اسلامی ناموں کی ضرورت واہمیت

آپ صلی اللہ علیہ وسلم اگر کسی کے نام کو بُرا محسوس فرماتے تو اس کو بدل کر اچھا نام رکھ دیتے تھے۔ ( ترمذی )


ارشاد نبوی ہے کہ اے لوگو! جہاں تک ہوسکے اپنے بچوں کے نام انبیاء کے ناموں پر رکھو۔ فوٹو فائل

نبی اکرم ؐ نے ارشاد فرمایا ''جب کوئی بچہ پیدا ہو تو ساتویں دن اس کا نام رکھو، اس دن اس کے سر کے بال منڈوائو اور عقیقہ کرو۔'' (ابو دائود)

ایک اور حدیث مبارکہ میں ارشاد فرمایا ''اﷲ کے نزدیک سب سے پسندیدہ نام عبداﷲ اور عبدالرحمٰن ہیں۔'' (بخاری)
اسی طرح ارشاد فرمایا: ''اے لوگو! جہاں تک ہوسکے اپنے بچوں کے نام انبیاء کے ناموں پر رکھو۔ اﷲ تعالیٰ کے نزدیک سب سے پسندیدہ نام عبداﷲ اور عبدالرحمٰن ہیں۔ مزید فرمایا بہترین نام حارث اور ہمام ہیں اور حرب اور مرہ بُرے نام ہیں۔'' (ابوداود)

نام رکھنے کا صحیح طریقہ: حضرت انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ انھوں نے ارشاد فرمایا ''جب عبداﷲ بن طلحہ پیدا ہوئے تو میں ان کو لے کر رسول اکرمؐ کی خدمت میں حاضر ہوا، اس وقت آپ اپنے اونٹ کو دوا لگا رہے تھے۔ میرے پاس بچے کو دیکھ کر ارشاد فرمایا کیا تمہارے پاس کوئی کھجور ہے؟ میں نے چند کھجوریں آپ کی خدمت میں پیش کردیں۔ آپ نے ان میں سے ایک کھجور چبائی اور پھر اس کو بچے کے منہ میں دے دی۔ پھر وہ بچہ کھجور چوسنے لگا۔ پھر آپؐ نے اس کا نام عبداﷲ رکھا۔'' (بخاری)

حضرت اسماءؓ فرماتی ہیںکہ ہجرت کے وقت میں حاملہ تھی راستے میں مجھے درد اٹھا۔ میں ایک مقام پر ٹھہرگئی۔ وہیں میرے ہاں بیٹے کی ولادت ہوئی۔ میں بچے کو لے کرنبی اکرمؐ کی خدمت میں حاضر ہوئی۔ حضورؐ نے کھجور منگوا کر چبائی اور پھر اس کو بچے کے منہ میں دے دی۔ پھر آپ نے اس کا نام عبداﷲ بن زبیر رکھا اور اس کے لیے خیر و برکت کی دعا فرمائی۔ ہجرت کے بعد مسلمانوں کے ہاں سب سے پہلا بچہ یہی پیدا ہوا تھا اس لیے سب نے خوشی کا اظہار کیا۔

حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ نے فرمایا ''جب میری بیوی کے ہاں لڑکا پیدا ہوا تو میں اسے لے کر حضوراکرمؐ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپؐ نے اس کا نام ابراہیم رکھا اور ایک کھجور چباکر اس بچے کے منہ میں ڈال دی اور اس کے لیے خیر و برکت کی دعا فرمائی، پھر اس کو مجھے دے دیا یہی میرا پہلا لڑکا تھا۔ (بخاری)

برے ناموں کو تبدیل کرنا: حضرت عائشہؓ ارشاد فرماتی ہیں کہ نبی اکرمؐ کی یہ عادت کریمہ تھی کہ آپ اگر کسی کے نام کو بُرا محسوس فرماتے تو اس کو بدل کر اچھا نام رکھ دیتے تھے۔ ( ترمذی ) چناں چہ حضرت زینب ؓ کا نام پہلے ''برہ'' تھا، جس کے معنیٰ نیکی کے ہیں۔ پھر اس کے نام پر بعض مسلمان اعتراض کرنے لگے کہ تم اپنے نام کی وجہ سے اپنی تعریف کروا کر اپنے آپ کو مقدس ظاہر کررہی ہو۔ جب لوگوں کا اعتراض آپ کے نام کے حوالے سے حضور اکرمؐ تک پہنچا تو آپ نے ان کا نام بدل کر زینب رکھ دیا۔ (بخاری)

