اصلیت نہیں چھپتی

میر صاحبان اور ان کا رہن سہن ہی یکساں نہیں طور طریقے اور انداز بھی ایک جیسے ہیں


سردار قریشی July 19, 2017

شکار پورکے اچار کی طرح، جو ملک ہی نہیں دنیا بھر میں مشہور ہے، وہاں شادیوں میں دیا جانے والا جہیز بھی اپنی الگ پہچان اور انفرادیت رکھتا ہے۔ آج کی کہانی اسی جہیزکے ایک آئٹم سے متعلق ہے۔ انگریزی راج میں، زیریں سندھ ( لاڑ ) کے سب سے بڑے جاگیردار، میر محمدبخش خان تالپور کے لیے کہتے ہیں کہ نہایت سادہ مزاج، خدا ترس اور درویش صفت انسان تھے۔ ان کے کوئی اولاد نہیں تھی جس کی خاطر انھوں نے اپنے مرشد کے حکم پر دوکام کیے، ایک تو اپنی جاگیر کے صدر مقام ٹنڈوغلام علی ( ضلع بدین ) میں امام بارگاہ کی بنیاد رکھی اور دوسرا کام یہ کیا کہ شکارپور کے پٹھانوں میں دوسری شادی کرلی، لیکن بدقسمتی سے اولاد کی نعمت سے پھر بھی محروم ہی رہے اور اس کی حسرت دل میں لیے دنیا سے کوچ کرگئے۔

میر صاحب کو سالے اور سالی کی ایک جوڑی جہیز میں ملی تھی، غیر شادی شدہ سالی کو تو انھوں نے اپنی حویلی ( دیرے ) میں انیکسی بنوا کر ساتھ ہی رکھا جب کہ سالے کو انھیں اپنی حویلی کے سامنے الگ گھر بنوا کر دینا پڑا کیونکہ موصوف ایک تو ڈبل شادی شدہ ( دو بیویوں والے ) تھے اور دوسرے ان کے لچھن ایسے نہ تھے کہ انھیں ساتھ رکھا جاتا، ورنہ حویلی کے صحن میں اتنی جگہ تھی کہ مزید دو تین انیکسیاں تعمیر ہوسکتی تھیں ۔ بلا کے مے نوش اور ہر وقت ٹن رہنے والے آدمی تھے، کمانے اور گھر والوں کی فکر سے آزاد تھے کہ ان کا گھر اپنے شایان شان چلانا بہن کے ذمے تھا جن کے جہیز میں آئے تھے۔

صبح گھر سے پی کر نکلتے اور لوٹتے تو بھی پیئے ہوئے ہوتے، فرق صرف اتنا ہوتا کہ جاتے وقت چونکہ زیادہ چڑھی ہوئی نہ ہوتی تھی اس لیے خود چل کر چلے جاتے تھے البتہ واپسی میں گھر تک انھیں سہارے کے لیے دوآدمیوں کے کندھوں کی ضرورت پڑتی تھی۔

گھر سے نکل کر سیدھا مے خانے پہنچتے جو ''گتّہ'' کہلاتا تھا، اور دن بھر بیٹھے پیتے رہتے، بہن سے خرچہ اتنا کھلا ملتا تھا کہ اپنے خوشامدیوں اور جی حضوریوں کو بھی عیش کراتے۔ اس زمانے میں ان جیسے لوگوں کا پسندیدہ کھیل مرغے لڑانا اور مرغوں کی لڑائی دیکھنا ہوا کرتا تھا جس کے لیے ہفتے کا ایک دن مقرر ہوتا، لوگ اپنے پالے اور سدھائے ہوئے مرغے لے کر میدان میں پہنچتے، جنھیں شرطیں لگا کر لڑایا جاتا، تماشائی بھی اپنی پسند کے مرغوں پر سٹہ لگا کر جوا کھیلتے، جس دن یہ کھیل دیکھنے آتے اس روز ان کے بیٹھنے کے لیے خاص طور پر ایک چارپائی لائی جاتی جس پر یہ چوڑے ہوکر بیٹھتے، مرغوں کی لڑائی سے لطف اندوز ہونے کے ساتھ ساتھ مے نوشی کا شغل بھی جاری رکھتے۔ کسی مرغے پر دل آجاتا تو اس پر خود بھی سٹہ کھیلتے، ہار جاتے تو نہ صرف مرغے کے مالک کی اپنے چمچوں سے پٹائی کرواتے بلکہ اس بیچارے کو ان کے سامنے اپنا مرغا ذبح بھی کرنا پڑتا تھا جو اس کے لیے اپنی بے عزتی برداشت کرنے سے بھی زیادہ تکلیف دہ عمل ہوتا۔

شاید جنم لیتے وقت مرتے مرتے بچے تھے اس لیے والدین نے ان کا نام اللہ ورایو یعنی اللہ نے لوٹایا رکھا تھا۔ میر صاحب سے رشتے داری کے بعد ان کے لیے بھی معززومعتبر کہلانا ضروری ہوگیا تھا، سو انھوں نے نام کے ساتھ آغا کی دم لگا لی اور ترقی کرکے آغا اللہ ورایو بن گئے، لیکن وہ جو کہتے ہیں نا کہ اصلیت چھپائے نہیں چھپتی، سو لوگوں کو یہ پتہ لگنے میں زیادہ دیر نہیں لگی کہ کتنے شریف اور خاندانی لوگ ہیں۔

میر صاحبان تو اپنے کوٹ، ڈیروں اور بنگلوں سے باہر نکلتے نہیں تھے کہ ان کے لچھن دیکھ پاتے نہ ہی لوگوں کو ایسی پڑی تھی کہ جاکر انھیں موصوف کی کارستانیوں سے آگاہ کرتے۔ ویسے بھی 50 کے عشرے تک ٹنڈو غلام علی شہر نہیں، چھوٹا سا ایک قصبہ ( ٹاؤن ) تھا جس کے اس زمانے کے نئے بازار کے مشرقی سرے پر خشک ندی ( بھڈے ) پہ گول دروازوں والا پختہ اینٹوں کا پل بنا ہوا تھا، لوگ گھنے برگد کی چھاؤں میں اس پل کی منڈیر پر بیٹھ کر ہوا کھاتے تھے۔ بھڈے کے پیٹ میں ایک جسم فروش طوائف کی جھونپڑی ہوا کرتی تھی، دو بیویوں والے یہ معزز آغا اللہ ورایو اکثر وہاں رنگ رلیاں مناتے پائے جاتے تھے۔

اس واقعے کا ذکر تو لوگ مزے لے لے کر لیا کرتے تھے جب ایک دفعہ موصوف نئے بازارکے ایک ہوٹل میں دن دہاڑے بیٹھے مے نوشی فرما رہے تھے کہ ایک با وردی پولیس والا سرکاری رائفل لیے وہاں سے گذرا، انھوں نے ترنگ میں اسے بلا کر سامنے بٹھا لیا اور کھلی ہوئی بوتل آگے کردی، وہ بھی جس کام سے جا رہا تھا، بھول کر دو تین گلاس غٹا غٹ چڑھا گیا۔

نشہ چڑھا تو انھیں مذاق کی سوجھی، سپاھی سے پوچھا بندوق اصلی ہے کہ نقلی، اس نے جواب دیا اصلی تو کہا جھوٹ مت بولو، سچ سچ بتاؤ، سپاھی نے قسم کھا کے یقین دلایا تو بولے اچھا یہ بتاؤ خالی ہے کہ بھری ہوئی، اس نے جواب دیا بھری ہوئی ہے تو پھر پہلے کی طرح کہا جھوٹ مت بولو، ان کے یہ بولنے کی دیر تھی کہ سپاھی کا متھا گھوم گیا، ان پر رائفل تان کر بولا بتاؤں تمہیں کہ سچ بول رہا ہوں یا جھوٹ اور ان کے پیٹ کا نشانہ لے کر ٹریگر دبا دیا۔ وہ تو اچھا ہوا نشے میں ہونے کی وجہ سے نشانہ چوک گیا اور گولی پیٹ کی بجائے ران میں لگی اور تو کچھ نہیں ہوا، بہن کے مال پر پلے ہوئے سانڈ جیسے شکار پوری جہیز کے اس موٹے تازے آئٹم کا کلو بھر گوشت ضایع ہوگیا، وہ بھی ران کا۔

پولیس والے کی نوکری تو گئی ہی، جیل کی ہوا بھی کھانی پڑی جب کہ میر صاحبان سے رشتے داری کی وجہ سے جیسے شراب نوشی، سٹہ بازی، جوا اور زنا کاری پر ان سے باز پرس کرنے والا کوئی نہ تھا، ویسے یہ معاملہ بھی نظراندازکردیا گیا۔ یہ تو اچھا ہوا کہ گولی انھیں لگی، سپاہی کو لگی ہوتی اور وہ مر بھی گیا ہوتا تب بھی کچھ نہ ہوتا۔ بیویاں دو لیکن ایک بیٹے کے سوا اور کوئی اولاد نہ تھی۔ بیٹا باپ کی طرح بگڑا ہوا نہ تھا، بس ایک خامی تھی کہ اعلیٰ تعلیم حاصل نہیں کر سکا، اس کے مشاغل میں نماز پڑھنا اور والی بال کھیلنا شامل تھا، غالباً اللہ ڈنو نام تھا یعنی اللہ نے دیا اور باپ کی طرح آغا کہلاتا تھا۔ ہاں، یاد آیا سکھر کے قاری عیسیٰ کو بلواکر، جو عالم دین اور شعلہ بیان مقرر تھے، جلسے کروانا بھی ان کی ہابی تھی۔

بن ٹھن کے نکلتے اور فکرمعاش سے آزاد زندگی بسرکرتے تھے۔ باپ کے مرنے کے بعد انھیں بھی ہماری آپ کی طرح آٹے دال کے بھاؤ کا پتہ چل جاتا اگر پھوپھی نہ ہوتیں۔ وہ جس طرح زندگی میں بھائی اور اس کے ٹبرکو کھلا خرچہ دیتی تھیں ویسا ہی اپنے بعد اکلوتے بھتیجے اور اس کے بچوں کے آسودہ مستقبل کے لیے بھی انتظام کرگئیں، گھر تو ان کے پاس پہلے سے تھا مرحوم شوہر کا بنگلہ بھی بھتیجے کو دے دیا، جو پہلے بڑے میرکا بنگلہ مشہور تھا، اب آغا کا بنگلہ کہلانے لگا۔ جن کے پاس ایک ایکڑ زرعی زمین بھی نہیں تھی راتوں رات شہر سے متصل اور لب سڑک کروڑوں روپے مالیت کی کئی سو ایکڑ زمین کے مالک بن گئے، سنتے ہیں ان کی پانچوں گھی میں ہیں، عیش کرتے ہیں، ٹور دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے، میر صاحبان اور ان کا رہن سہن ہی یکساں نہیں طور طریقے اور انداز بھی ایک جیسے ہیں،کچھ بعید نہیں کہ آگے چل کر یہ بھی میر کہلانے لگیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں