کچھ دن ہم نے گھیرا ڈالا
یہ جو وقت اچھا یا برا اس ملک پر آیا ہے، یہ قصہ بہت پرانا ہے۔
پاناما کا ہنگامہ برپا ہے۔ جے آئی ٹی کا چرچا ہے۔ ملک کا سب سے بڑا شہر کراچی مکمل تباہ ہوچکا، شہر میں بغیر کلورین پانی دیا جا رہا ہے۔ سب کے مہنگے علاقے کے ڈی اے اسکیم سے نگلیریا جیسے جان لیوا کیڑوں کی موجودگی کا پتا چلا ہے۔ یہ کیڑا ناک میں پانی ڈالنے سے دماغ میں جاکر اسے چاٹ لیتا ہے اور مریض جھٹ پٹ مر جاتا ہے۔ ڈینگی اور چکن گنیا بھی شہر میں موجود ہیں۔ پورے شہر میں قدم قدم پر کچرے کے ڈھیر ہیں اور ٹوٹی سڑکوں پر بہتا گندا پانی ہے۔
اتنے برے حالات تو کبھی نہیں تھے۔ حکمرانوں کے وہی رنگ ڈھنگ ہیں۔ حکمرانوں نے کبھی سوچا بھی نہ ہوگا کہ عدالت عظمیٰ ایسا فیصلہ سنائے گی۔ پانچ ججوں میں سے تین نے مزید تحقیقات کا کہا اور دو ججوں نے خلاف فیصلہ دیا۔ مگر پانچوں جج صاحبان نے مزید چھان بین کے لیے جے آئی ٹی بناکر اس کے سپرد مزید تحقیقات کا حکم صادر کردیا۔ جے آئی ٹی کو اپنا کام 60 روز میں مکمل کرنے کی ہدایت بھی دے دی۔ جے آئی ٹی کے چھ ارکان نے بلاناغہ دن رات کام کرکے مقررہ وقت 60 دنوں میں اپنا کام مکمل کیا اور اپنی رپورٹ عدالت عظمیٰ میں پیش کردی۔ ملک کے چنیدہ چھ ارکان جے آئی ٹی کے سامنے وزیراعظم نواز شریف، ان کے بیٹے حسین نواز، حسن نواز، بیٹی مریم صفدر، داماد کیپٹن صفدر، بھائی وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف و دیگر لوگ پیش ہوئے۔
یہ سب کیا ہوگیا؟ کیسے ہوگیا؟ کیوں ہوگیا؟ پاکستان کے عوام حیران ہیں۔ عوام صرف حیران ہیں اور ''خواص'' پریشان بھی ہیں۔
عدالت عظمیٰ کے چیف جسٹس صاحب نے یہ کہہ کر خواص کو مزید پریشان کردیا ہے۔ انھوں نے عمران خان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ہے ''عمران خان کہتے ہیں چوری پکڑی جانی چاہیے، تو آپ کی منی ٹریل بھی مکمل نہیں ہے۔ بنی گالہ کے 144 کنال کے گھر کے لیے پیسے کہاں سے آئے؟''
چیف جسٹس عدالت عظمیٰ کا بیان تمام لوٹ مار اور چور ''خواص'' کی سمجھ میں خوب آرہا ہے۔ تمام تیار رہیں۔ اب سب کی باری آئے گی۔
یہ جو وقت اچھا یا برا اس ملک پر آیا ہے، یہ قصہ بہت پرانا ہے۔ دو چار دنوں کی بات نہیں۔ اتنی بے خوف جے آئی ٹی، یہ دلیری، یہ بے خوفی، عوام کی طاقت کا سرچشمہ ہے۔ اور بہت کچھ ان آہوں، آنسوؤں کا اثر ہے۔ جاگیرداروں، وڈیروں، سرداروں، خانوں، مجاوروں کے انسانیت سوز مظالم، آخر بے آواز لاٹھی پوری آواز کے ساتھ چل نکلی۔ اب یہ لاٹھی رکنے والی نہیں۔ یہ لاٹھی تمام زمینی خداؤں کا خاتمہ کرکے ہی رکے گی۔ اللہ کی لاٹھی روز روز نہیں چلتی، اس لاٹھی کے چلنے کے پیچھے عرش ہلا دینے والی چیخیں ہوتی ہیں۔
بہرحال جے آئی ٹی کی رپورٹ آچکی، اب اس رپورٹ کے مطابق عدالت عظمیٰ فریقین کو سن رہی ہے ، اور پھر فیصلہ آجائے گا۔
یہ جو وقت آیا ہوا ہے اس وقت میں جاوید ہاشمی کی دھوئیں نکال دینے والی پریس کانفرنس بھی آگئی ہے۔ پورے ملک کے عوام و خواص نے وہ کانفرنس سنی۔اللہ اکبر! یہ بھی ہونا تھا، جس بے باکی کے ساتھ جاوید ہاشمی بولے ہیں۔ ایسا کبھی سوچا بھی نہ تھا۔ وہ بولے ''یہ جن کی انگلی اٹھ جائے تو پورا ملک ہل جاتا ہے، آخر ان کا احتساب کون کرے گا، کب کرے گا، جن کی جائیدادیں آسٹریلیا، نیوزی لینڈ اور دیگر ممالک میں ہیں ''
جاوید ہاشمی نے جو کہا سو کہا مگر یہ جرأت، یہ حوصلہ، یہ طاقت، یہ سب کیسے ہوا۔ میں پھر کہوں گا تجزیہ نگار صاحبان جو چاہیں تجزیہ کریں، آخر نتیجہ یہی نکلے گا کہ یہ سب عوام کا دیا ہوا حوصلہ، طاقت اور جرأت ہے۔ یہاں میں جاوید ہاشمی صاحب کو بھی ان کی رندانہ جرأت پر تحسین کا نذرانہ پیش کروں گا۔ ورنہ اس بڑھاپے کے باوجود بھی ''خوشامد پیشہ'' لوگ اپنی غلیظ حرکتوں سے باز نہیں رہتے۔ بڑے بڑے نامور لوگ مجھے یاد آرہے ہیں، جالب نے ایسے ہی خوشامد پیشہ بزرگوں کے بارے میں کہا تھا:
لحد میں پاؤں ہیں اور مر رہے ہیں
مگر پھر بھی خوشامد کر رہے ہیں
الٰہی یہ معمر اہل حاجت
ترے بندوں سے کتنا ڈر رہے ہیں
اب یہ جاوید ہاشمی جانے یا تجزیہ نگار کہ جاوید ہاشمی نے یہ پریس کانفرنس کیوں کی، جو بھی ہے مگر جاوید ہاشمی کھل کر سب کہہ گیا۔
میں پھر کہوں گا یہ جو ''وقت'' بول رہا ہے۔ یہ سب مکافات عمل ہے۔ کس کس ظلم کا ذکر کروں۔ سب جانتے ہیں، کس کس نے کیا کیا کیا۔ بنگال کے پروفیسر مظفر حسین شہید سہروردی، حسن ناصر، حمید بلوچ، نذیر عباسی، نازش امروہوی، حسن حمیدی، ڈاکٹر اعزاز نذیر، خالد علیگ، لالہ لعل بخش رند، گل خان نصیر، بیگم نسیم شمیم ، اشرف ملک، غیاث الدین جانباز، سردار نوروز اور ان کے بیٹے ، ساتھی، میر غوث بخش بزنجو، مالک بلوچ ، پروفیسر امین مغل، نثار عثمانی، جام ساقی، حیدر بخش جتوئی، محترمہ فاطمہ جناح، معراج محمد خان، حبیب جالب و دیگر ایسے ہی بے لوث لوگ ہیں کہ جن کی قربانیوں کے صلے میں یہ ''وقت'' عوام کو نصیب ہوا۔ یہ سب عوام کا غیظ و غضب ہے۔ جس کا سامنا ہر ظالم کر رہا ہے اور باقی ظالم بھی کریں گے۔ آخر میں جالب کے چند مصرعوں پر مشتمل نظم:
گھیراؤ
صدیوں سے گھیراؤ میں ہم تھے، ہمیں بچانے کوئی نہ آیا
کچھ دن ہم نے گھیرا ڈالا، ہر ظالم نے شور مچایا
پھر ہم نے زنجیریں پہنی، ہر سو پھیلا چپ کا سایا
پھر توڑیں گے ہم زنجیریں، ہر لب کو آزاد کریں گے
جان پہ اپنی کھیل کے پھر ہم شہرِ وفا آباد کریں گے
آخر کب تک چند گھرانے لوگوں پر بیداد کریں گے