تفہیم المسائل

’’ جو میری طرف دانستہ جھوٹی بات منسوب کرے، وہ اپنا ٹھکانا جہنم بنالے۔‘‘ (صحیح بخاری، رقم الحدیث:1291)


Mufti Muneeburrehman February 07, 2013
ہر وہ قرض جو اصل رقم پر زائد کسی منفعت کا باعث ہو، تو ایسی منفعت سود ہے۔‘‘ (کنزا لعمال، رقم الحدیث:15516) فوٹو: رائٹرز

شادی کی رسم

سوال: ہمارے ہاں یہ روایت ہے کہ نکاح کے وقت ایک شربت کا پیالہ رکھا جاتا ہے، جب نکاح ہو جاتا ہے تو وہ پیالہ آدھا دولہا اور آدھا دلہن کو پلایا جاتاہے۔ہمارے بزرگ اس رسم کو سنت قرار دیتے ہیں۔ کیا شریعت میں اس کی کوئی اصل ہے یا نہیں؟
(محمد اقبال، بخشی اسکوائر کراچی)

جواب: مذکورہ عمل کے سنّت ہونے کی کوئی دلیل ہماری نظروں سے نہیں گزری، نہ ہی نبی اکرمؐ کے عقدِ مبارک سے اور نہ ہی آپؐ کی صاحب زادیوں کے نکاح کے موقع پر ایسا کوئی عمل کیا گیا۔ تاہم سیدہ فاطمۃ الزہرہؓ کے نکاح کی بابت حافظ ابن حجر نے لکھا ہے کہ : '' نکاح ماہِ رجب یکم ہجری میں ہوا اور رخصتی غزوۂ بدر کے بعد 2 ہجری میں ہوئی۔ اُس وقت حضرت سیدہ کی عمر مبارک اٹھارہ سال تھی۔ شبِ زفاف نبی کریمؐ نے دونوں کو کہلا بھیجا کہ میرے آنے سے پہلے کچھ نہ کرنا۔ حضور ﷺ تشریف لے گئے، وضو فرمایا پھر پانی کو دم کیا اور ان دونوں پر چِھڑک دیا، پھر دعا فرمائی: ترجمہ:'' اے اللہ ! اِن دونوں پر برکت نازل فرما اور ان (کی آنے والی) نسل میں بھی برکتیں عطا فرما۔'' (الاصابہ، جلد 4، ص: 366) مذکورہ سوال میں جو رسم بیان کی گئی ہے، اگر کوئی یہ عمل کرلے، تو اس میں شرعاً کوئی قباحت بھی نہیں ہے۔ بس ایک مباح امر ہے۔ البتہ اسے سُنت قرار دینا رسول اکرمؐ کی طرف جھوٹی بات منسوب کرنا ہے اور آپؐ کا فرمان ہے: ترجمہ: '' جو میری طرف دانستہ جھوٹی بات منسوب کرے، وہ اپنا ٹھکانا جہنم بنالے۔'' (صحیح بخاری، رقم الحدیث:1291)

زندگی میں وصیت سے رجوع کا حق ہے
سوال: کیا کوئی شخص وصیت نامہ لکھنے یا زبانی وصیت کرنے کے بعد اپنی وصیت سے رجوع کرسکتا ہے ؟ (سید ناصر علی قادری، امریکہ)
جواب: وصیت کرنے والا اپنی وصیت سے رجوع کرسکتا ہے، اور اُس کے وصیت سے رجوع کرنے کی صورت میں پہلی وصیت باطل ہوجائے گی۔ علامہ نظام الدین لکھتے ہیں: ترجمہ:'' وصیت کرنے والے کا اپنی وصیت سے رجوع کرنا جائز ہے۔ یہ رجوع کبھی صراحتاً ہوتا ہے اور کبھی دلالتاً۔ صراحت کی صورت یہ ہے کہ صاف لفظوں میں کہے کہ ''میں نے اپنی وصیت سے رجوع کیا، یا اس کے ہم معنٰی کوئی لفظ کہے'' دوسری صورت یعنی دلالتاً یہ ہے کہ کوئی ایسا عمل کرے جو رجوع کرنے پر دلالت کرتا ہے۔ مثلاً اس نے وصیت کی کہ میرے بعد یہ مکان یا دکان یا گاڑی فلاں کی ہوگی اور پھر ان چیزوں کو فروخت کردیا یا کسی اور کو ھبہ کردیا۔

ایڈوانس رقم پر زیادہ لینے کی شرعی حیثیت
سوال: 20 سال قبل میں نے کاروبار کے سلسلے میں ایک مکان کا کچھ حصہ گودام اور مزدورں کی رہائش کے لیے کرایے پر لیا تھا، جس کا کرایہ باقاعدگی سے ادا کرتا رہا۔ مالک مکان کا انتقال ہوگیا ہے، اُن کی اولاد (وارث) اس مکان کو بیچنا چاہتے ہیں۔ آج تک کوئی تحریری اقرار نامہ میرے اور مالک مکان کے درمیان نہیں ہوا تھا۔ میں نے زبانی وعدہ کیا تھا کہ حسبِِ ضرورت میں یہ مکان خالی کردوں گا اور میں اپنے وعدے پر قائم ہوں۔ بطور سیکیورٹی، ایڈوانس کی رقم پانچ ہزار ایک سو روپے جمع کرائی تھی۔ جمع شدہ رقم آج کل کے سونے کی قیمت کے فرق سے واپس لی جائے گی یا وہی جمع شدہ رقم وصول کی جائے گی؟
جواب: مذکورہ صورت شریعت کی اصطلاح میں ''اجارہ'' کہلاتی ہے اور یہ زبانی بھی منعقد ہوجاتا ہے ۔ تحریری دستاویز مفید بھی ہے اور فریقین کے حقوق کے تحفظ کے لیے قانونی ضرورت بھی، لیکن شرعاً لازم نہیں ہے۔ جو رقم آپ نے ایڈوانس جمع کرائی تھی، وہ بطور زَرِ ضمانت تھی اور شرعاً مستاجر کے لیے اُ س کی حیثیت قرض کی تھی، اور جتنی رقم آپ نے جمع کروائی تھی، مستاجر پر اُس کی واپسی لازم ہے اور آپ کا اُس سے زائد رقم کا مطالبہ کرنا درست نہیں۔ چوں کہ آپ نے وہ رقم بطور ضمانت جمع کروائی تھی، جس کی حیثیت قرض کی سی ہے، اگر اس رقم پر بڑھا کر وصول کریں گے، تو یہ سود ہوگا، رسول اکرمؐؐ کا فرمان ہے: ترجمہ:'' ہر وہ قرض جو (اصل رقم پر زائد) کسی منفعت کا باعث ہو، تو ایسی منفعت سود ہے۔'' (کنزا لعمال، رقم الحدیث:15516) البتہ اگر عقدِ اجارہ کے وقت نقد رقم کے بجائے سونا دے دیا کریں تو پھر سونا ہی واپس لینے کا حق ہوگا، اس صورت میں افراطِ ِ زَر یعنی روپے کی قدر میں غیر معمولی کمی کے اثرات سے محفوظ رہ سکتے ہیں۔ ایسے میں کسی بھی ایسی چیز کو معیار بناسکتے ہیں جس کی قدر عام طور پر قائم رہتی ہو۔
عدت کب شروع ہوتی ہے؟

سوال: نکاح کے بعد بیوی نے شوہر کے ساتھ خلوت میں کچھ وقت گزارا، مباشرت نہیں ہوئی۔ اگر اس کے بعد وہ بیوی عدالت کے ذریعے فسخِ نکاح کرائے تو عدت لازم ہے یا نہیں، اگر لازم ہے تو کب سے؟
(قاری محمد زمان، آزادکشمیر)
جواب: خَلوتِ صحیحہ کو شرعاً مباشرت کے قائم مقام سمجھا جاتا ہے، یعنی زوجین کے درمیان ایسی خَلوت کہ مباشرت میں کوئی طبعی رکاوٹ حائل نہ ہو، تو ایسی ''خَلوتِ صحیحہ'' کے بعد بصورتِ طلاق یا فسخِ نکاح، عدت لازم ہوتی ہے اور یہ وقتِ طلاق یا فسخِ نکاح سے شروع ہوتی ہے۔ ''فسخِ نکاح'' شرعاً اسی وقت مؤثر ہے کہ قاضی شریعت کا عالم اور عامل ہو اور '' تنسیخِ نکاح'' میں حدودِ شرعیہ کی مکمل پاس داری کی ہو۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں