اعتکاف کے مسائل

اگر اپنے عزیز، محرم یا زوجہ کا انتقال ہوجائے تو نماز جنازہ کے لیے اعتکاف توڑ سکتے ہیں۔

اگر اپنے عزیز، محرم یا زوجہ کا انتقال ہوجائے تو نماز جنازہ کے لیے اعتکاف توڑ سکتے ہیں۔(فوٹو ایکسپریس)

اعتکاف کا مطلب ہے مسجد میں اﷲ کی رضا کے لیے قیام کرنا یا ٹھہرنا۔ اس کے لیے مسلمان کا عاقل اور بالکل پاک ہونا شرط ہے، بلوغ شرط نہیں بلکہ نابالغ جو تمیز رکھتا ہے، اگر بہ نیت اعتکاف مسجد میں ٹھہرے تو یہ اعتکاف صحیح ہے۔

معتکف اﷲ کی بارگاہ میں اس کی عبادت پر کمربستہ ہوجاتا ہے اور اسے یہی دھن ہوتی ہے کہ کسی طرح اس کا پروردگار اس سے راضی ہوجائے۔

٭اعتکاف سنت: رمضان المبارک کے آخری عشرے کا اعتکاف ''سنت مؤکدہ علی الکفایہ'' ہے۔ یعنی پورے شہر میں کسی ایک نے کرلیا تو سب کی طرف سے ادا ہوگیا اور اگر کسی ایک نے بھی نہیں کیا تو سبھی گناہ گار ہوئے۔

اعتکاف کے لیے لازم ہے کہ رمضان المبارک کی بیسویں تاریخ کو غروب آفتاب سے پہلے مسجد کے اندر بہ نیت اعتکاف موجود ہو اور انتیس کے چاند کے بعد یا تیس کے غروب آفتاب کے بعد مسجد سے باہر نکلے۔ اگر غروب آفتاب کے بعد مسجد میں داخل ہوئے تو اعتکاف کی سنت موکدہ ادا نہ ہوئی بلکہ سورج ڈوبنے سے پہلے مسجد میں تو داخل ہوچکے تھے۔

مگر نیت کرنا بھول گئے تھے یعنی دل میں نیت ہی نہیں تھی تو اس صورت میں بھی اعتکاف کی سنت مؤکدہ ادا نہ ہوئی۔ اگر غروب آفتاب کے بعد نیت کی تو نفلی اعتکاف ہوگیا۔ دل میں نیت کرلینا ہی کافی ہے، زبان سے کہنا شرط نہیں، البتہ دل میں نیت ہونا ضروری ہے۔

فنائے مسجد میں جانے سے اعتکاف فاسد نہیں ہوتا۔ معتکف بغیر کسی ضرورت کے بھی فنائے مسجد میں جاسکتا ہے۔ فنائے مسجد سے مراد وہ جگہیں ہیں جو احاطۂ مسجد (عرف عام میں جسے مسجد کہا جاتا ہے) میں واقع ہوں اور ضروریات مسجد کے لیے ہوں، جیسے مینار، وضو خانہ، استنجا خانہ، غسل خانہ، مسجد سے متصل مدرسہ، مسجد سے ملحق امام و مؤذن کے حجرے، جوتے اتارنے کی جگہ وغیرہ یہ مقامات بعض معاملات میں حکم مسجد میں ہیں اور بعض معاملات میں خارج مسجد۔

مثلاً یہاں جنبی (جس پر غسل فرض ہو) جاسکتا ہے۔ اسی طرح اقتدا اور اعتکاف کے معاملے میں یہ مقامات حکم مسجد میں ہیں۔ معتکف بلا ضرورت بھی یہاں جاسکتا ہے۔ گویا وہ مسجد ہی کے کسی ایک حصے میں گیا۔

صحن مسجد کا حصہ ہے لہٰذا معتکف کو صحن مسجد میں آنا جانا اور بیٹھے رہنا جائز ہے۔ مسجد کی چھت پر بھی آجاسکتا ہے، لیکن ضروری ہے کہ چھت پر جانے کا راستہ مسجد کے اندر سے ہو، اگر اوپر جانے کے لیے سیڑھیاں احاطہ مسجد سے باہر ہیں تو معتکف نہیں جاسکتا۔ اگر جائے گا تو اعتکاف فاسد ہوجائے گا۔ یہ بھی یاد رہے کہ غیر معتکف کا بھی مسجد کی چھت پر بلا ضرورت چڑھنا مکروہ ہے۔

