تر نوالہ
ملک میں اہل اور لائق لوگوں کی جگہ نالائق افراد کی اکثریت حکومتی اداروں میں بتدریج داخل ہوچکی ہے۔
پاکستان میں جمہوریت کے نام پر جس قدر ظلم، کرپشن، قتل و غارت گری کا کھیل روا رکھا گیا اس وجہ سے جمہوریت جو ایک ایسا نظام حکومت ہوتا ہے جہاں حکومت عوام کی ہوتی ہے اور عوام کے لیے ہوتی ہے اس پر سے عوام کا اعتماد اٹھ چکا ہے اور اب ایسا لگتا ہے کہ اگر یہ کاروباری لیڈر اپنی حرکتوں سے باز نہ آئے تو پھر عوام ان کے جلسوں کا رخ تو دور کی بات ہے ان کے جلسوں کو خراب کرنے پر تل جائیں گے۔ الیکشن کمیشن کے دفتر کے سامنے جو بھی دھرنا دیا گیا اس سے ان لیڈروں کی پسپائی واضح ہوگئی ہے اور اب یہ ان دھرنوں کو عوامی دھرنا کہنے کے بجائے کارکنوں کا دھرنا کہہ رہے ہیں کیونکہ پاکستان کی سیاسی پارٹیاں جو کئی بار حکومت کرچکی ہیں وہ اپنی ساکھ کھو چکی ہیں۔
پاکستان کے عوام غالباً دنیا کے واحد بدقسمت عوام ہیں جہاں قدرت نے مختلف نعمتوں سے نوازا ہے مگر یہاں پر سیاسی پارٹیاں بغیر کسی سیاسی منشور کے کام کر رہی ہیں اور عوامی مینڈیٹ کے بلند بانگ دعوے کرنے والے عوام کو نہ کوئی لائحہ عمل دے رہے ہیں اور نہ منشور، کوئی پارٹی انکم سپورٹ کے نام سے ایک ہمنوا طبقہ پیدا کر رہی ہے اور کوئی لیپ ٹاپ تقسیم کرنے میں مصروف ہے جیسے پاکستان کی سرزمین ان کی شکار گاہ ہے اور عوام ان کا شکار، یہ بے حساب رقم انتخابات سے قبل بے دریغ خرچ کی جارہی ہے اور فرینڈلی اپوزیشن نورا کشتی میں مصروف ہے، ہر طرف سے ایک ہی نعرہ ہے الیکشن وقت پر ہونے چاہئیں، ان کو ہرگز ڈی ریل نہ ہونے دیں گے، کیونکہ الیکشن ان لوگوں کی صنعت ہے اور عوام کے طویل سفر کے لیے جو ریل تھی وہ کب کی ڈی ریل ہوچکی ہے، مگر کسی کو ہوش نہیں۔ روز مرہ کے کھانے پینے کی اشیاء دال چاول، آٹے کا ایک تجزیے کے مطابق گزشتہ چند برسوں میں ڈیڑھ سو فیصد تک بھاؤ بڑھ چکا ہے مگر شاہانہ اخراجات میں کمی نہیں ہوئی، حکومتی ادارے یوٹیلٹی بل کے اربوں کے نادہندہ ہیں اور غریب عوام کے چند ہزار کے بل پر بجلی کاٹنے آجاتے ہیں۔
جیسے جیسے الیکشن قریب آتا جارہا ہے سارے لیڈروں کے چہرے بے نقاب ہوتے جارہے ہیں اور عوام الیکشن سے کوئی امید نہیں رکھتے اور نہ ان کو الیکشن سے کوئی سروکار ہے، کیونکہ انھیں اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ انتخاب عوام کو مزید الجھنوں میں ڈال دے گا اور مزید تباہ کن ثابت ہوگا۔ گورنمنٹ اسپتالوں میں ادویات نہیں، علاج معالجے کا فنڈ نہیں، مگر لیپ ٹاپ کی سرپرستی جاری ہے، قوم کے لیے تعلیمی بجٹ نہیں صرف نمائش پر ہی دارومدار ہے، معاشی بنیادوں پر ملک کو کوئی کھڑا کرنے کا عزم نہیں رکھتا ہے، غریب اور نیم خواندہ عوام کو بے وقوف بنانے کی رسم زور شور سے جاری ہے اور الیکشن جیتنے کے لیے منشور کے بجائے فتنوں کو جنم دے رہے ہیں، مزید صوبوں کی برسات کے نعرے لگائے جا رہے ہیں اور عوام کی محرومیوں کو سیاست کی بھینٹ چڑھایا جارہا ہے۔
جمہوریت کے 5 سالہ بحرانی دور میں کسی بھی مسئلے پر غوروفکر کرکے قانون سازی کے بجائے محض نعرے بازی کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنایا گیا، عوام کو معاشی پسماندگی کے اس دلدل میں دھکیل دیا گیا کہ ان میں روزگار کمانے کے لیے اب ایک ایسا طبقہ پیدا ہوگیا ہے جو کفن فروشوں کو مات دے چکا ہے۔ مردہ لوگوں کی ہڈیاں، بال، ڈھانچے قبروں سے نکال کر فروخت کر رہا ہے، مگر خوشی کی بات یہ ہے جمہوریت کے 5 برس پورے ہوگئے ہیں، اس جمہوریت سے وہی لوگ خوش ہیں جو جمہوریت کے نعرے سے نوٹ کما رہے ہیں، سیاستدانوں کے مختلف کارنامے ہیں، ایک ایماندار شخص جسٹس ریٹائرڈ فخر الدین جی ابراہیم کے خلاف سازشوں میں مصروف ہیں، وہی لوگ جو چیف الیکشن کمشنر کی تائید میں پیش پیش تھے، آج انھی کی کمین گاہوں سے تیر برسائے جارہے ہیں، کراچی کو ہدف بناکر ان کی کردار کشی کی کوشش کی جارہی ہے، حالانکہ کراچی کی ووٹر لسٹوں کا کام بڑے قاعدے سے جاری ہے، اب رہ گیا الیکشن کمیشن کی تشکیل نو کا معاملہ تو علامہ طاہر القادری کے بعد عمران خان نے بھی یہ نعرہ لگادیا ہے۔
درحقیقت یہ فخرالدین جی ابراہیم پر عدم اعتماد نہیں بلکہ چیف الیکشن کمشنر کو اختیارات سونپنے کا معاملہ ہے اور پھر ایسے لیڈروں کو الیکشن سے دور رکھنے کا معاملہ ہے جو ہزارہا داغ لیے چل رہے ہیں، مگر قانون ان کا احتساب کرنے سے قاصر رہا ہے۔ کیونکہ قانون کے پھندوں سے انھیں نکلنے کا کلاسیکی آرٹ آتا ہے، رہ گئے بے چارے عوام، تو ان کی کیا مجال جو یک جان ہوکر متحد ہوجائیں۔ یہ انھی لیڈروں کا طرہ امتیاز ہے کہ انھوں نے عوام کو فرقوں، نسلوں اور قومیتوں میں بانٹ دیا ہے، اب وہ ایک دوسرے کے خون بہانے کی تیاریاں کر رہے ہیں اور حاکم محفوظ ہیں، مگر اس موقع پر جو سب سے خطرناک صورت حال سامنے آرہی ہے وہ لیڈروں کا الیکشن کے نام پر رال کا ٹپکنا ہے، وہ قطعی طور پر ملک کی خدمت نہیں کرنا چاہتے، ورنہ مل کر بیٹھتے اور فیصلے کرتے، انرجی کی عدم دستیابی، عوام کا دست و گریباں ہونا، قتل و غارت گری کی راہ پر ایک مختصر مگر نہایت موثر انداز میں ہلاکتوں کا بڑھتا ہوا میلان، آخر انسان انسان کے قتل پر کیوں آمادہ ہے؟ محض قوت سے یہ مسئلے ختم نہ ہوں گے بلکہ نفاق کی خلیج کو ختم کرنا ہوگا۔
یہ خلیج تقریروں سے نہیں مٹ سکتی، اس کے لیے عمل کی ضرورت ہے، بے روزگاری کا سیلاب موثر طریقے سے روکنا ہوگا، ورنہ سزائیں جرائم کو نہ روک سکیں گی، سزائیں یقیناً اہم جز ہیں مگر جرم کے اس جال میں مزید اسیروں کی آمد کو روکنا ہوگا جو معاشی مجبوریوں کی بنا پر جرم کرتے ہیں، یہ ذوق اسیری پیدا کرنے والے اکثر لیڈران ہی تو ہیں جنہوں نے پاکستان کو دنیا میں یکہ و تنہا کردیا ہے، گرین پاسپورٹ کو اپنے کردار سے برباد کردیا ہے، لیڈروں نے مستقبل کی نہ کوئی منصوبہ بندی کی ہے اور نہ کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں، وہ کوئی منشور کیوں پیش کریں، وہ خارجہ پالیسی کی کوئی تشکیل نو کیوں کریں، عوام کے سامنے کوئی وعدہ کیوں کریں؟ وہ تو نوکریوں کا وعدہ کریں گے تاکہ معاشی طور پر ادارے غیر فعال ہوجائیں، یعنی ایک ہوائی جہاز سے 350 یا کم ازکم 300 ملازمین کا بوجھ اٹھوایا جاتا ہے، عام آدمی کی فلاح کے لیے کوئی کوشاں نہیں کہ یہ بھی تو پاکستان کے شہری ہیں، نہ سہی ہماری جماعت میں مگر اہل تو ہیں۔
ملک کی بربادی اس لیے بھی ہورہی ہے کہ اہل اور لائق لوگوں کی جگہ نالائق افراد کی اکثریت حکومتی اداروں میں بتدریج داخل ہوچکی ہے۔ ہمارے لیڈروں کا طریقہ کار شراکت داری ہے، اگر صورت حال نہ بدلی اور لیڈروں نے ہوش کے ناخن نہ لیے اور یہ کہتے رہے کہ الیکشن کے خلاف سازش ہورہی ہے تو واقعی الیکشن کے امکانات روشن نہ رہیں گے، کیونکہ ملک میں سیاسی تضادات اور سیاست کے بجائے ریاست پر قبضے کا مسئلہ لیے سیاسی پارٹیاں چل رہی ہیں اور عوامی مطالبات کو یکسر نظرانداز کردیا گیا لہٰذا لیڈر اپنی ساکھ کھو بیٹھے ہیں اور جو مقبولیت یہ جمہور کے سامنے لے کر آئے تھے وہ جاتی رہی۔ وہ وقت قریب آچکا ہے کہ اقتدار کی چال کسی شاطر کے پاس نہ ہوگی بلکہ عوام ان کا ساتھ دیں گے جو عوام کا ساتھ دیں گے، جمہوریت کی جو شکل پاکستانی عوام نے دیکھی ہے اس سے جمہوری عمل کو زبردست نقصان ہوا ہے، درحقیقت پاکستان کے اکثر لیڈروں کے لیے پاکستان ایک تر نوالہ ہے جس سے وہ اپنے خاندان کے لیے زر کثیر جمع کرنے میں مصروف ہیں ۔