جےآئی ٹی نےصرف سفارشات پیش کیں حکم عدالت کوجاری کرنا ہے سپریم کورٹ
رپورٹ اور شواہد کے جائزے کے بعد فیصلہ کریں گے کہ معاملہ نیب کو بھیجیں یا نااہلی سے متعلق فیصلہ دیں، جسٹس اعجاز الاحسن
خواجہ حارث نے اپنے دلائل میں سپریم کورٹ کا 20 اپریل کا حکم نامہ پڑھ کر سنایا، فوٹو: فائل
سپریم کورٹ میں پاناما عملدرآمد کیس کی سماعت کے دوران جسٹس اعجاز افضل خان نے ریمارکس دیئے کہ جےآئی ٹی نے صرف سفارشات پیش کی ہیں حکم عدالت جاری کرے گی۔
پاناما لیکس کیس کی سماعت جسٹس اعجازافضل کی سربراہی میں جسٹس شیخ عظمت سعید اور جسٹس اعجازالاحسن پرمشتمل سپریم کورٹ کا خصوصی بینچ کررہا ہے۔
وزیراعظم نوازشریف کے وکیل خواجہ حارث نے اپنے دلائل کے دوران سپریم کورٹ کا 20 اپریل کا حکم نامہ پڑھ کرسنایا اور کہا کہ سپریم کورٹ نے اپنے حکم میں تحقیقات کی سمت کا تعین کردیا تھا۔ سپریم کورٹ کے سوالات میں نوازشریف سے متعلق تحائف کا ذکرتھا جب کہ سپریم کورٹ نے نوازشریف کے خلاف کسی مقدمے کودوبارہ کھولنے کا حکم نہیں دیا تھا۔
وزیراعظم نوازشریف کے وکیل خواجہ حارث نے اپنے دلائل میں مزید کہا کہ سپریم کورٹ نے لندن فلیٹس، قطری خط، بیئررسرٹیفکیٹ سے متعلق سوالات پوچھے اورسپریم کورٹ نے جوسوالات پوچھے ان کے ہی جواب مانگے گئے تھے. جے آئی ٹی نے 13 سوالات کے ساتھ مزید 2 سوالات اٹھادیئے جس پر جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ وہ دو سوال کون سے ہیں، کیا آپ کہنا چاہتے ہیں جائیدادوں کی نشاندہی جے آئی ٹی کا مینڈیٹ نہیں تھا جس پرخواجہ حارث نے کہا کہ جومقدمات عدالتوں سے ختم ہوچکے، جے آئی ٹی نے ان کی بھی پڑتال کی جب کہ عدالت نے مقدمات کھولنے کا حکم نہیں دیا تھا۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ جائزہ لینا الگ معاملہ ہے، ازسرنو تعین کرنا الگ بات ہے، بہت سے معاملات آپس میں ملے ہوتے ہیں جنہیں الگ نہیں کیا جاسکتا، جہاں تک مجھے یاد ہے لندن فلیٹس کی پہلے بھی تحقیقات ہوتی رہی ہیں، جب تک مکمل تحقیقات نہ ہوں، مکمل معاملے کو دیکھنا ہوگا، تمام مقدمات کا آپس میں گہرا تعلق ہے، اصل چیز منی ٹریل کا سراغ لگانا تھا، عدالت کو دیکھنا تھا کہ رقم کہاں سے آئی، التوفیق کیس پر عدالت کا فیصلہ موجود ہے اور اسحاق ڈار کا بیان التوفیق کمپنی سے منسلک ہے۔
جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ عدالت کو اپنے مرتب سوالوں کے جواب دیکھنے ہیں، ہم جے آئی ٹی کی سفارشات کے پابند نہیں، جے آئی ٹی نے جو بہتر سمجھا اسکی سفارش کردی، سفارش پر عمل کرنا ہے یا نہیں،اس کا فیصلہ عدالت کو کرنا ہے۔ جس پر خواجہ حارث نے کہا کہ وہ جانتے ہیں کہ ابھی عدالت نے فیصلہ نہیں کیا لیکن وہ جے آئی ٹی کی کارکردگی بتا رہے ہیں۔ ہماری درخواست قانونی نکات پر ہے، جے آئی ٹی کی رائے کی قانون میں کوئی نذیر نہیں۔
جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ آپ کی بات سمجھ کر ہم نے نوٹ کرلی ہے۔ آپ نے اپنے جواب میں دستاویزات کی تردید نہیں کی، لندن فلیٹس کی انکوائری کی منظوری 17 سال پہلے بھی ہوئی تھی، 2000 سے 2008 تک آپ کے موکل ملک سے باہر تھے، جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیئے کہ ہمیں جے آئی ٹی کی رائے نہیں اس کا مواد دیکھنا ہے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ جے آئی ٹی نے تمام افراد کو جواب، دستاویز اور منی ٹریل کے لئے واضح موقع دیا تھا۔ وزیر اعظم ، مریم، حسن اورحسین کو بلایا گیا اور سوالات کیے گئے، ہم آپ کو وزیر اعظم، مریم، حسن اور حسین کے جوابات بتا رہے ہیں اور ان کی سوچ تھی کہ انہیں نا تو کچھ بتانا ہے اور نا ہی کچھ تسلیم کرنا ہے۔ جے آئی ٹی کو جو کرنا ہے وہ خود کرے۔ وزیر اعظم سے لندن فلیٹس کا پوچھا گیا تو انھوں نے کہا معلوم نہیں شاید ان کا مالک حسن ہے، وزیر اعظم نے تو اپنے خالو محمد حسین کو بھی پہچاننے سے انکار کردیا۔ وزیر اعظم لندن فلیٹس میں جاتے رہے لیکن انہیں علم نہیں کہ کس کے ہیں، ہل میٹل کی رقم سے جماعت کو دس کروڑ کی گرانٹ دی گئی لیکن ہل میٹل کی رقم کو سیاسی مقصد کے لیے استعمال کرنے کا پوچھا گیا تو کہا نہیں۔
خواجہ حارث نے کہا کہ محمد حسین وزیر اعظم کے خالو نہیں تھے، وزیر اعظم سے ایف زیڈ ای سے متعلق سوال بھی نہیں پوچھا گیا۔ وزیراعظم 1985 تک کاروبار کرتے رہے ہیں، 1985 کے بعد وزیراعظم کا کاروبار میں کوئی کردار نہیں تھا، ان کے تمام اثاثے گوشواروں میں ظاہر ہیں، ان کے علاوہ کوئی اثاثے ہیں تو بتائیں، وہ اپنے موکل کی جانب سے ان کا جواب دیں گے۔ ہل میٹل سے رقم آئی لیکن سیاست میں استعمال نہیں ہوئی۔ وزیراعظم نے 14 کروڑ 50 لاکھ روپے (ن) لیگ کو دئیے، جس میں سے 10 کروڑ عطیہ جب کہ ساڑھے 4 کروڑ قرض تھا۔
خواجہ حارث کے دلائل پر جسٹس عظمت سعید نے استفسار کیا کہ جے آئی ٹی نے نہیں پوچھا تو ہم پوچھ رہے ہیں، نوازشریف ایف زیڈ ای کمپنی کے چیئرمین ہیں یا نہیں۔ جس پر خواجہ حارث نے کہا کہ ایف زیڈ ای کا مالک حسن نواز ہے، وزیراعظم کے پاس صرف چیئرمین کا عہدہ ہے۔ وہ کمپنی سے تنخواہ نہیں لیتے۔ جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ کیا آپ کہتے ہیں کہ ان کے اوپر یہ الزام غلط ہے، خواجہ حارث نے کہا کہ جی ہاں، یہ الزام غلط ہے اور کاغذات بھی یہی کہتے ہیں، جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ وزیراعظم نے دبئی میں کام کرنے کے لیے اقامہ تولیا تھا نا۔
جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ رپورٹ کی جلد نمبر 10 میں لکھا ہے کہ کتنی قانونی معاونت آئی ہے کتنی نہیں، ہمیں نہیں معلوم کہ وہ سربمہرکیوں ہے، اگر آپ اصرار کریں تو اسے بھی کھولا جا سکتا ہے۔ آپ جب چاہیں متفرق درخواست میں دستاویزات کو چیلنج کر سکتے ہیں. وزیر اعظم کے وکیل نے کہا کہ جے آئی ٹی نے نجی فرم سے دستاویزات حاصل کیں جو مصدقہ نہیں، جسٹس عظمت سعید نے استفسار کیا کہ کیا آپ کا مطلب ہے کہ یہ دستاویز باہمی قانونی تعاون سے حاصل نہ کی گئیں۔ خواجہ حارث نے کہا کہ قانون سورس دستاویز کی اجازت نہیں دیتا۔
جسٹس اعجاز افضل نے استفسار کیا کہ کیا صرف ذرائع سے حاصل ہونے والی دستاویزپرشک کر سکتے ہیں، خواجہ حارث نے کہا کہ یہ دستاویز اگر وزارت خارجہ کے ذریعے حاصل ہوتی تو قابل قبول اور مصدقہ ہوتیں، جس پر جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ اب برطانیہ میں ملکہ کو تو چٹھی نہیں لکھیں گے نا۔
خواجہ حارث نے جے آئی ٹی کو حاصل ہونے والے دستاوزیات کی قانونی حیثیت پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ جے آئی ٹی نے کسی غیر ملکی حکومت سے براہ راست قانونی مدد نہیں لی بلکہ دستاویزات کا حصول نجی فرم کے ذریعے کیا حالانکہ دستاویزات کو متعلقہ حکومت کے ذریعے ہی ارسال کیا جانا ضروری ہے، غیر ملکی حکومت کو ہی دستاویزات کے لیے درخواست کی جاسکتی ہے۔ تصدیق کے بغیر کوئی دستاویز قابل قبول نہیں۔ جسٹس اعجاز افضل نے استفسار کیا کہ نیب قوانین کے مطابق حکومت کے زیراثر ادارے اور افراد ہی حکومت کے زمرے میں آتے ہیں، دستاویزات جے آئی ٹی کو قانونی معاونت کے تحت ملیں، کیا ہم صرف اس بنیاد پر دستاویزات کو تسلیم نہ کریں کہ حکومت نے نہیں دیں۔
جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ قانونی معاونت افراد نہیں ریاستی اداروں کے درمیان ہوتی ہے، وفاقی حکومت یا حکومت کا نامزد ادارہ قانونی معاونت کا معاہدہ کرسکتا ہے، قانونی معاونت کے معاہدے کا جائزہ لیا جا سکتا ہے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ دستاویزات اصل ہوں تو سفارت خانے کی تصدیق کی ضرورت نہیں، وہ الگ بات ہے آپ اعتراض کردیں کہ فلاں دستاویزمتعلقہ ادارے سے نہیں لی گئی۔ عدالت کو دیکھنا تھا کہ منروا کے ساتھ معاہدہ کس نے کیا۔ یہ دستاویز آج تک کسی نے پیش نہیں کی، مالک کے بغیرپیش کردہ ٹرسٹ ڈیڈ کی کوئی حیثیت نہیں، جے آئی ٹی کو تمام دستاویزات نوازشریف کے سامنے پیش کرنا چاہیے تھیں، اس کے لیے انہیں جے آئی ٹی سے پہلے عدالت میں بھی موقع دیا گیا، یہ الگ بات ہے کہ رپورٹ میں مزید بہت کچھ سامنے آگیا، خواجہ حارث نے کہا کہ تمام دستاویزات نوازشریف کے سامنے پیش کرنا چاہیں تھیں لیکن جے آئی ٹی نے تو ایسا موقع دیا ہی نہیں۔ وزیراعظم سے متعلقہ رپورٹ میں لکھے گئے ایک پیرا کا بھی تحقیقات میں نہیں پوچھا گیا۔
خواجہ حارث کی بات پرجسٹس عظمت سعید نے کہا کہ یہاں سے ہی مسائل شروع ہوتے ہیں، حسین نواز کے مالک ہونے کی ایک دستاویز بھی پیش نہیں ہوئی، عدالت نے شریف فیملی کے وکلاء کے دلائل سے مطمئن نہ ہونے پرجے آئی ٹی بنائی، جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ سوال نہیں کیا گیا تو روکا بھی نہیں گیا،60 روز دئیے مکمل موقع دیا، پہلے وزیر اعظم نے کہا دستاویز ہیں پھر کہا نہیں ہیں، وزیر اعظم عدالت نہیں توجے آئی ٹی کوہی ریکارڈ دے دیتے، 20 اپریل کا حکم نامہ عبوری تھا، جے آئی ٹی رپورٹ اورشواہد کے جائزے کے بعد فیصلہ کریں گے کہ معاملہ نیب کو بھیجیں یا نااہلی سے متعلق فیصلہ کردیں۔
جسٹس اعجاز افضل نے خواجہ حارث کو مخاطب کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ یہ کیس آمدن سے زائد اثاثوں سے متعلق ہے، اثاثوں اورآمدن کی دستاویز آپ نے دینا تھیں، وزیراعظم کا کام تھا کہ لندن فلیٹس کی خریداری کے ذرائع بتاتے لیکن آپ کا زورصرف اس پر ہے کہ جے آئی ٹی نے یہ دستاویز نہیں دکھائی وہ نہیں دکھائی، لندن فلیٹس کی خریداری کے وقت بچوں کی آمدنی نہیں تھی، وزیراعظم نے تقریرمیں کہا تھا ذرائع اور وسائل کا ریکارڈ موجود ہے۔
خواجہ حارث نے کہا کہ وزیراعظم کے اثاثے آمدن سے زیادہ تھے تو جے آئی ٹی بتاتی، رپورٹ میں شامل چیزوں پر جے آئی ٹی نے ہم سے نہیں پوچھا، دستاویزات پرجے آئی ٹی نے جرح نہیں کی اورجرح کے بغیرتمام رپورٹ یکطرفہ ہے، اس رپورٹ کی بنیاد پرٹرائل شفاف نہیں ہو سکتا۔ جس پرجسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ سپریم کورٹ ایک سال سے پوچھ رہی ہے، اب بتا دیں۔ جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ عدالتی فیصلے موجود ہیں کہ جس کی جائیداد ہوثابت اسی کو کرنا ہوتی ہے، شریف خاندان کے وکلاء کے دلائل بھی جے آئی ٹی کی وجہ بنے، جے آئی ٹی کی فائنڈنگ نہیں بلکہ سامنے آنے والا مواد اہمیت کا حامل ہے۔ سپریم کورٹ کی جانب سے کیس کی مزید سماعت کل تک ملتوی کردی گئی ہے۔