اعتکاف کے دوران دو وجوہات کی بنا پر مسجد سے باہر نکلنے کی اجازت ہے۔ حاجت شرعی اور حاجت طبعی۔ حاجت شرعی یعنی جن احکام و امور کی ادائیگی شرعاً ضروری ہو اور معتکف، اعتکاف گاہ میں ان کو ادا نہ کرسکے، انہیں حاجت شرعی کہتے ہیں مثلاً نماز جمعہ اور اذان وغیرہ۔ اگر مینار کا راستہ خارج مسجد ہو تو بھی اذان کے لیے معتکف بھی جا سکتا ہے، کیوں کہ اب یہ مسجد سے نکلنا حاجت شرعی کی وجہ سے ہے۔ اگر ایسی مسجد میں اعتکاف کررہا ہو جس میں جمعہ کی نماز نہ ہوتی ہو تو معتکف کے لیے اس مسجد سے نکل کر جمعہ کی نماز کے لیے ایسی مسجد میں جانا جائز ہے

جس میں جمعہ کی نماز ہوتی ہو اور اپنی اعتکاف گاہ سے اندازاً ایسے وقت میں نکلے کہ خطبہ شروع ہونے سے پہلے وہاں پہنچ کر چار رکعت سنت پڑھ سکے اور نماز جمعہ کے بعد اتنی دیر مزید ٹھہر سکتا ہے کہ چار یا چھ رکعت پڑھ لے اور اگر اس سے زیادہ ٹھہرا، بلکہ باقی اعتکاف اگر وہیں پورا کرلیا تب بھی اعتکاف نہیں ٹوٹے گا۔ لیکن نماز جمعہ کے بعد چھ رکعت سے زیادہ ٹھہرنا مکروہ ہے۔

اگر اپنے محلے کی ایسی مسجد میں اعتکاف کیا جس میں جماعت نہ ہوتی ہو تو اب جماعت کے لیے نکلنے کی اجازت نہیں، کیوںکہ اب افضل یہی ہے کہ بغیر جماعت ہی اس مسجد میں نماز ادا کی جائے۔


حاجت طبعی یعنی وہ ضرورت جس کے بغیر چارہ نہ ہو مثلاً پیشاب، پاخانہ وغیرہ، احاطہ مسجد میں اگر پیشاب وغیرہ کے لیے کوئی جگہ مخصوص نہ ہو تو مسجد سے باہر جاسکتے ہیں۔ اگر مسجد میں وضو خانہ یا حوض وغیرہ نہ ہو تو مسجد سے وضو کے لیے باہر جاسکتے ہیں، لیکن یہ اس صورت میں ہے جب کسی برتن یا ٹب میں اس طرح وضو کرنا ممکن نہ ہو کہ وضو کے پانی کی کوئی چھینٹ مسجد میں نہ پڑے۔

نیند کی حالت میں لباس خراب ہوجانے کی صورت میں اگر احاطۂ مسجد میں غسل خانہ نہیں اور نہ ہی کسی طرح مسجد میں غسل کرنا ممکن ہو تو غسل جنابت کے لیے مسجد سے باہر جاسکتے ہیں۔ قضائے حاجت کے لیے گئے تو طہارت کرکے فوراً چلے آئیں، ٹھہرنے کی اجازت نہیں۔ اگر آپ کا مکان مسجد سے دور ہے اور آپ کے دوست کا مکان قریب تو یہ ضروری نہیں کہ دوست کے ہاں قضائے حاجت کو جائیں، بلکہ اپنے گھر بھی جاسکتے ہیں، اور اگر آپ کے دو مکان ہیں ایک نزدیک، دوسرا دور تو نزدیک والے مکان جائیں۔

عام طور پر نمازیوں کی سہولت کے لیے مسجد کے احاطے میں بیت الخلا، غسل خانہ، استنجا خانہ اور وضو خانہ ہوتا ہے لہٰذا معتکف انہی کو استعمال کرے۔ بعض مساجد میں استنجا خانوں، غسل خانوں وغیرہ کے لیے راستہ احاطۂ مسجد (یعنی فنائے مسجد کے بھی) باہر سے ہوتا ہے لہٰذا یہاں حاجت طبعی کے علاوہ نہیں جاسکتے۔

بعض باتوں سے اعتکاف ٹوٹ جاتا ہے۔ جہاں جہاں مسجد سے نکلنے پر اعتکاف ٹوٹنے کا حکم ہے، وہاں احاطہ مسجد یعنی اصل مسجد اور فنائے مسجد سے نکلنا مراد ہے۔

حضرت عائشہ صدیقہ فرماتی ہیں:''معتکف کے لیے صحیح طریقہ یہ ہے کہ وہ نہ کسی مریض کی عیادت کو جائے، نہ کسی جنازے میں شامل ہو، نہ کسی عورت کو چھوئے، نہ اس کے ساتھ ملاپ کرے اور نہ ہی ناگزیر ضروریات کے سوا کسی بھی ضرورت کے لیے باہر نکلے۔''

