مغفرت کا عشرہ
’’جا، میں نے تجھے معاف کیا۔‘‘ (فرمان ِ الٰہی)
رمضان المبارک کا عظیم الشان پہلا عشرہ جہاں اپنی رحمتوں سے بنی آدم کو ڈھانپ کر ختم ہوتا ہے، وہیں دوسرا عظیم الشان عشرہ دستک دیتا ہے۔ دوسرا عشرہ، اپنے اندر پہلے عشرے سے زیادہ اجر و ثواب سموئے ہوتا ہے۔ پہلے عشرۂ مبارک میں اﷲ رب العزت ہر اس روزہ دار کو جو خاص رضائے الٰہی کے لیے روزے کا پورا حق ادا کرتے ہوئے روزہ رکھتا ہے۔
ایسے شخص پر اﷲ تعالیٰ اپنی خاص رحمت نازل کرتا ہے۔ رب العالمین عام مہینوں سے زیادہ اس ماہ مبارک میں اپنی خاص رحمتیں نازل کرتا ہے۔ یہ رحمتیں مسلمانوں کے لیے مخصوص ہیں۔ عشرۂ رحمت کے بعد عشرۂ مغفرت شروع ہوتا ہے۔ ان رحمتوں پر مسلمان اپنے رب کا جتنا بھی شکر ادا کریں، وہ کم ہے۔ اگر ساری زندگی بھی اس سجدۂ شکر سے سر نہ اٹھائیں تو بھی اس نعمت عظیم کا شکر ادا نہیں ہوسکتا۔ اﷲ رب العزت اس عشرے میں مسلمان روزہ داروں کو اپنی مغفرت سے نوازتا ہے جو ان کی زندگی کی سب سے بڑی کام یابی ہے ۔
اﷲ جل جلالہ اس کے تمام پچھلے گناہوں سے اس کی مغفرت فرما دیتے ہیں، اور یہ ازالہ اس کے صغیرہ گناہوں کا ہوتا ہے، اس کے کبیرہ گناہوں کے لیے توبہ شرط ہے۔ اگر کوئی مسلمان عشرۂ ثانیہ میں اپنے پچھلے تمام کبیرہ گناہوں سے سچے دل سے توبہ کرلے تو اﷲ تعالیٰ اس کے صغیرہ گناہ روزے کی برکت سے معاف فرمادے گا اور وہ شخص گناہوں سے ایسا پاک ہوجائے گا جیسے اس کی ماں نے اسے ابھی ابھی جنم دیا ہو۔ اﷲ رب العزت کی ذات سے امید ہے کہ وہ تمام صغیرہ کبیرہ گناہوں کو حسنات سے بدل دے گا۔ جس کسی کو اﷲ تعالیٰ کی مغفرت مل گئی۔
اسے سب کچھ مل گیا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آخرت میں حشر کے میدان میں اس کے گناہوں کے بارے میں کچھ نہیں پوچھا جائے گا اور نہ ہی اس کے گناہ سب کے سامنے بیان کیے جائیں گے۔ میزان عمل میں ان کی نیکیوں کا پلڑا بھاری اور وزنی ہوگا اور وہ یوم الدین کی ہولناکی سے محفوظ ہوگا۔ اس مبارک عشرے میں غفور الرحیم ارشاد فرماتا ہے:''ہے کوئی مجھ سے مانگنے والا جسے میں عطا کروں؟ ہے کوئی مغفرت چاہنے والا جسے میں معاف کروں؟''
ایسا اس ماہ مبارک کے دوسرے عشرے کی ہر رات میں ہوتا ہے۔
اﷲ رب العالمین کو معافی بہت پسند ہے۔ جب کوئی بندہ گناہ کرتا ہے اور اسے اس پر شرمندگی محسوس ہوتی ہے تو وہ معافی مانگنے کے لیے دعا کرتا ہے۔ ابھی اس نے صرف ''یا اﷲ'' ہی کہا ہوتا ہے کہ اﷲ کی رحمت اور اس کی صفت غفور جوش میں آتی ہے، اور ارشاد ہوتا ہے:''جا، میں نے تجھے معاف کیا۔'' سبحان اﷲ! اﷲ کی شان تو دیکھیے کہ بندے نے صرف معافی کے لیے ''اﷲ'' کہا، اور ابھی پوری دعا مکمل بھی نہیں ہوئی کہ اﷲ نے اس کی مغفرت فرمادی۔
رب ذوالجلال والاکرام تو اپنے بندوں کو معاف کرنے کے بہانے ڈھونڈتا ہے۔ جب کسی بندے سے کوئی گناہ سرزد ہوجائے تو وہ رحیم و کریم اسے مہلت دیتا ہے کہ شاید اب بھی یہ مجھ سے معافی مانگ لے، شاید اب بھی یہ میری طرف رجوع کرلے۔
