شریف خاندان کی منی ٹریل کا جواب آج تک نہیں آیا سپریم کورٹ
وزیر اعظم نے کہا کہ ان کے تمام دستاویزات میں منی ٹریل موجود ہے لیکن عدالت کو جواب نہیں دیئے جا رہے، سپریم کورٹ
RAWALPINDI:
سپریم کورٹ میں پاناما عملدرآمد کیس کی سماعت کے دوران جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیئے کہ عدالت کو ان سوالات کے جوابات نہیں دیئے جارہے جو وہ مانگ رہی ہے اور شریف خاندان کی منی ٹریل کا جواب آج تک نہیں آٰیا۔
ایکسپریس نیوزکے مطابق سپریم کورٹ میں جسٹس اعجازافضل کی سربراہی میں پاناما عملدرآمد کیس کی سماعت کے دوران وزیراعظم کے وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ جے آئی ٹی کو وزیراعظم نے اپنے اثاثوں کی تفصیل پیش کی، جے آئی ٹی نے مزید کسی اثاثوں سے متعلق سوال نہیں کیا، جے آئی ٹی میں پیشی تک اور کوئی اثاثہ تھا ہی نہیں، جے آئی ٹی کے پاس کچھ ہوتا تو سوال ضرور کرتی، وزیراعظم کے رشتہ داروں نے کوئی جائیداد نہیں چھپائی جب کہ وزیراعظم کی کوئی بے نامی جائیداد نہیں ہے۔ نیب قوانین کے مطابق ایسا شخص جس کے بیوی بچوں کے نام اثاثے ہوں اس کو ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جا سکتا، وزیر اعظم نے ٹیکس ریٹرن میں اثاثے ظاہر کیے ہیں اور انہوں نے کوئی اثاثہ نہیں چھپایا۔
خواجہ حارث کی جانب سے نیب قانون شق (5 اے) کا حوالہ دینے پر جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ قانون میں آمدن اور اثاثوں کے ذرائع کا تذکرہ ہے، قانون میں اس شخص کا بھی ذکر ہے جس کے قبضے میں اثاثہ ہو اور اثاثے جس کے زیر استعمال ہوں وہ بھی بے نامی دار ہو سکتا ہے۔ کیا آپ کہنا چاہ رہے ہیں کہ کسی دوسرے کے گھر میں کچھ عرصہ رہنے والا ملزم نہیں بن سکتا، زیر استعمال ہونا اور بات ہے اور اثاثے سے فائدہ اٹھانا الگ بات ہے، آپ کے مطابق کسی کے گھر رہنے والے پر نیب قانون کا اطلاق نہیں ہوگا، یہ بات ہم مہینوں سے سن رہے ہیں، فلیٹ کی ملکیت کے علاوہ ساری چیزیں واضح ہیں، اس کیس میں سوال 1993 سے اثاثے زیراستعمال ہونے کا ہے جس پر خواجہ حارث نے کہا کہ کیس کی نوعیت مختلف ہے، اثاثہ وزیر اعظم کے نام نہیں، جے آئی ٹی نے اپنی رپورٹ سیاق و سباق سے ہٹ کر بنائی گئی، قانونی تقاضوں کو سامنے نہیں رکھا گیا، جے آئی ٹی کی رپورٹ میں وزیر اعظم کے بے نامی اثاثوں کا کوئی ثبوت نہیں، لندن فلیٹ کے مالک کا نام سامنے آچکا ہے۔
اس خبرکوبھی پڑھیں: جےآئی ٹی نےصرف سفارشات پیش کیں حکم عدالت کوجاری کرنا ہے، سپریم کورٹ
خواجہ حارث نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ جے آئی ٹی نے قانونی تقاضوں کو سامنے نہیں رکھا ، جے آئی ٹی کی رپورٹ میں وزیر اعظم کے نام اثاثوں کا کوئی ثبوت نہیں جس پر جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ غلطی کہیں یا کوتاہی، نیب آرڈیننس میں بے نامی جائیداد کا کوئی ذکر نہیں جب کہ جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس میں کہا کہ اس کیس کے تمام پہلو ہم پر واضح ہیں، اس بات کا کوئی ثبوت نہیں کہ وزیراعظم خود کسی بھی پراپرٹی کے مالک ہیں، حدیبیہ کیس سے متعلق آپ کا نقطہ نوٹ کرلیا تھا، آپ اپنے دلائل دہرا رہے ہیں جس پر وزیراعظم کے وکیل نے کہا کہ جے آئی ٹی رپورٹ آنے کے بعد پرانے معاملات ختم ہو چکے، اس حوالے سے کوئی شواہد نہیں لگائے گئے، لندن فلیٹس کے بارے میں جے آئی ٹی نے یہ نہیں کہا کہ اصل مالک وزیر اعظم ہیں جس پر جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس میں کہا کہ لگتا ہے بے نامی دار کی تعریف لکھتے وقت قانون میں غلطی ہو گئی ہے، بے نامی دار کی اصل تعریف ہم سب جانتے ہیں۔
خواجہ حارث نے کہا کہ وہ وزیراعظم کی تقریر سے انکار نہیں کرتے، وزیر اعظم کا ذاتی طور پر ان معاملات سے کوئی تعلق نہیں، خاندان کے دوسرے افراد کی طرح جو معلومات تھیں وہ شیئر کیں، جے آئی ٹی نے کہا کہ فلیٹ پورے خاندان کے ہیں، التوفیق کیس میں شریف فیملی شیئرہولڈر تھی، جس پر جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیئے کہ حدیبیہ پیپر ملز کے مالکان میں مریم نواز بھی شامل ہیں، جس پر خواجہ حارث نے کہا کہ کمپنی کے حصص کا فیصلہ میاں شریف کرتے تھے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ بنیادی سوال یہ ہے کہ لندن فلیٹس کب لیے اور کس نے ادائیگی کی، منی ٹریل کہاں ہے، جواب نہیں دیا جارہا، فنڈز سعودی عرب، دبئی یاقطر میں تھے، کہاں سے پیدا ہوکر لندن پہنچے، وزیر اعظم نے کہا ان کے تمام دستاویزات میں منی ٹریل موجود ہے، عدالت کو ان سوالوں کے جواب نہیں دیئے جا رہے۔
خواجہ حارث نے دلائل میں کہا کہ عام فیملی ممبر کے طور پر اسمبلی میں بیان دیا گیا جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ وزیر اعظم کو علم تھا کہ اسمبلی فلور پر کیا کہہ رہے ہیں، خواجہ حارث نے کہا کہ اگر وزیراعظم کا لندن فلیٹس سے تعلق ہو تو وہ جواب دہ ہو سکتے ہیں، 1993 سے 1995 تک بچے اپنے والد کے زیر کفالت تھے، فلیٹس سے متعلق تمام امور میاں شریف دیکھتے تھے، خاندان کے سربراہ میاں شریف کا سرمایہ کاری کا فیصلہ تھا، یہ جائیداد لندن عدالت میں کیس کے ساتھ منسلک تھی، اس کیس میں میاں شریف، شہباز اور عباس شریف کے نام ہیں۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس میں کہا کہ شریف خاندان کا موقف ہے کہ جائیداد 2006 میں حاصل کی گئی، کیا حسن اور حسین نے لندن کی جائیداد نواز شریف کے کہنے پر لی، اصل سوال ہے کہ سعودی عرب، دبئی اور لندن جائیدادوں کے فنڈز کہاں آئے، اس بنیادی سوال کا جواب نہیں مل رہا۔
خواجہ حارث نے کہا کہ جو بیان میں نے پڑھا اس میں قطری سرمائے سے جائیداد خریدنے کا بتایا گیا جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس میں کہا کہ وزیر اعظم نے تقریر میں اس کا ذکر نہیں کیا جس پر خواجہ حارث نے کہا کہ تمام ریکارڈ موجود ہے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ سوال یہ تھا کہ پراپرٹی کب خریدی گئی، فنڈز کہاں سے آئے اور کہاں گئے، وزیراعظم نے کہا تھا کہ منی ٹریل دیں گے لیکن ابھی تک جواب نہیں دیا گیا جس پر خواجہ حارث نے کہا کہ جے آئی ٹی نے یہ نہیں کہا کہ وزیراعظم کی طرف سے کسی نے پراپرٹی خریدی، بے نامی کا مطلب ہوتا ہے کہ کسی دوسرے کے نام پراپرٹی رکھنا۔ وزیراعظم کے وکیل نے کہا کہ جلد نمبر 4 پرکچھ بات کروں گا جس پرجسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ اس کے حوالہ سے محتاط رہیں، اس میں بہت خطرناک دستاویز ہیں، اس میں ٹرسٹ ڈیڈ پر بات ہوئی ہے اور کچھ نتائج بھی اخذ کیے گئے ہیں۔
وزیراعظم کے وکیل خواجہ حارث کا اپنے دلائل میں کہنا تھا کہ وزیراعظم نے کہا سیٹلمنٹ ہوئی تھی پر تفصیلات کا علم نہیں، لندن فلیٹ سے وزیر اعظم کو جوڑنے کی جو بات تھی وہ قیاس آرائی پرمبنی ہے، کوئی شواہد کوئی دستاویز نہیں ، دوسرے فریق سے منسوب کرنا بھی قابل اعتراض ہے لیکن ابھی میں اس پر اعتراض نہیں اٹھا رہا جس پر جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیئے کہ جے آئی ٹی نے کہا فلیٹس مشترکہ طور پر شریف فیملی رکھتی ہے، اگرجے آئی ٹی کی رائے کے حوالے سے کوئی ثبوت نہیں تو اس کاوزن بھی نہیں ہو گا، جے آئی ٹی کو چھوڑیں ہمیں دستاویز دکھائیں، اگر حسن، حسین کے پاس فلیٹس کسی کے نام پر ہیں تو وہ کون ہے، حسین نے خود کو فلیٹ کا مالک کہا لیکن دستاویز نہیں دی، نیلسن، نیسکول، منروا کا مالک بھی خود کو بتایا لیکن دستاویز نہیں دی، منروا کی دستاویز پر مریم کو مالک کہا گیا ہے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے مزید اپنے ریمارکس میں کہا کہ بحث کے لیے مانتے ہیں فلیٹس میاں شریف کے ہیں، وفات کے بعد ان میں وزیر اعظم کا بھی شیئرہوگا، وزیراعظم ہو یا حسین نواز، دونوں زبانی کہہ رہے ہیں، تہہ در تہہ آف شور کمپنیاں قائم کی گئی ہیں، کمپنیوں، اثاثوں کی ملکیت اور فنڈز واضح نہیں۔
جسٹس عظمت سعید نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ آف شور کمپنیاں دوسری کمپنیوں سے سروسز لے رہی ہیں، یہ سروسز کس کو دی جا رہی ہیں معلوم نہیں، نام کس کے ہیں، پیسے کس نے دیئے کوئی بتا ہی نہیں رہا، کاغذ کوئی دکھا ہی نہیں رہا، یہ توہے کہ 88 فیصد منافع وزیر اعظم کو دیا گیا۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس میں کہا کہ ایک ارب 17 کروڑ روپے وزیراعظم کودئیے گئے۔
خواجہ حارث نے کہا کہ ہل میٹل حسین نواز کی کمپنی ہے جو کہ خود مختار ہے، حسین نوازنے اپنے والد کو پیسے بھیجے جس پرجسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ ساری چیزیں ہیں آنکھیں بند نہیں کریں گے۔
وزیراعظم کے وکیل خواجہ حارث نے دلائل مکمل کرتے ہوئے کہا کہ جے آئی ٹی کی رپورٹ میں وزیر اعظم کے خلاف کچھ نہیں، ادب سے گزارش ہے کہ فیصلہ میں احتیاط برتی جائے جس پر جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیئے کہ دیکھنا ہے کہ کیس میں کوئی شواہد ہیں جو وزیراعظم کو معاملہ سے منسلک کرتے ہیں یا ہم نے فیصلہ کرنا ہے یا ٹرائل کورٹ کوبھجوانا ہے، حقیقت یہ ہے کہ اس عدالت کے پاس فیصلہ کا اختیارہے، آپ کو تمام پتے شو کروانا چاہیے تھے۔
سماعت کے دوران وزیراعظم کے بچوں کے وکیل سلیمان اکرم راجہ نے اپنے دلائل میں کہا کہ کچھ ریکارڈ دبئی، ابو ظہبی سے حاصل کیا جا رہا ہے جس پر عدالت کی جانب سے ریمارکس دیئے گئے کہ عدالت نے کیس سنا ، جے آئی ٹی میں ریکارڈ دینا تھا ،آپ اب حاصل کر رہے ہیں جس پر سلیمان اکرم راجہ کا کہنا تھا کہ جے آئی ٹی نے کہا مشینری دبئی سے جدہ جانے کا ریکارڈ نہیں ملا، 27 سال پرانا ریکارڈ ہے جس کو سرکاری اداروں سے حاصل کرنا ہے جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ وقت طلب کرنے کے حوالے سے فریقین کا ریکارڈ اچھا نہیں، پہلے بھی مہلت طلب کی گئی تھی قطری خط پیش کردیا گیا۔ سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ کمپنیوں کے مالک کے حوالہ سے کچھ ریکارڈ دوں گا جس پر جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ ریکارڈ کون بتا رہا ہے جس پر وکیل نے کہا کہ ابھی بتا کر اخباری خبر نہیں بنانا چاہتا۔
جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ جے آئی ٹی کو عدالت کا اختیار نہیں سونپا تھا، کسی بھی تفتیشی ادارے کی تحقیقات کو ٹرائل سے گزرنا ہوتا ہے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ وضاحت کے لیے یہ فورم نہیں،اگر جے آئی ٹی نے تمام امور سے اسحاق ڈار کو جوڑا ہے تو ٹرائل کورٹ میں جواب دیں۔
وزیرخزانہ اسحاق ڈار کے وکیل طارق حسن نے اپنے دلائل میں کہا کہ جے آئی ٹی رپورٹ ہزاروں صفحات پر مشتمل ہے، میں جے آئی ٹی کا بروقت رپورٹ دینے پر معترف ہوں لیکن اسحاق ڈار سے متعلق جے آئی ٹی رپورٹ درست حقائق پر مبنی نہیں جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ جے آئی ٹی نے جو کیا ہے اس پر ٹرائل ہونا ہے، جے آئی ٹی رپورٹ کے خلاف شواہد آپ ٹرائل کورٹ میں پیش کریں گے۔
جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس میں کہا کہ آپ نے کیس پر محنت کی لیکن توقع ہے کہ آپ مختصر بیان کریں، جس پر طارق حسن نے کہا کہ میرا حق ہے کہ اپنے الزامات کا دفاع کروں، گزشتہ 34 سال سے ٹیکس ریٹرنز دے رہا ہوں جس پر جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ کیا کوئی ایسا الزام ہے کہ آپ ٹیکس ریٹرن نہیں دیتے جس پرطارق حسن نے کہا کہ جے آئی ٹی نے قرار دیا کہ اسحاق ڈارنے 1981 سے 2001تک ٹیکس ریٹرن نہیں دیئے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس میں کہا کہ یہ بتائیں کے یہ الزام عمران خان کی درخواست پر ہے، عمران خان کی درخواست میں آپ پر کیا الزام ہے جس پر وکیل اسحاق ڈار نے کہا کہ عمران خان نے مجھ پر کوئی الزام نہیں لگایا جس پر جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیئے کہ عمران خان کی درخواست میں آپ پر بھی سنگین الزام ہیں۔
وکیل طارق حسن نے کہا کہ 2008 اور2009 میں اثاثوں میں اضافے کے الزامات بھی لگائے گئے جس پر جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ کیا ایف بی آر نے آپ کا ٹیکس ریکارڈ جے آئی ٹی کو دیا، یہ حقیقت ہے کہ ایف بھی آر نے جے آئی ٹی کو اس دورانیہ کا ٹیکس ریٹرن ریکارڈ نہیں دیا۔
وکیل اسحاق ڈار نے کہا کہ اسحاق ڈار نے اپنا اور اہلیہ کا 1995 سے 2017 تک کاریکارڈ جمع کروایا جس پر جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ اب کوئی خط و کتابت بنا کر نہ لے آیئے گا، جے آئی ٹی کے مواد پر فیصلہ کریں گے، یہ واضح رکھیں جس پر طارق حسن نے کہا کہ جے آئی ٹی کو بروقت تمام ریکارڈ فراہم کردیا تھا، دستاویزات رات آٹھ بجے نیب سے لے کر دیئے تھے، جے آئی ٹی نے تعریف پر مبنی خط بھی دیا تھا جس پر جسٹس اعجازالاحسن نے نے ریمارکس دیئے کہ دو دن پہلے ریکارڈ دینے پر تعریف کیسے ہوگئی، اگر ریکارڈ نیب نے واپس کیا تو ریکوری میمو ضرور بنایا ہو گا، نیب نے اصل ریکارڈ دیا یا فوٹو کاپی جس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ نیب سے ریکارڈ لے کر ایف بی آر کو دیا گیا تھا۔
جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ چیئرمین ایف بی آر نے کہا تھا 95 فیصد ریکارڈ فراہم کر دیا ہے، کیا نیب نے تسلیم کیا کہ دستاویزات انہوں نے دیں، کوئی خط و کتابت ہے تو سامنے لائیں، ایف بی آر نے پہلے کہا کہ ریکارڈ ٹریس نہیں ہو رہا، اچانک ریکارڈ ملا اور نیب کے کھاتے میں ڈال دیا گیا۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ کیا آپ نے ریکارڈ اعتراضات کے ساتھ جمع کرایا ، عدالت کو تو کم ازکم ریکارڈ فراہم کیا جانا چاہیے تھا، عدالت کو صرف آڈٹ رپورٹس دی گئیں۔
طارق حسن نے کہا کہ جے آئی ٹی نے اسحاق ڈارکو کیس میں گھسیٹنے کی کوشش کی جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس میں کہا کہ اسحاق ڈار کا کنکشن آپ کو میں بتا دیتا ہوں، گلف سٹیل مل میں اسحاق ڈار کے بیٹے کے نام پر ٹرانزیکشنز ہیں، ہل مٹیل کمپنی کے ساتھ اسحاق ڈار کا کنکشن موجود ہے، اسحاق ڈار نے بیان حلفی کے ساتھ معافی مانگی، بیان حلفی کے ذریعے کئی ٹرانزیکشنز کا علم ہوا، اگر معاملہ منصفانہ ٹرائل کی جانب گیا تو آپ کو پورا موقع ملے گا، ٹرائل میں اپنا موقف آپ درست ثابت کر سکتے ہیں۔
جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ اسحاق ڈار ملزم تھے اور مبینہ طور پر اعترافی بیان دیا، مبینہ اعترافی بیان کی بنیاد پر اسحاق ڈار کو معافی ملی جس پر طارق حسن نے کہا کہ اعترافی بیان دوران حراست لیا گیا تھا، اعترافی بیان دوران حراست لیا گیا تھا جس پر جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ اسحاق ڈار بعد میں مبینہ اعترافی بیان سے منحرف ہوگئے جب ریفرنس خارج ہوا تب اسحاق ڈار نہ فریق تھے نہ ملزم۔ طارق حسن نے کہا کہ وہ معاملہ ختم ہو چکا، دوبارہ نہیں کھولا جا سکتا، اس نکتے پر میری تیاری بھی نہیں ہے، جس پر جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ آپ ملزم نہیں ہیں آپ ماضی کی ٹرانزیکشن پر گواہ ہیں۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس میں کہا کہ آپ جے آئی ٹی کے لیے عدالت کے حکم کو پڑھ لیں، جے آئی ٹی کو ہر طرح کا ریکارڈ حاصل کرنے کا مینڈیٹ دیا گیا، تمام ادارے اس کے ساتھ تعاون کے پابند بنائے گئے، اسحاق ڈار کا بطور شریک ملزم حدیبیہ پیپر ملزکیس ٹرائل نہیں ہوا، اسحاق ڈار عدالت سے بری نہیں ہوئے، اسحاق ڈار حدیبیہ کیس میں شریک ملزم سے وعدہ معاف گواہ بنے۔
طارق حسن نے اپنے دلائل میں کہا کہ پاناما کیس کے عبوری فیصلے میں اسحاق ڈار کے خلاف کچھ نہیں کہا گیا جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ یہ دیکھیں درخواست میں اسحاق ڈار کے خلاف ریلیف کیا مانگا گیا اس وقت نااہل نہیں کر سکتے تھے، اس لیے ہم نے مزید تحقیقات کے لیے جے آئی ٹی بنائی۔
وکیل اسحاق ڈار نے کہا کہ نیب نے فائل بند کر دی ہے جس پر جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیئے کہ ہم نے نیب چیئرمین کو اپیل دائر کرنے کی ہدایت نہیں کی، جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس میں کہا کہ کیا ہم سارے معاملے پر آنکھیں بند کر لیں جس پر طارق حسن ایڈووکیٹ نے کہا کہ اسحاق ڈار کا سارے کیس سے کوئی تعلق نہیں۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ ہل میٹل سے اسحاق ڈار کے بیٹے علی ڈار کی کمپنی کو رقم منتقل ہوئی، آپ کو سارا کنکشن اور تعلق واضع طور پر بتا دیا ہے۔ جسٹس عظمت نے اپنے ریمارکس دیئے کہ اسحاق ڈارکو بیان حلفی دینے پر معافی ملی، اگر اعترافی بیان کو تسلیم نہیں کرتے تو معافی بھی ختم ہو جاتی ہے، کیا جب معافی ختم ہو گی تو معاملہ دوبارہ بحال نہیں ہو گا۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس میں کہا کہ بہت سے سوال ہیں جن کا جواب جاننا ہے، بہت سے مسائل ہیں جن کو حل کرنا ہے جس پر طارق حسن ایڈووکیٹ نے کہا کہ جے آئی ٹی کے کام میں بد نیتی شامل تھی جس پر جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس میں کہا کہ کوئی نئی بات ہے تو وہ کریں، آپ نے کوئی مزید دستاویز فیصلے کے حوالے سے دینا ہے تو دیں، آپ کو ٹرائل کا پورا موقع ملے گا، آپ کے خلاف درخواست پر کوئی فیصلہ تو نہیں کیا۔
وکیل طارق حسن نے کہا کہ جے آئی ٹی دستاویزات کا جائزہ لیتی تو اس نتیجے پر پہنچتی کہ میرے موکل کے اثاثے کم ہوئے جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس میں کہا کہ آپ سے جے آئی ٹی نے کاروبار کا پوچھا، کمائی پوچھی، آپ نے تو کہا کمائی نہیں بتا سکتا، یہ میرا استحقاق ہے، آپ نے تو کوئی دستاویزات نہ دینے کا موقف اپنایا، پھر آپ کیسے کہہ رہے ہیں میں نے حقائق بتائے، یہ رویہ صرف آپ نے نہیں اس کیس میں سب نے اپنایا، آپ نے شیخ النہیان کے ایڈوائزر ہونے کا بتایا مگر کمائی نہیں بتائی، آپ کے اثاثے 1993 میں 9 ملین کے تھے تو 2000 میں بڑھ کر 854 ملین تک پہنچ گئے۔
جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس میں کہا کہ دو صورتیں تھیں ہم درخواست مسترد کرلیتے یا مان لیتے، چاہتے تو ایسے ہی فیصلہ کرلیتے ہم نے قانون کو مدنظررکھا، اپنے خلاف الزامات کا جواب ٹرائل کورٹ میں دیں، جتنا ریکارڈ دینا ہے آپ عدالت کو فراہم کریں، آپ نے تحائف وصول کرکے پاکستانی روپے میں تبدیل کیا، آپ کے بیان کی تصدیق ویڈیو ریکارڈنگ سے ہو سکتی ہے۔ طارق حسن ایڈووکیٹ نے کہ جے آئی ٹی نے میرے موکل کو قصوروارکیوں قراردیا، جے آئی ٹی کا رویہ درست نہیں تھا جس پرجسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ کیا ہمارے رویئے پربھی اعتراض ہے۔
جسٹس اعجازافضل نے ریمارکس میں کہا کہ کیا آپ کا ہل میٹل اسٹیبلشمنٹ میں کردار نہیں، ہم آپ کے نکات نوٹ کر لیتے ہیں، اگر آپ کا کردار نہیں توفکرمند ہونے کی ضرورت نہیں، ہل میٹل کا ایشو ابھی زندہ ہے، جس پر طارق حسن نے کہا کہ میں اپنے لیے نہیں اپنے موکل کے لیے پریشان ہوں جس پر جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیئے کہ نعیم بخاری کہہ چکے ہیں کہ وکیل نہیں ہارتا بلکہ موکل ہارتا ہے. سپریم کورٹ نے سماعت کل صبح ساڑھے 9 بجے تک ملتوی کردی گئی۔
سپریم کورٹ میں پاناما عملدرآمد کیس کی سماعت کے دوران جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیئے کہ عدالت کو ان سوالات کے جوابات نہیں دیئے جارہے جو وہ مانگ رہی ہے اور شریف خاندان کی منی ٹریل کا جواب آج تک نہیں آٰیا۔
ایکسپریس نیوزکے مطابق سپریم کورٹ میں جسٹس اعجازافضل کی سربراہی میں پاناما عملدرآمد کیس کی سماعت کے دوران وزیراعظم کے وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ جے آئی ٹی کو وزیراعظم نے اپنے اثاثوں کی تفصیل پیش کی، جے آئی ٹی نے مزید کسی اثاثوں سے متعلق سوال نہیں کیا، جے آئی ٹی میں پیشی تک اور کوئی اثاثہ تھا ہی نہیں، جے آئی ٹی کے پاس کچھ ہوتا تو سوال ضرور کرتی، وزیراعظم کے رشتہ داروں نے کوئی جائیداد نہیں چھپائی جب کہ وزیراعظم کی کوئی بے نامی جائیداد نہیں ہے۔ نیب قوانین کے مطابق ایسا شخص جس کے بیوی بچوں کے نام اثاثے ہوں اس کو ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جا سکتا، وزیر اعظم نے ٹیکس ریٹرن میں اثاثے ظاہر کیے ہیں اور انہوں نے کوئی اثاثہ نہیں چھپایا۔
خواجہ حارث کی جانب سے نیب قانون شق (5 اے) کا حوالہ دینے پر جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ قانون میں آمدن اور اثاثوں کے ذرائع کا تذکرہ ہے، قانون میں اس شخص کا بھی ذکر ہے جس کے قبضے میں اثاثہ ہو اور اثاثے جس کے زیر استعمال ہوں وہ بھی بے نامی دار ہو سکتا ہے۔ کیا آپ کہنا چاہ رہے ہیں کہ کسی دوسرے کے گھر میں کچھ عرصہ رہنے والا ملزم نہیں بن سکتا، زیر استعمال ہونا اور بات ہے اور اثاثے سے فائدہ اٹھانا الگ بات ہے، آپ کے مطابق کسی کے گھر رہنے والے پر نیب قانون کا اطلاق نہیں ہوگا، یہ بات ہم مہینوں سے سن رہے ہیں، فلیٹ کی ملکیت کے علاوہ ساری چیزیں واضح ہیں، اس کیس میں سوال 1993 سے اثاثے زیراستعمال ہونے کا ہے جس پر خواجہ حارث نے کہا کہ کیس کی نوعیت مختلف ہے، اثاثہ وزیر اعظم کے نام نہیں، جے آئی ٹی نے اپنی رپورٹ سیاق و سباق سے ہٹ کر بنائی گئی، قانونی تقاضوں کو سامنے نہیں رکھا گیا، جے آئی ٹی کی رپورٹ میں وزیر اعظم کے بے نامی اثاثوں کا کوئی ثبوت نہیں، لندن فلیٹ کے مالک کا نام سامنے آچکا ہے۔
اس خبرکوبھی پڑھیں: جےآئی ٹی نےصرف سفارشات پیش کیں حکم عدالت کوجاری کرنا ہے، سپریم کورٹ
خواجہ حارث نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ جے آئی ٹی نے قانونی تقاضوں کو سامنے نہیں رکھا ، جے آئی ٹی کی رپورٹ میں وزیر اعظم کے نام اثاثوں کا کوئی ثبوت نہیں جس پر جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ غلطی کہیں یا کوتاہی، نیب آرڈیننس میں بے نامی جائیداد کا کوئی ذکر نہیں جب کہ جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس میں کہا کہ اس کیس کے تمام پہلو ہم پر واضح ہیں، اس بات کا کوئی ثبوت نہیں کہ وزیراعظم خود کسی بھی پراپرٹی کے مالک ہیں، حدیبیہ کیس سے متعلق آپ کا نقطہ نوٹ کرلیا تھا، آپ اپنے دلائل دہرا رہے ہیں جس پر وزیراعظم کے وکیل نے کہا کہ جے آئی ٹی رپورٹ آنے کے بعد پرانے معاملات ختم ہو چکے، اس حوالے سے کوئی شواہد نہیں لگائے گئے، لندن فلیٹس کے بارے میں جے آئی ٹی نے یہ نہیں کہا کہ اصل مالک وزیر اعظم ہیں جس پر جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس میں کہا کہ لگتا ہے بے نامی دار کی تعریف لکھتے وقت قانون میں غلطی ہو گئی ہے، بے نامی دار کی اصل تعریف ہم سب جانتے ہیں۔
خواجہ حارث نے کہا کہ وہ وزیراعظم کی تقریر سے انکار نہیں کرتے، وزیر اعظم کا ذاتی طور پر ان معاملات سے کوئی تعلق نہیں، خاندان کے دوسرے افراد کی طرح جو معلومات تھیں وہ شیئر کیں، جے آئی ٹی نے کہا کہ فلیٹ پورے خاندان کے ہیں، التوفیق کیس میں شریف فیملی شیئرہولڈر تھی، جس پر جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیئے کہ حدیبیہ پیپر ملز کے مالکان میں مریم نواز بھی شامل ہیں، جس پر خواجہ حارث نے کہا کہ کمپنی کے حصص کا فیصلہ میاں شریف کرتے تھے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ بنیادی سوال یہ ہے کہ لندن فلیٹس کب لیے اور کس نے ادائیگی کی، منی ٹریل کہاں ہے، جواب نہیں دیا جارہا، فنڈز سعودی عرب، دبئی یاقطر میں تھے، کہاں سے پیدا ہوکر لندن پہنچے، وزیر اعظم نے کہا ان کے تمام دستاویزات میں منی ٹریل موجود ہے، عدالت کو ان سوالوں کے جواب نہیں دیئے جا رہے۔
خواجہ حارث نے دلائل میں کہا کہ عام فیملی ممبر کے طور پر اسمبلی میں بیان دیا گیا جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ وزیر اعظم کو علم تھا کہ اسمبلی فلور پر کیا کہہ رہے ہیں، خواجہ حارث نے کہا کہ اگر وزیراعظم کا لندن فلیٹس سے تعلق ہو تو وہ جواب دہ ہو سکتے ہیں، 1993 سے 1995 تک بچے اپنے والد کے زیر کفالت تھے، فلیٹس سے متعلق تمام امور میاں شریف دیکھتے تھے، خاندان کے سربراہ میاں شریف کا سرمایہ کاری کا فیصلہ تھا، یہ جائیداد لندن عدالت میں کیس کے ساتھ منسلک تھی، اس کیس میں میاں شریف، شہباز اور عباس شریف کے نام ہیں۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس میں کہا کہ شریف خاندان کا موقف ہے کہ جائیداد 2006 میں حاصل کی گئی، کیا حسن اور حسین نے لندن کی جائیداد نواز شریف کے کہنے پر لی، اصل سوال ہے کہ سعودی عرب، دبئی اور لندن جائیدادوں کے فنڈز کہاں آئے، اس بنیادی سوال کا جواب نہیں مل رہا۔
خواجہ حارث نے کہا کہ جو بیان میں نے پڑھا اس میں قطری سرمائے سے جائیداد خریدنے کا بتایا گیا جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس میں کہا کہ وزیر اعظم نے تقریر میں اس کا ذکر نہیں کیا جس پر خواجہ حارث نے کہا کہ تمام ریکارڈ موجود ہے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ سوال یہ تھا کہ پراپرٹی کب خریدی گئی، فنڈز کہاں سے آئے اور کہاں گئے، وزیراعظم نے کہا تھا کہ منی ٹریل دیں گے لیکن ابھی تک جواب نہیں دیا گیا جس پر خواجہ حارث نے کہا کہ جے آئی ٹی نے یہ نہیں کہا کہ وزیراعظم کی طرف سے کسی نے پراپرٹی خریدی، بے نامی کا مطلب ہوتا ہے کہ کسی دوسرے کے نام پراپرٹی رکھنا۔ وزیراعظم کے وکیل نے کہا کہ جلد نمبر 4 پرکچھ بات کروں گا جس پرجسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ اس کے حوالہ سے محتاط رہیں، اس میں بہت خطرناک دستاویز ہیں، اس میں ٹرسٹ ڈیڈ پر بات ہوئی ہے اور کچھ نتائج بھی اخذ کیے گئے ہیں۔
وزیراعظم کے وکیل خواجہ حارث کا اپنے دلائل میں کہنا تھا کہ وزیراعظم نے کہا سیٹلمنٹ ہوئی تھی پر تفصیلات کا علم نہیں، لندن فلیٹ سے وزیر اعظم کو جوڑنے کی جو بات تھی وہ قیاس آرائی پرمبنی ہے، کوئی شواہد کوئی دستاویز نہیں ، دوسرے فریق سے منسوب کرنا بھی قابل اعتراض ہے لیکن ابھی میں اس پر اعتراض نہیں اٹھا رہا جس پر جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیئے کہ جے آئی ٹی نے کہا فلیٹس مشترکہ طور پر شریف فیملی رکھتی ہے، اگرجے آئی ٹی کی رائے کے حوالے سے کوئی ثبوت نہیں تو اس کاوزن بھی نہیں ہو گا، جے آئی ٹی کو چھوڑیں ہمیں دستاویز دکھائیں، اگر حسن، حسین کے پاس فلیٹس کسی کے نام پر ہیں تو وہ کون ہے، حسین نے خود کو فلیٹ کا مالک کہا لیکن دستاویز نہیں دی، نیلسن، نیسکول، منروا کا مالک بھی خود کو بتایا لیکن دستاویز نہیں دی، منروا کی دستاویز پر مریم کو مالک کہا گیا ہے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے مزید اپنے ریمارکس میں کہا کہ بحث کے لیے مانتے ہیں فلیٹس میاں شریف کے ہیں، وفات کے بعد ان میں وزیر اعظم کا بھی شیئرہوگا، وزیراعظم ہو یا حسین نواز، دونوں زبانی کہہ رہے ہیں، تہہ در تہہ آف شور کمپنیاں قائم کی گئی ہیں، کمپنیوں، اثاثوں کی ملکیت اور فنڈز واضح نہیں۔
جسٹس عظمت سعید نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ آف شور کمپنیاں دوسری کمپنیوں سے سروسز لے رہی ہیں، یہ سروسز کس کو دی جا رہی ہیں معلوم نہیں، نام کس کے ہیں، پیسے کس نے دیئے کوئی بتا ہی نہیں رہا، کاغذ کوئی دکھا ہی نہیں رہا، یہ توہے کہ 88 فیصد منافع وزیر اعظم کو دیا گیا۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس میں کہا کہ ایک ارب 17 کروڑ روپے وزیراعظم کودئیے گئے۔
خواجہ حارث نے کہا کہ ہل میٹل حسین نواز کی کمپنی ہے جو کہ خود مختار ہے، حسین نوازنے اپنے والد کو پیسے بھیجے جس پرجسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ ساری چیزیں ہیں آنکھیں بند نہیں کریں گے۔
وزیراعظم کے وکیل خواجہ حارث نے دلائل مکمل کرتے ہوئے کہا کہ جے آئی ٹی کی رپورٹ میں وزیر اعظم کے خلاف کچھ نہیں، ادب سے گزارش ہے کہ فیصلہ میں احتیاط برتی جائے جس پر جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیئے کہ دیکھنا ہے کہ کیس میں کوئی شواہد ہیں جو وزیراعظم کو معاملہ سے منسلک کرتے ہیں یا ہم نے فیصلہ کرنا ہے یا ٹرائل کورٹ کوبھجوانا ہے، حقیقت یہ ہے کہ اس عدالت کے پاس فیصلہ کا اختیارہے، آپ کو تمام پتے شو کروانا چاہیے تھے۔
سماعت کے دوران وزیراعظم کے بچوں کے وکیل سلیمان اکرم راجہ نے اپنے دلائل میں کہا کہ کچھ ریکارڈ دبئی، ابو ظہبی سے حاصل کیا جا رہا ہے جس پر عدالت کی جانب سے ریمارکس دیئے گئے کہ عدالت نے کیس سنا ، جے آئی ٹی میں ریکارڈ دینا تھا ،آپ اب حاصل کر رہے ہیں جس پر سلیمان اکرم راجہ کا کہنا تھا کہ جے آئی ٹی نے کہا مشینری دبئی سے جدہ جانے کا ریکارڈ نہیں ملا، 27 سال پرانا ریکارڈ ہے جس کو سرکاری اداروں سے حاصل کرنا ہے جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ وقت طلب کرنے کے حوالے سے فریقین کا ریکارڈ اچھا نہیں، پہلے بھی مہلت طلب کی گئی تھی قطری خط پیش کردیا گیا۔ سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ کمپنیوں کے مالک کے حوالہ سے کچھ ریکارڈ دوں گا جس پر جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ ریکارڈ کون بتا رہا ہے جس پر وکیل نے کہا کہ ابھی بتا کر اخباری خبر نہیں بنانا چاہتا۔
جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ جے آئی ٹی کو عدالت کا اختیار نہیں سونپا تھا، کسی بھی تفتیشی ادارے کی تحقیقات کو ٹرائل سے گزرنا ہوتا ہے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ وضاحت کے لیے یہ فورم نہیں،اگر جے آئی ٹی نے تمام امور سے اسحاق ڈار کو جوڑا ہے تو ٹرائل کورٹ میں جواب دیں۔
وزیرخزانہ اسحاق ڈار کے وکیل طارق حسن نے اپنے دلائل میں کہا کہ جے آئی ٹی رپورٹ ہزاروں صفحات پر مشتمل ہے، میں جے آئی ٹی کا بروقت رپورٹ دینے پر معترف ہوں لیکن اسحاق ڈار سے متعلق جے آئی ٹی رپورٹ درست حقائق پر مبنی نہیں جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ جے آئی ٹی نے جو کیا ہے اس پر ٹرائل ہونا ہے، جے آئی ٹی رپورٹ کے خلاف شواہد آپ ٹرائل کورٹ میں پیش کریں گے۔
جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس میں کہا کہ آپ نے کیس پر محنت کی لیکن توقع ہے کہ آپ مختصر بیان کریں، جس پر طارق حسن نے کہا کہ میرا حق ہے کہ اپنے الزامات کا دفاع کروں، گزشتہ 34 سال سے ٹیکس ریٹرنز دے رہا ہوں جس پر جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ کیا کوئی ایسا الزام ہے کہ آپ ٹیکس ریٹرن نہیں دیتے جس پرطارق حسن نے کہا کہ جے آئی ٹی نے قرار دیا کہ اسحاق ڈارنے 1981 سے 2001تک ٹیکس ریٹرن نہیں دیئے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس میں کہا کہ یہ بتائیں کے یہ الزام عمران خان کی درخواست پر ہے، عمران خان کی درخواست میں آپ پر کیا الزام ہے جس پر وکیل اسحاق ڈار نے کہا کہ عمران خان نے مجھ پر کوئی الزام نہیں لگایا جس پر جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیئے کہ عمران خان کی درخواست میں آپ پر بھی سنگین الزام ہیں۔
وکیل طارق حسن نے کہا کہ 2008 اور2009 میں اثاثوں میں اضافے کے الزامات بھی لگائے گئے جس پر جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ کیا ایف بی آر نے آپ کا ٹیکس ریکارڈ جے آئی ٹی کو دیا، یہ حقیقت ہے کہ ایف بھی آر نے جے آئی ٹی کو اس دورانیہ کا ٹیکس ریٹرن ریکارڈ نہیں دیا۔
وکیل اسحاق ڈار نے کہا کہ اسحاق ڈار نے اپنا اور اہلیہ کا 1995 سے 2017 تک کاریکارڈ جمع کروایا جس پر جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ اب کوئی خط و کتابت بنا کر نہ لے آیئے گا، جے آئی ٹی کے مواد پر فیصلہ کریں گے، یہ واضح رکھیں جس پر طارق حسن نے کہا کہ جے آئی ٹی کو بروقت تمام ریکارڈ فراہم کردیا تھا، دستاویزات رات آٹھ بجے نیب سے لے کر دیئے تھے، جے آئی ٹی نے تعریف پر مبنی خط بھی دیا تھا جس پر جسٹس اعجازالاحسن نے نے ریمارکس دیئے کہ دو دن پہلے ریکارڈ دینے پر تعریف کیسے ہوگئی، اگر ریکارڈ نیب نے واپس کیا تو ریکوری میمو ضرور بنایا ہو گا، نیب نے اصل ریکارڈ دیا یا فوٹو کاپی جس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ نیب سے ریکارڈ لے کر ایف بی آر کو دیا گیا تھا۔
جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ چیئرمین ایف بی آر نے کہا تھا 95 فیصد ریکارڈ فراہم کر دیا ہے، کیا نیب نے تسلیم کیا کہ دستاویزات انہوں نے دیں، کوئی خط و کتابت ہے تو سامنے لائیں، ایف بی آر نے پہلے کہا کہ ریکارڈ ٹریس نہیں ہو رہا، اچانک ریکارڈ ملا اور نیب کے کھاتے میں ڈال دیا گیا۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ کیا آپ نے ریکارڈ اعتراضات کے ساتھ جمع کرایا ، عدالت کو تو کم ازکم ریکارڈ فراہم کیا جانا چاہیے تھا، عدالت کو صرف آڈٹ رپورٹس دی گئیں۔
طارق حسن نے کہا کہ جے آئی ٹی نے اسحاق ڈارکو کیس میں گھسیٹنے کی کوشش کی جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس میں کہا کہ اسحاق ڈار کا کنکشن آپ کو میں بتا دیتا ہوں، گلف سٹیل مل میں اسحاق ڈار کے بیٹے کے نام پر ٹرانزیکشنز ہیں، ہل مٹیل کمپنی کے ساتھ اسحاق ڈار کا کنکشن موجود ہے، اسحاق ڈار نے بیان حلفی کے ساتھ معافی مانگی، بیان حلفی کے ذریعے کئی ٹرانزیکشنز کا علم ہوا، اگر معاملہ منصفانہ ٹرائل کی جانب گیا تو آپ کو پورا موقع ملے گا، ٹرائل میں اپنا موقف آپ درست ثابت کر سکتے ہیں۔
جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ اسحاق ڈار ملزم تھے اور مبینہ طور پر اعترافی بیان دیا، مبینہ اعترافی بیان کی بنیاد پر اسحاق ڈار کو معافی ملی جس پر طارق حسن نے کہا کہ اعترافی بیان دوران حراست لیا گیا تھا، اعترافی بیان دوران حراست لیا گیا تھا جس پر جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ اسحاق ڈار بعد میں مبینہ اعترافی بیان سے منحرف ہوگئے جب ریفرنس خارج ہوا تب اسحاق ڈار نہ فریق تھے نہ ملزم۔ طارق حسن نے کہا کہ وہ معاملہ ختم ہو چکا، دوبارہ نہیں کھولا جا سکتا، اس نکتے پر میری تیاری بھی نہیں ہے، جس پر جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ آپ ملزم نہیں ہیں آپ ماضی کی ٹرانزیکشن پر گواہ ہیں۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس میں کہا کہ آپ جے آئی ٹی کے لیے عدالت کے حکم کو پڑھ لیں، جے آئی ٹی کو ہر طرح کا ریکارڈ حاصل کرنے کا مینڈیٹ دیا گیا، تمام ادارے اس کے ساتھ تعاون کے پابند بنائے گئے، اسحاق ڈار کا بطور شریک ملزم حدیبیہ پیپر ملزکیس ٹرائل نہیں ہوا، اسحاق ڈار عدالت سے بری نہیں ہوئے، اسحاق ڈار حدیبیہ کیس میں شریک ملزم سے وعدہ معاف گواہ بنے۔
طارق حسن نے اپنے دلائل میں کہا کہ پاناما کیس کے عبوری فیصلے میں اسحاق ڈار کے خلاف کچھ نہیں کہا گیا جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ یہ دیکھیں درخواست میں اسحاق ڈار کے خلاف ریلیف کیا مانگا گیا اس وقت نااہل نہیں کر سکتے تھے، اس لیے ہم نے مزید تحقیقات کے لیے جے آئی ٹی بنائی۔
وکیل اسحاق ڈار نے کہا کہ نیب نے فائل بند کر دی ہے جس پر جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیئے کہ ہم نے نیب چیئرمین کو اپیل دائر کرنے کی ہدایت نہیں کی، جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس میں کہا کہ کیا ہم سارے معاملے پر آنکھیں بند کر لیں جس پر طارق حسن ایڈووکیٹ نے کہا کہ اسحاق ڈار کا سارے کیس سے کوئی تعلق نہیں۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ ہل میٹل سے اسحاق ڈار کے بیٹے علی ڈار کی کمپنی کو رقم منتقل ہوئی، آپ کو سارا کنکشن اور تعلق واضع طور پر بتا دیا ہے۔ جسٹس عظمت نے اپنے ریمارکس دیئے کہ اسحاق ڈارکو بیان حلفی دینے پر معافی ملی، اگر اعترافی بیان کو تسلیم نہیں کرتے تو معافی بھی ختم ہو جاتی ہے، کیا جب معافی ختم ہو گی تو معاملہ دوبارہ بحال نہیں ہو گا۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس میں کہا کہ بہت سے سوال ہیں جن کا جواب جاننا ہے، بہت سے مسائل ہیں جن کو حل کرنا ہے جس پر طارق حسن ایڈووکیٹ نے کہا کہ جے آئی ٹی کے کام میں بد نیتی شامل تھی جس پر جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس میں کہا کہ کوئی نئی بات ہے تو وہ کریں، آپ نے کوئی مزید دستاویز فیصلے کے حوالے سے دینا ہے تو دیں، آپ کو ٹرائل کا پورا موقع ملے گا، آپ کے خلاف درخواست پر کوئی فیصلہ تو نہیں کیا۔
وکیل طارق حسن نے کہا کہ جے آئی ٹی دستاویزات کا جائزہ لیتی تو اس نتیجے پر پہنچتی کہ میرے موکل کے اثاثے کم ہوئے جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس میں کہا کہ آپ سے جے آئی ٹی نے کاروبار کا پوچھا، کمائی پوچھی، آپ نے تو کہا کمائی نہیں بتا سکتا، یہ میرا استحقاق ہے، آپ نے تو کوئی دستاویزات نہ دینے کا موقف اپنایا، پھر آپ کیسے کہہ رہے ہیں میں نے حقائق بتائے، یہ رویہ صرف آپ نے نہیں اس کیس میں سب نے اپنایا، آپ نے شیخ النہیان کے ایڈوائزر ہونے کا بتایا مگر کمائی نہیں بتائی، آپ کے اثاثے 1993 میں 9 ملین کے تھے تو 2000 میں بڑھ کر 854 ملین تک پہنچ گئے۔
جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس میں کہا کہ دو صورتیں تھیں ہم درخواست مسترد کرلیتے یا مان لیتے، چاہتے تو ایسے ہی فیصلہ کرلیتے ہم نے قانون کو مدنظررکھا، اپنے خلاف الزامات کا جواب ٹرائل کورٹ میں دیں، جتنا ریکارڈ دینا ہے آپ عدالت کو فراہم کریں، آپ نے تحائف وصول کرکے پاکستانی روپے میں تبدیل کیا، آپ کے بیان کی تصدیق ویڈیو ریکارڈنگ سے ہو سکتی ہے۔ طارق حسن ایڈووکیٹ نے کہ جے آئی ٹی نے میرے موکل کو قصوروارکیوں قراردیا، جے آئی ٹی کا رویہ درست نہیں تھا جس پرجسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ کیا ہمارے رویئے پربھی اعتراض ہے۔
جسٹس اعجازافضل نے ریمارکس میں کہا کہ کیا آپ کا ہل میٹل اسٹیبلشمنٹ میں کردار نہیں، ہم آپ کے نکات نوٹ کر لیتے ہیں، اگر آپ کا کردار نہیں توفکرمند ہونے کی ضرورت نہیں، ہل میٹل کا ایشو ابھی زندہ ہے، جس پر طارق حسن نے کہا کہ میں اپنے لیے نہیں اپنے موکل کے لیے پریشان ہوں جس پر جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیئے کہ نعیم بخاری کہہ چکے ہیں کہ وکیل نہیں ہارتا بلکہ موکل ہارتا ہے. سپریم کورٹ نے سماعت کل صبح ساڑھے 9 بجے تک ملتوی کردی گئی۔