موسم سرما اور غزہ مشکلات کی زد میں
اسرائیل کی جانب سے غزہ کے محاصرے کی وجہ سے تمام تر اشیاء مصر سے لائی جا رہی ہیں۔
یہ فلسطین کا علاقہ غزہ ہے۔جس کے ایک طرف کی سرحد پر مصر اور دوسری طرف فلسطین کا مغربی کنارہ ہے۔موسم سرما کی آمد ہو چکی ہے۔ ماہ فروری کی آمد آمد ہے۔پاکستان میں بھی فروری کا مہینہ انتہائی سخت ترین سردی کا مہینہ کہلاتا ہے اسی طرح دنیا بھر کے کئی ممالک میں اس ماہ میں شدید ٹھنڈ پڑتی ہے جب کہ درجہ حرارت نقطۂ انجماد سے نیچے ہوتا ہے۔
غزہ میں بھی ماہ فروری کی آمد سے پہلے ہی شدید سرد لہر چل رہی ہے۔یہ غزہ میں موجود ایک گھر کی داستان ہے جہاںام صبوحی عوجہ نامی ایک ماں اپنے سات بچوں کے ساتھ گھر کے صحن میں بیٹھی ہے۔سرد ہوائیں چل رہی ہیں۔اس گھر میں کسی قسم کی ایسی کوئی دیوار بھی موجود نہیں یا کھڑکیاں بھی نہیں کہ جن کو بند کر دینے سے ٹھنڈی ہوا اس کے گھر میں داخل نہ ہو ۔صحن میں جلائی جانے والی آگ کے سامنے بیٹھے ان بچوں کی آنکھوں سے آنسو گر رہے ہیں۔لیکن کیا کر سکتے ہیں؟ کیونکہ سردی سے بچنے کے لیے اس کے سوا کوئی چارہ بھی تو نہیں۔
ام صبوحی عوجہ اپنی بیٹی کا سوئٹر بدلتے ہوئے کہتی ہے کہ میں 2009 سے ایک رات بھی کبھی سکون کے ساتھ نہیں سو پائی ہوں۔ام صبوحی کا گھر بیت لاحیہ میں ہے جو اسرائیلی سرحد کے ساتھ موجود ہے۔ 2008اور 2009 کی 22روزہ اسرائیلی جارحیت کے نتیجے میں ام صبوحی کا گھر اسرائیلی ٹینکوں کا نشانہ بنا تھا اور تباہ ہو گیا تھا جب کہ ام صبوحی کا ایک 9سالہ بیٹااسرائیلی دہشت گردی کا نشانہ بن کر شہید ہو گیا تھا۔اسی دن سے یہ خاندان خیموں اور عارضی جگہ پر رہائش پذیر ہے حالانکہ اقوام متحدہ کے ادارہ UNRWAکی جانب سے اس خاندان کا نام امدادی حوالوں سے اقوام متحدہ کی فہرست میں درج کیا جا چکا ہے۔ام صبوحی کے شوہر ابو صبوحی نے کچے مکان کو ختم کر کے اسی جگہ پر دوبارہ سے گھر کو تعمیر کرنے کا کام شروع کر دیا ہے لیکن گھر کو نئے سرے سے تعمیر کرنا ایک مشکل اور سخت کام ہونے کے ساتھ ساتھ دقت طلب کام ہے۔
غزہ کے اس خاندان کو اقوام متحدہ کی طرف سے گھر کو از سر نو تعمیر کے لیے260ڈالر فی میٹر کے حساب سے دیے جا رہے ہیں لیکن یہ امداد ماہانہ بنیادوں پر ہے جس کے حصول کے لیے ان کوہر امدادی رقم کے چیک کے لیے دو سے تین ماہ انتظار کرنا پڑتا ہے۔اسی طرح اقوام متحدہ کی جانب سے دی جانیوالی امدادی رقم تعمیر کے لیے استعمال ہونے والے مواد کے اتار چڑھائو میں تیزی سے تبدیلی کی وجہ سے ناکافی ہے۔کیونکہ اسرائیل کی جانب سے غزہ کے محاصرے کی وجہ سے تمام تر اشیاء مصر سے لائی جا رہی ہیں جس کی وجہ سے اشیاء کی قیمتیں تین گنا بڑھ جاتی ہیں۔کیونکہ مصر کی جانب سے غزہ آنیوالے راستے رفاہ کو بند کر دیے جانے کے باعث تعمیراتی کاموں میں استعمال ہونے والا مواد زیر زمین سرنگوں سے لایا جا رہاہے ۔
