فنی تربیت کا جدید اور کامیاب سسٹم تیسری قسط

اس سسٹم کے تحت زیرِ تربیت نوجوان(اپرنٹس) ہفتے میں دو دن ٹریننگ اسکول میں کلاس اٹینڈ کرتے ہیں


[email protected]

جرمن قوم آج جس بلندی پر کھڑی ہے یہ مقام اُس نے اپنے بے مثال عزم اور بے پناہ محنت سے حاصل کیا ہے ۔جرمن بڑے فخر سے کہتے ہیں '' ہماری زمین کے نیچے کوئی سونا نہیں ہے مگر ہم نے اپنے ذہنوں کو سونا بنالیا ہے'' ۔ جرمنی، آبادی اور رقبے کے لحاظ سے پاکستان سے نصف ہے۔ ہر سال اسکول چھوڑجانے والوں کی تعداد نو لاکھ ہے۔ پبلک اور پرائیوٹ سیکٹر میں دو کروڑ اسی لاکھ آسامیاں (Jobs)ہیں جن میں غیر تربیت یافتہ ورکرز کے لیے چالیس لاکھ ملازمتیں دستیاب ہیں۔

جرمنی میں تعلیم و تربیت کے شعبے یعنی TVET سیکٹر کی تکون کے تین کرداروں میں پہلے نمبر پرانڈسٹری ہے جس کا کلیدی کردار ہے، دوسرے نمبر پر لیبر یونینز ہیں، جو اپرنٹس یا ورکرکے حقوق کی نگہبانی کرتی ہیں اورحکومت تیسرے نمبر پر آتی ہے جو تربیتی اداروں کو بجٹ فراہم کرتی ہے۔ یہ سسٹم(جو Dual Training System کے نام سے جانا جاتا ہے) جرمنی میں بڑی کامیابی سے چل رہا ہے۔

اس وقت اِس شعبے میں چھبیّس کھرب روپے سالانہ سے زیادہ خرچ کیے جارہے ہیں۔ جس میں حکومت ساڑھے پانچ کھرب روپے خرچ کرتی ہے او ر باقی رقم انڈسٹری فراہم کرتی ہے۔اخراجات کا یہ تخمینہ ہم سے کئی سوگنا زیادہ ہے۔ اس سسٹم کے تحت زیرِ تربیت نوجوان(اپرنٹس) ہفتے میں دو دن ٹریننگ اسکول میں کلاس اٹینڈ کرتے ہیں جہاں اُنہیں متعلقہ ٹریڈ (مضمون) کی تھیوری کے علاوہ تاریخ، ریاضی، فزکس اور انگریزی کے مضامین پڑھائے جاتے ہیں اور چار روزوہ فیکٹری میں مشینوں پر عملی کام سیکھتے ہیں۔

ساڑھے تین سال کی مدّت میں جب وہ اعلیٰ تربیت یافتہ ورکر بن جاتے ہیں تو اُنہیں اُسی فیکٹری میں ملازمت مل جاتی ہے۔ اس سے ایک طرف ملک سے بیروزگاری کا خاتمہ ہوتا ہے دوسری طرف انڈسٹری کو اعلیٰ معیارکے ورکر اور ٹیکنیشنز دستیاب ہونے سے ان کی پیداوار میں بے پناہ اضافہ ہوتا ہے۔جرمنی میں فنی تربیت کے ڈوئل ٹریننگ پروگرام میں ہر سال پندرہ لاکھ نوجوان شریک ہوتے ہیں۔ جو تین سو کے قریب مختلف ٹریڈز میں سے کسی ایک کا انتخاب کرتے ہیں۔

ہر شخص یہ سوال پوچھتا ہے کہ جرمنی کا صنعتی شعبہ نوجوانوںکی فنی تعلیم و تربیت پر اتنا پیسہ کیوں خرچ کرتا ہے جب کہ اسے ٹیکس میں بھی کسی قسم کی چھوٹ یاRebate نہیں ملتا۔ اس کا جواب یہ ہے کہ جرمن صنعتکارکوالٹی پر ایمان رکھتا ہے اور اس کا دل وجان سے تحفظ کرتا ہے۔ وہ کسی قیمت پر اپنی مصنوعات کا معیار گرنے نہیں دیتا۔اس کے لیے اسے جتنا سرمایہ بھی خرچ کرنا پڑے وہ کرتا ہے اعلیٰ کوالٹی قائم رکھنے کے لیے جرمن صنعتکار کوبے حد تربیت یافتہ ورکرز (Highly Skilled Workers) کی ضرورت ہوتی ہے اس لیے وہ بچت کرنے کی خاطر مارکیٹ سے غیر تربیت یافتہ ورکرز اُٹھانے کے بجائے نوجوانوں کو خود منتخب کرکے اپنی انڈسٹری میں ہی اعلیٰ معیار کی ٹریننگ دیتے ہیں، جب وہ ہنریافتہ ورکر بن جاتے ہیں تو وہ اس کمپنی کے لیے ایک قیمتی سرمائے کی حیثیّت اختیار کرجاتے ہیں۔ لہٰذا صنعتکار تربیت یافتہ ورکر تیار کرنے پر لگائے گئے سرمائے کو ایک مفید انوسٹیمنٹ سمجھتے ہیں، اس پر خوش دلی سے پیسہ لگاتے ہیں اور اپنی پراڈکٹس کا اعلیٰ معیار قائم رکھتے ہیں۔ یہی جرمن انڈسٹری کی کوالٹی کا راز ہے اور یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر میں ان کی مصنوعات کو کوئی چیلنج نہیں کرسکا۔

چونکہ اس سسٹم میں انڈسٹری کا کلیدی کردار ہے اس لیے ہمارے پروگرام کا آغاز ہی ایک انڈسٹری کے دورے سے ہوا۔ انڈسٹریل ایریا میں پہنچے تو کہیں بھی کوئی گندگی، گرا ہوا تیل یا کچرا نظر نہ آیا بلکہ ایسے لگا جیسے ہم کسی پَوش رہائشی علاقے میں آگئے ہیں۔ میڈیم سائز کی اس کمپنی کے مالک مسٹر بینگرٹ نے خود فیکٹری کا تفصیلی دورہ کرایا اور فیکٹری میں زیرِ تربّیت اپرنٹس سے بھی ملوایا۔ کسی منیجر کے حوالے کرنے بجائے وہ تمام وقت ہمارے ساتھ رہے اور ایک ایک مشین کے بارے میں خود تفصیلات بتاتے رہے۔ یہ کمپنی بڑے بڑے جنریٹرز ، پَمپس اور موٹرز کی مرمّت اور maintenaceکا کام کرتی ہے اور دنیا کے درجنوں ممالک میں اس کی شاخیں ہیں۔

مسٹر بینگرٹ سے ان کے کام کے اوقات کے بارے میں پوچھا تو کہنے لگا ''ہر روز صبح پانچ بجے (سورج نکلنے سے پہلے)دفتر پہنچ جاتا ہوں اور رات کو دس بجے گھر جاتا ہوں'' بلاشبہ ترقّی کی منزل کیجانب محنت کی راہگذر کے سوا کوئی اور راستہ نہیں جاتا۔ دورے کا ایک مقصد یہ بھی تھا کہ پاکستانی وفد کو جرمنی کی چھوٹی اور درمیانی سائیز کی انڈسٹری (SME)کے کردار سے آگاہ کیا جائے۔

ہمارے ہاں بھی سمیڈا کے نام سے ادارے کام کر رہے ہیں وہ بھی فنی تعلیم و تربیت کے شعبے میں بھرپورکردار ادا کر سکتے ہیں۔ دوروز مسلسل صبح آٹھ بجے سے شام پانچ بجے تک انڈسٹری اور فنی تربیت کے اداروں میں گزرے تو وفد کے چند خواتین و حضرات بول پڑے کہ''چنگا جرمنی آئے آں، ایناں تے سانوں پڑھنے ای پا دِتّا اے'' (ہم اچھے جرمنی کے دورے پر آئے ہیں انھوں نے تو ہمیں پھر سے طالب علم بنا دیا ہے)۔

ایمپلائمنٹ ایجنسی کا دورہ بھی بڑا مفید تھا۔ اس ادارے میں روزگار تلاش کرنے والے نوجوانوں کی راہنمائی بھی کی جاتی ہے اور ان کی کونسلنگ بھی ہوتی ہے، پاکستان میں بھی اسطرح کے روزگار اور کونسلنگ سینٹرز بنانے کی ضرورت ہے۔ آجروں کی ایسوسی ایشن کے دورے کے دوران فنی تربیت میں آجروں کا کردار سمجھنے میں مدد ملی ۔ اگلے دو روز بھی دورے اور میٹنگز چلتی رہیں جب ایک کمپنی میں بریفنگ زیادہ طویل اور کسی حد تک ثقیل ہوگئی تو وفد کے چند شرکاء کی آنکھ لگ گئی اس دوران اچانک ایک زور دار نعرہ گونجا ''جئے بھٹو'' سب ہڑ بڑا کر اُٹھ کھڑے ہوئے، میزبان بھی پریشان ہو کر ادھر اُدھر دیکھنے لگے،معلوم ہوا کہ سندھ ٹیوٹا کے ایم ڈی مظفر بھٹو (جو ذوالفقار علی بھٹو صاحب کا پرستار اور جیالا ہے) نے نیند کے غلبے سے نکلنے اور اپنے آپ کوچُست رکھنے کے لیے بے اختیار نعرہ لگا دیا ہے۔

پہلی بار تو سب ہنس پڑے مگر نعرے والا نسخہ بڑا مفید ثابت ہوا، جب بھی وفد کے کچھ ارکان پر نیند کا حملہ ہوتا، مظفر بھٹو نعرہ لگا دیتا اور تمام لوگ جاگ اُٹھتے اور بریفنگ کی طرف متوجہ ہو جاتے۔ ایک رات کھانے پر مظفّر بھٹو نے نعرہ لگا یا تو ڈاکٹر ناصر خان نے مردان کے قریب واقع اپنے گاؤں کا واقعہ سنا دیا کہ ''ایک بار رمضان کے مہینے میں ہمارے گاؤںمیں بھٹو صاحب کے ایک جیالے نے جئے بھٹو کا نعرہ لگایا تو گاؤں کے ایک سادہ لوح پٹھان نے بڑی سادگی سے پوچھا ''یارا جی ! اگر بھٹو زندہ ہے تو تراویوں (نماز ِ تراویح) پر کیوں نہیں آتا؟ '' اس پر محفل قہقہوں سے گُونج اُٹھی۔ اسی نوعیّت کے مختلف دوروں، بریفنگز اور میٹنگز کے بعد ہمیں ہائیڈل برگ لے جایا گیا۔

ہمارے میزبان ہائیڈل برگ کے ساتھ پاکستانیوں کے جذباتی لگاؤ سے واقف تھے اور وہ جانتے تھے کہ مفکّرِ پاکستان حضرت علاّمہ اقبال اس شہر میں زمانۂ طالب عملی میں رہائش پذیر رہے تھے اسی لیے دریائے نیکر کے کنارے ایک سڑک ان کے نام سے موسوم کی گئی ہے اور اُس گھر (جہاں اقبالؒ رہا کرتے تھے) کے باہر یادگاری تختی بھی آویزاں کی گئی ہے۔ ہائیڈل برگ بلاشبہ بہت خوبصورت شہر ہے ۔ وہاں کی مشہور بین الاقوامی کمپنی (ABB) Area Brown Boveriکے ٹریننگ سینٹر کے دورے کے دوران ہمیں وہاں زیرِ تربیت نوجوانوں سے ملنے کا موقع ملا جو Apprenticeshipکررہے تھے۔

اپرنٹس کو تنخواہ کا ستّر فیصد حصّہ دیا جاتا ہے اور ہر سال معاوضے میں اضافہ کیا جاتا ہے۔انڈسٹری میں تربیت یافتہ ورکروں میں سے کئی بڑے ماہر ٹیکنیشن بن جاتے ہیں ایسے ہی ٹیکنیشنز نے ماضی میں کئی نئی چیزیں ایجاد کی ہیں۔ سب سے پہلی کار بھی جرمنی کے دو ٹیکنیشنز ڈیملر (Daimler) اور کارل بینز نے ملکر ایجاد کی۔ ڈیملر کی اکلوتی بیٹی کا نام مرسیڈیز تھا اُس نے اپنی ایجاد کو اپنے نام کے بجائے اپنی بیٹی کے نام سے منسوب کیا اور اسطرح مشہور ِزمانہ کار مرسیڈیز بینز کہلائی۔

سیمنز اور ABBاتنی بڑی کمپنیاں ہیں جن میں سیکڑوں کی تعداد میں اپرنٹس کام کرتے ہیں ABBمیں ٹریننگ کے انچارج مسٹر مرکس بروزٹ سے ملاقات ایک بڑا ہی خوشگوار تجربہ تھا۔ اپنی کمپنی سے وفاداری اور اپنے کام (نوجوانوں کی تربیت) سے اس کا عشق بے حد متاثر کن تھا۔ مسٹر بروزٹ کو یادگاری شیلڈدیتے ہوئے راقم کو یہ کہنا پڑا کہ" ABBخوش قسمت ہے کہ اسے جذبوں سے سرشار آپ جیسے ڈائریکٹر کی خدمات حاصل ہیں"۔ انڈسٹری کے اندر نوجوانوں کی ٹریننگ کا مشاہدہ کرنے کے بعد ہم جب ٹیکنیکل ٹریننگ انسٹیٹیوٹ میں گئے جہاں نوجوانوں کو تھیوری پڑھائی جاتی ہے۔ وہاں کی جدید ترین مشینری سے لیس ورکشاپس دیکھکر عقل دنگ رہ جاتی ہے۔

نوجوان کلاس میں جو کچھ سنتے ہیں۔۔۔ ورکشاپ میں عملی طور پر آزمالیتے ہیں۔ بلاشبہ تربیت کے اعلیٰ معیار کے لیے ایسے انسٹرکٹرز کی ضرورت ہے جن میں قابلیت بھی ہو اور جذبہ بھی اور اس کے ساتھ ساتھ ادارے کی ورکشاپس جدید مشینری سے بھی لیس ہوں۔ جس طرح جرمنی میں فنی تعلیم و تربیت میں مختلف ٹریڈز کے نصاب مرتّب کرنے اور فائنل امتحان لینے کی ذمے داری بھی چیمبرآف انڈسٹری کی ہوتی ہے، پاکستان میں بھی صنعتی شعبے کو یہ کردار اپنانے کے لیے اپنے آپ کو تیار کرنا ہوگا۔

(جاری ہے)

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں