امریکی صدر نے ایران سے ہونے والے جوہری معاہدے کی توثیق کردی
ایران کی اقتصادی پابندیوں میں کی جانے والی نرمی جاری رہے گی، وائٹ ہاؤس حکام
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم کے دوران کیے جانے والے وعدے کے برخلاف ایران اور چھ عالمی طاقتوں کے درمیان طے پانے والے جوہری معاہدے کی توثیق کردی۔
غیر ملکی خبر رساں ایجنسی کے مطابق امریکی حکام نے اس بات کا اعلان کیا کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران کے ساتھ ہونے والے جوہری معاہدے کی حمایت کردی ہے اور اس معاہدے کے بدلے ایران کی اقتصادی پابندیوں میں کی جانے والی نرمی جاری رہے گی۔
خیال رہے کہ اپنی انتخابی مہم کے دوران ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا تھا کہ اگر وہ صدر بنے تو ایران سے ہونے والے جوہری معاہدے کو ختم کردیں گے تاہم انہوں نے ایسا نہیں کیا۔ دو سالہ معاہدے کے تحت ایران نے اپنے جوہری پروگرام کو محدود کرنے کی حامی بھری تھی۔
ٹرمپ انتظامیہ کے پاس اس بات کا تعین کرنے کے لیے پیر 18 جولائی تک کا وقت تھا کہ آیا ایران جوہری معاہدے کی پاسداری کرتے ہوئے اپنے جوہری پروگرام کو محدود کررہا ہے یا نہیں۔ وائٹ ہاؤس کے ایک عہدے دار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ فی الحال امریکا کے پاس جو معلومات موجود ہیں ان کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ ایران شرائط پر پورا اتر رہا ہے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ عہدہ صدارت سنبھالنے کے بعد سے دو مرتبہ ایران کی جانب سے معاہدے کی پاسداری کی توثیق کرچکے ہیں تاہم وائٹ ہاؤس نے اشارہ دیا ہے کہ جوہری معاہدے پر عمل درآمد کے باوجود ایران پر بیلسٹک میزائل اور فاسٹ بوٹ پروگرام کو روکنے کے لیے نئی پابندیاں عائد کی جاسکتی ہیں۔ حکام کا کہنا ہے کہ ایران بدستور علاقائی استحکام اور امریکی مفادات کے لیے خطرناک ترین ملک ہے۔
وائٹ ہاؤس کے ایک عہدے دار نے کہا کہ امریکی صدر اور سیکریٹری خارجہ نے ایران کی سرگرمیوں کا جائزہ لیا ہے اور اس نتیجے پر پہنچے کہ ایران جوہری معاہدے کے مطابق سرگرمیاں تو محدود کررہا ہے لیکن معاہدے کی روح کے مطابق اس پر عمل پیرا نہیں ہے۔ خیال رہے کہ ایران بھی امریکا پر الزام عائد کرتا ہے کہ اس نے جوہری معاہدے کے مطابق اس پر عائد پابندیاں مکمل طور پر نہیں اٹھائیں۔
غیر ملکی خبر رساں ایجنسی کے مطابق امریکی حکام نے اس بات کا اعلان کیا کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران کے ساتھ ہونے والے جوہری معاہدے کی حمایت کردی ہے اور اس معاہدے کے بدلے ایران کی اقتصادی پابندیوں میں کی جانے والی نرمی جاری رہے گی۔
خیال رہے کہ اپنی انتخابی مہم کے دوران ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا تھا کہ اگر وہ صدر بنے تو ایران سے ہونے والے جوہری معاہدے کو ختم کردیں گے تاہم انہوں نے ایسا نہیں کیا۔ دو سالہ معاہدے کے تحت ایران نے اپنے جوہری پروگرام کو محدود کرنے کی حامی بھری تھی۔
ٹرمپ انتظامیہ کے پاس اس بات کا تعین کرنے کے لیے پیر 18 جولائی تک کا وقت تھا کہ آیا ایران جوہری معاہدے کی پاسداری کرتے ہوئے اپنے جوہری پروگرام کو محدود کررہا ہے یا نہیں۔ وائٹ ہاؤس کے ایک عہدے دار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ فی الحال امریکا کے پاس جو معلومات موجود ہیں ان کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ ایران شرائط پر پورا اتر رہا ہے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ عہدہ صدارت سنبھالنے کے بعد سے دو مرتبہ ایران کی جانب سے معاہدے کی پاسداری کی توثیق کرچکے ہیں تاہم وائٹ ہاؤس نے اشارہ دیا ہے کہ جوہری معاہدے پر عمل درآمد کے باوجود ایران پر بیلسٹک میزائل اور فاسٹ بوٹ پروگرام کو روکنے کے لیے نئی پابندیاں عائد کی جاسکتی ہیں۔ حکام کا کہنا ہے کہ ایران بدستور علاقائی استحکام اور امریکی مفادات کے لیے خطرناک ترین ملک ہے۔
وائٹ ہاؤس کے ایک عہدے دار نے کہا کہ امریکی صدر اور سیکریٹری خارجہ نے ایران کی سرگرمیوں کا جائزہ لیا ہے اور اس نتیجے پر پہنچے کہ ایران جوہری معاہدے کے مطابق سرگرمیاں تو محدود کررہا ہے لیکن معاہدے کی روح کے مطابق اس پر عمل پیرا نہیں ہے۔ خیال رہے کہ ایران بھی امریکا پر الزام عائد کرتا ہے کہ اس نے جوہری معاہدے کے مطابق اس پر عائد پابندیاں مکمل طور پر نہیں اٹھائیں۔