بحری حیاتیات کیلئے محفوظ ساحلی علاقے بھی بدحالی کا شکار

ساحل کی صفائی سے بے خبر ماہی گیروں سے جب بحری حیاتیات کی اہمیت اور تحفظ کے بارے میں معلوم کیا تو وہ بے خبر نظر آئے


ظریف بلوچ July 18, 2017
مقامی لوگوں کی اکثریت بھی بحری حیات کے حوالے سے آگہی نہیں رکھتی اِسی وجہ سے مقامی لوگ سیر و تفریح کے لئے ساحل کی طرف آتے وقت یہ نہیں سوچتے اُن کی جانب سے پھیلائی جانے والی گندگی کی وجہ سے کس طرح کا نقصان ہورہا ہے۔

مکران کے ساحلی علاقے بحری حیاتیات اور سیاحت کے حوالے سے اہم علاقے تصور کیے جاتے ہیں، صرف یہی نہیں بلکہ یہ علاقے سمندری مخلوق کی افزائش نسل کے لئے بھی اہم سمجھے جاتے ہیں۔ یہاں سمندر کا وہ حصہ ہے جہاں دنیا میں معدوم ہونے والے سمندری مخلوق پائی جاتی ہیں۔

حیاتیات کے ماہرین کہتے ہیں کہ مکران کے ساحلی علاقے بحری حیاتیات کی تحفظ کے لئے اہم اور حساس علاقہ جات ہیں۔ موسمی تغیرات اور ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثرات بھی ساحل پر پڑ رہے ہیں جبکہ ماحولیاتی اداروں اور حکومتی عدم توجہی کی وجہ سے سمندری حیات پر بھی منفی اثرات پڑ رہے ہیں کیونکہ میرین لائف کے لئے حساس ساحل ہونے کے باوجود میسر پالیسی موجود نہیں ہے۔ران کے ساحلی علاقے پسنی میں موجود 'جڈی بیچ' اور 'ذرین بیچ' قدرتی حسن کے ساتھ جلوہ گر ہیں۔ ذرین پسنی کا ایک اہم ساحل ہے جوکہ علاقے کا ایک اہم سیاحتی پوائنٹ ہونے کے ساتھ ساتھ بحری حیات کے حوالے سے کافی حساس علاقہ بھی سمجھا جاتا ہے۔ یہ ساحل پسنی سے سات (7) کلومیٹر دور ذرین کے پہاڑ کے (جبل ذرین) دامن میں واقع ہے۔ مقامی لوگوں کے لئے پسنی کے ساحل 'جڈی' اور 'ذرین' کسی جنت سے کم نہیں جہاں چھٹیوں کے موقع پر لوگ ساحل کنارے خوب انجوائے کرتے ہیں اور پکنک منانے والوں کا رش زیادہ ہوتا ہے۔



(تصویر: ظریف بلوچ)

پسنی کے بعض مقامی لوگ ذرین اور جڈی بیچ کو ایک ہی سلسلے کی کڑی قرار دیتے ہیں کیونکہ دونوں بیچ ایک دوسرے کے قریب ہونے کے ساتھ کافی مماثلث رکھتے ہیں۔ ذرین بیچ سائبیریا سے نقل مکانی کرنے والے آبی پرندوں کا مسکن ہے اور یہاں وافر مقدار میں آبی پرندے پائے جاتے ہیں۔

پہاڑ کے دامن میں واقع ذرین بیچ ماحولیات اور بحری حیات پر کام کرنے والے اداروں کی عدم توجہی کی واضح مثال پیش کرتا ہے جہاں ماہی گیروں کی جانب سے پھینکے گئے پلاسٹک جال ساحل میں پڑے ہیں، حالانکہ یہ جال بحری حیاتیات کے لئے خطرے کی علامت ہیں اور اِن پلاسٹک کے جالوں کی زد میں آکر دنیا میں معدوم ہونے والے کچھوے بھی موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں کیونکہ ذرین کے ساحل پر مقامی ماہی گیر شکار کرتے آرہے ہیں اور پلاسٹک کے جالوں کے ٹکڑے بیچ میں پھنس جاتے ہیں۔



اِسی طرح مقامی لوگوں کی لاپرواہی اور اداروں کی عدم توجہی کی وجہ سے ذرین ساحل پر بحری حیاتیات تیزی کے ساتھ معدوم ہوتی جارہی ہے۔ یہاں ایک اہم بات یہ کہ مقامی لوگوں کی اکثریت بھی بحری حیات کے حوالے سے آگہی نہیں رکھتی اِسی وجہ سے مقامی لوگ سیر و تفریح کے لئے ساحل کی طرف آتے وقت یہ نہیں سوچتے اُن کی جانب سے پھیلائی جانے والی گندگی کی وجہ سے کس طرح کا نقصان ہورہا ہے۔



(تصویر: ظریف بلوچ)

ماہرینِ حیاتیات کہتے ہیں کہ ساحل کی طرف سیر و تفریح کی غرض سے آنے والے لوگ ساحل کو گندہ کررہے ہیں۔ سیاح یہاں پلاسٹک کی بوتلوں سمیت دیگر استعمال شدہ اشیاء ساحل پر چھوڑتے ہیں جوکہ بحری حیاتیات کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ ساحل پر موجود ایک ماہی گیر نے بتایا کہ پہلے یہاں بحری حیات وافر مقدار میں پائے جاتے تھے لیکن اب اِن کی نسل بتدریج معدوم ہوتی جارہی ہے۔

ساحل کی صفائی سے بے خبر ماہی گیروں سے جب ہم نے بحری حیاتیات کی اہمیت اور تحفظ کے بارے میں جاننے کی کوشش کی تو وہ اِس حوالے سے بے خبر نظر آئے۔ مقامی صحافی غلام یاسین بزنجو کہتے ہیں کہ ذرین مکران کا ایک اہم ساحل ہے، جو خوبصورت اور دلفریب مناظر کی عکاسی کرنے کے ساتھ ساتھ بیک وقت سمندری اور پہاڑی تحفظ کی ضمانت بھی ہے۔ وہ اِس بات پر کافی زور دیتے ہیں کہ مقامی لوگوں کو سمندری حیات کے تحفظ اور اہمیت کے حوالے سے آگہی فراہم کرنے کی ضرورت ہے، کیونکہ اب بھی لوگوں کو سمندری حیات کے تحفظ اور اہمیت کا علم نہیں ہے جس کی وجہ سے ناپید ہونے والی سمندری مخلوق کا بھی بے دریغ شکار کیا جاتا ہے۔



(تصویر: ظریف بلوچ)

ماہرین حیاتیات کا کہنا ہے کہ ذرین بیچ سمیت دیگر ساحل کو بھی میرین پروٹیکٹد ایریا قرار دیا جائے اور اِن علاقوں کو میرین لائف کے حوالے سے اسپیشل زون بناکر بحری حیاتیات کو تحفظ فراہم کیا جائے جبکہ ساحل کنارے آبادیوں میں سمندری حیات کے حوالے سے آگہی مہم شروع کرنے کی اشد ضرورت ہے، اگر ایسا نہیں کیا گیا تو نقصان کا خدشہ بڑھتا چلا جائے گا۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا لکھاری کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریراپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک و ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کیساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اور ویڈیو لنکس بھی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