جن ضروریات کا اوپر ذکر کیا گیا ہے، ان کے سوا کسی بھی مقصد سے اگر آپ حدود مسجد (یعنی احاطہ مسجد) سے باہر نکل گئے، خواہ یہ نکلنا ایک ہی لمحے کے لیے ہو تو اعتکاف ٹوٹ جائے گا۔ واضح رہے کہ مسجد سے نکلنا اس وقت کہا جائے گا جب پائوں مسجد سے اس طرح باہر نکل جائیں کہ اسے عرفا مسجد سے نکلنا کہا جاسکے

لہٰذا اگر صرف سرمسجد سے نکال دیا تو اس سے اعتکاف فاسد نہیں ہوگا۔ بلا ضرورت شرعی مسجد سے باہر نکلنا، خواہ جان بوجھ کر ہو یا بھول کر یا غلطی سے، بہرصورت اس سے اعتکاف ٹوٹ جاتا ہے البتہ اگر بھول کر یا غلطی سے باہر نکلیں گے تو اس سے اعتکاف توڑنے کا گناہ نہیں ہوگا۔ پیشاب کرنے کے لیے مسجد سے باہر گیا، قرض خواہ نے روک لیا، اعتکاف فاسد ہوگیا۔

معتکف اگر بے ہوش یا مجنون (یعنی پاگل) ہوگیا اور یہ کیفیت طول پکڑ جائے کہ روزہ نہ ہوسکے تو اعتکاف جاتا رہا اور قضا واجب ہے، اگرچہ کئی سال کے بعد صحت مند ہو۔ معتکف مسجد میں ہی کھائے پیے۔ ان امور کے لیے مسجد سے باہر جائے گا تو اعتکاف ٹوٹ جائے گا۔

اگر آپ کے لیے کھانا لانے والا کوئی نہیں تو پھر آپ کھانا لانے کے لیے مسجد باہر جاسکتے ہیں، لیکن مسجد میں لاکر ہی کھائیں۔ مرض کے علاج کے لیے مسجد سے نکلے تو اعتکاف فاسد ہوگیا۔ اگر کسی معتکف کو نیند کی حالت میں چلنے کی بیماری ہو اور وہ نیند میں چلتے چلتے مسجد سے نکل گیا تو اعتکاف فاسد ہوجائے گا۔

عوام میں یہ غلط فہمی پائی جاتی ہے کہ معتکف کو مسجد میں پردے ٹانگ کر ان کے اندر بالکل چپ چاپ پڑے رہنا چاہیے، لیکن ایسا نہیں، پردے بے شک لگائیں، کیوں کہ اس سے عبادت میں یکسوئی حاصل ہوتی ہے، مگر بغیر پردہ لگائے بھی اعتکاف درست ہے۔اعتکاف کے دوران کوئی ایسی بیماری پیدا ہوگئی جس کا علاج مسجد سے باہر نکلے بغیر نہیں ہوسکتا تو اعتکاف توڑنا جائز ہے۔

کوئی آدمی ڈوب رہا ہویا آگ میں جل رہا ہو تو اعتکاف توڑ کر ڈوبتے ہوئے کو بچائیں اور جلتے ہوئے کی آگ بجھائیں۔ جہاد کے لیے اعلان عام کردیا جائے ( یعنی جہاد فرض عین ہوجائے) تو اعتکاف کو توڑ کر جہاد میں شرکت کریں۔ اگر جنازہ آجائے اور کوئی اور نماز پڑھانے والا نہ ہو تو اعتکاف توڑ کر (احاطہ مسجد سے باہر نکل کر بھی) نماز جنازہ پڑھا سکتے ہیں۔ کوئی شخص زبردستی نکال کر باہر لے جائے مثلاً حکومت کی طرف سے گرفتاری کا وارنٹ آجائے تو بھی اعتکاف توڑنا جائزہے، جب کہ فوراً دوسری مسجد میں جانا ممکن نہ ہو۔

اگر اپنے عزیز، محرم یا زوجہ کا انتقال ہوجائے تو نماز جنازہ کے لیے اعتکاف توڑ سکتے ہیں۔ (مگر قضا کرنا واجب ہوجائے گا) آپ اگر کسی معاملہ میں گواہ ہوں اور آپ کی گواہی پر فیصلہ موقوف ہو تو آپ کے لیے یہ جائز ہے کہ اعتکاف توڑ کر گواہی دینے کے لیے جائیں۔
Load Next Story