الگ الگ قانون کیوں
سماج میں حکمران اپنے محفوظ اور پرتعیش محلات میں عام لوگوں کے مسائل سے بالکل بیگانہ اور بے نیاز ہیں
QUETTA:
بڑے سے بڑا واقعہ بھی وقت کی گرد میں دب تو جاتا ہے مگر معاشرے کی بلندی و پستی پر پڑے پردوں کو اٹھاکر حقیقت کو عیاں کرجاتا ہے۔کوئٹہ میں رکن صوبائی اسمبلی عبدالمجید اچکزئی کی گاڑی سے ٹریفک پولیس سارجنٹ عطاء اللہ کے جاں بحق ہونے اور اگلے ہی دنوں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنیوالے رکن قومی اسمبلی جمشید دستی پر تشدد کے واقعات نے اس حقیقت کو بے نقاب کردیا ہے کہ پاکستان میں امیر اور غریب کے لیے آج بھی الگ الگ قانون ہے اور وطن عزیز میں طبقاتی تقسیم خطرناک حد تک موجود ہے۔
ہم ترقی کے مدارج تو طے کررہے ہیں مگر کس قدر تلخ ہے یہ حقیقت کہ بالا دست طبقہ آج بھی محکوم، مجبور و تہی دست طبقے کے حقوق پامال کرکے اس کا استحصال کررہا ہے، امیر زادے، نواب، جاگیردار، سردار وڈیرے سرعام دندناتے پھر رہے ہیں، جب ان کا جی چاہتا ہے کسی بھی غریب شخص کو کیڑے مکوڑوں کی طرح مسل دیتے ہیں اور ستم ظریفی یہ ہے کہ قانون بھی انھیں اپنی گرفت میں نہیں لیتا، بااثر طبقات اپنی دولت کے بل بوتے پر مظلوموں کو انصاف کی فراہمی میں رکاوٹ ڈال کر یہ ثابت کرتے ہیں کہ یہ ملک صرف ان کا ہے اور غریبوں کا اس پر کوئی حق نہیں۔
20 جون کو کوئٹہ شہر کے زرغون روڈ پر ایک گاڑی نے ٹریفک پولیس سارجنٹ کو کچل دیا، وہ گاڑی ایم پی اے عبدالمجید اچکزئی کی تھی، پولیس نے روایت برقرار رکھتے ہوئے ابتداء میں نامعلوم افراد کے خلاف مقدمہ درج کیا، جب سی سی ٹی وی فوٹیج میڈیا کی زینت بنی تو ان کی گرفتاری عمل میں آئی، بغیرہتھکڑی کے کورٹ میں پیش کیا گیا یعنی کہ پولیس نے انھیں ملزم سمجھا ہی نہیں، پہلے جوڈیشل کسٹڈی دیدی گئی.