ایک شخص جس کا نام ''اصرم'' یعنی ( کاٹنے اور کترنے والا) تھا۔ حضور اکرمؐ نے اس سے اس کا نام پوچھا تو اس نے اصرم بتایا، تو آپ نے فرمایا، نہیں تم تو ضراع (کھیتی کرنے والا) ہو، یعنی اس کے نام کو بدل دیا۔ (ابودائود)

ناموں کے اثرات: ایک مرتبہ نبی اکرمؐ نے ایک دودھ دینے والی اونٹنی کو دیکھا۔ پھر اپنے ساتھ موجود لوگوں سے پوچھا کہ تم میں سے کون ہے جو اس اونٹنی کا دودھ دوہے گا ؟ ایک شخص کھڑا ہوا کہ میں دودھ دوہوں گا۔ نبی اکرمؐ نے اس سے اس کا نام دریافت فرمایا۔ اس نے کہا میرا نام ''مرۃ'' ہے، جس کے معنیٰ کڑوا کے ہیں۔ آپؐ نے جب اس کا نام سنا تو فرمایا تم بیٹھ جائو۔ پھر دوبارہ دریافت فرمایا کہ تم میں سے کون ہے جو اس اونٹنی کا دودھ دوہے گا ؟ پھر دوسرا شخص کھڑا ہوا۔ آپؐ نے اس سے اس کا نام دریافت فرمایا۔ اس نے کہا میرا نام ''حرب'' ہے، جس کے معنیٰ جنگ کے ہیں۔ حضور اکرمؐ نے اس کو بھی بیٹھ جانے کا حکم دیا اور پھر لوگوں سے پوچھا اونٹنی کا دودھ کون دوہے گا ؟ پھر تیسرا شخص کھڑا ہوا۔ آپؐ نے جب اس سے اس کا نام پوچھاتو اس نے کہا کہ میرا نام ''یعیش'' یعنی زندگی گزارنے والا ہے۔ آپؐ نے اس کے نام کو پسند کیا اور اس کے لیے دعائے خیر فرمائی اور پھر اس کو اونٹنی کا دودھ دوہنے کا حکم فرمایا۔ (موطا امام مالک)

جس طرح لباس شخصیت کا آئینہ دار ہوتا ہے، اسی طرح نام بھی شخصیت کا آئینہ دار ہوتا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ جب بھی اپنے بچوں کا نام رکھنے لگیں سب سے پہلے اﷲ عزوجل کے ناموں سے انتخاب کریں۔ پھر حضورؐ کو مدنظر رکھیں اور نام رکھنے میں مذکر اور مونث کا بھی خیال رکھیں۔یہ نہ ہو کہ مونث والا نام لڑکے کا اور مذکر والا نام لڑکی کا رکھ دیں۔ غیر اسلامی اور خراب معنیٰ والے ناموں سے گریز کریں اور ایسے ناموں کا انتخاب کریں جو کہ آپ کے مذہب و ملت اور مسلمان ہونے کا اظہار کرتے ہوں۔ حضوراکرمؐ نے ارشاد فرمایا ''اﷲ تعالیٰ صاحب جمال ہے اور وہ حسن و جمال کو پسند فرماتا ہے۔'' اس جمال میں ہر قسم کا ظاہری حسن و جمال داخل ہے۔ ناموں کا جمال ہو یا لباس اور رہن سہن کا جمال، سب کو اللہ تعالیٰ پسند فرماتا ہے۔ البتہ خدا اسراف اور حد سے زیادہ عیش پسندی کو پسند نہیں کرتا۔ حضور اکرمؐ نے ایک اور حدیث میں ارشاد فرمایا '' لوگوں کے پاس ایسے آدمیوں کو قاصد بناکر بھیجاکرو جو کہ خوب صورت ہونے کے ساتھ ساتھ اچھے ناموں والے بھی ہوں۔'' اس کا سبب نفسیاتی تھا ۔اچھے نام اور اچھی صورت کا مخاطب پر اچھا اثر پڑتا ہے۔اسی لیے اﷲ عزوجل نے حضور اکرمؐ کا نام ''احمد'' رکھا جس کے معنیٰ ''زیادہ تعریف کرنے والا'' کے ہیں، جب کہ نبی اکرمؐ کے بزرگوں نے آپؐ کا نام ''محمد'' رکھا، جس کے معنیٰ ''بہت زیادہ سراہا ہوا'' کے ہیں۔ یہ دونوں باتیں حضوراکرمؐ کی ذات میں جمع تھیں۔ اللہ تعالیٰ ہر مسلمان کو نبی اکرمؐ کے طریقے کے مطابق اپنے بچوں کے نام رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں