خان بہادر محمد ایوب کھوڑو
ایوب کھوڑو شروع سے مسلم لیگ کے ساتھ رہے اور مرنے تک اسی کے ساتھ اپنا ناتا جوڑے رکھا۔
سندھ میں کئی مہان شخصیات پیدا ہوئی ہیں جن میں لاڑکانہ کو کافی اہمیت حاصل رہی ہے۔ محمد ایوب کھوڑو بھی لاڑکانہ کی ایک ایسی شخصیت ہیں جنھیں بھلا دینا صحیح نہیں ہوگا، ان کی خدمات بہت ساری ہیں مگر اس کی ایک غلطی کی وجہ سے انھیں تاریخ میں بھلادیا گیا ہے۔ وہ غلطی بھی بہت بڑی تھی جس کی وجہ سے سندھ کو کافی نقصان ہوا، لیکن ایک غلطی کو لے کر اس کی باقی اچھائیوں کو بھلا دینا ٹھیک نہیں ہے۔ میں پڑھنے والوں کو اس کی خدمات کے بارے میں بتانا چاہتا ہوں کہ وہ اچھے اور نیک انسان تھے جسے اپنے مذہب اور انسانیت سے پیار تھا اور وہ کئی تحریکوں میں حصہ لے کر پاکستان بننے سے لے کر سندھ کی بمبئی ریزیڈنسی سے علیحدگی کے ساتھ بڑے کارنامے انجام دے چکے ہیں۔
مسلم لیگ کے بنیادی لیڈروں میں سے ایک تھے، وائس پریزیڈنٹ سندھ مسلم لیگ کے طور پر کام کرتے رہے جب سر عبداللہ ہارون کا انتقال ہوا تو انھیں صدر کے عہدے پر فائز کیا گیا۔ اس کے علاوہ وہ آل انڈیا مسلم لیگ کمیٹی کے ممبر 1943 سے 1947 تک رہے۔ وہ 1924 میں بمبئی لیجسلیٹو کونسل کے ممبر منتخب ہوئے جہاں پر 1936 تک اپنا کردار ادا کرتے رہے۔ کھوڑو بڑے اچھے مقرر تھے اور ان کی جذباتی تقریریں لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کردیتی تھیں۔ وہ سندھی مسلمانوں کے ساتھ ہونے والی ناانصافی اور زیادتیوں کے خلاف ہمیشہ آواز اٹھاتے رہتے تھے۔
انھیں سندھ محمڈین ایسوسی ایشن کا نائب صدر بنایا گیا جس کے ساتھ وہ سندھ آزاد کانفرنس کے بھی نائب صدر کے منصب کے فرائض 1928 سے 1935 تک انجام دیتے رہے۔ انھوں نے سندھ کو بمبئی ریزیڈنسی سے الگ کروانے میں بھی اپنا کردار بھرپور طریقے سے ادا کیا اور اس سلسلے میں انھوں نے جذباتی اور قانونی تقاریرکرکے برٹش سرکار کو باور کرایا کہ سندھ صوبے کی حیثیت بحال کی جائے۔ وہ ایک سچے محب وطن اور سیاسی سوجھ بوجھ رکھنے والے سیاستدان تھے ۔ جب سندھ کی صوبائی حیثیت بحال ہوئی تو ایوب کھوڑو کو انتظامی کمیٹی کا ممبر بنایا گیا جسے Advisory Committee کہتے تھے جسے گورنر سندھ نے تشکیل دیا تھا۔
جب صوبے میں 1937 میں الیکشن ہوئے تو وہ اسمبلی کے ممبر منتخب ہوئے، جب سر ہدایت اللہ سندھ کے وزیر اعلیٰ بنے تو انھیں ڈپٹی چیف منسٹر بنایا گیا۔ جب پاکستان بن گیا تو کھوڑو صوبہ سندھ کے پہلے وزیر اعلیٰ بن گئے جنھیں سندھ کے لوگوں کی بھرپور حمایت حاصل تھی جس کی وجہ سے وہ ایک طاقت ور وزیراعلیٰ کے طور پر کام کرنے لگے۔ کبھی تو وہ اس حد تک طاقت کا مظاہرہ کرتے کہ وزیر اعظم اور گورنر سندھ کے احکامات بھی نظرانداز کردیتے۔ اس کی وجہ سے گورنر سندھ سر غلام حسین ہدایت اللہ اور ان کے درمیان اختلاف بڑھ گئے اور گورنر نے 26 اپریل 1948 کو ان کو برطرف کردیا جس میں گورنر جنرل قائد اعظم کی رضامندی شامل تھی۔ کھوڑو پر تین سال تک سیاست میں حصہ لینے پر بھی پابندی عائد کی گئی اور ان پر مقدمہ درج کرکے انھیں جیل بھیج دیا گیا۔
جب 25 مارچ 1951 پر انھیں دوبارہ وزیر اعلیٰ بنایا گیا جس میں انھوں نے ایک ایسی غلطی کی جس کو ان کی تباہ کن سیاسی غلطی کہا جاسکتا ہے ، جس نے سندھ کے عوام کے دلوں میں ان کے لیے پیدا کی ہوئی جگہ خالی کردی۔ 29 دسمبر 1952 کو گورنر جنرل غلام محمد نے کھوڑو کی حکومت برطرف کر کے صوبے میں گورنر راج قائم کردیا اور ایوب کھوڑو پر دوبارہ تین سال تک سیاست میں حصہ لینے پر پابندی لگا دی گئی۔
جب 1954 میں سندھ کے انٹیریئر وزیر اعلیٰ عبدالستار پیرزادہ تھے انھیں گورنر جنرل نے کہا کہ وہ سندھ اسمبلی سے ون یونٹ بنانے کے لیے قرارداد پاس کروائیں، ان کے انکار پر پیرزادہ کو وزیر اعلیٰ کے عہدے سے 9 نومبر 1954 کو برطرف کردیا گیا۔ اب محمد ایوب کھوڑو کو اس کام کے لیے اثر و رسوخ لگا کر انھیں راضی کیا گیا اور ان پر سے ABDO ختم کرکے رہا کیا گیا اور وزیر اعلیٰ کے عہدے پر فائز کرکے ان سے ون یونٹ بنوانے کی قرارداد سندھ اسمبلی سے پاس کروالی گئی۔ ون یونٹ کی قرارداد 11 دسمبر 1954 میں پاس ہوگئی جس کی وجہ سے ایک بار پھر سندھ سے صوبے کا رائٹ چھین لیا گیا ۔
اس کام کے کرنے پر کھوڑو کو مرکز یعنی ون یونٹ میں وفاقی وزیر بنا دیا گیا۔ فیروز الدین نون کی حکومت میں ایوب کھوڑو وزیر دفاع بن گئے۔ جب جنرل محمد ایوب خان نے ملک میں مارشل لا لگایا تو ایوب کھوڑو کو گرفتار کرکے جیل بھیجا گیا اور دو سال کی سزا دی گئی۔ انھوں نے مسجد، منزگاہ کے جھگڑے میں بڑا اہم رول ادا کیا تھا، یہ جھگڑا ہندو اور مسلمانوں کے درمیان میں پیدا ہوگیا تھا، سکھر میں مسجد کی حدود میں موجود جگہ پر انگریزوں کی مدد سے یہ کہا جا رہا تھا کہ وہ جگہ مندر کی ہے جس میں کافی خون خرابہ ہوا تھا۔ جو کمیٹی بنی تھی کہ مسئلے کو حل کیا جائے اس کے وہ چیئرمین تھے اور مسلمانوں کے حق میں اس کمیٹی کی طرف سے ایک موومنٹ چل گئی تھی۔
کھوڑو سر بندہ علی کی کیبنٹ میں بھی وزیرکے طور پر اپنے فرائض انجام دے چکے تھے اور وہ زمانہ 1940 کا تھا جب پاکستان کے بارے میں قرارداد پیش ہو رہی تھی جس میں سندھ کی طرف سے کھوڑو کا کردار بہت اچھا اور قابل تعریف تھا۔ یاد رہے سندھ کے سابق وزیراعظم اللہ بخش سومرو کا قتل 26 ستمبر 1943 کو شکارپور میں ہوا تو اس کا الزام کھوڑو پر لگادیا گیا تھا جس کی وجہ سے انھیں گرفتارکرلیا گیا۔ جب کیس عدالت میں پیش ہوا تو اس کے خلاف ثبوت ناملنے پر انھیں 3 اگست 1945 کو بری کردیا گیا اور اس کے چاہنے والوں نے آزادی پر اس کا بڑا استقبال کیا۔
ایوب کھوڑو کی علمی، سیاسی اور سماجی خدمات کے سلسلے میں انگریز حکومت کی طرف سے خان بہادر کا اعزاز دیا گیا تھا جب کہ عوام کی طرف سے مسلمانوں اور سندھی مسلمانوں کے حق کے لیے تحریکوں میں اچھا رول ادا کرنے پر انھیں مرد آہن اور اورنگ زیب سندھ کے خطاب بھی دیے گئے کیونکہ وہ بڑی سچائی اور دلیری کے ساتھ تحریکوں میں حصہ لیتے رہے جس میں سندھ کو بمبئی ریزیڈنسی سے علیحدگی والی تحریک بھی شامل ہے۔
وہ 28 جولائی 1901 میں اپنے والد رئیس شاہ محمد کے گھر میں اور گاؤں عاقل میں پیدا ہوئے جو لاڑکانہ شہر سے کچھ کلومیٹر پر واقع ہے۔ ان کے والد زمیندار بھی تھے اور سیاست بھی کرتے تھے۔ کھوڑو نے ابتدائی تعلیم اپنے گاؤں سے حاصل کی اور میٹرک کا امتحان 1918 میں سندھ مدرستہ اسلام سے پاس کیا جب کہ مزید تعلیم حاصل کرنے کے لیے وہ ڈی جے سائنس کالج کراچی میں داخل ہوئے مگر 1920 میں اپنے والد کی وفات کی وجہ سے وہ اپنے گاؤں واپس آکر زمینداری کرنے لگے اور کچھ عرصے کے بعد سیاست میں بھی حصہ لینا شروع کیا۔
وہ 1970 میں بھٹو سے شکست کھانے کے بعد سیاست سے ریٹائر ہوگئے، لیکن ان کی حیثیت کو بھٹو بھی تسلیم کرتے تھے اور جب بھی کوئی ایونٹ لاڑکانہ میں ہوتا تو انھیں دعوت دے کر بلاتے تھے اور اپنے ساتھ بٹھاتے۔ کھوڑو کے ایک بیٹے شاہ محمد پاشا وفاقی وزیر رہ چکے تھے۔ان کی بیٹی ڈاکٹر حمیدہ کھوڑو(مرحومہ) دو مرتبہ سندھ کی وزیر تعلیم رہ چکی ہیں جب کہ ان کا ایک اور بیٹا مسعود کھوڑو ڈسٹرکٹ کؤنسل لاڑکانہ کے چیئرمین تھے۔
ایوب کھوڑو شروع سے مسلم لیگ کے ساتھ رہے اور مرنے تک اسی کے ساتھ اپنا ناتا جوڑے رکھا۔ انھوں نے 1930 میں انگریزی میں Suffering of Sindh کے نام سے کتاب لکھی تھی، سکھر سے زمیندار کے نام سے سندھی میں اخبار نکالتے تھے جس کے وہ مینجنگ ڈائریکٹر تھے۔ اس کے علاوہ انھوں نے ایک زمینداری بینک میں کام کیا تھا جہاں سے آبادگاروں کو قرضہ دیا جاتا تھا۔
وہ 20 اکتوبر 1980 میں کراچی میں انتقال کرگئے، ان کے جسم خاکی کو اپنے خاندانی قبرستان عاقل گاؤں میں آخری آرام گاہ دی گئی جہاں پر لوگ ہر سال عید یا پھر ان کی برسی پر فاتحہ خوانی کے لیے آتے رہتے ہیں ۔