مصر نے اپنی سرحد پر اسرائیلی افواج کی فائرنگ سے اگست 2012 ء میں 16مصری فوجیوں کی شہادت کے بعد بند کرنے کا اعلا ن کیا تھا۔ام صبوحی کا خیال تھا کہ وہ اپنے گھر کو موسم سرماکی آمد سے قبل از سر نو تعمیر کر لیں گی لیکن غزہ میں مسلسل عدم استحکام کی صورتحال کے باعث ان کو اس کام کو انجام دینے میں شدید مشکلات کا سامنا ہے۔لہذٰا جس کوٹھی میں اس وقت وہ زندگی بسر کر رہے ہیں اس کی حالت یہ ہے کہ چھت پر پلاسٹک بچھا کر بند کیا گیا ہے جب کہ کوٹھی کی دیواریں کپڑوں کی ہیں اور صحن کھلا ہوا ہے۔ام صبوحی اس بات پر مجبور ہے کہ وہ اس کٹیا کو چھوڑ دے کیونکہ اس سے قبل کے بارش ہونے کے بعد ان کی کٹیا میں پانی سے تمام بچے کچھے کپڑے بھی بھیگ جائیں اور کٹیا تباہ ہو جائے۔
غزہ میں بسنے والا یہ خاندان ایک عارضی کٹیا اور از سر نو تعمیر کیے جانے والے مکان کے درمیان میں شدید کشمکش میں مبتلا ہے۔البتہ موسم سرما اپنی آب و تاب کے ساتھ پہنچ چکا ہے۔ام صبوحی کہتی ہیں کہ جب سرد موسم سرما شروع ہوا ہے میں ایک رات بھی مکمل سو نہیں سکی ہوں ۔کیونکہ سرد موسم کے باعث کٹیا رات کو پانی سے بھیگ جاتی ہے اور یہ ہمارے لیے ایک خوفناک خواب کی طرح ہے۔ام صبوحی کہتی ہیں کہ از سر نو تعمیر کیا جانے والا مکان ابھی تک ادھورا ہے اور اس میں کمرے بھی نہیں ہیں اور نہ ہی اس حالت میں ہے کہ وہاں زندگی بسر کی جا سکے۔اس لیے ہمارے لیے یہ کٹیا ہی اس گھر سے زیادہ بہتر ہے لیکن میں کیا کروں جب بارش ہو جاتی ہے تو ہماری کٹیا بھی ہمارے رہنے کے قابل نہیں رہتی۔
ام صبوحی نے منتخب حکومت اور اقوام متحدہ کے ادارے UNRWA پر شدید غصے کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ابھی تک کسی کو ہماری پرواہ نہیں ہوئی اور کوئی ہمیں دیکھنے بھی نہیں آیا ہے کہ ہم زندہ بھی ہیں یا مر چکے ہیں۔دوسری طرف غزہ میں موجود UNRWAکے ترجمان عدنان ابو حسنا کہتے ہیں کہ سرمائی طوفان کے بعد سے ان کا ادارہ ہنگامی بنیادوں پر کام کر رہا ہے اور جو لوگ مدد کے طلب گار ہیں ان کو مدد فراہم کی جا رہی ہے۔ابو حسنا کہہ رہے ہیں کہ وہ ہر اس خاندان کو غذائی امداد بھی فراہم کر رہے ہیں جنہوںنے مدد کی اپیل کر رکھی ہے۔ہم غزہ کے تمام خاندانوں کے پاس نہیں جا سکتے اس لیے جس کو مدد کی ضرورت ہے وہ ہمارے پاس آ جائے۔
ماہ جنوری میں آنے والا سرمائی طوفان گزشتہ صدی میں سب سے خطرناک طوفان تھا اور غزہ میں بجلی کی مسلسل بندش نے مظلوم فلسطینیوں کی مشکلات میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔بجلی کی مسلسل بندش کے باعث پیش آنیوالے حادثات میں دو درجن سے زائد افراد حادثوں کا شکار ہوئے۔ام صبوحی کے مطابق سرمائی طوفان ایسے موقعے پر تباہی لے کر آیا ہے جب ان کے 9سالہ بیٹے کی شہادت کو ایک سال مکمل ہونے کو ہے۔وہ کہتی ہے میری آنکھوں کے سامنے ایک مرتبہ پھر وہی منظر آ چکا ہے کہ میرا بیٹا شہید کیا جا رہا ہے اور میرا گھرتباہ کر دیا گیا۔یہ وہی سردی کی رات ہے جس رات ہمارے سامنے نو سالہ ابراھیم موت کی طرف سفر کر گیا تھا اور ہم اسی طرح سرد رات میں گلی میں بے سر و سامان بیٹھے تھے۔ہزار خطرات کے باوجود ام صبوحی پر عزم ہے کہ وہ اس گھر سے دستبردار نہیں ہو گی ۔''میں ابھی تک اپنے بیٹے ابراہیم کی روح کو گھر میں محسوس کرتی ہوں اور میں اسے کسی قیمت پر کھونا نہیں چاہتی ہوں۔''
غزہ میں بھی ماہ فروری کی آمد سے پہلے ہی شدید سرد لہر چل رہی ہے۔یہ غزہ میں موجود ایک گھر کی داستان ہے جہاںام صبوحی عوجہ نامی ایک ماں اپنے سات بچوں کے ساتھ گھر کے صحن میں بیٹھی ہے۔سرد ہوائیں چل رہی ہیں۔اس گھر میں کسی قسم کی ایسی کوئی دیوار بھی موجود نہیں یا کھڑکیاں بھی نہیں کہ جن کو بند کر دینے سے ٹھنڈی ہوا اس کے گھر میں داخل نہ ہو ۔صحن میں جلائی جانے والی آگ کے سامنے بیٹھے ان بچوں کی آنکھوں سے آنسو گر رہے ہیں۔لیکن کیا کر سکتے ہیں؟ کیونکہ سردی سے بچنے کے لیے اس کے سوا کوئی چارہ بھی تو نہیں۔
ام صبوحی عوجہ اپنی بیٹی کا سوئٹر بدلتے ہوئے کہتی ہے کہ میں 2009 سے ایک رات بھی کبھی سکون کے ساتھ نہیں سو پائی ہوں۔ام صبوحی کا گھر بیت لاحیہ میں ہے جو اسرائیلی سرحد کے ساتھ موجود ہے۔ 2008اور 2009 کی 22روزہ اسرائیلی جارحیت کے نتیجے میں ام صبوحی کا گھر اسرائیلی ٹینکوں کا نشانہ بنا تھا اور تباہ ہو گیا تھا جب کہ ام صبوحی کا ایک 9سالہ بیٹااسرائیلی دہشت گردی کا نشانہ بن کر شہید ہو گیا تھا۔اسی دن سے یہ خاندان خیموں اور عارضی جگہ پر رہائش پذیر ہے حالانکہ اقوام متحدہ کے ادارہ UNRWAکی جانب سے اس خاندان کا نام امدادی حوالوں سے اقوام متحدہ کی فہرست میں درج کیا جا چکا ہے۔ام صبوحی کے شوہر ابو صبوحی نے کچے مکان کو ختم کر کے اسی جگہ پر دوبارہ سے گھر کو تعمیر کرنے کا کام شروع کر دیا ہے لیکن گھر کو نئے سرے سے تعمیر کرنا ایک مشکل اور سخت کام ہونے کے ساتھ ساتھ دقت طلب کام ہے۔
غزہ کے اس خاندان کو اقوام متحدہ کی طرف سے گھر کو از سر نو تعمیر کے لیے260ڈالر فی میٹر کے حساب سے دیے جا رہے ہیں لیکن یہ امداد ماہانہ بنیادوں پر ہے جس کے حصول کے لیے ان کوہر امدادی رقم کے چیک کے لیے دو سے تین ماہ انتظار کرنا پڑتا ہے۔اسی طرح اقوام متحدہ کی جانب سے دی جانیوالی امدادی رقم تعمیر کے لیے استعمال ہونے والے مواد کے اتار چڑھائو میں تیزی سے تبدیلی کی وجہ سے ناکافی ہے۔کیونکہ اسرائیل کی جانب سے غزہ کے محاصرے کی وجہ سے تمام تر اشیاء مصر سے لائی جا رہی ہیں جس کی وجہ سے اشیاء کی قیمتیں تین گنا بڑھ جاتی ہیں۔کیونکہ مصر کی جانب سے غزہ آنیوالے راستے رفاہ کو بند کر دیے جانے کے باعث تعمیراتی کاموں میں استعمال ہونے والا مواد زیر زمین سرنگوں سے لایا جا رہاہے ۔
مصر نے اپنی سرحد پر اسرائیلی افواج کی فائرنگ سے اگست 2012 ء میں 16مصری فوجیوں کی شہادت کے بعد بند کرنے کا اعلا ن کیا تھا۔ام صبوحی کا خیال تھا کہ وہ اپنے گھر کو موسم سرماکی آمد سے قبل از سر نو تعمیر کر لیں گی لیکن غزہ میں مسلسل عدم استحکام کی صورتحال کے باعث ان کو اس کام کو انجام دینے میں شدید مشکلات کا سامنا ہے۔لہذٰا جس کوٹھی میں اس وقت وہ زندگی بسر کر رہے ہیں اس کی حالت یہ ہے کہ چھت پر پلاسٹک بچھا کر بند کیا گیا ہے جب کہ کوٹھی کی دیواریں کپڑوں کی ہیں اور صحن کھلا ہوا ہے۔ام صبوحی اس بات پر مجبور ہے کہ وہ اس کٹیا کو چھوڑ دے کیونکہ اس سے قبل کے بارش ہونے کے بعد ان کی کٹیا میں پانی سے تمام بچے کچھے کپڑے بھی بھیگ جائیں اور کٹیا تباہ ہو جائے۔
غزہ میں بسنے والا یہ خاندان ایک عارضی کٹیا اور از سر نو تعمیر کیے جانے والے مکان کے درمیان میں شدید کشمکش میں مبتلا ہے۔البتہ موسم سرما اپنی آب و تاب کے ساتھ پہنچ چکا ہے۔ام صبوحی کہتی ہیں کہ جب سرد موسم سرما شروع ہوا ہے میں ایک رات بھی مکمل سو نہیں سکی ہوں ۔کیونکہ سرد موسم کے باعث کٹیا رات کو پانی سے بھیگ جاتی ہے اور یہ ہمارے لیے ایک خوفناک خواب کی طرح ہے۔ام صبوحی کہتی ہیں کہ از سر نو تعمیر کیا جانے والا مکان ابھی تک ادھورا ہے اور اس میں کمرے بھی نہیں ہیں اور نہ ہی اس حالت میں ہے کہ وہاں زندگی بسر کی جا سکے۔اس لیے ہمارے لیے یہ کٹیا ہی اس گھر سے زیادہ بہتر ہے لیکن میں کیا کروں جب بارش ہو جاتی ہے تو ہماری کٹیا بھی ہمارے رہنے کے قابل نہیں رہتی۔
ام صبوحی نے منتخب حکومت اور اقوام متحدہ کے ادارے UNRWA پر شدید غصے کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ابھی تک کسی کو ہماری پرواہ نہیں ہوئی اور کوئی ہمیں دیکھنے بھی نہیں آیا ہے کہ ہم زندہ بھی ہیں یا مر چکے ہیں۔دوسری طرف غزہ میں موجود UNRWAکے ترجمان عدنان ابو حسنا کہتے ہیں کہ سرمائی طوفان کے بعد سے ان کا ادارہ ہنگامی بنیادوں پر کام کر رہا ہے اور جو لوگ مدد کے طلب گار ہیں ان کو مدد فراہم کی جا رہی ہے۔ابو حسنا کہہ رہے ہیں کہ وہ ہر اس خاندان کو غذائی امداد بھی فراہم کر رہے ہیں جنہوںنے مدد کی اپیل کر رکھی ہے۔ہم غزہ کے تمام خاندانوں کے پاس نہیں جا سکتے اس لیے جس کو مدد کی ضرورت ہے وہ ہمارے پاس آ جائے۔
ماہ جنوری میں آنے والا سرمائی طوفان گزشتہ صدی میں سب سے خطرناک طوفان تھا اور غزہ میں بجلی کی مسلسل بندش نے مظلوم فلسطینیوں کی مشکلات میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔بجلی کی مسلسل بندش کے باعث پیش آنیوالے حادثات میں دو درجن سے زائد افراد حادثوں کا شکار ہوئے۔ام صبوحی کے مطابق سرمائی طوفان ایسے موقعے پر تباہی لے کر آیا ہے جب ان کے 9سالہ بیٹے کی شہادت کو ایک سال مکمل ہونے کو ہے۔وہ کہتی ہے میری آنکھوں کے سامنے ایک مرتبہ پھر وہی منظر آ چکا ہے کہ میرا بیٹا شہید کیا جا رہا ہے اور میرا گھرتباہ کر دیا گیا۔یہ وہی سردی کی رات ہے جس رات ہمارے سامنے نو سالہ ابراھیم موت کی طرف سفر کر گیا تھا اور ہم اسی طرح سرد رات میں گلی میں بے سر و سامان بیٹھے تھے۔ہزار خطرات کے باوجود ام صبوحی پر عزم ہے کہ وہ اس گھر سے دستبردار نہیں ہو گی ۔''میں ابھی تک اپنے بیٹے ابراہیم کی روح کو گھر میں محسوس کرتی ہوں اور میں اسے کسی قیمت پر کھونا نہیں چاہتی ہوں۔''