حدیث نبویؐ ہے کہ جب بندہ کوئی گناہ کرتا ہے تو آسمان اﷲ تعالیٰ سے عرض کرتا ہے:''اے اﷲ! تو مجھے اجازت دے کہ میں اس پر ٹوٹ پڑوں۔''
زمین کہتی ہے:''اے اﷲ، تو مجھے اجازت دے کہ میں اسے اپنے اندر دھنسالوں۔''
اس موقع پر مالک الملک کا ارشاد ہوتا ہے:''اگر یہ تمہاری مخلوق ہے اور تم اس کے خالق ہو تو تمہیں اجازت ہے۔ اور اگر یہ میرے بندے ہیں اور میں ان کا خالق ہوں تو میرے بندے کا معاملہ مجھ پر چھوڑ دو۔ میں اس بات کا انتظار کروں گا کہ یہ مجھ سے رجوع کرلے اور اپنے گناہوں کی معافی مانگ لے۔''
بے شک! یہ ہمارا رب ہی ہے جو ہمارے پکارنے اور یاد کرنے پر نہ صرف لبیک کہتا ہے، بلکہ ہر معافی چاہنے والے کے گناہ بھی فرمادیتا ہے۔ افسوس ہے ہم پر کہ ہم اس مبارک عشرے کو پائیں اور اس میں ہماری مغفرت نہ ہو۔
رمضان کے دوسرے عشرے میں جو کہ عشرۂ مغفرت کے نام سے موسوم ہے، استغفار کی کثرت کرنی چاہیے۔ صبح و شام اﷲ رب العزت سے اپنے گناہوں پر شرمندہ ہوکر معافی مانگنی چاہیے۔ اس سے ہمارا رب تعالیٰ بہت خوش ہوتا ہے اور ہماری مغفرت فرمادیتا ہے۔
حدیث میں آتا ہے کہ جب کوئی شخص گناہ کرتا ہے، پھر وہ اس پر شرمندہ ہوکر اﷲ سے معافی مانگتا ہے اور توبہ کرتا ہے تو اﷲ رب العزت اس کی مغفرت فرمادیتا ہے۔ پھر وہ شخص وہی گناہ دوبارہ کرتا ہے تو توبہ ٹوٹ جاتی ہے۔ پھر وہ اپنے گناہ پر شرمندہ ہوتا ہے اور اﷲ سے ایک بار پھر معافی طلب کرتا ہے تو اﷲ پاک اسے پھر اس کے گناہ سے سبک دوش کردیتا ہے۔ وہ پھر وہی گناہ کرتا ہے اور اس بار بھی اس کی توبہ ٹوٹ جاتی ہے۔ وہ پھر اﷲ سے معافی طلب کرتا ہے اور رب کریم نہ صرف اس کی پھر مغفرت فرمادیتا ہے، بلکہ یہ بھی ارشاد فرماتا ہے:''جا، میں نے تجھے معاف کیا، اب تو جو چاہے کر، تجھ پر گناہ نہیں۔''
اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے اسے وہ گناہ کرنے کی اجازت دے دی ہے، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ جب جب گناہ کرتا رہے گا اور سچے دل سے اس پر شرمندہ ہوکر اﷲ رحمن و رحیم سے مغفرت طلب کرتا رہے گا، اﷲ اس کے گناہوں سے اسے پاک کرتا رہے گا۔
اسی طرح ایک اور حدیث میں آیا ہے کہ خالق کائنات ارشاد فرماتا ہے:''تم اتنے اتنے گناہ لے کر آئو کہ تمہارے گناہ زمین کو بھردیں اور بھرتے بھرتے ساتوں آسمان کو بھردیں، میں اتنی اتنی یعنی اس سے کئی گنا زیادہ مغفرت لے کر آئوں گا۔''
اﷲ پاک اپنے بندے کے رجوع کرنے کا منتظر رہتا ہے کہ وہ چاہے اتنے زیادہ گناہ کرلے کہ اس کے گناہ زمین و آسمان کو ڈھانپ دیں تب بھی وہ رحمن اور رحیم اسے معاف کردے گا۔
رب ذوالجلال و الاکرام کا ارشاد ہے:''تم گناہ کرتے کرتے تھک جائوگے، میں معاف کرتے کرتے نہیں تھکوں گا۔''
اس سے اﷲ کو اپنی رحمت بتانا مقصود ہے کہ میں معاف کرتے کرتے کبھی نہیں تھکوں گا، اگرچہ تم ہی گناہ کرکرکے عاجز آجائوگے۔ یہ اﷲ پاک ہی ہے جو اپنی رحمت اور مغفرت سے ہم پر احسان کیے ہوئے ہے، ورنہ ہم نے تو اپنے آپ کو ہلاک کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔
رمضان کا دوسرا عشرہ بڑی برکات کا حامل ہے، اس کی بہت بڑی فضیلت ہے۔ یہ عشرہ ہمارے لیے بہت قیمتی ہے جس میں ہم اپنے تمام صغیرہ و کبیرہ گناہوں سے معافی مانگ کر اﷲ کے حضور پاک و صاف پیش ہوسکتے ہیں۔
ایسے شخص پر اﷲ تعالیٰ اپنی خاص رحمت نازل کرتا ہے۔ رب العالمین عام مہینوں سے زیادہ اس ماہ مبارک میں اپنی خاص رحمتیں نازل کرتا ہے۔ یہ رحمتیں مسلمانوں کے لیے مخصوص ہیں۔ عشرۂ رحمت کے بعد عشرۂ مغفرت شروع ہوتا ہے۔ ان رحمتوں پر مسلمان اپنے رب کا جتنا بھی شکر ادا کریں، وہ کم ہے۔ اگر ساری زندگی بھی اس سجدۂ شکر سے سر نہ اٹھائیں تو بھی اس نعمت عظیم کا شکر ادا نہیں ہوسکتا۔ اﷲ رب العزت اس عشرے میں مسلمان روزہ داروں کو اپنی مغفرت سے نوازتا ہے جو ان کی زندگی کی سب سے بڑی کام یابی ہے ۔
اﷲ جل جلالہ اس کے تمام پچھلے گناہوں سے اس کی مغفرت فرما دیتے ہیں، اور یہ ازالہ اس کے صغیرہ گناہوں کا ہوتا ہے، اس کے کبیرہ گناہوں کے لیے توبہ شرط ہے۔ اگر کوئی مسلمان عشرۂ ثانیہ میں اپنے پچھلے تمام کبیرہ گناہوں سے سچے دل سے توبہ کرلے تو اﷲ تعالیٰ اس کے صغیرہ گناہ روزے کی برکت سے معاف فرمادے گا اور وہ شخص گناہوں سے ایسا پاک ہوجائے گا جیسے اس کی ماں نے اسے ابھی ابھی جنم دیا ہو۔ اﷲ رب العزت کی ذات سے امید ہے کہ وہ تمام صغیرہ کبیرہ گناہوں کو حسنات سے بدل دے گا۔ جس کسی کو اﷲ تعالیٰ کی مغفرت مل گئی۔
اسے سب کچھ مل گیا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آخرت میں حشر کے میدان میں اس کے گناہوں کے بارے میں کچھ نہیں پوچھا جائے گا اور نہ ہی اس کے گناہ سب کے سامنے بیان کیے جائیں گے۔ میزان عمل میں ان کی نیکیوں کا پلڑا بھاری اور وزنی ہوگا اور وہ یوم الدین کی ہولناکی سے محفوظ ہوگا۔ اس مبارک عشرے میں غفور الرحیم ارشاد فرماتا ہے:''ہے کوئی مجھ سے مانگنے والا جسے میں عطا کروں؟ ہے کوئی مغفرت چاہنے والا جسے میں معاف کروں؟''
ایسا اس ماہ مبارک کے دوسرے عشرے کی ہر رات میں ہوتا ہے۔
اﷲ رب العالمین کو معافی بہت پسند ہے۔ جب کوئی بندہ گناہ کرتا ہے اور اسے اس پر شرمندگی محسوس ہوتی ہے تو وہ معافی مانگنے کے لیے دعا کرتا ہے۔ ابھی اس نے صرف ''یا اﷲ'' ہی کہا ہوتا ہے کہ اﷲ کی رحمت اور اس کی صفت غفور جوش میں آتی ہے، اور ارشاد ہوتا ہے:''جا، میں نے تجھے معاف کیا۔'' سبحان اﷲ! اﷲ کی شان تو دیکھیے کہ بندے نے صرف معافی کے لیے ''اﷲ'' کہا، اور ابھی پوری دعا مکمل بھی نہیں ہوئی کہ اﷲ نے اس کی مغفرت فرمادی۔
رب ذوالجلال والاکرام تو اپنے بندوں کو معاف کرنے کے بہانے ڈھونڈتا ہے۔ جب کسی بندے سے کوئی گناہ سرزد ہوجائے تو وہ رحیم و کریم اسے مہلت دیتا ہے کہ شاید اب بھی یہ مجھ سے معافی مانگ لے، شاید اب بھی یہ میری طرف رجوع کرلے۔
حدیث نبویؐ ہے کہ جب بندہ کوئی گناہ کرتا ہے تو آسمان اﷲ تعالیٰ سے عرض کرتا ہے:''اے اﷲ! تو مجھے اجازت دے کہ میں اس پر ٹوٹ پڑوں۔''
زمین کہتی ہے:''اے اﷲ، تو مجھے اجازت دے کہ میں اسے اپنے اندر دھنسالوں۔''
اس موقع پر مالک الملک کا ارشاد ہوتا ہے:''اگر یہ تمہاری مخلوق ہے اور تم اس کے خالق ہو تو تمہیں اجازت ہے۔ اور اگر یہ میرے بندے ہیں اور میں ان کا خالق ہوں تو میرے بندے کا معاملہ مجھ پر چھوڑ دو۔ میں اس بات کا انتظار کروں گا کہ یہ مجھ سے رجوع کرلے اور اپنے گناہوں کی معافی مانگ لے۔''
بے شک! یہ ہمارا رب ہی ہے جو ہمارے پکارنے اور یاد کرنے پر نہ صرف لبیک کہتا ہے، بلکہ ہر معافی چاہنے والے کے گناہ بھی فرمادیتا ہے۔ افسوس ہے ہم پر کہ ہم اس مبارک عشرے کو پائیں اور اس میں ہماری مغفرت نہ ہو۔
رمضان کے دوسرے عشرے میں جو کہ عشرۂ مغفرت کے نام سے موسوم ہے، استغفار کی کثرت کرنی چاہیے۔ صبح و شام اﷲ رب العزت سے اپنے گناہوں پر شرمندہ ہوکر معافی مانگنی چاہیے۔ اس سے ہمارا رب تعالیٰ بہت خوش ہوتا ہے اور ہماری مغفرت فرمادیتا ہے۔
حدیث میں آتا ہے کہ جب کوئی شخص گناہ کرتا ہے، پھر وہ اس پر شرمندہ ہوکر اﷲ سے معافی مانگتا ہے اور توبہ کرتا ہے تو اﷲ رب العزت اس کی مغفرت فرمادیتا ہے۔ پھر وہ شخص وہی گناہ دوبارہ کرتا ہے تو توبہ ٹوٹ جاتی ہے۔ پھر وہ اپنے گناہ پر شرمندہ ہوتا ہے اور اﷲ سے ایک بار پھر معافی طلب کرتا ہے تو اﷲ پاک اسے پھر اس کے گناہ سے سبک دوش کردیتا ہے۔ وہ پھر وہی گناہ کرتا ہے اور اس بار بھی اس کی توبہ ٹوٹ جاتی ہے۔ وہ پھر اﷲ سے معافی طلب کرتا ہے اور رب کریم نہ صرف اس کی پھر مغفرت فرمادیتا ہے، بلکہ یہ بھی ارشاد فرماتا ہے:''جا، میں نے تجھے معاف کیا، اب تو جو چاہے کر، تجھ پر گناہ نہیں۔''
اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے اسے وہ گناہ کرنے کی اجازت دے دی ہے، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ جب جب گناہ کرتا رہے گا اور سچے دل سے اس پر شرمندہ ہوکر اﷲ رحمن و رحیم سے مغفرت طلب کرتا رہے گا، اﷲ اس کے گناہوں سے اسے پاک کرتا رہے گا۔
اسی طرح ایک اور حدیث میں آیا ہے کہ خالق کائنات ارشاد فرماتا ہے:''تم اتنے اتنے گناہ لے کر آئو کہ تمہارے گناہ زمین کو بھردیں اور بھرتے بھرتے ساتوں آسمان کو بھردیں، میں اتنی اتنی یعنی اس سے کئی گنا زیادہ مغفرت لے کر آئوں گا۔''
اﷲ پاک اپنے بندے کے رجوع کرنے کا منتظر رہتا ہے کہ وہ چاہے اتنے زیادہ گناہ کرلے کہ اس کے گناہ زمین و آسمان کو ڈھانپ دیں تب بھی وہ رحمن اور رحیم اسے معاف کردے گا۔
رب ذوالجلال و الاکرام کا ارشاد ہے:''تم گناہ کرتے کرتے تھک جائوگے، میں معاف کرتے کرتے نہیں تھکوں گا۔''
اس سے اﷲ کو اپنی رحمت بتانا مقصود ہے کہ میں معاف کرتے کرتے کبھی نہیں تھکوں گا، اگرچہ تم ہی گناہ کرکرکے عاجز آجائوگے۔ یہ اﷲ پاک ہی ہے جو اپنی رحمت اور مغفرت سے ہم پر احسان کیے ہوئے ہے، ورنہ ہم نے تو اپنے آپ کو ہلاک کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔
رمضان کا دوسرا عشرہ بڑی برکات کا حامل ہے، اس کی بہت بڑی فضیلت ہے۔ یہ عشرہ ہمارے لیے بہت قیمتی ہے جس میں ہم اپنے تمام صغیرہ و کبیرہ گناہوں سے معافی مانگ کر اﷲ کے حضور پاک و صاف پیش ہوسکتے ہیں۔