میڈیا نے معاملے کو اٹھایا تو چیف جسٹس سپریم کورٹ نے نوٹس لیا، جس کے بعد جسمانی ریمانڈ لیا گیا اور پھر حقیقتیں آشکار ہونے لگیں کہ مجید اچکزئی 1992 میں کوئٹہ کے تاجر عبدالغفار کے قتل اور 2009 میں سیٹلائٹ ٹاؤن تھانے میں درج اغوا کے مقدمے میں بھی نامزد ہے، وہ اپنے قبیلے کے سردار ہیں اور بالا دست طبقے سے تعلق رکھتے ہیں، اس لیے انھیں جیل میں بھی وی آئی پی پروٹوکول فراہم کیا جارہا ہے، ان کے شاہانہ مزاج کو دیکھتے ہوئے حراست میں بھی ایئر کولر فراہم کیا گیا جب کہ ورثاء سے اظہار تعزیت کے لیے آنیوالے بااثر افراد نے یتیم بچوں کو عیدی دینے کے بہانے ناخواندہ والد اور بیوہ سے سادہ کاغذ پر انگوٹھے لگوالیے اور سادہ کاغذ پر ایک جعلی صلح نامہ تحریر کرکے ملزم کو بچانے کا ڈراما بھی رچایا ، جسے ورثا نے مسترد کردیا ہے۔
اس کے برعکس سرائیکی علاقے کے ایک رکن قومی اسمبلی جمشید دستی کو خاموش کرانے کے لیے بالا دست طبقہ قانون کو استعمال کررہا ہے، جمشید دستی کے خلاف اشتعال انگیز تقریر کرنے سمیت مختلف مقدمات درج کرکے پابند سلاسل کیا گیا، پنجاب کے مختلف اضلاع میں جمشید دستی کے خلاف ایک درجن سے زائد مقدمات درج ہیں، بقول جمشید دستی کے جیل میں انھیں تشدد کا نشانہ بنایا گیا، سانپ و بچھو چھوڑے گئے، کھانا بند کیا گیا، پینے کے لیے ناپاک پانی دیا گیا، ان کے وکلاء ضمانت کے لیے ڈیرہ غازی خان پہنچے تو بتایا گیا کہ انھیں سرگودھا منتقل کردیا گیا ہے۔
اس کا اصل جرم شاید یہ ہے کہ وہ کمزور طبقہ سے تعلق رکھتا ہے، وزیر اعظم نواز شریف بجٹ اجلاس کے لیے قومی اسمبلی میں آئے تو جمشید دستی نے بجٹ پر احتجاج کیا تھا اور اس کی کاپیاں پھاڑ کر گو نواز گو کا نعرہ بلند کیا تھا۔ وہ رکن قومی اسمبلی تو ہے مگر اس کا تعلق کسی بڑے زمیندار گھرانے سے نہیں اور نہ ہی وہ اپنے قبیلے کا سردار ہے، اس کی پشت پر کوئی بڑی سیاسی جماعت نہیں، اس لیے اس کے ساتھ یہ سلوک روا رکھا گیا، ماضی میں ڈکٹیٹر کے زمانے میں اس طرح کے واقعات منظر عام پر آیا کرتے تھے.
مسلم لیگ (ن) کے کئی رہنما بھی عتاب کا نشانہ بنے تاہم جب سے عدلیہ آزاد ہوئی، میڈیا کا کردار بڑھا اور سیاسی عمل کچھ مضبوط ہوا تو یہ توقع کی جارہی تھی کہ ماضی کے یہ مناظر اب دیکھنے کو نہیں ملیں گے، یہ وہی جمشید دستی ہے، جب وزیر اعظم کے لیے اعتماد کا ووٹ چاہیے تھا تو حکمراں جماعت کے وزراء اس کے آگے پیچھے گھوم رہے تھے، ووٹ مل گیا تو کسی نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا، ہمارے حکمراں بھی عجیب ہے کہ طاقتور سے معافی تلافی کرلیتے ہیں اور طاقت ملتے ہی بے رحم بن جاتے ہیں، یعنی مشکل میں ہوتے ہیں تو پاؤں پکڑ لیتے ہیں اور اقتدار حاصل کرتے ہی گلہ دبانے کی کوشش کرتے ہیں۔
جمشید دستی کو رہا کیا جاچکا ہے جب کہ عبدالمجید اچکزئی گرفتار ہے، دونوں کے مقدمات عدالتوں میں زیر سماعت ہیں، ، دیکھنا یہ ہے کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔ مذکورہ دونوں واقعات یہ ثابت کرتے ہیں کہ پاکستان میں قانون کمزوروں کے لیے ہے، طاقتور لوگوں کے لیے نہیں ، ماضی میں شاہ زیب اور زین قتل کیس میں بھی ایسے ہی مناظر دیکھنے کو ملے تھے، شاہ زیب قتل کا مرکزی ملزم شاہ رخ جتوئی تو عمر قید کی سزا بھی کاٹ رہا ہے، جس کے بارے میں یہ اطلاعات ہیں کہ وہ اپنا زیادہ تر وقت جیل کے بجائے گھر پر گزارتا ہے۔
حکومت کی ذمے داری ہے کہ عدلیہ کے فیصلوں پر عملدرآمد کو یقینی بنایا جائے اگر شاہ رخ جتوئی جیل میں نہیں اور گھر پر وقت گزار رہا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ قانون کی حکمرانی میں سقم ہے، جس کی تمام تر ذمے داری انتظامیہ پر عائد ہوتی ہے۔ اسی طرح زین کے قاتل بھی مصطفی کانجو کو بھی شواہد نہ ملنے کی بنیاد پر رہا کردیا گیا، حقیقت سے سب آگاہ ہے کہ مقتول کی والدہ نے روتے ہوئے عدالت کو بتایا تھا کہ میں یہ مقدمہ مزید نہیں لڑ سکتی کیونکہ میری جوان بچیاں ہیں اور ملزمان بااثر ہیں۔ زیادہ دور کیوں جائیں، خیبرپختونخواہ میں طالبعلم مشال خان کے قتل کے بعد اس کے ورثاء کو کس قسم کے دباؤ کا سامنا کرنا پڑرہا ہے وہ بھی سب کے علم میں ہے۔
بدقسمتی سے پاکستانی معاشرے میں طبقاتی تقسیم گہری ہوتی چلی جارہی ہے، یہاں کی اشرافیہ نے کمزور طبقات کو اپنے شکنجوں میں جکڑا ہوا ہے، اب ملک کے اندر واضح طور پر دو طرح کے نظام کا مشاہدہ کیا جاسکتا ہے، حکومت کے فیصلے اور احکامات ہر طبقے کے لیے مختلف ہیں، امیر آدمی کے لیے اب قتل کرنا بھی کوئی مسئلہ نہیں رہا، زمین پر فساد کو روکنے کے لیے شریعت نے جو سنہری اصول بنائے ہیں انھیں بھی بااثر افراد اپنے مفادات کے لیے استعمال کررہے ہیں، سماج میں حکمران اپنے محفوظ اور پرتعیش محلات میں عام لوگوں کے مسائل سے بالکل بیگانہ اور بے نیاز ہیں، حکمران ریاستی جبر کے ذریعے اپنی طبقاتی بالا دستی قائم رکھے ہوئے ہیں، عوام، غربت، بھوک اور افلاس کی گہرائیوں میں غرق ہورہے ہیں۔
اس کی روک تھام کے لیے پاکستان کے تمام طبقات کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا ہونا پڑے گا، ایک سوچ اور ایک فکر اپنانا ہوگی کیونکہ طبقاتی تفریق کو ختم کیے بغیر معاشرے میں حقیقی خوشیوں کا خواب نہیں دیکھا جاسکتا، سب سے بھاری ذمے داری حکمرانوں پر عائد ہوتی ہے کہ وہ مختلف طبقوں میں گہری ہوتی خلیج کو کم سے کم کریں اور ملک میں یکساں نظام تعلیم رائج کریں، مساوی بنیادی حقوق اور قانون سب کے لیے یکساںکا نظام نافذ کریں، ٹریفک پولیس سارجنٹ عطاء اللہ کے ورثاء نے اعلان کیا ہے کہ قصاص یا دیت وصول نہیں کرینگے، انصاف چاہیے، ملک میں انصاف و قانون کی حکمرانی کی بالا دستی کے لیے ضروری ہے کہ عبدالمجید اچکزئی کو مثال بنادیا جائے تاکہ کوئی بھی طاقت اور اقتدار کے نشے میں عوام کی جانوں سے نہ کھیل سکے جب کہ جمشید دستی پر تشدد کی شفاف تحقیقات کراکر ملوث افراد کو قرار واقعی سزا دی جائے۔