جے آئی ٹی اور پی ایس 114

گزشتہ تین دہائیوں سے شہری سندھ کی نمائندگی ایم کیو ایم کے پاس ہے۔



ملک بھر میں حکومتی ، سیاسی، قانونی اورکسی حد تک عوامی حلقوں کی زیادہ توجہ تو جے آئی ٹی پر مرکوز ہے۔ اسی دوران کراچی میں صوبائی اسمبلی کے ایک حلقے پی ایس 114 پر ضمنی انتخابات کا میدان سجا ۔ اتوار 9 جولائی کو ہونے والے ان انتخابات میں غیر سرکاری طور پر پاکستان پیپلز پارٹی کے امیدوار سینیٹر سعید غنی کی کامیابی کا اعلان کیا گیا۔ اس نتیجے کو غیر متوقع تو نہیں کہا جاسکتا کیونکہ ہر مضبوط امیدوار کامیابی کی توقع پر ہی میدان میں اترتا ہے۔ البتہ یہ حیرت انگیز ضرور ہے۔

آیندہ انتخابات سے محض چند ماہ پہلے پی ایس 114 میں ہونے والے اس انتخاب سے کراچی کی نمایندہ جماعت ایم کیو ایم کے علاوہ پاکستان مسلم لیگ (ن)، پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان تحریک انصاف نے بھی اپنی اپنی کامیابی کی امید باندھ لی تھیں۔

کراچی کے عوام کی نمایندگی کا دعویٰ ایم کیو ایم کا ہے، پیپلز پارٹی صوبے کی سب سے بڑی پارٹی اورکراچی میں نمایندگی کے اعزاز کے حصول کے لیے کوشاں ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کو گزشتہ انتخابات میں کامیاب قرار دیے جانے والے عرفان اللہ مروت کی حمایت حاصل تھی اور پاکستان مسلم لیگ (ن) گزشتہ انتخابات کی وجہ سے اس حلقے کو اپنا سمجھے بیٹھی تھی۔ ایم کیو ایم کی درخواست پر الیکشن کمیشن نے ان ضمنی انتخاب کے نتائج کا سرکاری اعلان روک دیا ہے۔

2013ء کے عام انتخابات میں اس نشست پر مسلم لیگ (ن) کی طرف سے الیکشن لڑنے والے عرفان اللہ مروت نے کامیابی حاصل کی تھی۔ عرفان اللہ مروت پاکستان کے ممتاز بیوروکریٹ، اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے گورنر، وفاقی سیکریٹری جنرل ، سینیٹ کے چیئرمین، پاکستان کے ساتویں صدر غلام اسحاق خان کے داماد ہیں۔ پاکستان کے موقر ادارے آئی بی اے سے تعلیم یافتہ عرفان اللہ مروت 1988ء میں سندھ اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے اور سندھ میں وقتاً فوقتاً داخلہ، صحت، تعلیم، ٹرانسپورٹ جیسی اہم وزارتوں کے سربراہ رہے۔

2013ء کے انتخابات میں انھوں نے PS114 سے مسلم لیگ (ن) کے ٹکٹ پر الیکشن میں سینتیس ہزار ووٹ حاصل کرکے کامیابی حاصل کی تھی۔ ان کے مدمقابل ایم کیو ایم کے رؤف صدیقی نے تیس ہزار ووٹ حاصل کیے تھے۔ ایم کیو ایم نے ان نتائج کو الیکشن ٹریبیونل میں چیلنج کردیا تھا۔ ٹریبیونل نے رؤف صدیقی کی عذرداری منظور کرتے ہوئے 2014ء میں اس حلقے پر دوبارہ انتخابات کا حکم جاری کیا۔ یہ حکم عدالت میں چیلنج کیا گیا۔ مئی 2017ء میں سپریم کورٹ کے ایک تین رکنی بنچ نے الیکشن ٹریبیونل کا فیصلہ برقرار رکھا۔

9 جولائی کے انتخابات کے بعد ایک بار پھر ایم کیو ایم کی عذرداری کا نتیجہ خواہ کچھ نکلے، ان انتخابی نتائج نے ایم کیو ایم سمیت کئی جماعتوں کو اپنی حکمت عملی پر نظر ثانی کی ترغیب دی ہے۔ 1970ء کے بعد سے پاکستان پیپلز پارٹی سندھ کی اکثریتی جماعت رہی ہے لیکن پیپلز پارٹی بوجوہ کراچی اور حیدرآباد میں تاحال مناسب عوامی حمایت حاصل نہ کر سکی۔ 1970ء کے عشرے میں جماعت اسلامی، جے یو پی اور مسلم لیگ پیپلز پارٹی کی راہ میں حائل رہیں۔ گزشتہ تین دہائیوں سے شہری سندھ کی نمایندگی ایم کیو ایم کے پاس ہے۔ شنید ہے کہ پیپلز پارٹی کے جواں سال چیئرمین بلاول بھٹو چاہتے ہیں کہ پیپلز پارٹی کراچی میں بھی ایک اہم انتخابی سیاسی قوت کے طور پر پہچانی جائے۔

ذرایع بتاتے ہیں کہ پیپلز پارٹی میں اس اہم منزل کے حصول کے لیے کثیر الجہتی سوچ بچار شروع کردی گئی ہے۔ ایم کیو ایم پاکستان کو درپیش موجودہ صورت حال کے باعث پیپلز پارٹی کراچی میں انتخابی کامیابیوں کے لیے زیادہ پُر اُمید نظر آرہی ہے۔ اس تناظر میں مستقبل قریب میں یعنی 2018ء کے انتخابات سے کچھ پہلے کراچی کے ووٹرز شہر پر سندھ حکومت کی خصوصی توجہ کو واضح طور پر محسوس کریں گے۔ پاکستان تحریک انصاف، مسلم لیگ (ن)، جماعت اسلامی، جے یو پی وغیرہ سے پیپلز پارٹی کو انتخابات کی حد تک کوئی خاص فکر نہیں ہے۔

شہری سندھ میں پیپلز پارٹی کی سب سے بڑی حریف ایم کیو ایم ہے۔ اردو اسپیکنگ ووٹرز کی تائید حاصل کرنے کے لیے پیپلز پارٹی ، سینیٹر سعید غنی، سینیٹر تاج حیدر اور کراچی سے تعلق رکھنے والے، مالی بدعنوانیوں کے الزامات سے پاک، بے داغ کردار کے حامل دیگر اردو اسپیکنگ کارکنان کو متحرک کرنا چاہتی ہے۔ کراچی میں پیپلز پارٹی کئی مذہبی، سماجی، ادبی ، صنعتی، کاروباری اور کھیلوں سے وابستہ ممتاز شخصیات کی حمایت حاصل کرنے پر بھی غور کررہی ہے۔

ماضی میں نہ صرف کراچی بلکہ ملک بھر میں انتہائی قدر و منزلت رکھنے والے احترام الحق تھانوی، حکیم محمد سعید، جمیل الدین عالی کی پیپلز پارٹی سے وابستگی رہی ہے۔ احترام الحق تھانوی نے تو جنرل ضیاء الحق کے سخت ترین مارشل لاء میں اس وقت ذوالفقار علی بھٹو اور ان کی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کا اعلانیہ ساتھ دیا تھا جب پارٹی کے کئی دیرینہ لیڈر فوجی حکمران کے خوف سے گوشہ نشین ہوگئے تھے۔ ان وابستگیوں کو اب کراچی کے ووٹرز میں پذیرائی پانے کے لیے بطور حوالہ استعمال کرنے پر غور ہورہا ہے۔

جمہوری عمل میں ہر سیاسی جماعت یا ہر سیاسی کارکن کو عوام کے پاس جانے اور ان سے اپنے لیے ووٹ مانگنے کا حق ہے۔ ملک، صوبہ، شہر یا کوئی بھی حلقہ کسی جماعت یا کسی امیدوار کی جاگیر نہیں سمجھا جانا چاہیے، سیاسی جماعتوں کو اپنی اہلیت اور کارکردگی کی بنیاد پر ووٹوں کے حصول کے لیے مہم چلانی چاہیے، کتابی طور پر تو یہ بات صحیح ہے لیکن پاکستان میں کئی جگہ عملاً ایسا نہیں ہورہا۔ کئی حلقوںمیں ووٹرز اہلیت اورکارکردگی کے بجائے وابستگی کی بنیاد پر ووٹ دیتے ہیں۔ اکثر افراد کسی امیدوار کی کم تعلیم، مالی بددیانتی، اخلاقی گراوٹ، قانون کا احترام نہ کرنے بلکہ کھلی قانون شکنی، حلقے کے مسائل و ووٹرز سے چشم پوشی اور طوطا چشمی اور دیگر کئی خرابیوں کو نظر انداز کردیتے ہیں۔

کراچی میں 9جولائی کوہونے والا ضمنی انتخاب شہری سندھ کے ووٹرز کے رجحانات میں کسی نئی تبدیلی کا اظہار ہے یا یہ بھی محض سرکاری اثرورسوخ اور دولت سے مرعوبیت کی علامت ہے۔ یہ بات آیندہ چند ماہ میں واضح ہوجائے گی۔

کراچی پاکستان کو سب سے زیادہ ریونیو دینے والا شہر ہے۔ پیپلز پارٹی ہو یا ایم کیو ایم، تحریک انصاف ہو یا مسلم لیگ (ن)، کراچی کی نمایندگی کے اعزاز کی خواہاں کوئی بھی جماعت ہو اسے سب سے پہلے ڈھائی کروڑکی آبادی کے اس شہر کے ساتھ اپنی کمٹ منٹ اور شہری مسائل کے حل کے لیے اپنی اہلیت ظاہر کرنا چاہیے۔

کراچی کے اہم ترین مسائل یعنی بجلی و پانی کی فراہمی، نکاسی آب، شہر کے ہر سرکاری اسکول کے ذریعے اچھی تعلیم ، سرکاری اسپتالوں اور ڈسپنسریز میں عوام کو احترام کے ساتھ طبی سہولیات کی فراہمی، شہری ٹرانسپورٹ کے موثر اور باسہولت نظام ، شہر میں تفریح اور اسپورٹس کے مواقعے اور ذرایع کی فراہمی، ملازمت پیشہ خواتین کے لیے عزت و احترام کے ساتھ سہولیات کی فراہمی کا یقینی نظام، کراچی میں پولیس کے محکمے کو میٹروپولیٹن سٹی کے تقاضوں کے مطابق چلانا، بلدیاتی نظام کو ترقی یافتہ ممالک کے طرز پر منظم کرنا۔ کراچی کو ماحولیاتی آلودگی سے بچانے کے لیے فوری اقدامات کو اپنے انتخابی منشور اور اپنی کارکردگی کا حصہ بنانا چاہیے۔

ووٹرز کا بھی قومی فرض ہے کہ وہ نسلی یا لسانی وابستگیوں یا دولت و اثر ورسوخ سے مرعوب ہونے کے بجائے شہر کے مسائل کا صحیح ادراک رکھنے اور ان مسائل کو حل کرنے کی اہلیت اور کمٹمنٹ رکھنے والی جماعتوں کو اپنی نمایندگی کا اعزاز عطا کریں۔ ایسا نہ کیا گیا تو خراب حالات کبھی تبدیل نہیں ہوں گے ، اقتدار چند سیاسی جماعتوں کا باہمی کھیل بنا رہے گا۔ کراچی کا شہری لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے ، گرمی اور اندھیروں سے ، پانی کی قلت سے پریشان رہے گا، کراچی میں عام آدمی ابلتے ہوئے گٹر سے بہتے پانی سے بچتا بچاتا ، بسوں کی چھتوں پر سفرکرنے پر مجبور رہے گا۔ عوام کے نمایندے ائیرکنڈیشنڈ کمروں میں بیٹھ کر عوام کی مشکلات پر سوچ بچارکرتے رہیں گے۔ عوام کا کیا ہے ، بجلی نہ آئی تو یو پی ایس، یوپی ایس بھی کام نہ کرسکا تو چراغ اور ہاتھ کا پنکھا تو ہر ایک کی دسترس میں رہے گا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں