جمہوریت اور پاکستان لازم و ملزوم

جمہوریت کی نفی کے لیے تمام وفاقی اکائیوں کی شناخت مٹانے کی سخت گیر حکمت عملی اختیار کی گئی۔

zahedahina@gmail.com

دور جدید میں جمہوریت دنیا کے ہر ملک کے لیے اہم ترین نظام حکومت ہے لیکن ایسے ملک بہت کم ہیں، جن کی بقا اور سلامتی کا انحصار ہی جمہوریت پر ہو۔ پاکستان بھی ایک ایسا ہی ملک ہے۔

یہاں یہ سوال اٹھایا جاسکتا ہے کہ پاکستان کے لیے جمہوریت فنا اور بقا کا مسئلہ کس طرح ہے؟ یہ وہ سوال ہے جس پر بحث سے عموماً گریز کیا جاتا ہے۔ ہمارے یہاں عموماً ذرایع ابلاغ میں جمہوریت کے حوالے سے منفی رجحانات پیش کیے جاتے ہیں۔ ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو اکیسویں صدی میں بھی ایک مہذب جمہوری سماج کے قیام کو ضروری خیال نہیں کرتے۔ ان کی نظر میں اس کا سبب یہ ہے کہ جمہوریت میں فیصلہ عوام کرتے ہیں جو ناخواندہ ہوتے ہیں اور کم پڑھے لکھے یا ناخواندہ لوگوں سے یہ توقع کیسے کی جائے کہ وہ درست فیصلے کرسکتے ہیں۔

یہ وہ لوگ ہیں جنھیں کاروبار مملکت چلانے کے لیے ہمیشہ کسی پارسا اور مسیحا کی ضرورت محسوس ہوتی ہے، وہ خم ٹھونک کر ایسے مرد آہن کے اقتدار میں آنے کی وکالت کرتے ہیں جو بندوق اٹھا کر ہر قسم کی ''برائیوں'' کا قلع قمع کردے۔ وہ یہ نہیں دیکھتے کہ جن ملکوں میں بھی انقلاب کے ذریعے پارسا اور مرد آہن برسراقتدار آئے ان ملکوں کا حشر بالآخر کیا ہوا۔ افسوس کہ ان لوگوں میں ہمارے محترم و مکرم ایدھی صاحب مرحوم بھی شامل تھے۔ وہ خدمت خلق کے شعبے میں ایک بے مثال فرد تھے لیکن یہ لازم تو نہیں تھا کہ وہ سیاست کے میدان میں بھی دیدۂ بینا رکھتے ہوں۔ ان کا یہ رویہ اس لیے تھا کہ وہ رات کی رات پاکستانیوں کے تمام دکھوں کا مداوا چاہتے تھے۔

ایدھی صاحب کا نام یہاں برسبیل تذکرہ آگیا۔ وہ ایک نیک طینت انسان تھے اور پاکستان کے لیے خوبصورت خواب دیکھتے تھے۔ ان کی بات ایک طرف رکھتے ہوئے ہم اپنے یہاں کے جمہوریت مخالف عناصر پر نگاہ کرتے ہیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ وہ جان بوجھ کر عوام سے یہ چھپانے کی کوشش کرتے ہیں کہ دنیا میں جو بھی غیر جمہوری انقلاب آیا یا لایا گیا اس نے آخرکار اس سماج کو تباہ و برباد کردیا۔ تاریخ پرایک نگاہ ڈالیں تو یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ ہر انقلاب تباہی اور ناکامی کو اپنے ساتھ لاتا ہے۔ یہ وہ سچ ہے جسے بہت کم لوگ قبول کرنے پر تیار ہوتے ہیں۔

ان دنوں پاکستان میں ایک مرتبہ پھر جمہوری عمل اور اس کے تسلسل کو ختم کرنے کی مہم اپنے عروج پر ہے۔ عوام کے مینڈیٹ کی عام تذلیل کی جارہی ہے اور عوام کے منتخب وزیراعظم کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔ کوئی یہ سوچنے کی زحمت بھی گوارا نہیں کرتا کہ یہ ایک ایسا خطرناک کھیل ہے جسے اگر نہ روکا گیا تو بہت جلد سب کچھ تباہ و برباد ہوجائے گا۔ اقتدار کی ہوس میں بے قرار لوگوں کو یہ کیسے سمجھایا جائے کہ جمہوریت میں ہی پاکستان کی بقا منحصر ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ پاکستان کرۂ ارض کی ان چند ریاستوں میں سے ایک ہے جس کی تخلیق ووٹ کے ذریعے ہوئی تھی۔

دنیا میں سیکڑوں ملک موجود ہیں لیکن وہ سب ہزاروں برس پرانی اپنی ایک تاریخی شناخت رکھتے ہیں۔ 1947 سے پہلے کی انسانی تاریخ اور جغرافیہ میں پاکستان نام کے کسی ملک کا کوئی وجود نہیں تھا۔ یہ ہندوستان کے مسلمان عوام کی بڑی تعداد تھی جنہوں نے اپنے ووٹوں کے ذریعے پاکستان کی تخلیق کی۔ مسلم ہندوستانی عوام کی اکثریت اور بطور خاص مشرقی بنگال میں رہنے والے مسلمان اگر پاکستان کے حق میں ووٹ نہ ڈالتے تو یہ ملک کبھی قائم نہیں ہوتا۔ لہٰذا اس نکتے کو ہرگز فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ عوام کی امنگوں کے احترام سے ہی پاکستان قائم اور دائم رہ سکتا ہے۔ دکھ کی بات ہے کہ اس اہم ترین نکتے کو 1947 کے بعد سے آج تک کبھی بھی تسلیم نہیں کیا گیا۔

اسے ستم ظریفی کے سوا اور کیا کہا جائے کہ ہندوستان کے مسلم عوام کی ایک بڑی تعداد نے اپنے ووٹوں سے پاکستان بنایا تھا لیکن پاکستان کی تشکیل کے فوراً بعد عوام کو بے شعور، ناخواندہ اور جاہل قرار دیا جانے لگا اور ان کے نمایندوں کی تضحیک کا ایک ختم نہ ہونے والا سلسلہ شروع ہوگیا جو آج بھی جاری ہے۔ کتنے لطف کی بات ہے کہ ملک بنانے کے لیے عوام کو استعمال کیا گیا لیکن ملک پر حکومت کرنے کے لیے ان کے حق کو تسلیم نہ کیا گیا۔ پاکستان کی تخلیق عوام نے کی لیکن اس پر حکمرانی چند طبقات اور اداروں نے کرنی شروع کردی۔ یہیں سے مسائل پیدا ہوئے جو وقت کے ساتھ ساتھ پیچیدہ ہوتے چلے گئے۔ یہ اسی رویے کا نتیجہ تھا کہ پورے ملک کی سلامتی خطرے میں پڑگئی۔


پاکستان کے لیے ووٹ ڈالنے والے مسلم عوام کا تعلق ہندوستان کے مختلف علاقوں اور صوبوں سے تھا۔ ان سب کی زبان، نسل، رہن سہن، معاشرت اور تہذیبی اقدار جداگانہ تھیں۔ معاشی ترقی کے لحاظ سے بھی ان میں یکسانیت نہیں تھی۔ کوئی علاقہ زیادہ ترقی یافتہ تھا تو کہیں پسماندگی اپنی بدترین شکل میں موجود تھی۔ کوئی خطہ زراعت میں بہت آگے تھا تو کہیں ہر سال سب کچھ سیلاب میں بہہ جاتا تھا اور لوگ فاقوں سے مرنے لگتے تھے۔

ہندوستان کے مسلمانوں نے اپنی تہذیبی، معاشرتی، لسانی، نسلی، مسلکی اور معاشی تنوع اور رنگا رنگی سے بالاتر ہوکر پاکستان کے حق میں ووٹ دیا تھا۔ تاہم، اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں تھا کہ وہ اپنی تہذیبی معاشرتی اور قومی شناخت سے دستبردار ہوگئے تھے۔ انھوں نے کبھی یہ تصور بھی نہیں کیا تھا کہ 14 اور 15اگست کے بعد راتوں رات ان کی جداگانہ شناخت ختم ہوجائے گی اور ریاست پاکستان کے تمام شہری ایک رنگ میں رنگ دیے جائیں گے۔ وہ اگر یہ جانتے تو شاید پاکستان کے حق میں کبھی ووٹ نہ ڈالتے جس کی تصدیق آگے چل کر بنگلہ دیش کی صورت میں ہوگئی۔

سوال یہ ابھرتا ہے کہ جداگانہ شناخت رکھنے والی قومیتوں کے مسلمانوں نے جب پاکستان کے حق میں ووٹ ڈالا تو پھر پاکستان کی بقا اور سلامتی کے لیے کیا کچھ کرنا، ناگزیر تھا؟ اس حوالے سے بنیادی اصول یہ اپنایا جانا چاہیے تھا کہ پاکستان کو مختلف قومیتوں کے ایک خوبصورت اور رنگا رنگ گلدستے کی صورت میں قائم رکھا جاتا اور اسے زیادہ سے زیادہ حسین اور دل کش بنایا دیا جاتا۔

یہاں یہ سوال اٹھتا ہے کہ یہ کام کیسے کیا جاسکتا تھا؟

یہ کام صرف جمہوریت اور زیادہ سے زیادہ صوبائی خودمختاری کے ذریعے ہی ممکن تھا۔ اس کے علاوہ کوئی دوسرا طریقہ موجود نہیں تھا۔ وہ عناصر جو غیر معمولی حد تک طاقت ور تھے، یہ ان کا، فرض تھا کہ وہ اس حقیقت کا ادراک کرتے کہ عوام کو حق حکمرانی دیے بغیر یہ ملک قائم نہیں رہ سکے گا۔ اس کی سامنے کی وجہ یہ تھی کہ ہندوستان کے مسلمان عوام نے اپنے حق حکمرانی کو نافذ کرنے کے لیے ہی یہ ملک تخلیق کیا تھا۔ پاکستان وجود میں آگیا تو پھر طاقت ور اداروں اور جاگیردار طبقات نے محض اپنے مفادات کے فروغ اور ریاست پر مطلق العنان حکمرانی کی خواہش کے باعث پاکستان کے عوام کو جمہوریت اور قومی حقوق سے محروم رکھا۔

پاکستان بنانے والے عوام کے حق حکمرانی کو تسلیم نہ کرنے اور جمہوریت کی نفی کرنے کے لیے مختلف نظریات ایجاد کیے گئے اور انھیں تقدس کا لبادہ پہنایا گیا۔ مثال کے طور پر یہ نظریہ پیش کیا گیا کہ پاکستان مختلف النوع قومیتوں اور مسلکوں کا ایک گلدستہ ہرگز نہیں ہے، کسی کی کوئی جداگانہ شناخت نہیں ہے بلکہ سب ایک قوم ہیں۔ جس نے بھی یہ کہا کہ ہم سب اپنی اپنی تاریخی و تہذیبی شناخت رکھنے کے باوجود ایک پاکستانی قوم ہیں، اسے غدار قرار دیا گیا۔

جمہوریت کی نفی کے لیے تمام وفاقی اکائیوں کی شناخت مٹانے کی سخت گیر حکمت عملی اختیار کی گئی۔ مشرقی پاکستان کے محب وطن بنگالی پاکستانیوں کی اکثریت کو کم کرنے کے لیے مساوات یا پیرٹی کا فارمولا جبراً نافذ کیا گیا۔ مغربی پاکستان کی وفاقی اکائیوں کی شناخت ختم کرنے کے لیے ون یونٹ کا نظام تھوپا گیا۔ یہ دونوں کام صرف پاکستان کے ثقافتی تنوع کو مٹانے کے لیے کیے گئے تھے حالانکہ اسی تنوع نے پاکستان کو جنم دیا تھا۔ تنوع کو مٹانے کا مقصد دراصل، پاکستان کو مٹانے کے مترادف تھا۔ (جاری ہے)
Load Next Story