جامع ریکارڈ موجود ہے اور نہ ہی کوئی ماسٹر پلان تشکیل دیا گیا پانی وسیوریج کا پورا نظام فرسودہ طریقے سے چلایا جارہا ہے اور اس نظام میں بہتری کے لیے جدید ٹیکنالوجی سے مدد نہیں لی جارہی واٹر بورڈکے پاس موجود ریکارڈ اور نقشے پرانے ہوچکے ہیں جبکہ بیشتر علاقوں میں پانی وسیوریج کے نظام کا کوئی ریکارڈ موجود نہیں ہنگامی مواقع پر واٹر بورڈ کے افسر پرانے رٹائرڈ عملے کو طلب کرکے لائنوں کی موجودگی کا پتہ لگاتے ہیں بیشتر مقامات پر کھدائی کے بعد انکشاف ہوتا ہے یہاں سے پانی یا سیوریج کی لائن گزررہی ہے20 سال کے دوران فراہمی و نکاسی آب کے نظام کو مستحکم کرنے کے لیے اربوں روپے خرچ کرنے کے دعوے کیے گئے تاہم شہریوں کے مسائل میں مزید اضافہ ہوگیا۔
شہر کے اندرونی علاقوں میں فراہمی ونکاسی آب کا نظام بوسیدہ ہوگیا سیوریج کا پورا نظام تباہی کے دھانے پر کھڑا ہے واٹر بورڈ اپنے سیوریج کا نظام برساتی نالوں میں ڈال کر عارضی طور پر کام چلارہا ہے برساتی نالوں کے اوپر اور درمیان سے پانی کی بوسیدہ اور ٹوٹی ہوئی لائنیں گزررہی ہیں سیوریج کے بوسیدہ نظام سے پانی کی لائنوں میں گندا پانی شامل ہوتا ہے اور زیر زمین پانی بھی آلودہ ہورہا ہے پانی کی لائنوں میں رساؤ کے سبب 30 فیصد پانی ضایع ہوجاتا ہے۔
واٹر بورڈ کے کرپٹ عملے اور پانی چور مافیا نے غیرقانونی کنکشن مارکر شہر بھر کی پانی کی چھوٹی بڑی لائنیں چھلنی کردی ہیں شہر کے بیشتر علاقوں میں واٹر بورڈ کی رٹ ہی موجود نہیں واٹر بورڈ کا عملہ جب وہاں کارروائی کرنے جاتا ہے تو بااثر سیاسی افراد انھیں مارکر بھگادیتے ہیں کچی آبادیاں واٹر بورڈ کے دائرہ اختیار میں نہیں آتی وہاں ضلعی بلدیاتی اداروں اور مکینوں نے بغیر منصوبہ بندی خود پانی کا نظام ڈال دیا ہے۔
علاوہ ازیں شہر کی بڑی مرکزی لائنیں بھی کچی آبادیوں سے گزرتی ہیں بوسیدہ نظام کی وجہ سے شہریوں کو آلودہ پانی مل رہا ہے جب تک پورے نظام کی اوورہالنگ نہیں ہوگی نظام درست نہیں ہوسکتا واٹر بورڈ کے کرپٹ اور نااہل افسران نے اس نظام کو تباہ و برباد کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی لہذا سب سے پہلے ان کا احتساب ہونا چاہیے۔