پہلے احتساب بعد میں انتخابات
زرداری کے خلاف کارروائی سے ملک میں کینسر کی طرح پھیلی ہوئی کرپشن ختم ہو جائے گی؟
ہمارے ملک میں پچھلے چند برسوں سے کرپشن اورکرپشن کے خلاف عدالتی احتساب کا چرچا بڑی شدّت سے ہو رہا ہے۔ میڈیا احتساب کی خبروں سے بھرا رہتا ہے۔ کرپشن اور احتساب کے گلی ڈنڈے کے کھیل کا آغاز اس وقت سے ہوا جب ہمارے سابق حکمران پرویز مشرف نے این آر او کو ملک میں متعارف کرایا۔ اس اپنی نوعیت کے منفرد معاہدے کی دوسری فریقپیپلز پارٹی تھیں۔ اس معاہدے کا فائدہ اگرچہ ہزاروں ''بزرگوں'' کو ہوا لیکن اس کے مرکزی کردار پرویز مشرف اور پیپلز پارٹیہی قرار پائے۔ ہماری اپوزیشن اورسول سوسائٹی نے اس آرڈیننس کے خلاف خوب شور مچایا۔
جب اس شور و غل کی آوازیں عدلیہ کے ایوانوں تک پہنچیں تو ہماری معزز اعلیٰ عدلیہ نے این آر او کو اس کے نفاذ کے وقت ہی سے کالعدم قرار دے دیا۔ عدلیہ کے اس فیصلے سے قانونی طور پر وہ سارے حضرات ملزم بن گئے جن کے الزامات پر این آر او چھتری بن گیا تھا۔ این آر او کے کالعدم قرار پانے کے بعد وہ مشہور کیس سامنے آ گیا جو سوئس کیس کے نام سے جانا جاتا ہے۔ بدقسمتی سے اس کیس میں ہمارے صدر محترم کا نام آتا ہے اور ہماری اعلیٰ عدلیہ انصاف کی سربلندی اور اعلیٰ سطح کی کرپشن کو ختم کرنے کے لیے سوئس کیس ری اوپن کرانا چاہتی ہے اور دو سال تک وہ سابق وزیراعظم کو سوئس کیس کو ری اوپن کرنے کے لیے ''خط'' لکھنے پر اصرار کرتی رہی۔ وزیراعظم اور حکومت کا اس حوالے سے موقف یہ رہا کہ چونکہ آئین میں صدر کو استثنیٰ حاصل ہے، لہٰذا ہم آئین کی رو سے خط نہیں لکھ سکتے۔
اس قصّے کا انجام اگرچہ یوسف رضا گیلانی کی نا اہلی ہوا اور ایک دوسرے وزیراعظم نے ان کی جگہ لے لی لیکن مسئلہ خط لکھنے پر ہی اٹکا ہوا ہے۔ عدالتِ عالیہ نے موجودہ وزیراعظم سے خط لکھنے کو کہا ہے اور اس حوالے سے 25 جولائی کی تاریخ بھی دی تھی۔ جو گزر گئی لیکن خط کا مسئلہ حل ہوتا نظر نہیں آ رہا۔ سوال یہ ہے کہ کیا زرداری کے خلاف کارروائی سے ملک میں کینسر کی طرح پھیلی ہوئی کرپشن ختم ہو جائے گی؟
ہماری محترم عدلیہ معاشرے کی اجتماعی بھلائی کے لیے جو جرأت مندانہ اقدامات کر رہی ہے، ان میں کرپشن کا خاتمہ سر فہرست ہے۔ اس حوالے سے ہمارے نئے اور نسبتاً توانا لیڈر عمران خان عوام کو یہ یقین دلا رہے ہیں کہ اگر وہ اقتدار میں آئے تو 30 دن کے اندر اندر ملک سے کرپشن ختم کر دیں گے۔ اب تو 9 دن کے اندرکم کرنے کی بات کرتے ہیں۔ لیکن اس حوالے سے سخن گسترانہ بات یہ ہے کہ کرپشن، سرمایہ دارانہ نظام کی شریانوں میں لہو بن کر دوڑتی ہے۔
لہٰذا جب تک یہ نظام زندہ ہے۔ کرپشن کو کوئی سورما ختم نہیں کر سکتا، لیکن ایک کام اس حوالے سے یہ ممکن ہے کہ ایلیٹ کلاس کی کرپشن کے خلاف بلاامتیاز احتساب کا عمل شروع کیا جائے۔ اب نیب نے میاں برادران کے کیسز کو ری اوپن کیا ہے، لیکن ان کا کہنا ہے کہ ''ان کیسز میں جان نہیں ہے۔ اگر جان ہوتی تو مشرف اس میں جان ڈال دیتا۔'' ان کیسز میں جان ہے یا نہیں، اس کا فیصلہ تو عدالتِ احتساب کرے گی، لیکن اتنا اندازہ بہرحال ہو رہا ہے کہ اب جاندار اور بے جان ہر قسم کی اعلیٰ سطح کی کرپشن منظرعام پر آئے گی۔
ہم نے اس حوالے سے ایک موٹی بات یہ کہہ دی ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام جب تک زندہ ہے کرپشن کو کوئی سورما ختم نہیں کرسکتا، لیکن پاکستان میں 65 برسوں سے اشرافیہ نے جو لوٹ مار کا بازار گرم کر رکھا ہے۔ اس کی ناک میں نکیل ڈالنا وقت کا تقاضا بھی ہے اور آزاد عدلیہ کی ذمے داری بھی الیکشن کمیشن نے اراکینِ پارلیمنٹ سے کہا ہے کہ وہ 30 ستمبر تک اپنے اور اپنے اہلِ خانہ کے اثاثے گوشواروں کی صورت میں الیکشن کمیشن کے سامنے پیش کر دیں۔ ہمارا خیال ہے یہ ہدایت بھی کرپشن کا پتا لگانے کی کوشش کا ہی حصّہ ہے۔
لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس ڈھیلے ڈھالے طریقے سے اعلیٰ سطح کی کرپشن کو ختم کیا جاسکتا ہے؟ اس کا جواب نفی میں اس لیے آتا ہے کہ اشرافیہ کے پنجے زندگی کے ہر شعبے پر اس مضبوطی سے گڑھے ہوئے ہیں کہ روٹین کی کسی کارروائی سے ان کی گرفت کو کمزور یا ختم نہیں کیا جاسکتا۔
سیاسی حالات آج جس مقام پر آ گئے ہیں، ہمارے سیاسی اکابرین انھیں اپنے حق میں استعمال کرنے کے لیے ملک کو ان حالات سے نکالنے کا واحد حل انتخابات قرار دے رہے ہیں۔ آج کے جدید جمہوری دور میں یہ تاثر عام ہے یا پھیلایا جا رہا ہے کہ کسی بھی ملک کو مشکلات سے نکالنے کا واحد نسخہ انتخابات ہیں۔ اس نسخے کو ہم کسی حد تک کار آمد سمجھ بھی لیتے بشرطیکہ انتخابات کے نتیجے میں نئے چہرے، نئے منشور، نئی سیاسی پارٹیاں سامنے آتیں۔ ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہمارے سامنے وہی پرانے چہرے، پرانی پارٹیاں، پرانے منشور ہیں جو ہماری سیاست کو زندہ درگور کیے ہوئے ہیں۔ اگر ایک آدھ نیا چہرہ سامنے ہے بھی تو اس کے دائیں بائیں وہی پرانے مکروہ چہرے ہیں جو اپنے سیاسی مفادات کی خاطر نقل مکانی کر کے آ رہے ہیں۔ اور عوام حیرت سے ان موسمی پرندوں، ان کے دعوئوں، ان کی پارسائی کو دیکھ رہے ہیں۔
ایسے بدترین اور مایوس کن حالات میں ہماری آزاد اور محترم عدلیہ اگر کچھ کرنا چاہتی ہے تو سب سے پہلے وہ تمام سیاسی خانوادوں سے سول اور فوجی اشرافیہ اور جاگیرداروں، صنعت کاروں سے اپنے اثاثے ڈیکلیئر کرنے کا یہ مشروط حکم دے کہ اگر تحقیق پر اثاثوں کی ڈیکلریشن غلط ثابت ہوتی ہے تو نہ صرف ان کے عام منقولہ و غیر منقولہ اندرون ملک اور بیرون ملک تمام اثاثے اور بینکوں میں جمع تمام دولت بحق سرکار ضبط کر لی جائے گی بلکہ اس سنگین غلط بیانی کے جرم میں انھیں اور ان کی آل اولاد کو ہمیشہ کے لیے سیاست بدر کر دیا جائے گا۔
ہماری معزز عدلیہ اچھی طرح جانتی ہے کہ جب تک بیماریوں کی جڑ پر وار نہیں کیا جائے گا، اس وقت تک بیماریاں ختم نہیں کی جاسکتیں۔ ہماری سیاسی، اقتصادی اور سماجی بیماریوں کی جڑ ہمارا جاگیردارانہ نظام ہے، جس کی گہرائی اور گیرائی کا اندازہ اس بدنما حقیقت سے کیا جا سکتا ہے کہ بشمول عمران خان ہر بڑا سیاست دان ان جاگیرداروں اور اشرافیائی اوتاروں کو اپنی پارٹیوں میں لا رہا ہے جو ''الیکشن جیتنے کی صلاحیت رکھتے ہیں!'' سپریم کورٹ میں عابد حسن منٹو کی ایک زرعی اصلاحات کے حوالے سے پٹیشن پڑی ہوئی ہے۔ کیا اس پٹیشن کو پہلی ترجیح بنایا جا سکتاہے ؟