کفر ٹوٹا خدا خدا کرکے
وزیر اعظم کی پیشی کے بعد ان تمام افراد کے خلاف بھی تحقیقات کا آغاز ہونا چاہیے جن کے نام پانامہ لیکس میں شامل ہیں
MADRID:
آخر کار جے آئی ٹی نے اپنی رپورٹ سپریم کورٹ کو پیش کردی ہے۔ اس کی تشکیل سپریم کورٹ کے حکم پر ہوئی تھی اور آج سپریم کورٹ اسی جے آئی ٹی رپورٹ پر غور کررہی ہے، اس کے سربراہ واجد ضیا ہیں جو ایف آئی اے کے ایڈیشنل ڈائریکٹر ہیں۔ جے آئی ٹی، آئی ایس آئی، ایم آئی، اسٹیٹ بینک، ایس ای سی پی اور نیب کے نمایندوں پر مشتمل ہے۔ اسٹیٹ بینک کی نمایندگی گریڈ 22 کے آفیسر عامر عزیز، ایس ای سی پی کی نمایندگی ایگزیکٹیو ڈائریکٹر بلال رسول، نیب کی نمایندگی گریڈ 20کے آفیسر عرفان نعیم منگی جب کہ آئی ایس آئی کی نمایندگی بریگیڈیئر محمد نعمان سعید اور ملٹری انٹیلی جنس کی نمایندگی کامران خورشید کر رہے تھے۔
جے آئی ٹی کے ممبران نے اپنے اسٹاف کا انتخاب اپنی مرضی سے کیا۔ جے آئی ٹی کا سیکریٹریٹ جوڈیشل اکیڈمی (ایچ ایٹ)، اسلام آباد میں قائم کیا گیا۔ جے آئی ٹی کو نیب آرڈیننس، ایف آئی اے ایکٹ 1975اور ضابطۂ فوجداری 1898 کے تحت اختیارات دیے گئے۔ تمام وفاقی اور صوبائی ادارے اس کی معاونت کے پابند تھے۔ جے آئی ٹی نے سپریم کورٹ کے حکم پر 20 اپریل 2017 سے اپنے کام کا آغاز کیا اور ہر پندرہ دن بعد ایک رپورٹ عدالت کو بھجوانے اور حتمی رپورٹ 60 دن میں پیش کرنے کے حکم کی تعمیل کی۔ جے آئی ٹی کو درجہ ذیل نکات کی تحقیق کا کام سپرد کیا گیا:
1۔ شریف خاندان کے اثاثے
2۔ لندن کی جائیدادوں اور آف شور کمپنیوں سے متعلق معاملات۔
سپریم کورٹ نے پانامہ لیکس سے متعلق فیصلے میں مندرجہ ذیل سوالات اٹھائے تھے۔
1۔ گلف اسٹیل کیسے قائم ہوئی اور کس طرح فروخت ہوئی؟ 2۔ گلف اسٹیل کی فروخت کے واجبات کیسے منتقل کیے گئے؟ 3۔ سرمایہ لندن، جدہ اور قطر کس طرح سے پہنچا؟ کم عمر بیٹوں نے 90 کی دہائی میں لندن میں فلیٹس کیونکر خریدے؟ 5۔ سماعت کے دوران قطری شہزادے کے خط کا آنا حقیقت ہے یا افسانہ؟ 6 ۔ فلیٹس میں قطریوں کے شیئرز کی شفافیت کیا ہے؟ 7۔ نیلسن اور نیسکول کمپنیوں سے فائدہ اٹھانے والے کون ہیں؟8۔ہل مینٹل اور فلنگ شپ انوسٹمنٹ لمیٹڈ اور دوسری کمپنیوں کے لیے سرمایہ کہاں سے آیا؟ 9۔حسن نواز نے ان کمپنیوں کو کیسے حاصل کیا؟ 10۔حسن نواز نے نواز شریف کو لاکھوں روپے تحفے میں کہاں سے دیے؟ حسن نواز کی لی گئی کمپنیوں کو چلانے کے لیے اربوں روپے کا سرمایہ کہاں سے آیا؟
اس میں کوئی شک نہیں کہ جے آئی ٹی کو سپریم کورٹ نے جو کام سونپا تھا وہ واقعی ایک Herculian Task سے کم نہ تھا اور اس پر یہ ذمے داری بھی عائد کی گئی تھی کہ اسے یہ کام مقررہ مدت کے اندر ہر صورت میں انجام دینا ہے جس میں توسیع کی کوئی گنجائش نہیں۔ چنانچہ سپریم کورٹ کی ہدایت پر سختی سے عمل کرتے ہوئے یہ مشکل ترین کام بلاتاخیر انجام دے دیا۔ اس سے بڑھ کر بھلا اور کیا ہوسکتا ہے کہ جے آئی ٹی کے اراکین نے عید پر صرف ایک روز کی چھٹی کی۔ ان تمام باتوں سے جے آئی ٹی کی Devotion اور Dedication کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ نہایت افسوس کا مقام ہے کہ جے آئی ٹی کو اپنے کام میں بعض غیر متوقع رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑا جس کی وجہ سے اسے ایس ای سی پی، نیب، ایف بی آر، وزارت قانون و انصاف اور انٹیلی جینس بیورو کے خلاف اپنی درخواست میں درجہ ذیل سنگین الزامات عائد کرنے پڑے:
1۔ بلال رسول کو ڈرایا دھمکایا گیا اور ان کی فیملی کے اکاؤنٹس ہیک کیے۔ 2۔ چیئرمین ایس ای سی پی کے حکم پر شوگر ملز کا ریکارڈ بدلوایا گیا۔3۔ وزارت قانون نے بیرون ملک تحقیقات کے خط کے جواب میں پانچ دن کا عرصہ لگادیا۔ 4۔ طارق شفیع کو وزیر اعظم ہاؤس سے ہدایت دی گئی۔ 5۔ نیب نے جے آئی ٹی کے رکن کو شوکاز نوٹس دیا۔ 6۔ایف بی آر نے شریف فیملی کا 1985 سے طلب کردہ ریکارڈ مانگنے پر صرف پانچ سال کا ریکارڈ مہیا کیا۔ 7۔گواہوں کو بیان سکھائے گئے۔ 8۔اداروں سے جے آئی ٹی کی خفیہ خط و کتابت۔ 9۔ ایک رکن اسمبلی نے جے آئی ٹی کو قصاب کی دکان کہا۔10۔وزیر اعظم کی طلبی کے خفیہ نوٹس کی وزیر اطلاعات نے میڈیا میں تصدیق کی۔11۔اطلاعات کو عام کرکے سیکیورٹی خدشات میں اضافہ کیا گیا۔
اگرچہ جے آئی ٹی کی تشکیل پر حکمراں جماعت کی جانب سے خوشی اور اطمینان کے اظہار کے طور پر مٹھائیاں تقسیم کی گئی تھیں مگر اب اسی جے آئی ٹی پر متاثرین کی طرف سے اس طرح کے الزامات لگائے جا رہے ہیں:
1۔ حسین نواز کی ویڈیو لیک کرکے غیر ذمے داری کا ثبوت دیا۔ 2۔ جے آئی ٹی نے فون ٹیپ کیے۔ 3۔ایک خاندان کے خلاف امتیازی سلوک برتا جا رہا ہے۔ 4۔ تصویر لیک ہونے کے معاملے پر قانون سے ہٹ کر تحقیقات کی گئیں اور تحقیقات کے نتائج ظاہر کرنے میں امتیازی سلوک کیا گیا۔ 5۔جے آئی ٹی نے بیانات ریکارڈ کرنے کے دوران پیشہ ورانہ اخلاقیات کو پیش نظر نہیں رکھا۔ 6۔واٹس ایپ کے ذریعے من پسند عہدیداروں کی تقرری کے لیے دباؤ ڈالا گیا۔ 7۔ جے آئی ٹی کے کئی ارکان کا تعلق مخالف پارٹی سے ہے اور انھوں نے جانبداری سے کام لیا ہے۔
مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کے سامنے وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کی پیشی کے بارے میں مختلف حلقوں نے اپنے اپنے زاویہ نگاہ سے اپنے ردعمل کا اظہار کیا ہے۔ خود وزیر اعظم اور ان کی پارٹی کے ارکان کے مطابق ایک منتخب وزیر اعظم کا اپنے ہی ماتحت اداروں کے افسران کے سامنے پیش ہوکر اپنے مالی معاملات کی صفائی بیان کرنا اور اپنے اوپر عائد الزامات کا دفاع کرنا آئین و قانون کی بالادستی پر ان کے کامل یقین اور مکمل اعتماد کی علامت ہے اور وزیر اعظم نے خود کو قانون و عدلیہ کے سامنے پیش کرکے ایک اچھی اور قابل تقلید مثال قائم کی ہے۔
دوسری جانب حزب اختلاف سے تعلق رکھنے والے ارکان اور بعض دیگر حلقوں کا خیال ہے کہ ایک منتخب وزیر اعظم کا ملزم کی حیثیت سے اپنے ماتحت اداروں کی تحقیقاتی ٹیم کے سامنے پیش ہونا اپنی جگہ پر ایک تکلیف دہ اور ناپسندیدہ صورتحال ہے۔ بہتر تھا کہ وزیر اعظم پہلے اپنے عہدے سے مستعفی ہوتے اور اس کے بعد تحقیقاتی ٹیم کے سامنے پیش ہوتے۔ کسی قسم کی بحث سے قطع نظر ان دونوں نقطہ ہائے نظر میں اپنی اپنی جگہ کچھ نہ کچھ صداقت ہوسکتی ہے تاہم اصل سوال یہ ہے کہ اس سارے عمل سے ملک و قوم کے حق میں کیا فوائد حاصل ہوں گے؟ اگر وزیر اعظم میاں نواز شریف اور ان کے خاندان کے افراد تمام الزامات سے بری ہوگئے تو یہ ملک و قوم کے لیے ہی نہیں بلکہ خود ان کے لیے بھی بہت اچھا شگون ہوگا۔ لیکن اگر خدانخواستہ وہ بدعنوانی میں ملوث پائے گئے تو یہ آیندہ کے لیے کرپشن کے خاتمے کے حوالے سے ایک غیر معمولی اور تاریخی پیش رفت ہوگی۔
وزیر اعظم کی پیشی کے بعد ان تمام افراد کے خلاف بھی تحقیقات کا آغاز ہونا چاہیے جن کے نام پانامہ لیکس میں شامل ہیں تاکہ اس تاثر کے پیدا ہونے کی گنجائش باقی نہ رہے کہ کسی مخصوص خاندان کو مخصوص مقاصد کے تحت نشانہ بنایا گیا تھا۔